گرامچی اور ٹراٹسکی ازم کی جھوٹی تاریخ

تحریر: جوز انتونیو ایگیڈو

مترجم: شاداب مرتضی

نیچے ہم اٹلی کے کمیونسٹ، انتونیو گرامچی، پر جوز انتونیو ایگیڈو کی کتاب “خبردار: گرامچی سے دور رہو!” کے دو اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔ یہ اقتباسات استدلال کرتے ہیں کہ گرامچی نے روسی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی اکثریت کی سیاسی لائن کی مسلسل حمایت کی جس کی قیادت جوزف اسٹالن کر رہے تھے اور پارٹی کے اندر موجود دھڑوں کی (حزب اختلاف) مخالفت کی جس کی قیادت زینوویف، کامینیف اور ٹراٹسکی کر رہے تھے۔ جیسا کہ اب واضح ہو چکا ہے، بعد میں روسی حزب اختلاف نے انفرادی دہشت گردی کی پالیسیوں کا رخ کیا (بالشویک پارٹی کے رہنماؤں پر قاتلانہ حملے، سرگئی خیروف کا قتل، اسٹالن اور دیگر رہنماؤں کے قتل کی منصوبہ بندی، وغیرہ، مترجم)۔ ایگیڈو اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما، انتونیو گرامچی، کی تحریروں کی بنیاد پر ٹراٹسکی کے بارے میں اس کے خیالات کی تفصیلات بیان کرتے ہیں اور یہ دکھاتے ہیں کہ ٹراٹسکی کے حامیوں (ٹراٹسکائیوں) کی طرف سے انتونیو گرامچی کے سیاسی اور نظریاتی ورثے کو ہتھیانے کی کوشش کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔ ایگیڈو کے فراہم کردہ حقائق بالواسطہ طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گرامچی اور سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس کی روح کے مطابق کام کرنے والوں (خروشچیفی ترمیم پسندوں، مترجم) کے درمیان تعلق ظاہر کرنا مکمل طور پر مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ واضح رہے کہ سوویت ترمیم پسندی کے پیروکاروں نے گرامچی کی تحریروں کو بین الاقوامی سطح پر پیش کیا اور اس کی زندگی اور کام کے بارے میں عصری تشریحات پراس بات کا بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔ (جوز انتونیو ایگیڈو)

پہلا حصہ: گرامچی نے ٹراٹسکی کے نظریات کو یکسر مسترد کیا ہے:

ٹراٹسکی ازم بے شرمی کے ساتھ گرامچی کو ہتھیانے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح جیسے کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ چے گویرا اور ہو چی من جیسے مشہور ٹراٹسکائی مخالف انقلابی رہنماؤں کے ساتھ کرتا ہے۔ تاہم، اطالوی کمیونسٹ رہنما انتونیو گرامچی نے بھی ٹراٹسکی کے “مستقل انقلاب” کے نظریے اوردیگر خیالات کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ اطالوی ٹراٹسکائی، رابرٹو مساری، بڑے فخر سے کہتا ہے کہ “1924ء میں ٹراٹسکی کے عمومی مؤقفوں پر گرامچی کے قائل ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا(1)۔” اسی کے ایک نظریاتی ساتھی، لیویو میٹن، کا کہنا ہے کہ ٹراٹسکائیوں کے پاس “یہ حق ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ گرامچی کے کام کے جوہرکوثابت کریں(2)۔” یہ افراد بھی ہیراپھیری کرنے والے ٹراٹسکائیوں کا ہی ایک ٹولا ہے۔

مزید برآں، جعل ساز سرمایہ دار دانشور اس چیز کو احتیاط سے چھپاتے ہیں کہ گرامچی نے لینن اور اسٹالن کے “ایک ملک میں سوشلزم” کے نظریے پر پوری طرح عمل کیا۔ 1922ء میں ٹراٹسکی نے اس بات کا دفاع کیا کہ پرولتاریہ کی حکومت کو “وسیع کسان عوام” کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے(3) ۔ایریکو لکھتا ہے کہ “ٹراٹسکی کا نقطہ نظر کسانوں پر شدید عدم اعتماد سے عبارت تھا۔ وہ پرولتاری اقلیت کے جبر کے بوجھ کو کسانوں پر اور فوجی کردار کے جبر کے بوجھ کو خود پرولتاریہ پر ڈالنا چاہتا تھا جس کا نتیجہ صرف (انقلاب کی) شکست ہی ہو سکتا تھا۔(4)” ٹراٹسکی کا یہ نقطہ نظر پرولتاریہ اور دیہی علاقوں کے محنت کشوں کے درمیان اتحاد کے لینن کے نظریے سے بالکل متصادم تھا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ گرامچی کے اس نظریے کا بھی مخالف تھا کہ مزدوروں، کسانوں اور دانشوروں کے اتحاد کے ذریعے ایک تاریخی بلاک (اتحاد) تعمیر کیا جائے۔ ٹراٹسکی کا مؤقف یہ تھا کہ مغرب میں اس انقلاب کی فتح کا انتظار کیا جائے جو سوشلزم کو مستحکم کرنے کے لیے مستقبل میں کچھ وقت لے گا (عالمی انقلاب، مترجم)۔ لیکن گرامچی، جس نے اگست 1917ء میں ٹیورن کے محنت کشوں کی بغاوت کو کچلتے ہوئے دیکھا تھا، وہ جانتا تھا کہ یہ مؤقف غلط ہے. درحقیقت، مغربی یورپ کے سرمایہ داروں نے 1871ء کے پیرس کمیون سے لے کر 1939ء میں پاپولر فرنٹ کی ہسپانوی ریپبلکن حکومت تک، یکے بعد دیگرے مزدوروں کی بغاوتوں اور جمہوری اور انقلابی تحریکوں کو بے رحمی سے کچل دیا تھا جن میں شمالی علاقے بارسلونا میں 1907ء کی بغاوت بھی شامل تھی اور اس کے علاوہ 1917ء اور 1919ء میں، ہیمبرگ، برلن، میونخ، ہنگری اور فن لینڈ، 1934ء میں آسٹوریاس، ویانا وغیرہ کی بغاوتیں۔ جب تک ٹراٹسکی سوویت کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی اکثریت اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے خلاف اپنی محازآرائی کو گہرا کرتا رہا تب تک گرامچی اس کی مخالفت کرتا رہا۔ اٹلی میں مستقبل پسندی (فیوچرازم) کی تحریک کے بارے میں 1922ء کو لکھے گئے ٹراٹسکی کے خط کے جواب میں گرامچی نے اسے مختصر جواب دیا جس میں واضح طور پراس کے سوال کے حوالے سے گرمجوشی کی کمی تھی(5)۔

مزید برآں، گرامچی نے ٹراٹسکی کے خیالات کی جانب سردمہری روا رکھنے سے ان کا مقابلہ کرنے کی جانب پیش رفت کی۔ 1924ء میں ٹوگلیاٹی، ٹیراسینی اور دیگر کو لکھے گئے اپنے خط میں اس نے اس ثبوت کو واضح کیا کہ ٹراٹسکی کا کبھی بھی لینن، اسٹالن، بخارین، کامنیف، زینوویف وغیرہ کے روسی بالشویک گروہ سے تعلق نہیں رہا تھا۔ وہ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ ٹراٹسکی پلیخانوف کے منشویکوں کے، یعنی روسی اصلاح پسندوں کے، قریب تھا۔ گرامچی اپنے خط میں لکھتا ہے: “تنظیمی معاملات میں وہ (ٹراٹسکی) اکثر منشویکوں میں شامل ہوتا تھا یا ان میں ضم ہوتا تھا۔(6)” گرامچی کی رائے کی تصدیق لینن سے ہوتی ہے جب 1910ء میں لینن نے منشویکوں کے ساتھ ٹراٹسکی کے تعلقات کی مذمت کرتے ہوئے کہا: “1903ء میں وہ (ٹراٹسکی) منشویک تھا۔ 1904ء میں اس نے منشیوازم کو ترک کر دیا۔ 1905ء میں وہ پھر منشویکوں کے پاس واپس آیا اور محض انتہائی انقلابی لفاظی کرتا رہا۔ 1906ء میں اس نے انہیں دوبارہ چھوڑ دیا۔ 1906ء کے آخر میں اس نے آئینی جمہوریت پرستوں (کیڈٹس) کے ساتھ انتخابی معاہدوں کی وکالت کی (یعنی وہ حقیقت میں ایک بار پھر منشویکوں کے ساتھ مل گیا)؛ اور 1907ء کے موسم بہار میں، لندن کانگریس میں، اس نے کہا کہ وہ روزا لکسمبرگ سے ‘سیاسی رجحانات کے بجائے خیالات کے انفرادی رنگوں’ پر اختلاف رکھتا ہے۔(7)” لینن نے 1914ء میں کہا: “1903ء کے آخر میں ٹراٹسکی ایک پرجوش منشویک تھا۔(8)” 1911 ء کے ایک اور مضمون میں لینن نے اس بات کی مذمت کی کہ “کسی مسئلے کی میرٹ پر ٹراٹسکی کے ساتھ بحث کرنا ناممکن ہے، کیونکہ ٹراٹسکی کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔(9)” 1912ء میں لینن نے کہا کہ ٹراٹسکی اب بھی بالشویکوں کے خلاف لڑ رہا ہے اور “تحلیل پسندوں، ٹراٹسکی، لیٹس، بنڈسٹ اور کاکیشین نے ایک گروہ(10)” بنا لیا ہے۔

گرامچی اچھی طرح جانتا تھا کہ ٹراٹسکی نہ صرف بالشویک نہیں ہے بلکہ وہ لینن اور بالشویکوں کے نظریات اور پالیسیوں کا تاریخی دشمن ہے۔ مئی 1924ء میں لیک کومو کے مقام پراٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کی پہلی قومی کانفرنس میں گرامچی نے بالشویک پارٹی کی اکثریت کے خلاف ٹراٹسکی کی محاذ آرائی پر عوامی سطح پر تنقید کی اور اس مذمت کو دہرایا جو سوویت کمیونسٹ پارٹی نے ٹراٹسکی کے حوالے سے کی تھی۔ نومبر 1924ء میں اس نے ٹراٹسکی کی تصنیف “اکتوبرکے اسباق” پرتنقید کی۔

7 فروری 1925ء کو گرامچی نے اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں بالشویک پارٹی کے خلاف ٹراٹسکی کی مخالفت کو معروضی طور پر “ردانقلابی” قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی (11)۔ 22 جولائی 1925ء کو اخبار “اتحاد” میں اس نے تبصرہ شائع کیا جس میں اس نے ٹراٹسکی کو بورڈیگا سے تشبیہ دیتے ہوئے “انفرادیت پسند تصور” رکھنے والا شخص کہا(12)۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے خلاف بورڈیگا اور ٹراٹسکی کا مؤقف قریب تر ہو گیا تھا کیونکہ 4 جولائی 1925ء کو اس اخبار نے بائیں بازو کے انتہا پسند بورڈیگا کا ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس میں اس نے ٹراٹسکی سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ “انقلابی پارٹی کی قیادت کا سب سے زیادہ حقدار تھا(13)”۔ بعد میں اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک رہنما، ساسیمارو، نے بورڈیگا کو ٹراٹسکی ازم سے اتحاد کا ملزم ٹہرایا تھا۔

گرامچی نے 1926ء میں ٹراٹسکی کے نظریات پر دوبارہ تنقید کی(14)۔ 14 اکتوبر 1926ء کو گرامچی نے، جو اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کا شریک سیکرٹری جنرل تھا، سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو ایک طویل خط لکھا جس کا سبب اس بحران کا خدشہ تھا جو سوویت کمیونسٹ پارٹی کی اکثریت، جس کی قیادت اسٹالن اور بخارن کر رہے تھے اور اقلیت، جس کی قیادت کامینیف، زینوویف اور ٹراٹسکی کر رہے تھے، کے درمیان پیدا ہو گیا تھا۔ گرامچی نے انقلابی ذمہ داری کے ساتھ یہ تنبیہ کی کہ طبقاتی دشمن، سامراج، کو امید تھی کہ داخلی بحران انقلاب کو “تباہ” کر دے گا اور مزدور ریاست کے خاتمے کی طرف لے جائے گا۔ اس نے کہا کہ “ہماری جماعتوں کے عوام (سوویت کمیونسٹ پارٹی کے اندر) ایک لڑاکا اتحاد دیکھتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں جو سوشلزم کے عمومی تناظر میں کام کرے۔” گرامچی نے سوویت رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ عظیم انقلابی کام کو تباہ نہ کریں۔ تاہم، اس نے دونوں گروہوں کی جانب مساوی رویہ اختیار نہیں کیا۔ اس نے سخت ترین الفاظ میں اقلیت کی مذمت کی اور اکثریت کی غیر مبہم حمایت کی۔ اس نے کہا کہ “حزب اختلاف کا رویہ مرکزی کمیٹی کی پوری سیاسی سمت کو متاثر کرتا ہے۔۔۔ ہم سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی اکثریت کی سمت کو بنیادی طور پر درست سمجھتے ہیں۔” اس نے مزید کہا کہ “حزب اختلاف کے نظریے اور عمل میں سوشل ڈیموکریسی اور سنڈیکلزم کی پوری روایت مکمل طور پر دوبارہ زندہ ہو گئی ہے۔” کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ایک رہنما کے طور پر گرامچی نے سوویت کامریڈوں کے مقابل مساوی حیثیت محسوس کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا اور درخواست کی کہ “مزدوروں کی ریاست پر حکمرانی کرنے والی پارٹی میں مضبوط اتحاد اور نظم و ضبط وہ واحد چیز ہے جو پرولتاریہ کے غلبے کو یقینی بنا سکتی ہے۔” شائستگی سے اور برادرانہ انداز سے لیکن مضبوطی کے ساتھ گرامچی نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “کامریڈز زینوویف، ٹراٹسکی اور کامنیف نے ہمیں انقلاب کے لیے تعلیم دینے میں بھرپور حصہ ادا کیا، کئی بار انہوں نے بہت گرمجوشی اورسختی سے ہماری اصلاح کی اور ہمارے استاد رہے۔ ہم خاص طور پر ان کو متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہی اس صورت حال کے اصل ذمہ دار ہیں۔۔۔” صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے گرامچی انہیں یاد دہانی کراتا ہے کہ “ہر کمیونسٹ اور بین الاقوامیت پسند کو سب سے بڑی قربانیاں دینے کے لیے لازما تیار ہونا چاہیے۔(15)”

بدقسمتی سے حزب اختلاف نے گرامچی کے مطالبات کو نظر انداز کیا اور پارٹی اور سوویت سوشلزم کے خلاف اپنی سرگرمیوں کو تب تک جاری رکھا جب تک کہ انہیں الگ کرکے شکست نہ دے دی گئی۔

اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کی تیسری کانگریس کے لیے لیون کے مقالے بھی تیار کیے گئے تھے۔ ان کا 32 واں نکتہ پارٹی کے اندر دھڑوں یا گروہوں کے وجود کی واضح مذمت کرتا ہے جس کا ٹراٹسکی حامی تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ’’دھڑوں کا وجود اور جدوجہد درحقیقت پرولتاریہ کی پارٹی کے جوہر سے مطابقت نہیں رکھتی، جس کے اتحاد کو اس سے نقصان پہمچتا ہے، جس سے دوسرے طبقات کے اثر و رسوخ کے لیے راستہ کھلا رہتا ہے۔(16)” اس کانگریس میں انتہا پسند بائیں بازو کو شکست ہوئی جس کی قیادت بورڈیگا کر رہا تھا اور جواب میں اس نے ایک مخالف دھڑا بنا کر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ پارٹی کے اعلیٰ ترین رہنما کے طور پر گرامچی نے اپنی تحریر میں اس کے جواب میں کہا: “مرکزی کمیٹی کے ساتھ پارٹی کے تمام عناصر کی وفاداری نہ صرف ایک خالصتاً تنظیمی اور ڈسپلن کا عمل ہونا چاہیے، بلکہ انقلابی اخلاقیات کا ایک حقیقی اصول ہونا چاہیے۔” گرامچی نے پارٹی کو ایک “یکساں اتحاد” میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ کانگریسوں کے درمیان مرکزی کمیٹی کے اختیار پر سوال نہ اٹھایا جائے اور دھڑے بندی کے اقدامات کو روکا جائے(17)۔ حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے لیکن اس کے باوجود ٹراٹسکائی سازشی، لیویو میٹن، ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہنے سے باز نہیں آتا کہ گرامچی نے “(پارٹی کے اندر) علیحدہ رجحان رکھنے کے حق کی حمایت کو جاری رکھا۔(18)”

جیل میں 1930ء میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل “انفرادی انسان اورعوامی انسان” میں گرامچی نے ایک بار پھر ٹراٹسکی پر سخت حملہ کیا۔ اس نے کہا: “یہ کہا جا سکتا ہے کہ برونشٹائن (ٹراٹسکی) جو خود کو ‘مغرب نواز’ کے طور پر پیش کرتا ہے، درحقیقت ایک کاسموپولیٹن تھا، یعنی سطحی طور پر قومی اور سطحی طور پر مغرب نواز یا یورپی۔ دوسری طرف ایلیچ (لینن) گہرا قومی اور گہرا یورپی تھا۔ برونشٹائن اپنی یادداشتوں میں کہتا ہے کہ یہ کہا جاتا تھا کہ اس کے نظریے نے پندرہ سال بعد اپنی درستگی ظاہر کی تھی۔۔۔ درحقیقت اس کا نظریہ پندرہ سال پہلے یا پندرہ سال بعد اچھا نہیں تھا۔(19)”

جیل میں لکھے گئے ایک اور مضمون میں گرامچی اس بات پر طیش ظاہر کرتا ہے کہ ٹراٹسکی نے اطالوی مارکسی نظریہ دان، لیبریولا، پر “سطحیت” کا الزام لگایا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ “اس سے اس کے (ٹراٹسکی کے) جعلی سائنسی نمائشی پن کی لاشعوری عکاسی ہوتی ہے،(20)” جو کہ بلاشبہ ٹراٹسکی کا مخصوص طرز عمل ہے اور اس کے بعض مقلدوں کی ایک “مستقل” خاصیت ہے۔

اپنے مضمون “پیداوار اور محنت کی معقولیت (ریشنلائزیشن)” میں گرامچی نے ٹراٹسکی ازم پر دوبارہ حملہ کیا جس کے لیے وہ “لیون ڈیوڈووچ (ٹراٹسکی) کے رجحان” کو “بیرونی، جبری ذرائع سے پیداوار میں نظم و ضبط اور ترتیب کو تیز کرنے” اور جبر کو لاگو کرنے کی “غلط” شکل کہتا ہے(21)۔

ٹوگلیاٹی لکھتا ہے کہ 1930ء میں جب گرامچی کو معلوم ہوا کہ ایک کامریڈ ٹراٹسکائی اثر سے مغلوب ہونے کا رجحان رکھتا ہے تو جیل میں قید کی وجہ سے طویل بحث سے معذور ہونے کے سبب اس نے “جیل میں یہ اہم نعرہ چلا دیا: ٹراٹسکی سامراج کی فاحشہ ہے۔(22)”

گرامچی کی تنقید کے ردعمل میں ٹراٹسکائی بے بنیاد طعنے بازی سے کام لیتے ہیں۔ مثلا “دی ملیٹنٹ” سے تعلق رکھنے والا ایک ٹراٹسکائی، کلاڈیو ولا، گرامچی کی مبینہ “نظریاتی اور سیاسی حدود” کے لیے اس پر ملامت کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ “گرامچی کی خیال پرستانہ روش ٹراٹسکی کے سائنسی تجزیے کی جگہ لے لیتی ہے۔”

ایک اور ٹراٹسکائی طعنے باز گرامچی پر الزام لگاتا ہے کہ گرامچی نے “اپنے نظریے میں الجھن” کو فروغ دیا کیونکہ اس نے “اسٹالن” یعنی بالشویک پارٹی کا مقابلہ نہیں کیا۔ اس ٹراٹسکائی نے یہ لکھنے کی جسارت کی کہ گرامچی کا آخری خط “قیدی بنائے جانے سے پہلے ایک احتجاج تھا جس کا نشانہ اسٹالن کی طرف سے ‘بائیں بازو کی حزب اختلاف’ کے ساتھ بیوروکریٹک برتاؤ کے بارے میں ٹوگلیاٹی کی طرف تھا(23)”۔ ایک اور ٹراٹسکائی کہتا ہے کہ ٹراٹسکی پر تنقید میں گرامچی کی “ناہمواری” کا سبب یہ ہے کہ اطالوی (گرامچی) “بہت ممکن” ہے کہ “مستقل انقلاب” پر ٹراٹسکی کے مضامین سے ناواقف تھا(24)۔

جو چیز ٹراٹسکائیوں کو پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ گرامچی سوویت کمیونسٹ پارٹی کی بالشویک سمت کی کھل کرحمایت کرتا تھا جس کی تصویر کشی ٹراٹسکائی بدنیتی سے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ”1924ء اور 1926ء کے درمیان گرامچی کا رویہ غیر تنقیدی اور اسٹالنسٹ بیوروکریسی کے موافق تھا جس نے بالشویک پارٹی میں داخلی جمہوریت کے نظام کو ختم کر دیا (25)۔”

دوسرا حصہ: یہ مکمل طور پر جھوٹ ہے کہ گرامچی نے “اسٹالنزم” کی مخالفت کی تھی:

گرامچی نے کبھی بھی، آزادی کے دنوں میں یا دوران قید، بالشویک پارٹی کی قیادت کے بارے میں، جو کہ 1926ء سے کامریڈ اسٹالن کے گرد جمع تھی، کوئی تنقیدی فیصلہ نہیں کیا، اس کی مذمت کرنا تو دور کی بات ہے۔ ماچوکی کی کتاب میں صاف کہا گیا ہے: “گرامچی اسٹالن کی سمت کو تسلیم کرتا ہے (25)”۔

گرامچی نے بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ جس چیز کی مذمت کی وہ کمیونسٹ قیادت کے اندر حزب اختلاف تھی۔ وہ ماسکو میں موجود ٹوگلیاٹی سے طنزیہ انداز میں کہتا ہے جو اکثریت اور حزب اختلاف کے درمیان جدوجہد کے حوالے سے سوویت کامریڈوں کو بھیجے گئے اس کے خط کو نہیں سمجھ پایا: “ہمارے تمام مشاہدات حزب اختلاف کے خلاف ہیں (وہ ٹراٹسکی اور زینوویف کا حوالہ دے رہا ہے)۔” 26 اکتوبر 1927ء میں جب بالشویک پارٹی کی پندرہویں کانگریس کی رپورٹیں تیار کی جا رہی تھیں، اراکین کی کثیر اکثریت (740,000 ممبران) نے مرکزی کمیٹی کے نقطہ نظر کے حق میں ووٹ دیا اور صرف 4,000 ممبران نے ٹراٹسکی اور زینوویف کے گروہ کے حق میں۔

گرامچی کو جیل میں بھی اس حقیقت کا پتہ تھا اور اس نے بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی جیت کو غیرمبہم انداز میں سراہا۔ جیل میں 1932ء کے بعد لکھے گئے اپنے مضمون “پیداوار اور محنت کی معقولیت” میں گرامچی یہ کہتا ہے: “اس کے (ٹراٹسکی کے) رجحان سے متعلق تمام مسائل کو عمومی نقطہ نظرسے دیکھا جائے تو یہ (رجحان) لازمی طور پر بوناپارٹزم کی ایک شکل کا باعث بنتا: اس لیے اس کے رجحان کو کچلنا ناگزیر تھا۔ اس کے خدشات درست تھے لیکن اس کے عملی حل بڑی حد تک غلط تھے… پیداوار اور محنت کی تنظیم میں بالواسطہ اور بلاواسطہ جبر کا اصول درست ہے؛ لیکن اس نے جو شکل اختیار کی، وہ غلط تھی۔ فوجی ماڈل اس کے لیے ایک تباہ کن تعصب بن گیا تھا۔(25)”

یہ واضح ہے کہ ٹراٹسکی کے گروہ کو کچلنے کی ضرورت کا دفاع کرتے ہوئے گرامچی 1926ء میں اسٹالن، بخارین، رائیکوف، ڈرزنسکی، ٹامسکی، ووروشیلوف، اورجونکدزے، کالینن، مولوٹوف، کاگانووچ، مالینکوف، بدینوف، زادنوف، میکویان، اوردوسرے پرانے بالشویکوں کی قیادت میں پارٹی کی اکثریت کا دفاع کر رہا ہے۔ 1927ء میں ٹراٹسکی، زینوویف اور کامینیف کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ دو سال بعد بخارین، رائیکوف اور ٹامسکی کو ملک کی سیاسی قیادت سے ہٹا دیا گیا۔

گرامچی نے ہمیشہ اس اکثریت کی حمایت کی جسے اسٹالن نے محوری مرکزے کے طور پر ڈھالا۔ “بین الاقوامیت اور قومی پالیسی” کے عنوان سے جیل سے لکھے گئے اپنے مضمون میں گرامچی اسٹالن کے موقف کی حمایت کرتا ہے، جسے وہ خفیہ الفاظ میں “گسیپی بیساریون” کہتا ہے جو اس سرکردہ کامریڈ کے اصل نام “جوزف ویساریانووچ” کا اطالوی ترجمہ ہے، تاکہ وہ سنسر کو چکمہ دے سکے۔ گرامچی بین الاقوامی اور قومی کے درمیان جدلیاتی اتحاد پر اصرار کرتا ہے۔ ٹراٹسکی کے موقف کے خلاف، وہ محنت کش طبقے کی حکمت عملی کے قومی پہلو پر (ایک ملک میں سوشلزم پر) غور کرنے کی اہمیت پر لینن، اسٹالن اور بالشویکوں کا دفاع کرتا ہے، کیونکہ محنت کش طبقہ ایک بین الاقوامی طبقہ بھی ہے۔ اس مضمون میں اپنے استدلال کو اختتام کی جانب لاتے ہوئے وہ ایک بار پھر ٹراٹسکی پر اور اس کے “مستقل انقلاب” کے غلط تصور پر، حملہ کرتا ہے جسے لینن “مضحکہ خیز بائیں بازو(25)” کا نظریہ کہتا تھا، اور کہتا ہے:”پرانے میکانزم کی اس جدید شکل کی نظریاتی کمزوریوں کو مستقل انقلاب کا عمومی نظریہ بے نقاب کر دیتا ہے، جو ایک عام پیشین گوئی کے سوا کچھ نہیں ہے جسے ایک عقیدے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور جو خود کو اس حقیقت سے خود ہی تباہ کر دیتا ہے کہ یہ خؤد کو حقیقت میں ظاہر نہیں کرتا(25)۔”

ٹراٹسکائیوں اور سرمایہ دار طبقے کے لیے یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ اسٹالن کے مضامین نے 1924ء اور 1926ء کے درمیان گرامچی کی پختگی کے عمل پر “گہرا اثر” ڈالا، جیسا کہ اس کے ساتھی ٹوگلیاٹی نے دیکھا تھا(25)۔ ابھی تک انحطاط پذیر نہ ہونے والی اطالوی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور نظریہ دان، ایمیلیو سیرینی، نے گرامچی کی جیل کی ڈائریوں اور سوویت رہنما آندرے زادنوف کے خیالات میں بھی اسی طرح کے مشابہہ عناصر کا مشاہدہ کیا ہے جس کا اظہار الیگزینڈروف کی کتاب “فلسفے کی تاریخ” میں ہوتا ہے(25)۔

فاشسٹ جیلوں میں اس کی خوفناک اسیری کے دوران سوویت یونین نے گرامچی کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑا۔ گرامچی کے بھتیجے، موسیقار انتونیو گرامچی جونیئر نے اپنی کتاب “میرے چچا کا روس” میں انکشاف کیا ہے کہ سوویت یونین کی قیادت گرامچی کی بھابھی تاتیانا شلٹز کو مسلسل فنڈز فراہم کرتی تھی تاکہ اس کی تمام مادی ضروریات پوری ہوں اور وہ گرامچی کی دیکھ بھال جاری رکھ سکے(25)۔ سوویت رہنماؤں نے یہ کوشش بھی کی کہ فاشسٹ قیدیوں کے بدلے گرامچی کا تبادلہ کر کے اسے چھڑا لیں مگر یہ کوشش نتیجہ خیز نہیں ہوئی۔ فرانسیسی کمیونسٹ دانشوروں، ویلنٹ کوٹوریر اور باربوس، نے گرامچی کی آزادی کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی جسے سوویت یونین اورکمیونسٹ انٹرنیشنل کی ہمدردی حاصل تھی۔

اطالوی اخبار، کوریئرڈیلا سیرا، نے 17 جولائی 2003ء کو ایک غیر مطبوعہ خط شائع کیا جو گرامچی کی بیوی اور اس کی بہن کی طرف سے اسٹالن کو بھیجا گیا تھا اور اس میں سوویت یونین سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ گرامچی کی جیل کی ڈائریوں کو شائع کرے۔ اس خط سے پتہ چلتا ہے کہ گرامچی کو عالمی کمیونزم کے سرکردہ نمائندوں کے طور پر اسٹالن اور اس کی پارٹی پر مکمل بھروسہ تھا(25)۔

گرامچی اور ساسیمارو نے ٹراٹسکائی انحراف پسندی کے خلاف، جو کہ محنت کش طبقے کی انقلابی جدوجہد کے لیے نقصان دہ ہے، سیاسی جدوجہد میں بہت زیادہ حصہ ادا کیا ہے۔

(یہ مضمون “انقلابی جمہوریت” ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔)

Taken from: Revolutionary Democracy website: (https://www.revolutionarydemocracy.org/rdv20n2/Gramsci1.htm#5)
Source: Jose Antonio Egido, ¡Manos fuera del camarada Antonio Gramsci! Templando El Acero, 2013.
http:/www.librosml.blogspot.com
Translated from the Spanish by George Gruenthal.
Endnotes:

  1. Roberto Massari, “Trotsky and Gramsci,” In Defense of Marxism, No. 13, July 2006.
  2. Livino Maitan, “The Revolutionary Marxism of Antonio Gramsci,” written in 1987, http://www.lcrlagauche.be/cm/index.php?option=com_content&view=article&Itemid=53&id=738
  3. Written in his 1922 preface of his book 1905.
  4. Notes on Machiavelli, on Politics and on the Modern State, Lautaro, Buenos Aires, 1962, p. 56.
  5. The letter is available in French at http://www.marxists.org/francais/gramsci/works/1922/09/gramsci_090822.htm
  6. “Letter to Togliatti, Terracini and Others,” Antologia, edited by Manuel Sacristan, Siglo XXI, Mexico, 1970, p. 137.
  7. Lenin, “The Historical Meaning of the Inner-Party Struggle in Russia,” Collected Works, Vol. 16.
  8. Lenin, “Disruption of Unity Under Cover of Outcries for Unity,” Collected Works, Vol. 20.
  9. Lenin, “Trotsky’s Diplomacy and a Certain Party Platform,” Collected Works, Vol. 17.
  10. Lenin, “The Break-Up of the ‘August’ Bloc,” Collected Works, Vol. 20.
  11. Gramsci and the Revolution in the West [Gramsci y la Revolucion de Occidente], Maria Antonieta Macchiocchi, Siglo XXI, Mexico, 1976, p. 96.
  12. Antonio Gramsci. The Building of the Communist Party 1922-26 Antonio Gramsci. La construccion del Partido Comunista 1922-1926], Dedalo Editions, Madrid, 1978, p. 119.
  13. See the complete letter at http://www.marxists.org/francais/bordiga/works/1925/02/bordiga_19250208.htm
  14. The Building of the Communist Party, pp. 329-330.
  15. “Letter to the Central Committee of the Communist Party (Bolshevik) of the Soviet Union,” October 14, 1926, Antologia, op. cit., pp. 200-207.
  16. Gramsci and the Revolution in the West, op. cit., p. 334.
  17. In a report published by L ’Unita on February 24, 1926, Antonio Gramsci, The Building of the Communist Party… op. cit. , p. 152.
  18. Livio Maitan, “The Revolutionary Marxism of Antonio Gramsci” [“Le marxisme revolutionaire de Antonio Gramsci”], written in 1987, http://www.lcr-lagauche.be/cm/index.php?option=com_content&view=article&Itemid=53&id=738
  19. Antologia, p. 284.
  20. “Antonio Labriola,” Antologia, p. 382.
  21. Notes on Machiavelli…, op. cit., p. 300 and 301
  22. Palmiro Togliatti, Gramsci, Riuniti, 1967, Rome, p. 36.
  23. Chris Harman, “Antonio Gramsci: Anti-Capitalist Leader,” http://www.enlucha.org/site/?q=node/15832
  24. “The Revolutionary Marxism…”, op. cit.
  25. Claudio Villa “Antonio Gramsci and the Italian Revolution”, Frederick Engels Foundation, http://www.fundacionfedericoengels.org/index.php?option=com_content&view=article&id=149:antonio-gramsci-y-la-revolucion-italiana&catid=49:marxismo-hoyno11&Itemid=101

Leave a Comment