فلسفہ کیا ہے؟ (پانچویں قسط)
بلاشبہ قدیم فلسفیوں نے جو خیالات پیش کیے وہ کسی بھی معنی میں ہمیشہ ہی درست نہ تھے۔ دنیاکی عمومی تصویر کشی کرتے وقت وہ حقیقی اسباب کے بجائے خیالی اور عجوبہ اسباب کا سہارا لے لیتے تھے اور اپنے دعووں اور کلّیوں کے لئے دلیل دیتے وقت تمثیلی استدلال پر بھروسہ کر لیتے تھے ۔مثلاً، دیمقراطیس نے فضا میں گرد کے ذرّات کی بے ہنگم حرکت کو تمام موجودات کی ساخت کے بارے میں اپنے نظریات کی بنیاد بناتے ہوئے یہ سمجھ لیا کہ یہ تمثیل اس کے نظریہِ ذرّیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔دیمقراطیس کے پیرو ‘لوکر طوس کاروس’ نے اپنی فلسفیانہ نظم “اشیاء کی نوعیت پر “میں نظریہِ ذرّیت کی توضیح یوں کی:
“نظر کے سامنے ہمیشہ ہی یہ تصویر گھومتی رہتی ہے
کہ جب بھی سورج کی روشنی اپنی کرنوں سے
سیاہی کو کاٹ کر اور چہار اطراف روشن کرکے
ہمارے گھروں کو جگمگا دیتی ہے،
ہم خلاء میں ننھے ننھےذرّے حرکت کرتے دیکھ سکتے ہیں
جگمگاتی کر نوں میں
ہر ایک دوسرے کا تعاقب کرتا رہتا ہے
اس سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ کس طرح
تمام بنیادی اجزاء
لامحدود خلاء میں
مسلسل حرکت میں سرگرداں ہیں” (حوالہ: لوکرطوس کاروس،”آن دی نیچرآف تھنگس”(اشیاء کی نوعیت کے بارے میں)، ماسکو، یو۔ایس۔ایس۔آر اکیڈمی آف سائنسز پبلشرز، 1945ء،ص 79-80، روسی زبان میں)
ایک نمایاں انگریز سائنسدان اور عوامی شخصیت، جون ڈی برنال، نے اپنی کتاب “سائنس تاریخ کے آئینے میں” لکھا کہ بدقسمتی سے یونانیوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ انہوں نے تمام مسائل کا قطعی منطقی، درست اور ایسا حل نکال لیا ہے جس پر آنچ نہیں آ سکتی۔ اس کی دانست میں آج سے چار سو سال پہلے جس ہم عصرسائنس کی داغ بیل پڑی اس کا بنیادی کارِ خاص یہی تھا کہ وہ ان حلوں کی فروگزاشتوں کو آشکار کرے ۔وہ مزید لکھتا ہے:” تاہم، اگر یونانی علوم نے ان مسائل کو نہ اٹھایا ہوتا تو ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ مسائل پھر بھی ہمارے سامنے حل کے لئے پیش ہوتے کہ نہیں۔” (حوالہ: جے۔ڈی۔برنال،”سائنس ان ہسٹری”، (سائنس تاریخ کے آئینے میں)، واٹس اینڈ کو، لندن، 1954ء، ص117۔)
مارکسی فکر کے ایک بانی فریڈرک اینگلز نے بھی بہت برس پہلے ملتی جلتی بات کہی تھی:” یونانی انفرادی اشیاء کے حوالے سے فطری مظاہر کے درمیان موجود آفاقی رشتوں کی موجودگی کو ثابت نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ ربط فکری ربط ہے”۔ (حوالہ: فریڈرک اینگلز، “ڈایالیکٹکس آف نیچر”،(فطرت کی جدلیات)، پروگریس پبلشرز، ماسکو، 1976ء، ص 45-46۔)
قدیم لوگوں کے فلسفے کا یہی وہ پہلو ہے جو بیک وقت ان کے فکر کے نقائص اور خوبیوں دونوں کی عکاسی کر دیتا ہے۔
چنانچہ انسانیت کی نشوونما اور ترقی کے ابتدائی مراحل میں فلسفے کو “علم العلوم” اس لیے نہیں سمجھا جاتا تھا کہ قدیم فلسفیوں کو گہرائی سے حقیقت کا مطالعہ کرنے کی کوئی نرالی صلاحیت ودیعت ہوئی تھی یا یہ کہ انہوں نے کوئی ایسے راز ہائے سربستہ معلوم کر لیے تھے جن سے بعد کی نسلیں غافل ہو گئیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت باضابطہ علوم کی بنیادیں کمزور تھیں اور ابھی ان کی ابتدائی کو نپلیں ہی نمودار ہو سکی تھیں۔ رفتہ رفتہ انسانی علم میں توسیع ہوئی ۔اختصاصی علوم کے چشمے پھوٹے۔ پہلے فطری علوم یعنی ریاضی، طبعیات، فلکیات ،کیمیا، ارضیات اور حیاتیات کی ترقی ہوئی اور بعد ازاں معاشرے اور فرد کے بارے میں علوم مثلاً نفسیات، تاریخ ،معاشیات وغیرہ کی ترقی و نشوونما ہوئی۔
انیسویں صدی میں عظیم جرمن فلسفی جارج فریڈرک ولہیلم ہیگل نے اپنے “فلسفہِ فطرت “کو منضبط کرنے کی کوشش کی اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ صرف فلسفی ہی کائنات کی تمام گتھیوں کو صحیح طور پر سلجھاسکتا ہے ۔اس نے اپنے اس نظریے کی تخلیق ایک ایسے وقت کی تھی جب کہ اگر ہم طبعیات میں ہونے والی ترقیوں کا ذکر نہ بھی کریں تب بھی ارضیات ،نامیاتی کیمیا اور نباتات کی فعلیات وغیرہ جیسے علوم میں اچھی خاصی ترقی ہو چکی تھی۔چنانچہ،سائنسدانوں نے اس پر اس وقت کڑی تنقید کی جب اس نے اپنے اس نظریے کو پیش کیا کہ روشنی منشورِ مثلثی سے گزر کر طیف کی شکل اختیار نہیں کر سکتی اور مقبول ِعام سائنسی تصورات کے برعکس کیمیاوی اجزاء کی موجودگی سے انکار کیا۔ ہیگل نے سائنس کے مسلّمہ حاصلات کو مٹانے کے لیے جتنی بھی کوششیں کیں ان کا نتیجہ ناکامی پر ہی برآمد ہوا ۔
تاہم آج کل کچھ سائنسدان بالکل دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلسفے کا سائنس سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگرچہ ماضی میں فلسفیوں نے کچھ سائنسی دریافتوں( مثلا، نظریہِ ذرّیت، کشش ِزمین کا قانون اور بجلی کے نظریے وغیرہ) کی پیش بینی کر لی تھی تاہم اب فلسفی اس لئے “بے روزگار” ہوگئے ہیں چونکہ علومِ قطعیہ نے فلسفیانہ سوچ بچار کی جگہ لے لی ہے ۔دنیا کے علم کے بارے میں اس نقطہِ نظر کے حامل لوگوں کو “ایجابیت پسند(Positivist)” کہا جاتا ہے۔
بادی النظر میں یہ لوگ درست نظر آتے ہیں۔ اس امرمیں کلام نہیں کہ فلسفی ریاضیاتی فارمولوں کا اطلاق نہیں کرتے اور فلسفی نہ تو تجربات کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی مادی ٹھوس اشیاء کی تخلیق کرتے ہیں ۔چنانچہ یہ سوال فطری ہے کہ آخر ان لوگوں کے تفکر کے لیے کیا باقی بچتاہے ۔”انسانیت کے زمانہِ خوردسالی” اور اپنے ارتقاء کے ابتدائی ایّام کی مانند فلسفے کا بس یہی کام رہ جاتا ہے کہ وہ انسان کی زندگی میں انسان کا مددگار ہو ۔اس کا سائنس سے اس کے علاوہ کوئی تعلق نہیں کہ وہ جدید ترین سائنسی تحصیلات کا اتباع کرتا رہے ۔ایجابیت پسندوں کی رائے میں فلسفے کا بس اتنا کام ہے کہ وہ سائنسی علوم کو مقبول عام (پاپولر)کرائیں اور پیچیدہ علمی تصورات کو ایسے سادہ الفاظ میں بیان کریں جو ہر کسی کو سمجھ آجائیں۔
تاہم ایک مختلف نقطہِ نظر بھی ہے ۔وہ یہ کہ، چونکہ حقیقی دنیا کے علم اور ادراک کا معاملہ مختلف ٹھوس علوم کے حصے میں آ چکا ہے، اس لیے فلسفے کے لیے صرف ایک میدان رہ جاتا ہے: تخیل کا میدان ،خوابوں کے جزیرے بسانے کا میدان ،یا اسطوری کہانیوں کا میدان ۔فلسفی ایک ایسا بے عمل خیالی پلاؤ پکانے والا شخص ہے جو اپنے زورِ تخیّل سے حقیقی دنیا کو مسمار کرکے ایک آدرشی دنیا کی تخلیق میں مصروف رہتا ہے۔ مثلا نیٹشے کا خیال تھا کہ اس طرز کی تخلیقی سرگرمیوں کے بغیر فرد اور معاشرے کا وجود ممکن نہیں۔ اس نے لکھا:” آدمی صرف جاننے پر ہی اکتفا کیوں کرے ؟””آدمی اپنے سر اب کیوں نہ بسائے؟”” انسان نے کبھی بھی صداقت کی تمنا نہیں کی ۔انسان ہمیشہ عقیدوں کے لئے سرگرداں رہاہے “۔پس ،اس نقطہِ نگاہ کے تحت فلسفی شاعر یا پیغمبر بن جاتا ہے اور حقیقی علوم سے بہت دور رہ جاتا ہے۔
مارکسی نکتہ نظر کے حامل لوگ فلسفے کی اس تفسیر کو رد کرتے ہیں۔ آج طبعیات، کیمیا ، ریاضی اورحیاتیات انسانیت کو درپیش اہم ترین مسائل کا کوئی حل نہیں پیش کر پاتے۔ اس لیے آئیے دیکھیں کہ فلسفے کا موضوع ِفکر کیا ہے؟