بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں جاری نظریاتی سیاسی جدوجہد

یونانی کمیونسٹ پارٹی کا ایک مؤقف

مترجم: شاداب مرتضی

کیوبا کے شہر ہوانا میں گزشتہ مہینے (اکتوبر) کے اواخر میں کمیونسٹ اور ورکرز پارٹیوں کے بائیسویں(22) بین الاقوامی اجلاس کے نتیجوں کے اردگرد بحث جاری ہے۔

بعض عناصر نے جن میں سرمایہ داراخبارات بھی شامل ہیں بین الاقوامی اجلاس کے نتائج کی تشریح اپنے نقطہ نظر سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ، روسی اخبار “نازاوسمایا گزیتا” کہتا ہے کہ یوکرین میں روس کے “خصوصی فوجی آپریشن” کی بنا پر، جس کا حوالہ روسی میڈیا یوکرین کے بارے میں دیتا ہے، ہوانا کے اجلاس میں “بین الاقوامی لیفٹ تحریک میں دراڑ” پڑ گئی ہے۔

اس اخبار کی جلد بازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ “کمیونسٹ اورمزدورپارٹیوں کے بین الاقوامی اجلاس” کو “بین الاقوامی لیفٹ تحریک” کا بے رنگ اورعصبی نام دیتا ہے۔ تاہم، یہ روسی اخبار “کھلے دروازوں پر دستک” دینے کی حماقت کررہا ہے کیونکہ یونانی کمیونسٹ پارٹی نے متعدد باریہ واضح کیا ہے کہ بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں کئی اہم معاملات پر شدید نظریاتی-سیاسی جدوجہد ہورہی ہے۔ ہم نے بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں نظریاتی-سیاسی جدوجہد کی اوراس کے ساتھ ساتھ اس کی انقلابی تعمیرنو کی ضرورت کی بات بھی کی ہے۔

جیسا کہ یونانی کمیونسٹ پارٹی نے بارہا نشاندہی کی ہے، بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے اندر جاری جدوجہد کے بہت سے زاویےہیں۔ مثلا:

ایک طرف وہ پارٹیاں ہیں جو بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کو “ترقی پسند بائیں بازوکے وسیع الائنس” میں تحلیل کرنے کی حمایت کرتی ہیں جبکہ دوسری طرف وہ پارٹیاں جو بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کی نظریاتی-سیاسی خودمختاری کا تحفظ کرنے کے لیے اور مزدور طبقے اور محنت کش عوام کے ساتھ اس کے روابط کو مستحکم کرنے کے لیے لڑتی ہیں۔ ان دو مختلف قسموں کی پارٹیوں کے درمیان نظریاتی-سیاسی جدوجہد جاری ہے۔

ایک طرف وہ پارٹیاں ہیں جو “سوشلزم کے مرحلوں” کی پرانی حکمتِ عملی میں پھنسی ہوئی ہیں اورسرمایہ دارانہ “لیفٹ”، “نیولبرل مخالف”، “ترقی پسند”،”سینٹر-لیفٹ” حکومتوں کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام میں شرکت کی حمایت کرتی ہیں اوردوسری طرف وہ پارٹیاں ہیں جنہوں نے سرمایہ دارانہ حکومتوں میں شرکت کو مسترد کردیا ہے اورجو سرمایہ دارانہ بربریت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے لڑ رہی ہیں۔ ان دو مختلف قسموں کی پارٹیوں کے درمیان نظریاتی-سیاسی جدوجہد جاری ہے۔

ایک طرف وہ پارٹیاں ہیں جو سامراج کی شناخت صرف امریکہ یا یورپ کے طاقتور سرمایہ دارار ملکوں کے ساتھ یا جارحانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ کرتی ہیں اوردوسری طرف وہ پارٹیاں ہیں جو اس لیننی تصور پر بنیاد رکھتی ہیں کہ سامراج اجارہ دارسرمایہ داری ہے، یعنی استحصالی نظام کا بلندترین اورآخری مرحلہ۔ ان دو مختلف قسموں کی پارٹیوں کے درمیان نظریاتی-سیاسی جدوجہد جاری ہے۔

ایک طرف وہ پارٹیاں ہیں جنہیں یقین ہے کہ امن کے لیے جدوجہد “ملٹی پولر دنیا (کثیرقطبی دنیا)” کے ساتھ اٹوٹ طور پرجڑی ہوئی ہے، جو مفروضہ طورپرامریکی سامراج کو “سدھا” لے گی، جو “پرامن بین الاقوامی ڈھانچے” کے قیام کے بارے میں لوگوں میں وہ غلط فہمیاں پیدا کرتی ہے، جسے سوشل ڈیموکریسی اورموقع پرست پھیلاتے ہیں اور دوسری طرف وہ پارٹیاں ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ سرمایہ دار دنیا کو “جمہوری” نہیں بنایا جا سکتا، اسے جنگوں سے دور نہیں رکھا جا سکتا خواہ اس کے کتنے ہی “قطب(پولز)” کیوں نہ ہوں، اور یہ ضروری ہے کہ سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کی جدوجہد کو مستحکم کیا جائے تاکہ نیا سوشلسٹ سماج قائم ہو سکے۔ ان دو مختلف قسموں کی پارٹیوں کے درمیان نظریاتی-سیاسی جدوجہد جاری ہے۔

ایک طرف وہ پارٹیاں ہیں جو سمجھتی ہیں کہ چین ایک ایسا ملک ہے جو “چینی خصوصیات پرمبنی سوشلزم کی تعمیر” کررہا ہے اوردوسری طرف وہ پارٹیاں ہیں جو سمجھتی ہیں کہ سوشلزم کے کچھ اصول ہیں اورچین میں ان اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے اوراب وہاں سرمایہ دارانہ پیداواری رشتے غالب ہیں، کہ چین جدید سرمایہ دار دنیا کا ایک ملک ہےجو امریکہ سے مقابلہ کرتا ہے اورسامراجی نظام میں اس کی اولیت کے لیے خطرہ ہے۔ ان دو مختلف قسموں کی پارٹیوں کے درمیان نظریاتی-سیاسی جدوجہد جاری ہے۔

ہم ان دیگر اہم مسائل کا زکر بھی کرسکتے ہیں جن کے گرد بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں شدید نظریاتی جدوجہد جاری ہے۔ ان میں یوکرین پر روس کی ناقابل قبول جارحیت کے بعد یوکرین میں جاری سامراجی جنگ کا معاملہ بھی شامل ہو گیا ہے۔چنانچہ، اخبار”نازاوسمایا گزیتا” نے جس بات کو “خزانے” کے بطور پیش کیا ہے کہ “بین الاقوامی لیفٹ تحریک میں دراڑ” پڑ گئی ہے وہ خزانہ دراصل”کوئلہ” ثابت ہوتا ہے۔

جہاں تک ان پارٹیوں کا تعلق ہے جو خود کو “لیفٹ” کہتی ہیں تو یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ “لیفٹ” کی سائیریزا پارٹی نے رائٹ ونگ پارٹی “این ڈی” اور جمہوری پارٹی”پاسوک” کے ساتھ مل کر “یوکرین میں فوجی امداد کے میکنزم” کے قیام کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اس سے قبل اس نے یونان میں امریکہ-نیٹو کے فوجی اڈوں کو وسیع کرنے کی حمایت کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ نیٹو میں مزید ملکوں کی شمولیت کی حمایت بھی کرچکی ہے۔ یہ تمام وہ معاملات ہیں جن کی یونانی کمیونسٹ پارٹی نے مخالفت کی ہے۔

ہوانا میں کیا ہوا؟

کمیونسٹ اورمزدورپارٹیوں کی بین الاقوامی میٹنگوں میں اجتماعی مؤقف اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جسے “فائنل دستاویز” کی شکل میں منظور کیا جاتا ہے ،اگر ایسا کرنا ممکن ہو۔ یقینا، یہ متن بحث مباحثے اورمختلف آراء کے اجتماع کا نتیجہ ہوتا ہے، لیکن جو کوئی بھی بائیسویں(22) کمیونسٹ اورورکرز پارٹیوں کے اجلاس کی دستاویز کو پڑھے گا وہ یہ جان لے گا کہ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے ” لیفٹ اورترقی پسند حکومتوں” کے بارے میں، “نیولبرل ازم کے خلاف جدوجہد” کے بارے میں، “کثیر قطبی دنیا” وغیرہ کے بارے میں متنازع تجزیہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ سرمایہ داری کے خلاف کمیونسٹ پارٹی کی جدوجہد کے عمومی مؤقف کو، مزدوروں اور محنت کش عوام کی جدوجہد کی حمایت کو، اورنئے سوشلسٹ سماج کی تعمیر کی جدوجہد کے مؤقف کوپیش کیا گیا ہے۔

کمیونسٹ اورمزدورپارٹیوں کی بین الاقوامی میٹنگ میں ہر پارٹی کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا مؤقف پیش کرے اور مختلف موضوعات پر اپنی قرارداد یں جمع کروائے یاقراردادوں کی حمایت یا مخالفت کرے۔ چنانچہ، بین الاقوامی اجلاس میں یوکرین کی جنگ کے معاملے پرمختلف تقاریر اورآراء کے باوجود، “آخری/حتمی دستاویز” میں یوکرین کی صورتحال پر ایک مخصوص حوالہ موجود ہے جس کا ذکر کرنے سے کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن کی مرکزی کمیٹی کے بین الاقوامی ڈپارٹمنٹ نے اخبار””نازاوسمایا گزیتا” کے جواب میں گریز کیا ہے۔ چنانچہ اس کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ دستاویز کہتی ہے: “نمبر3۔ سامراج کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے نتیجے میں اور سیاسی جغرافیہ کی تنظیم نو کے سبب ہم اسلحے کی نئی دوڑ کا، نیٹو کے استحکام اور توسیع کا، نئے فوجی اشتراکوں کا،تنازعات کی شدت میں اضافے کا،جیسا کہ یوکرین میں، دنیا کےمختلف خطوں میں فاشزم کے ابھار کا،”سردجنگ” کا، نیوکلیئر ہولوکاسٹ کے خطرے کا سامنا کررہے ہیں ،جنہوں ہمیں لازما مسترد کردینا چاہیے۔”

اس مشترکہ مؤقف کے علاوہ، دو قراردادیں بھی پیش کی گئیں: ایک قرارداد روس کی کمیونسٹ ورکرز پارٹی نے ، کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن نے اور یوکرین کی کمیونسٹ پارٹی نے پیش کی جس میں یوکرین پر روسی جارحیت کو جائز قرار دے کر اس کی حمایت کی گئی تھی اور اس کے لیے انہی”اینٹی فاشسٹ(فاشزم مخالف)” بہانوں کو استعمال کیا گیا تھا جو روسی سرمایہ دار اپنے عزائم پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

دوسری قرار داد یوکرین کی کمیونسٹ یونین پارٹی نے پیش کی تھی(یونانی کمیونسٹ پارٹی نے یہ قرارداد پیش نہیں کی تھی جیسا کہ کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن کی مرکزی کمیٹی کے نائب صدر، ڈی۔نوویکوف ،نے روسی اخبار”نازاوسمایا گزیتا” میں دعوی کیا ہے)۔ جنگ کی سامراجی نوعیت آشکار کرنے والی اس قرارداد میں یوکرین کی رجعتی حکومت اور روسی سرمایہ داروں کے عزائم ، دونوں کی، مذمت کی گئی ہے۔یونانی کمیونسٹ پارٹی نے اس قرارداد کی حمایت کی۔

:یونانی کمیونسٹ پارٹی پر حملے کے جواب میں

کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن کے بین الاقوامی ڈپارٹمنٹ نے اس خصوصی قرارداد کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش میں جو کہ سامراجی جنگ کی نوعیت کو آشکار کرتی ہے، خود کو اخبار”نازاوسمایا گزیتا” کے آرٹیکل کے مدیر کے ساتھ کھڑا کیا اور یہ “آسان” دعوی کیا کہ وہ تمام پارٹیاں جنہوں نے اس قرارداد پر دستخط کیے ان میں سے “تقریبا کوئی بھی پارٹی اپنی ریاست پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی”۔

چند روز پہلے، ریڈیو “آورورا” کو انٹرویو دیتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن کی مرکزی کمیٹی کے نائب صدرنے اسی طرح تضحیک آمیز انداز میں یونانی کمیونسٹ پارٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یونانی پارلیمان میں اس کے صرف دس( 10) رکن ہیں اورالیکشن میں اسے صرف پانچ سے 6 فیصدووٹ ملتے ہیں۔ انہیں اس بات پر تعجب تھا کہ یونانی کمیونسٹ پارٹی کا “معاشرے پر کیا اثر پڑ سکتا ہے”۔انہوں نے مزید کہا کہ یونانی کمیونسٹ پارٹی “یونان میں ترقی پسند اور لیفٹ کی قوتوں کو متحد کرنے کے کئی مواقع گنوا چکی ہے۔”

کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن کا یہ نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ اس کے نزدیک دوسری کمیونسٹ پارٹیوں کے اثرورسوخ کو ماپنے اورجانچنے کا پیمانہ محض پارلیمانی معیار ہے جیسے کہ نمائندوں کی تعداد یا ووٹ کا تناسب حالانکہ یہ خوب جانی مانی بات ہے کہ سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کی جدوجہد کرنے والی انقلابی پارٹی سرمائے کی آمریت کے حالات میں انتخابی تناسب حاصل کرنے کے لیے سخت کوشش کرتی ہے۔ ہم یہ بھی کہیں گے کہ تاریخی راستےاورحالیہ پیش رفتوں سے ہمیں یہ سیکھنا چاہیے تھا کہ وہ کمیونسٹ پارٹیاں جن کی مزدور طبقے میں ، ٹریڈ یونین تحریک میں، ملک کے مزدور طبقے کی جدوجہد میں، کوئی جڑیں نہیں ہیں اوران کے اقدامات پارلیمنٹ کی دیواروں تک محدود ہیں ، وہ ان وجوہات کی بناء پر آنا فانا تتربتر ہو کر ٖغائب ہو سکتی ہیں، خواہ ان کے ووٹ کا تناسب زیادہ ہو اوران کے اراکین پارلیمان کی تعداد بڑی ہو۔

چنانچہ، ایک ایسی پارٹی کے نائب صدر کے لیے جس نے اپنے وجود کے انتیس (29) سالوں میں روس میں ٹریڈ یونین تحریک کی ترقی میں کوئی اہم کردار ظاہر نہ کیا ہو، اوریقینا ایسے وقت میں جب ٹریڈ یونین والے ٹریڈ یونین سرگرمیوں کی وجہ سے جیلوں میں قید ہوں، جیسے کہ ماسکو کی کوریئر یونین کا صدر،کیرل اکرادسیف، تب اس کے لیے اکڑفوں دکھانے سے بہتر ہے کہ یونانی کمیونسٹ پارٹی کے عمل اورتاریخ کا مطالعہ کرے، جو مزدور طبقے ، کسانوں، پیشہ ورافراد اورطلباء کی اس جدوجہد کی علمبردار ہے جسے اس نائب صدر کی پارٹی کے عہدیداروں نے گزشتہ دور میں خود تسلیم کیا ہے۔

یقینا، کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن جیسی پارٹی جس کے درجنوں اراکین پارلیمان ہیں، وہ سوسائٹی پر اپنے اثر ورسوخ کی پیمائش کس طرح کر سکے گی اگر وہ طبقاتی جدوجہد کو فراموش کر چکی ہے یا جواس روسی صدر، پیوٹن ، کے خلاف تنقید کا ایک لفظ کہنے کی ہمت نہیں کرسکی جس نے اکتوبرانقلاب کے رہنما، ولادیمیر لینن، اوربالشویکوں پر مسلسل حملے کیے ہیں؟ وہ کیسے یہ بات فراموش کر سکتی ہے کہ اپنی ہر اہم تقریر میں روسی صدر پیوٹن روسی فلسفی اور روسی فاشزم کے بانی ، ایوان ایلین، کی کتابوں کے اقتباسات پڑھتا ہے؟

:روس مخالف جعلسازی

مختلف سوشل میڈیا پر کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن کی حمایت میں حقیقت کو زیادہ بری طرح مسخ کیا گیا ہے اور یہ دعوی کیا گیا ہے کے بائیسویں اجلاس میں دو قراردادیں پیش کی گئیں؛ ایک قرارداد “روس نواز” تھی جسے دو روسی پارٹیوں نے پیش کیا اور ایک قرارداد “روس-مخالف” تھی جسے یونانی کمیونسٹ پارٹی نے منظور کیا۔

لیکن یہ بات کہاں سے آئی کہ ایک قرارداد “روس نواز” ہے اوردوسری “روس مخالف”؟ اس طرح کی تقسیم کا واحد پیمانہ تو صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ہر قرارداد ان بہانوں اورانتخابوں کی حمایت کرتی ہے جنہیں سامراجی جنگ میں روسی سرمایہ داراپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ تاہم، ایک قرارداد جو یہ تسلیم کرتی ہے کہ روسی لوگوں کے بچے سامراجی جنگ کی “قیمہ بنانے والی مشین” کا “قیمہ” بننے چاہییں تاکہ ان روسی سرمایہ داراجارہ داریوں کے مفادات پورے ہوں جو یورو-اٹلانٹک اجارہ داریوں سے متصادم ہیں ، ایسی قرارداد کو “روس نواز” قراردیا جا سکتا ہے۔

حالانکہ “روس نواز” یا “روس مخالف” قرارداد کی باتیں ایک بھٹکانے والا حربہ ہے، مگر منطقی طور پرکہا جا سکتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن کی اصطلاح میں، دراصل وہی قرارداد “روس نواز” ہے جو روس کے سرمایہ دار طبقے، اس کے اتحادیوں اور سامراجی جنگ کے مفادات کے برخلاف روس کے مزدور طبقے اورمحنت کش عوام کے خودمختار مفادات کوظاہر کرتی ہے اوران کی حمایت کرتی ہے۔ کیا کوئی قرارداد اس وجہ سے “روس مخالف” ہو سکتی ہے کہ وہ روسی سرمایہ داروں کے مفادات کے خلاف ہے؟

یہ بیہودہ منطق ہے۔ یونانی کمیونسٹ پارٹی اپنے مؤقف میں اور بین الاقوامی اجلاسوں میں اپنے مؤقف میں سب سے پہلے یونان کی میونسپل حکومت، آج این ڈی پارٹی، کل سائریزا اورپاسوک پارٹیوں کے ان منصوبوں کی مخالفت کرتی ہے جو بحری جہازوں کے مالکان، بینکروں، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے دوسرے حصوں کے مفادات کی خدمت کرتے ہیں اورجنہوں نے ملک کو نیٹو اوریورپی یونین کی سامراجی تنظیموں کے منصوبے میں پھنسا دیا ہے۔ کیا قوم پرستوں کے علاوہ کوئی بھی یونانی کمیونسٹ پارٹی کو “یونان مخالف رویے” کا ملزم قراردے سکتا ہے کیونکہ وہ یونان کی سویلین پارٹیوں اورحکومتوں کے منصوبوں کی مذمت کرتی ہے اوران کی مخالف ہے؟

جب یونانی کمیونسٹ پارٹی امریکی اڈوں کے خلاف ، امریکی تذویراتی معاہدوں کے خلاف،لوگوں کو سیاسی طور پر متحرک کرتی ہے تب وہ یونانی لوگوں کو امریکی لوگوں اورامریکی مزدور طبقے کے خلاف متحرک نہیں کر رہی ہوتی جن کی جدوجہد کی یونانی کمیونسٹ تعظیم کرتے ہیں ۔

جب یونانی کمیونسٹ پارٹی یونان اورفرانس کے درمیان تذویراتی معاہدے کے تحت فرانسیسی ہتھیاروں کی خریداری کے خلاف یونانی عوام کو متحرک کرتی ہے تو وہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ معاہدہ ملک کو نئی سامراجی مداخلتوں اورجنگوں میں ، جیسے کے ساحل خطے میں، گھسیٹ لے گا۔ اس کا محرک “فرانس-مخالف رجحان” نہیں ہوتا۔اسی طرح، یونانی کمیونسٹ پارٹی فرانس کے مزدور طبقے کی جدوجہد کو “پیرس کمیون” کے مزدور انقلاب سے لے کرآج تک عزت و تکریم کی نظر سے دیکھتی ہے۔

جب یونانی کمیونسٹ پارٹی پائرس کی بندرگاہ ، جسے چینی اجارہ دار کمپنی “کوسکو” کنٹرول کرتی ہے،کے مزدوروں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ شامل ہوتی ہے، تو وہ “چین مخالف جذبات” کی جکڑ میں نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیش نظر ان مزدوروں کی جدوجہد کی حمایت کرنا ہوتا ہے جو حالات کار میں بہتری، اطمینان بخش تنخواہ اوراجتماعی سودے کاری کے معاہدے کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں۔

مزدور بین الاقوامیت کے اصولوں کی روشنی میں یونانی کمیونسٹ پارٹی تمام ملکوں کے محنت کش عوام اورمزدور طبقے کے ساتھ سرمایہ دار طبقوں اور سامراجی تنظیموں کے منصوبوں اورمفادات کے خلاف کھڑی ہوتی ہے۔ یونانی کمیونسٹ پارٹی تمام ملکوں اور ان کے عوام کے درمیان مفید باہمی تعاون کے حق میں ہے اور نسل پرستی اوراکثریت کے خوف کی ہر شکل کے خلاف ہے۔

:جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے

ایک کہاوت ہے کہ “لوگ سب سے زیادہ جھوٹ شکار کے بعد، جنگ کے دوران اور الیکشن سے پہلے بولتے ہیں” اورہمارے معاملے میںؐ کم از کم آخری دو شرائط پوری ہوتی ہیں ۔ہمارے ملک میں بعض لوگ اس فضول گوئی سے چپکے رہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یونانی کمیونسٹ پارٹی کا سامراجی جنگ کے خلاف اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہنا “روس پسندی کی مخالفت” کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن اس جھوٹ کی ٹانگیں چھوٹی ہیں

ان تمام سالوں میں یونانی کمیونسٹ پارٹی نے نئے ملکوں کے ساتھ روسی سرحدوں کی جانب نیٹو کے پھیلاؤ کے خطرات کی مزاحمت کی ہے، ان کی نشاندہی کی ہے اوران کی مذمت کی ہے۔ اس نے سائریزا کی پچھلی حکومت کی مذمت کی جس نے شمالی میسیڈونیا کے ساتھ صرف اس لیے معاہدہ کیا کہ وہ نیٹو اوریورپی یونین میں شامل ہو سکے۔ ہم نے این ڈی حکومت کی بھی مذمت کی جس نے سوئیڈن اور فن لینڈ کے نیٹو سے الحاق کی حمایت کی اور جس کے لیے یورو-اٹلانٹک اور دوسرے ملکوں کی پارٹیوں نے بھی “حقِ خودارادیت” کے نام پر ووٹ دیا۔

ان تمام سالوں میں یونانی کمیونسٹ پارٹی نے امریکہ-نیٹو اتحاد کے نئے فوجی اڈوں اورفوجیوں کے زریعے روسی فیڈریشن کی حلقہ بندی کی مخالفت اور مذمت کی ہے۔ اس نے خاص طور پر یہ کہا کہ یہ اقدام جنگ سے پہلے”آتش گیر مادے کوجمع کرنے” کا عمل تھا۔

ہم نے یونانی فضائیہ کی جانب سے بلقان کے ملکوں پر پیٹرولنگ کی مخالفت کی جو نام نہاد “روسی خطرے” کے خلاف ایک واضح عمل تھا۔
ان تمام سالوں میں یونانی کمیونسٹ پارٹی نے یونانی پارلیمنٹ اور یورپی پارلیمنٹ میں روسی فیڈریشن کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں اورتجارتی جنگ کے خلاف ووٹ دیا ہے اوراس کی مذمت کی ہے اور یہ دکھایا ہے کہ ان پابندیوں سے سب سے پہلے عوامی حلقے متاثر ہوں گے جیسے کہ ہمارے ملک کے کسان۔

یونانی کمیونسٹ پارٹی نے نشاندہی کی کہ یورپی یونین کے روسی قدرتی گیس پرانحصار کو ختم کرنے کا نام نہاد اقدام یورپی یونین کو نہایت مہنگی امریکی مائع قدرتی گیس پر انحصار کی طرف لے جائے گا اوراس کے ساتھ ساتھ نام نہاد “سبزمنتقلی (Green Transition) کے لیےسبز” کاروں” کو فروغ دینے کی جانب بھی۔

جنگ کے آغاز سے ہی یونانی کمیونسٹ پارٹی نے یورپی یونین اوریونانی حکومت کی جانب سے روس کی ثقافتی تنظیموں کے ساتھ پروگراموں پر پابندی عائد کرنے کی مذمت اورمخالفت کی۔

یقینا، کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن جیسی پارٹیاں جو قوم پرستانہ خیالات سے متاثر ہیں اور سرمایہ دار طبقوں کے نظریات کی حمایت کرتی ہیں، ، جیسے کہ نام نہاد “روسی دنیا” وغیرہ، وہ روس کے سرمایہ داروں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے بہانوں کی حمایت اور یورو-اٹلانٹک سامراج اور روسی سرمایہ داروں کی واضح مذمت سے بچنے کے لیے “روس پسندی کی مخالفت” جیسے فضول بہتانوں کو استعمال کیے بغیر نہیں رہ سکتیں ۔

آخر میں ہم یوکرین کی کمیونسٹ یونین پارٹی کی قرارداد کا ، جس کی یونانی کمیونسٹ پارٹی نے حمایت کی، آخری پیراگراف سامنے لائیں گے جو کہتا ہے:”تمام دنیا کے کمیونسٹوں کے لیے یہ فعل شرمناک اورمجرمانہ ہے کہ وہ سرمایہ دارملکوں کی حکومتوں کے دم چھلے بن جائیں اوراپنے قومی سرمایہ دار کے مفاد میں کام کریں، اورشہری ملکوں کے کسی ایک یا دوسرے اتحاد کی حمایت کریں۔ ہمارا غیر متغیر فریضہ یہ ہے کہ ہم ساری دنیا کے مزدوروں کو اس بات کا ادراک کرنے میں مدد دیں کہ سامراجی جنگیں مزدوروں کو آزادی اورنجات نہیں دیتیں، بلکہ اس کے برعکس وہ انہیں مزید ٖغلام بناتی ہیں۔ سامراجی تنازعے میں حکمرانوں کے حلقوں میں مزدور کا کوئی دوست نہیں ہوتا بلکہ سب اس کے دشمن ہوتے ہیں۔ مزدور کے دوست صرف خود مزدور ہی ہوتے ہیں چاہے ان کی قومیت کوئی بھی ہو۔کمیونسٹوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ قومی اوربین الاقوامی دونوں سطح پر سرمایہ داری کا خاتمہ کریں: سرمایہ داری کے خاتمے کامطلب ہے جنگوں کا خاتمہ۔ اس عظیم مقصد کی خاطر، دنیا بھر کے کمیونسٹوں، مزدوروں کے ساتھ متحد ہوجاؤ!”

ایلسیوس ویگیناس
ممبر، مرکزی کمیٹی
انچارج،بین الاقوامی ڈپارٹمنٹ
یونانی کمیونسٹ پارٹی

نوٹ:کیوبا کے شہرہوانا میں اکتوبر کے اواخر میں کمیونسٹ اورورکرز پارٹیوں کا بائیسواں(22) بین الاقوامی اجلاس ہواجس میں دنیا کے ساٹھ(60) ملکوں سے اٹہتر(78) کمیونسٹ اورورکرز پارٹیوں کے ایک سو چالیس (140) مندوبین نے شرکت کی۔

Leave a Comment