مضامینِ سبطِ حسن: انسان جو خدا بن گئے (دوسرا حصہ)

لیکن مصر کے فراعنہ اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں دیوتا اور دیوتا کی اولاد خیال کرتے تھے۔ چنانچہ ایک شاہی رسم کے مطابق شادی کے بعد فرعون کی ملکہ خدائے مصر آمون رع کے مندر میں جاتی تھی۔ اور آمون کی خواب گاہ میں رات بسر کرتی تھی اور آمون رع فرعون کے بھیس میں خواب گاہ میں آتا تھا اور ملکہ کے ساتھ مباشرت کرتا تھا۔ یہ رسم اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک ملکہ واقعی حاملہ نہ ہوجاتی (اس مباشرت کا منظر دیر البحری اور لکسر کے قدیم معبدوں میں دیواروں پر بڑی چابکدستی سے کندہ کیا گیا ہے۔ اوراس کی رنگین تصویریں بھی بنائی گئی ہیں۔ (تصویروں کے اندر حیرو غلافی خطوط میں اس منظرکی تفصیل بھی لکھ دی ہے۔)

اسی بنا پر مصر کے بادشاہ آمون رع کے اوتار تصور ہوتے تھے اور ان کی ذات اتنی ہی واجب الاحترام اور سزا وار اطاعت و ستائش تھی جتنی آمون رع کی۔ مصری عقیدے میں بادشاہ کبھی مرتا نہ تھا بلکہ آمون رع کے پاس چلا جاتا تھا۔ اس عقیدے کے سیاسی مقاصد اور محرکات تو معمولی عقل کے انسان کی بھی سمجھ میں آسکتے تھے۔ لیکن ہماری بحث کا موضوع ملوکیت کے روحانی حربے نہیں ہیں بلکہ ہم تو یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ لوگوں میں دیوتاؤں اور خداؤں کا تصور کب، کیوں اور کیسے پیدا ہوا۔

پچھلے باب میں عرض کیا جا چکا ہے کہ زراعت عورتوں کی ایجاد ہے۔ چنانچہ زراعت کے ابتدائی دورمیں ہرجگہ اموی نظام قائم تھا۔ اور یہی وجہ ہےکہ زرعی پیداوار کی افزائش کی تمام ساحرانہ رسمیں جگ ماتا یا مادر ارض کی مورتیوں کے گرد گھومتی ہیں۔ لیکن جب انسان نے بھاری بھاری ہل ایجاد کئے تو اموی نظام کے لئے اجل کا پیغام آگیا۔ کیونکہ ہل اور بیل کی مدد سے کاشتکاری کے لئے جس جسمانی قوت کی ضرورت تھی وہ فقط مردوں کو حاصل تھی۔ ہل کے ذریعہ کھیتی باڑی کرنے سے زرعی پیداوار کئی گنا بڑھ گئی۔ اور فاضل پیداوار کی خرید و فروخت کا رواج پڑا۔ پیداوار اور تجارتی لین دین میں جس نسبت سے اضافہ ہوتا گیا، عورت کا اثر و اقتدار معاشرے میں اسی نسبت سے گھٹتا گیا۔ یہاں تک کہ دنیا کے اکثربیشتر خطوں میں اموی نظام قریب قریب معدوم ہو گیا اور اس کی جگہ ابوی نظام نے فروغ پایا۔

اس سماجی انقلاب کا اثر زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی پڑا۔ مثلا ًاموی نظام میں سحر کی تمام رسمیں عورتیں ادا کرتی تھیں لیکن ابوی نظام کے تسلط کے بعد سحر کا سارا کاروبار عورتوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ عہد ماضی کی یاد تازہ کرنے کے لئے اگرچہ اکا دکا جادوگرنیاں ابوی نظام میں بھی باقی رہیں لیکن اب ان کی حیثیت بالکل ثانوی تھی۔ یہ بتانا تو مشکل ہے کہ وادی دجلہ و فرات میں اموی نظام کی جگہ ابوی نظام کب رائج ہوا۔ البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اموی نظام وہاں شہری ریاستوں کے وجود میں آنے سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔

یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ انسان کے ذہن نے دیوتاؤں کی تخلیق ابوی نظام ہی کے زمانے میں کی، خواہ یہ ابوی نظام گیاہستانی اور گلہ بانی کے دور کا ہو (آریاؤں کے دیوتا) یا ہل اور کانسے کی تہذیب کے دورکا (مصر، عراق وغیرہ) البتہ یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ انسانی معاشرے کو ان دیوتاؤں کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اور ذہنی شعور کی کس منزل پر پہنچ کر انسان نے اس ضرورت کو محسوس کیا۔

ان سوالوں کے جوا ب میں علماء آثار قدماء کے انداز فکر سے استدلال کرتے ہیں۔ چنانچہ پروفیسر فرینک فرٹ اور جیکب سن نے اپنی تصنیف فلسفے سے پہلے (BEFORE PHILOSOPHY) میں قدماء کے انداز فکر کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ لوگ قدرت کے تمام مظاہر کو فعال اور صاحب ارادہ شخصیتیں تصور کرتے تھے۔ ان کے نزدیک بعض شخصیتیں بڑی مشفق اور مہربان تھیں جیسے زمین سورج اور چاند کی شخصیتیں۔ بعض شخصیتیں بڑی طاقتور تھں۔ جیسے آندھی اور بجلی اور طوفان کی شخصیتیں۔ بعض بڑی پر اسرار اور پیچیدہ تھیں جیسے پانی کی شخصیت کہ خوش ہو تو کھیتیاں لہلائیں اور چراگاہیں سرسبز ہوجائیں اور ناخوش ہوتو پانی کا بہاؤ انسانوں، فصلوں اور مویشیوں سب کو فنا کر دے بعض شخصیتیں بڑی ڈراؤنی تھیں جیسے بیماری اور موت کی شخصیتیں۔

قدیم انسان ان شخصیتوں کے لئے دیوتا کی اصطلاح استعمال کرتا تھا مگر وہ ان دیوتاؤں کو فوق الفطرت یا ماورائے حقیقت نہیں سمجھتا تھا بلکہ اس نے توان دیوتاؤں کو انسانی شکلیں، صورتیں، عادتیں اور خصلتیں بھی عطا کردی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ یہ دیوی اور دیوتا انسان کے مانند کھاتے پیتے اور آرام کرتے ہیں۔ انسانوں ہی کی مانند ان کی شادی ہوتی تھی اور انسانوں کی مانند وہ اولاد پیدا کرتے ہیں۔ یہ دیوی دیوتا عشق کی لذتوں اور ہوس کی بے شرمیوں سے بھی آشنا تھے۔ ان سے نیکیاں بھی سرزد ہوتی تھیں اور بدیاں بھی۔ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی تھے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں بھی کرتے رہتےتھے۔ اور روتے بھی تھے اور غصہ بھی کرتے تھے۔ بیماریاں انہیں بھی ستاتی تھیں اور لافانی ہونے کے باوجود کبھی کبھی ملکہ ظلمات کا دست دراز انہیں بھی موت کے مزے چکھا دیا کرتا تھا۔

غرض کہ ان دیوتاؤں کا رہن سہن انسانی معاشرے کا پرتو تھا۔ اسی بنا پر یونان کے مشہور مورخ زینو فون (430۔ 355 ق۔ م) نے مزاحیہ انداز میں کہا تھا کہ اگر گھوڑے، بیل اور شیر بھی دیوتاؤں کو مانتے ہوتے تو ان کے دیوتاؤں کی شکلیں اور خصلتیں گھوڑے بیل اور شیر سے مشابہ ہوتیں اور ارسطو نے اپنی کتاب ’’سیاسیاست‘‘ میں لکھا تھا کہ انسان فقط اپنے دیوتاؤں کی شکلوں کا قیاس اپنی شکلوں سے نہیں کرتا بلکہ ان کی زندگی کے طور طریقوں کو بھی اپنا جیسا سمجھتا ہے۔

مگر بعض علماء عمرانیات (ہربرٹ اسپنسر اور گرانٹ ایلن وغیرہ) اس نظریے کو نہیں مانتے اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ مظاہر قدرت کی دیوی دیوتا کا روپ دینے کے لئے جو ذہنی شعور درکار ہوتا ہے ابتدائی انسان ا سے محروم تھا۔ وہ اگر شعور رکھتا تھا تو فقط اپنے اسلاف کا۔ وہ اسلام ہی کے حقیقی اور فرضی کارناموں سے واقف تھا۔ اور ان کو یاد کرتا رہتا تھا۔ امتداد زمانہ کے ساتھ ان اسلاف کی اصلی شخصیتیں روایتوں کے انبار تلے دب گئیں۔ رفتہ رفتہ حقیقت پرخرافات کی اتنی تہیں جم گئیں کہ لوگ اسلاف کی اصل شخصیتوں کو بھول گئے اور افسانوی شخصیتوں کو دیوتا سمجھ کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ اگرکسی شخص کے کارنامے قبیلے تک محدود رہے تو وہ قبیلے کا دیوتا کہلایا۔ اگر کسی شخص کو قومی قورما کا رتبہ نصیب ہوا تو وہ پوری قوم کا دیوتا قرار پایا۔ اور اگر اس کے کارناموں نے پورے ملک کی زندگی کو متاثر کیا تو وہ پورے ملک کا دیوتا تسلیم کر لیا گیا۔

ان عالموں نے قدیم مصر، یونان، چین، رومۃ الکبری اور ہندوستان کی تاریخوں سے اسلاف پرستی کی بہ کثرت شہادتیں پیش کی ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح بعض نامور بادشاہوں یا ہیرؤں کو ان کے مرنے کے بعد دیوتا کا مرتبہ حاصل ہوا۔ مثلا رگ وید کا سب سے بڑا دیوتا اندر در اصل ان آریہ قبیلوں کا ہیرو تھا جنہوں نے وادی سندھ کی تہذیب کو تاراج کیا۔ اسی طرح رام چندر اور رام کرشن مہاراج وادی گنگ وجمن کے قدیم ہیرو تھے جن کو دیوتا کا رتبہ مل گیا۔ ان دانشوروں نے دورحاضر کی ان پسماندہ قوموں کی اسلاف پرستی کی بھی بہ کثرت مثالیں دی ہیں جو اب تک ہر مرنے والے کو دیوتا سمجھتی ہیں۔ اور فقط انہیں کی پرستش کرتی ہیں۔ ہربرٹ اسپنسر نے تو اپنے دعوے میں یہاں تک مبالغہ کرتا ہے کہ تمام دیوی دیوتا خواہ وہ مصر کے ہوں یا چین اور یونان کے عراق کے ہوں یا ہندوستان اور میکسیکو کے۔ ابتدا میں در اصل ناموراسلاف ہی تھے۔

دانایان آثار و عمرانیات نے دیوتاؤں کے ضمن میں خدائے واحد کے تصور سے بھی بحث کی ہے۔ وہ علماء مذہب کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے کہ ابتدائی انسان ایک خدا کو مانتا تھا اور اسی کی عبادت کرتا تھا۔ یا یہ کہ شرک کی بدعتیں وحدانیت کے نمودار ہوئیں۔ تب وحدانیت کی تبلیغ کرنے والے پیغمبرآئے اور انہوں نے وحدانیت کو شرک کے بتوں سے پاک صاف کیا۔ علماء عمرانیات کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوسکے کہ انسان ابتداہی سے وحدانیت پرست تھا۔ یہ تو درست ہے کہ شرک اور بت پرستی کا قلع قمع خدائے واحد پر ایمان لانے والے مذاہب نے کیا لیکن اس کی کوئی شہادتیں نہیں ملتی کہ ابتدائی انسان بھی موحد تھا۔

گرانٹ ایلن نے تو یہودیوں کے خدائے واحد یہواہ سے بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ یہودی حضرت موسی کے بعث کے سیکڑوں برس بعد تک متعدد مقامی اور قومی دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے اور ان کا خدائے واحد کا تصور پانچویں چھٹی صدی قبل مسیح سے پہلے مکمل نہیں ہوا تھا۔ لیکن خدائے واحد کی بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے کیونکہ دجلہ و فرات یا نیل کی وادی میں بسنے والی پرانی قومیں خدائے واحد کے تصور سے کبھی آشنا نہیں ہوئیں۔ مصر کے فقط ایک فرعون۔۔۔ احناطون۔۔۔ (1375ء۔ 358ءق۔ م) نے وحدانیت کا سکہ بٹھانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ وحدانیت بھی سورج دیوتا اطون کی تھی اور پروہتوں نے اس کوشش کو بھی ناکام بنا دیا تھا۔

Leave a Comment