کثیرالجہتی: چینی سامراج کی خارجہ پالیسی کا اہم آلہ

کثیرالجہتی: چینی سامراج کی خارجہ پالیسی کا اہم آلہ

چینی ترمیم پسندوں نے 1986ء سے “کثیرالجہتی سفارت (ملٹی لیٹرل ڈپلومیسی)” کو اپنی خارجہ پالیسی کے ایک لازمی حصے کے طور پراستعمال کیا ہے۔

چین کے سیاسی بیانیے میں کثیرالجہتی کا موضوع ساتویں پنج سالہ منصوبے (1986-1990) کے آغاز کے موقعے پرحکومتی کارکردگی کے بارے میں ‘ژاوزی یانگ’ کی رپورٹ کے ساتھ سرکاری طورپرسامنے آیا ۔ 1980ء کی دہائی میں سرمایہ دارانہ “اصلاحات” اورمارکیٹ کے لیے کھل جانا وہ اسباب تھے جو چین کو کثیرالجہتی اداروں اور بڑھتی ہوئی سفارتی سرگرمیوں کی جانب لے گئے۔

کثیرالجہتی کی جانب چین کی “منتقلی” 1990ء کی دہائی میں بین الاقوامی تنظیموں اوراداروں میں اس کی بڑھتی ہوئی شمولیت کے زریعے ہوئی جن میں معاشی نوعیت کی تنظیمیں اورادارےخصوصی اہمیت رکھتے تھے۔دراصل، چین کی نئی حکمت عملی کو متعدد کثیرالجہتی اداروں میں وسیع اورمتنوع شمولیت کی ضرورت تھی تاکہ چین بین الاقوامی مذمت اورعلیحدگی سے بچ سکے۔اس طرح، بین الاقوامی سرمایہ دارانہ مارکیٹ سےاپنے بڑھتے ہوئے ربط کے ساتھ، چین سامراجی جال میں پھنستا چلا گیا اوراس کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔

یہ حکمتِ عملی ٹیانن من اسکوائر(1989ء) کے واقعات کے بعد مرتب ہوئی۔ اس کا مقصد ایک “ذمہ دارطاقت” کی تصویر کشی کرنا تھا اورعالمی نظام کو اس طرح سے بدلنا تھا جو ابھرتی ہوئی چینی عالمی طاقت کے لیے مفید ہو۔بعد کے سالوں میں چینی اژدھے کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت نے بیجنگ کو اس قابل بنایا کہ وہ سفارتکاری اورخارجہ پالیسی میں زیادہ سے زیادہ سرگرمی دکھائے۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کی پندرہویں کانگریس (1997ء) سے اس کے ترمیم پسند رہنما عملیت پسندی (پراگمٹزم) کے نام پر”کثیرالجہتی” کو سرکاری طور پراختیار کرچکے ہیں اوراپنے بین الاقوامی امور ، تعلقات اورمنصوبوں میں اسے رہنما اصول اورآلہ کارکا درجہ دے چکے ہیں۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کی سولہویں کانگریس (2002ء) میں کثیرالجہتی کے نکات کی مزید تشریح کی گئی تاکہ بین الاقوامی امور میں سرگرمیوں کو وسیع کیا جائے اورچین کو امریکہ کی عالمی طاقت کا مقابلہ کرنے والی قوت کی حیثیت سے تسلیم کروایا جائے۔

اسی کے ساتھ چین کے لیے کثیرالجہتی ایک بنیادی ضرورت بن گئی ہے تاکہ وہ طویل المعیاد ترقی، سیاسی استحکام،اورسماجی امن کو چین میں اوراس کی سرحدوں پر یقینی بنا سکے۔

:چینی کثیرالجہتی کا ارتقاء

حالیہ دہائیوں میں معاشی اورثقافتی تنزلی میں مبتلا امریکہ اورابھرتے ہوئے چین کے درمیان (جو معاشی طور پرامریکہ کو کچھ سالوں میں پیچھے چھوڑ دے گا؛ فوجی طور پروہ مستقل مضبوط ہورہا ہے) عالمی غلبہ حاصل کرنے کی جدوجہد کے ارتقاءنے بیجنگ میں ترمیم پسند قیادت کے ہاتھوں کثیرالجہتی کے عملیت پسندانہ استعمال کو ازسرنو مرتب کیا ہے۔

نتیجتا، اپنی خصوصیات کے ساتھ، چینی کثیرالجہتی اپنی اجارہ دارکمپنیوں اور غالب گروہوں کے دباؤ کے تحت مسلسل ارتقا پذیر ہے۔ یہ اجارہ دارکمپنیاں اورغالب گروہ اپنی معاشی طاقت کو سیاسی-فوجی طاقت میں بدلنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کی تقسیم نو کرنے کی لڑائی میں اپنے لیے زیادہ حصہ حاصل کر سکیں۔

چین کی کثیرالجہتی سیاست پہلے ایک ایسے تصور پر قائم تھی جو اہم ایشیائی خطے پر مرکوز تھا (جیسے کہ ایپک، شنگھائی تعاون تنظیم، آسیان ملکوں کے ساتھ آزاد تجارتی علاقے کی تخلیق، بوآؤ فورم، جنوبی کوریا پر چھ قومی مذاکرات، بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ (BRI) جیسے نہایت بڑے منصوبوں کی امداد کے لیے ایشین انویسٹمنٹ بینک کا قیام، برکس(BRICS) ممالک کے درمیان تعاون، اوروہ بہت سے منصوبے جو چین کی معاشی قوت کے لیے بہت مفید ہیں، اس رجحان کی مثالیں ہیں)۔ اب یہ تصور ان امنگوں پر مبنی ہے جو وسیع البنیاد ہیں اور عالمی اداروں اورروایتی سامراجی رہنما ملکوں سے متعلق ہیں (جیسے کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن(WTO)، جی-20، جن میں چین ایک رکن ریاست ہے، اورجی-8 جس میں اس کی مبصر کی حیثیت ہے)۔ اقوام متحدہ میں بھی چین نے “امن مشن” میں شراکت داری بڑھا دی ہے اوردرجنوں ملکوں میں (مثلا، افغانستان، ہیٹی، کوسووو، لبنان، لائبیریا، سوڈان وغیرہ میں) یہ اپنی فوج بھیجتا ہے۔

چنانچہ، کثیرالجہتی کی پالیسی چین کی سریع ترقی کے عزائم جاری رکھنے کے لیے اورچند دہائیوں میں ایک ایسانیا بین الاقوامی نظام تشکیل دینے کے لیے مرکزی عنصر بن گئی ہے جس میں چین اپنی حدود میں مزید محدود رہنے کے بجائے ایک فیصلہ کن اور غالب مقام رکھتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی علیحدگی پسندی اورامریکی کثیرالجہتی کے بحران کے اضافے نے سامراجی چین کو نئے تذویراتی مواقع فراہم کیے ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر وہ دفاع پرستی (پروٹیکشن ازم)کے خلاف بذات خود”مشترکہ” معاشی عالمگیریت کی، بین الاقوامی نظام اورکثیرالجہتی ڈھانچے کی ،وکالت کرسکتا ہے۔

یقینا، چین نے انہی بین الاقوامی تنظیموں کا سہارا لے کر امریکہ سے مخاصمت پیدا کی ہے جسے خود امریکی چلاتے آئے ہیں، لیکن اسی دوران اس نے ان تنظیموں میں طاقت کے توازن کو بدلنے کے لیے ان روایات اور معاہدوں کی بیخ کنی کے لیے کام کیا ہے جو کہ اس وقت بائیڈن کی قیادت میں امریکہ کے مفاد میں استعمال ہوتے ہیں۔

چین کی کثیرالجہتی کا تصور اور عمل امریکہ کی قیادت میں کام کرنے والی مغربی طاقتوں اوران ابھرتی ہوئی درمیانی اوربڑی طاقتوں (برکس ممالک اور دوسری سرمایہ دارریاستیں) کے درمیان مفادات اوراقدار کی لڑائی میں ارتقا پذیر ہوئے ہیں جو امریکہ کے حلقہ اثر سے نکلنا چاہتی ہیں اوربین الاقوامی ڈھانچے میں اپنے بڑھتے ہوئے معاشی، سیاسی اور فوجی وزن کے لیے مناسب مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

چنانچہ ، چینی کثیرالجہتی کی پالیسی اس دباؤ کو توڑ کرآگے بڑھنا چاہتی ہے جو بین الاقوامی تعلقات کے موجودہ نظام کو ہلا رہا ہے؛ اس کی بیان بازی و لفاظی اس لڑائی کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے جو سامراجی طاقتوں کے درمیان جاری ہے اور اس کے سفارتی نقاب کے پیچھے دراصل اتحادی تلاش کرنے کی پرانی حکمت عملی ہی ہے۔

:چینی کثیرالجہتی کا موجودہ مرحلہ

شی جن پنگ کے 2013ء میں اقتدار میں آنے کے ساتھ چینی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہوئی ہے ۔ بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ اس کا ایک واضح اظہارہے۔ چینی کثیر الجہتی کا موجودہ مرحلہ ،جوپہلے سے زیادہ سرگرم اورپرعزم ہے، اس کا اظہار شی جن پنگ نے 2021ء میں ورلڈ اکنامک فورم کے دوران کیا، جس میں اس نے غلبہ پرستی اور یکطرفہ پن پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عالمی حکومت کا ایک باہمی متفقہ نظام ہونا چاہیے جوعالمی مشاورت اورعالمی قواعد پر مبنی ہو، یعنی ایک ایسی یوٹوپیائی(خیالی) سامراجی دنیا جس میں اختلافات “مخاصمت اور محاذ آرائی کا بہانہ نہ ہوں بلکہ تعاون کے لیے فائدہ مند مواقع بنیں”۔

چینی پروپیگنڈہ اس کھوکھلی لفاظی پر مبنی ہے کہ امریکی قیادت میں جنگ کے بعد کا پرانا عالمی نظام اورزیادہ غیرمستحکم وناپائیدار ہوگیا ہے جبکہ عالمی ترقی کا رجحان عالمگیریت اور کثیر قطبی (بائی پولر) دنیا کے قیام کی جانب گامزن ہے۔ چنانچہ، (چینی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں کانگریس میں شی جن پنگ کی تقریر کے مطابق) “انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ انسانی برادری کی ترقی” کی کوشش کی جا رہی ہے جسے لبرل-جمہوری اداروں کی اصلاح کے زریعے ایک ایساماحول پیدا کر کے حاصل کیا جائے گا جو چینی سامراج کے عزائم اورمفادات کے لیے سازگار ہو۔

تاہم، سرکاری بیانیے کے باوجود، چینی خصوصیات کی حامل “سچی کثیر الجہتی” غلبہ پرستی کے خلاف جدوجہد کا تذویراتی اور موقع پرست حصہ ہے۔

چین اورامریکہ اپنے بین الاقوامی غلبے کو بڑھانے کے لیے مستقل کوشش کر رہے ہیں۔ جنوبی چینی سمندر میں اورتائیوان پر تضاد بڑھ رہا ہے۔ البتہ دونوں عالمی طاقتیں اس وقت براہ راست جنگ نہیں کرنا چاہتیں (چین کو خود کو مضبوط کرنے کے لیے وقت درکار ہے؛ اس دوران اسے دوسرے خطوں میں مسلح تنازعات میں دلچسپی ہے)۔ یہ جدوجہد ان کثیر الجہتی اداروں میں بھی بڑھ رہی ہے جن میں چین پرعزم انداز سے اپنے فیصلہ کن مفادات کا دفاع کررہا ہے۔

گزشتہ بیس سالوں میں نمودار ہونے والی اس چینی کثیرالجہتی کو لازمی طور پر “کثیرقطبی دنیا” کی بحث کے ساتھ جوڑ کرسمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ دونوں چیزیں چین کے غلبے اوراثرورسوخ کو خصوصا ترقی پذیر ملکوں میں بڑھانے کی اس حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کے زریعے چین کی تصویر کشی ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پر کی جا سکے۔

کثیرالجہتی کے ذریعے چین خطے میں اورعلاقائی سطح پر بتدریج طاقت حاصل کرکے دوطرفہ معاہدوں کے زریعے افریقہ، ایشیاء اور جنوبی امریکہ کے منحصر ملکوں میں اپناسرمایہ داخل کررہا ہے اور اسی دوران ایک ایسا عالمی سیاسی ڈھانچہ قائم کرنے میں مصروف ہے جو اس کے تذویراتی مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔

جائز، شفاف، جمہوری سفارتی تعلقات ، اور “باہمی فائدے”، “باہمی مفید تعاون ” وغیرہ کے دھوکے باز پروپیگنڈہ کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ علاقائی اور بین الاقوامی اداروں پرمبنی مقابلے بازی کا ایک ایسا مخصوص “کثیرقطبی(بائی پولر)” ماڈل نمودار ہو رہا ہے جو ایک دوسرے کو چیلنج کرنے والی دو بڑی سامراجی طاقتوں، امریکہ اورچین، پر منحصر ہے: اول الذکر سامراجی طاقت(امریکہ) اپنے عالمی غلبے کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، اوردوسری طاقت اسے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ مرتے ہوئے سامراجی نظام کے اندربالادستی حاصل کرنے کے لیے جاری بین الاسامراجی (سامراجی طاقتوں کے مابین) جدوجہد ہے۔

:کثیرالجہتی کا طبقاتی تصور

انقلابی طبقے کے نقطہ نظر سے وہ “کثیر الجہتی” کیا ہے جسے چینی ترمیم پسندوں اوران کے مقلد وں کی حمایت حاصل ہے؟

کثیرالجہتی (اور کثیر قطبی دنیا) کے نظریے کی جڑمیں دراصل کارل کاؤتسکی کا “ماورائے سامراجیت(الٹراامپریلزم)” کا رجعتی نظریہ ہے ۔ یہ نظریہ محنت کش عوام کو یہ امید رکھنے کا دھوکہ دیتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں مستقل اورپائیدار امن ممکن ہے (یعنی، سرمایہ دار طاقتیں محکوم ملکوں میں اپنے حلقہ اثر کو پرامن اندا زمیں،،جنگ اورلڑائی کے بغیر، تقسیم کرسکتی ہیں)۔ یہ نظریہ سامراجی ملکوں کے مابین موجود گہرے دائمی تضادوں کو چھپاتا ہے تاکہ یہ تاثر پیدا کر سکے کہ سرمایہ دارانہ نظام سامراجیت کو کامل بناتا ہے اوراس کے ساتھ جڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

چین کی کثیر الجہتی ان “پانچ اصولوں” کے مزید ارتقا کو ظاہر کرتی ہے جو”پرامن بقائے باہمی” کی تشہیر کے لیے چینی رہنما ‘چو این لائی’ نے 1954ء میں پیش کیے تھے۔ ان اصولوں نے مزدور بین الاقوامیت کے اصولوں کو مکمل طور پر بے دخل کردیا ہے اور ان کی جگہ ظالموں اورمظلوموں کی پرامن بقائے باہمی، استحصال زدہ لوگوں اوراستحصال کرنے والوں کی پرامن بقائے باہمی، انقلابی جدوجہد سے انکار، فاشسٹ اوررجعتی حکومتوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے(چلی میں فوجی آمر پنوشے ، اسپین میں فوجی آمرفرانکو، انگولا میں رجعتی فرقوں، افغانستان میں طالبان، وغیرہ)، اور آزاد عالمی منڈی کی حوصلہ افزائی وغیرہ کے اصولوں کو دے دی ہے۔

مزید برآں، چینی کثیر الجہتی “تین دنیاؤں” کے رجعتی اور ردمارکسی نظریے کو برقرار رکھتی ہے اوراسے گہرا کرتی ہے۔”تین دنیاؤں” کا (ماؤاسٹ) نظریہ مزدور اورسرمایہ دار کےدرمیان تضادات کا ازالہ کرنے، انقلاب میں مزدور طبقے کے قائدانہ کردار کو ختم کرنے، سامراجی ظلم کے خلاف طبقاتی جدوجہد اور قومی آزادی کی تحریکوں کا گلا گھونٹنے وغیرہ کے لیے تشکیل دیا گیا تھا تاکہ ترمیم پسند سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں امریکی سامراج کا تعاون حاصل کیا جاسکے اورچین کو “تیسری دنیا” کا تحفظ کرنے والی بنیادی طاقت کے طور پر پیش کرکے اسے تیسری دنیا کا قائد قرار دیا جا سکے۔

کثیرالجہتی کا نظریہ ان تصورات اورفعلیتوں پر مبنی ہےجو لبرل (سرمایہ دارانہ) بین الاقوامی نظام کے قانونی اورسیاسی فلسفے کی عکاسی کرتے ہیں۔چنانچہ، کثیر الجہتی کا نظریہ دنیا اورسماج کے بارے میں مارکسی –لیننی نقطہ نظر کے مکمل خلاف ہے۔

امریکہ کی قیادت میں جدید کثیرالجہتی کی بنیادیں 1944ء میں بریٹن ووڈز انسٹیٹیوٹ میں رکھی گئیں اوراس کے ساتھ اہم بین الاقوامی تنظیموں کا قیام عمل میں آیا جن میں اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی آیم ایف، جیسے ادارے قائم کیے گئے جو منحصر، نیم مقبوضہ اور مقبوضہ ملکوں اورلوگوں کے استحصال کو مستحکم کرنے کے لیے تھے۔

ماؤزے تنگ کے چین نے جب سے سوویت یونین کو اپنا بنیادی دشمن قرار دے کرامریکی سامراج کی جانب بڑھنا شروع کیا تب سے ہی اس نے سامراجی سیاسی شکار کے کئی ہتھکنڈوں کی حمایت کرنا یا ان میں شرکت کرنا شروع کردی۔

کثیر الجہتی کی بنیاد میں طبقاتی مصالحت، طبقاتی جدوجہد کو فراموش کرنا، مزدور طبقے اورمظلوم لوگوں کودلکش ترغیبوں کے ساتھ دھوکہ دینا شامل ہیں۔بین الاقوامی تبدیلیوں کے مرحلے کے دوران “مناسب حل تلاش کرنے” کی دھوکے باز لفاظی کے نقاب میں کثیر الجہتی ظالم اورمظلوم طبقوں کے درمیان، استحصال کرنے والوں اوراستحصال کا شکار ملکوں اورقوموں کے درمیان اتحاد اورسماجی امن کی تبلیغ کرتی ہے۔

سماجی تفریق کے بارے میں مارکسی-لیننی تصور طبقاتی نظریے اور طبقاتی جدوجہد پر مبنی ہے جو مزدور طبقے کی آمریت کو تسلیم کرنے تک جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کثیر الجہتی، ریاستوں کے مابین تعلقات، یا حکمران طبقوں کی آمریت کے نظاموں پر مبنی ہے جن کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی تضادات ناقابل مصالحت ہیں۔

کثیر الجہتی کی حمایت کرکے چینی ترمیم پسند طبقاتی تضادات کی موجودگی کے معروضی کردار کا انکار کرتے ہیں(اوراس کی شروعات وہ چین سے کرتے ہیں)؛ وہ متضاد طبقوں کی مصالحت کی کوشش کرتے ہیں؛ وہ اس خیال کو پروان چڑھاتے ہیں کہ سامراج اورسرمایہ داری دنیا میں امن اور ترقی کے عناصر ہیں۔

پیکنگ کے ترمیم پسندوں کے لیے، جنہوں نے کئی دہائیوں سے طبقوں اورطبقاتی جدوجہد کے انقلابی نظریے کے جوہر کو سرمایہ دارانہ تصورات اورافعال سے بدل دیا ہے، محنت کش عوام ،طبقے، تاریخی عمل اورفعلیت کا موضوع نہیں ؛ طبقاتی جدوجہد متضاد طبقوں پر مبنی سماج کی ترقی کی محرک قوت نہیں ہے۔

ان کا یہ نقطہ نظر اتفاقی نہیں ہے: وہ ہر ذریعے سے مزدور طبقے اورعوام کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ طبقاتی تضادات اور سرمایہ دار اورسامراجی طاقتوں کے درمیان تضادات سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں، کہ موجودہ اہم مسائل کے حل کو لازما حکمران طبقوں کے درمیان بہتر اورباہمی تعاون میں، سامراجی سرمایہ داروں کے ساتھ اتحاد و اشتراک میں تلاش کرنے اورسمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

کثیرالجہتی، سرمایہ دارانہ نظام کے سماجی پیداواری رشتوں پر سوال نہیں اٹھاتی، جو اس وقت چین میں غلبہ حاصل کیے ہوئے ہیں، بلکہ ان کا دفاع کرتی ہے۔ چنانچہ،وہ استحصال کرنے والے طبقے کے مفادات کی عکاسی کرتی ہے جو سماجی ترقی کے مطالبوں کے ناگزیر طورپرمخالف ہیں؛ کثیر الجہتی ایک لبرل طریقہ کار ہے جس کا مقصد واضح طور پر یہ ہے کہ مزدور طبقے کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ مظلوم طبقےوالی اپنی حالت کو برقرار رکھے اورسرمایہ دارانہ سیاست کا ایک فرمانبردار آلہ کار بنا رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ، کثیر الجہتی ،مزدور بین الاقوامیت کے اصولوں اورعمل سے واضح انکار ہے جنہیں چینی قوم پرستی اورمحنت کشوں پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ یکجہتی سے بدل دیا جاتا ہے۔ خصوصا، کثیر الجہتی کا مصرف یہ ہے کہ سامراجی ملکوں کے غالب اداروں اورمیکانزم میں منحصر ملکوں کی یکجائی اورہم آہنگی کے عمل کی حمایت کی جائے اوراسے فروغ دیا جائے۔

چینی خارجہ پالیسی اوراقدامات کے ان مخصوص تصورات کے پیچھے اس ایشیائی دیو کی ایسی مالیاتی اشرافیہ ہے جو مجنونانہ انداز سے سرمائے کو بیرون ملک کھپانے کی کوششوں میں مصروف ہے اورہر جگہ اپنا غلبہ قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ ایک ایسی پالیسی ہے جو چینی مزدور طبقے اورمحنت کش عوام کے استحصال کی شدت بڑھائے بغیر اپنے قدم آگے نہیں بڑھا سکتی۔

:سامراجی عزائم کا نقاب اورجنگی تیاری

کئی دہائیوں سے چین نے “انقلابی طاقت” کی لفاظی کو ترک کردیاہے اوراس کی جگہ سرمایہ دارانہ-سامراجی نظام کا دفاع کرنے والی طاقت کا مقام اپنا لیا ہے۔ اس کی بین الاقوامی اورگھریلو پالیسی دونوں کا مقصد استحصالی طبقوں کے اقتدار کو مستحکم کرنا ہے۔

اگر خروشچیفی ترمیم پسندوں نے سامراج کے خلاف جدوجہد کے خاتمے کا اور”عالمی یکجائی اورہم آہنگی” کا اعلان کیا، تو چینی کثیرالجہتی ان چینی سامراجیوں کی بے لگام ہوس کا نقاب ہے جو دنیا پرمعاشی اورسیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے امریکہ کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ نقاب (کثیر الجہتی) خطرناک اندازسے لوگوں کوچینی سامراجیوں کے مقاصد کے بارے میں دھوکے میں رکھتاہے اورمنحصر ملکوں کے حکمران جتھوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

نظریاتی اورسیاسی پہلو سے کثیر الجہتی مزدورطبقے کے مفادات کے اوران سائنسی اصولوں کے قطعی خلاف ہے جو تاریخی ارتقاء کے معروضی رجحان کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ سامراجیت کو قائم رکھنے کا رجحان رکھتی ہے، اس کا تختہ الٹنا نہیں چاہتی تاکہ انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا، ہرطرح کے عوامی جبر کا، خاتمہ نہ ہو پائے۔

چینی ترمیم پسندوں کے خیالات اورنقطہ نظر ردانقلابی ہیں اور مغربی سامراجی اور سرمایہ دار ریاستوں کے ان خیالات سے مطابقت رکھتے ہیں جن کے ذریعے وہ اشتراک اورمسابقت کرتی ہیں۔ لیکن ترمیم پسندوں کی کوششوں کے باوجود،کثیر الجہتی سے طبقاتی تضادات ختم نہیں ہوتے، نہ ہی سامراجی طاقتوں کے درمیان تضادات اورنہ ہی اس سے سامراج اورمظلوم لوگوں کے درمیان تضادات کا خاتمہ ہوتا ہے۔

آج کی سرمایہ دار-سامراجی دنیا اپنے تنازعے میں معروضی طور پر اورزیادہ منقسم ہے۔ یہ حقیقت کہ معاشی اورسیاسی نابرابری کے سبب( نہ کہ خودارادیت اورخودمختاری کے لیے جدوجہد کی وجہ سے، جیسا کہ ترمیم پسند کہتے ہیں) کچھ ملکوں کے ابھرنے اورکچھ ملکوں کے تنزلی میں مبتلا ہوجانے کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا زیادہ محفوظ ہے۔

اس کے برعکس، ترقی میں یہی نابرابری ہے جواسلحے کی نئی دوڑکو، تنازعات اورسامراجی جنگوں کو، ،نیم مقبوضات، مارکیٹوں،خام مال کے وسائل، ٹرانسپورٹ کے راستوں وغیرہ، کی تقسیم نو کوضروری کردیتی ہے۔ کثیر الجہتی کے مباحثے صرف ایسا نقاب ہیں جن کے پیچھےبڑی عالمی طاقتیں لوگوں کو دھوکہ دے کر نئی جنگوں کی تیاریاں کرتی ہیں۔

:نتائج اور مؤقف

کثیر الجہتی کے تصور اورعمل کی کمیونزم کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں۔ اس کا مقصد مزدورطبقے اورلوگوں کو سوشلزم اورانقلاب کی جدوجہد سے بھٹکانا ہے۔

ان تمام لوگوں کے خلاف جدوجہدکرنا جو کثیرالجہتی، “کثیرقطبی دنیا”، سرمایہ دارانہ “بین الاقوامی قانون کے اصولوں” ، بین الاقوامی تعلقات میں طبقاتی مصالحت وغیرہ، کو فروغ دیتے ہیں اوران کادفاع کرتے ہیں، ترمیم پرستی اورموقع پرستی کی تمام قسموں کے خلاف جدوجہد کا اہم پہلو ہے جو بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کو مسلسل سخت نقصان پہنچا رہی ہیں۔

کثیرالجہتی اوراس کے سیاسی اورنظریاتی کردار کی سمجھ بوجھ کی کمی سامراج کوسمجھنے اوربین الاقوامی محاذ پر اس کی سرگرمیوں کے بارے میں کم علمی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو سامراج کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ اورتجزیے کو صرف جارحانہ، فوجی یا کھلی غلبہ پرست خارجہ پالیسی تک محدود کرتے ہیں، جیسے کہ امریکہ کے بارے میں ۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ چین اورروس سامراج مخالف کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ امریکہ سے جھگڑتے ہیں۔ چنانچہ، یہ لوگ چین اورروس کو عوام دوست اورمنحصر ملکوں کی ترقی کی حمایت کرنے والی قوتیں سمجھتے ہیں۔

سامراج ، جو کہ سرمایہ دارای کا اعلی ترین اورآخری مرحلہ ہے، اسےسمجھنے میں یہ سنگین غلطیاں ، جو عام طور پرکثیرقطبی دنیا اورکثیرالجہتی سیاست کے تصورات کی حمایت کرتی ہیں، ناگزیر طورپرروس اورچین جیسی سامراجی طاقتوں کی قوت اورخطرے کا غلط اندازہ لگانے کی جانب لے جاتی ہیں؛ دیگر معاملوں میں یہ غلطیاں سماجی قوم پرستانہ( سوشل شاؤنسٹ )دلیلوں کے تحت سامراجی جنگوں کی وجوہات کو چھپانے یا انہیں جائز قراردینے کا، دوبارہ مسلح ہونے کا،اورامریکہ کی مخالفت کرنے والی سامراجی طاقتوں کو حمایت فراہم کرنے کا زریعہ بنتی ہیں جس سے مزدور وں میں پھوٹ پڑتی ہے اوروہ ایک دوسرے کےخلاف محاذ آرائی کرتے ہیں۔

وہ پارٹیاں اورتنظیمیں جو خود کو کمیونسٹ تسلیم کرتی ہیں مگر یہ سمجھتی ہیں کہ سامراجی طاقتوں کے درمیان تضادات کی شدت کے تناظر میں نئی قسم کی “پرامن بقائے باہمی” ممکن ہے؛ جو “غیرجارحانہ” سامراج کے خواب دیکھتی ہیں،یا یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے جارحانہ پن کی تطہیر کثیرالجہتی کے ذریعے ہوسکتی ہے؛ جو سامراجی طاقتوں کے درمیان”توازن” کے نظریے کی یا نام نہاد”کثیر قطبی” دنیا میں اس حوالے سے “حفاظتی تعمیراتی فنون(سائبر سیکیورٹی)” کی موجودگی کی تبلیغ کرتی ہیں ؛ جو ایک سامراجی طاقت سے لڑنے کے لیے دوسری سامراجی طاقت پر بھروسہ کرتی ہیں،وہ مزدور انقلاب کے نصب العین سے غداری کرتی ہیں اورخود کو سرمایہ داروں کی ماتحت قوت میں بدل دیتی ہیں۔

کمیونسٹ تحریک کا تاریخی تجربہ یہ دکھاتا ہے کہ وہ قوتیں جو مارکسزم-لیننزم کی حمایت کرتی ہیں اوروہ جو موقع پرست اورترمیم پسند نظریات ، حکمت عملیوں اورسرگرمیوں کی حمایت کرتی ہیں ؛ انقلاب اورمزدورآمریت کے لیے لڑنے والوں میں اورکثیر الجہتی ، سماجی امن اورجھوٹی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی حمایت کرنے والوں کے بیچ کوئی “درمیانی” لکیر یا راستہ ممکن نہیں۔

قطعی مختلف اورمخالف نظریات اوررجحانات کے درمیان اصولوں کے معاملے میں “درمیانی” راستہ بنانے کی کوئی بھی “مرکزپرست(سینٹرسٹ)” کوشش نہ صرف بیکار ہوتی ہے بلکہ سیاسی میدان میں یہ نظریاتی پستی اوررجعتی نتائج کی جانب بھی لے جاتی ہے۔ سماجی سامراجیوں(سوشل امپیریلسٹ) اورسماجی قوم پرستوں (سوشل شاؤنسٹ) کے خلاف سخت جدوجہدکرنے کے علاوہ دوسرا کوئی رویہ ممکن نہیں ہے۔

جس نئے بین الاقوامی نظام کے لیے کمیونسٹ لڑ رہے ہیں اس کی بنیاد مزدور طبقے اورمظلوم لوگوں کے درمیان اتحاد میں ہے اور اس کا نصب العین سوشلزم، کمیونزم، اورطبقات سے پاک، غیرطبقاتی، سماج ہے۔

جس اتحاد کے لیے ہم لڑتے ہیں وہ سچا، لیننی اتحاد ہے۔جدید ترمیم پرستی اورموقع پرستی، جو مزدورطبقے کوانقلابی جدوجہد سے بھٹکاتی ہیں،ان سے مکمل نظریاتی اورتنظیمی علیحدگی کے بغیر، ایک طاقتور بین الاقوامی مزدوراورکمیونسٹ تحریک کی ، ایک نئی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تعمیرنوکا خیال غلط،خطرناک اورمکمل طورپرواہمہ ہوگا۔

خود کو شاؤنسٹ اورموقع پرست دباؤ اوراثرات سے آزاد کیے بغیر، ترمیم پرست اورموقع پرست ناکامیوں کو پہچان کران کی مذمت کیے بغیر،ان رجحانات سے اوران پرمشتمل قومی اوربین الاقوامی تنظیموں سے واضح اورمکمل طورپرعلیحدہ ہوئے بغیر، کوئی بھی سامراج کے خلاف نہیں لڑسکتا، پرولتاری سوشلزم کے فرائض پورے نہیں کرسکتا، اور مزدوراورکمیونسٹ تحریک کا انقلابی اتحاد قائم نہیں کرسکتا۔

یہ بافرض علیحدگی جسے ہمارے عہد کے بنیادی تضادات کی شدت ممکن بناتی ہے، تاریخی طورپرناگزیر ہےاور مزدوروں کی جدوجہد کے ارتقا کے لیے ضروری ہے۔

پہلے سے کہیں زیادہ آج یہ ضروری ہے کہ کمیونزم کے اصولوں پرسختی سے قائم رہ کر مکمل نظریاتی ، سیاسی اورتنظیمی خودمختاری قائم کرتے ہوئے تمام ملکوں کے انقلابی مزدوروں کا ٹھوس ترین بین الاقوامی اتحاد تشکیل دیا جائے۔

مارکسزم-لیننزم کا دفاع اورترقی، کمیونسٹ اورمزدور تحریک میں ترمیم پسندی اورموقع پرستی کی تمام شکلوں کی بے نقابی،اور اس کے خلاف بے تھکان جدوجہد ، مزدور بین الاقوامیت پرعمل، یہ سب مزدوروں کی انقلابی پارٹیوں کے اتحاد اورتعاون کوآگے بڑھانے کی جدوجہد کے بنیادی پہلو ہیں۔

مارکسی-لیننی پارٹیوں اورتنظیموں کی بین الاقوامی کانفرنس، جو واضح مارکسی-لیننی پلیٹ فارم پر مبنی ہے اورجو ہمیشہ کمیونسٹوں کے بین الاقوامی اتحاد کے لیے جدوجہد کرتی آئی ہے، وہ انقلابی مزدورقوتوں کے لیےکشش کا ایک مضبوط مرکزقائم کرنے میں بنیادی کردارادا کرتی رہی ہے۔

اسی سبب سے وہ تمام ملکوں میں سوشلزم اور کمیونزم کے لیے جدوجہد کرنے والی پارٹیوں اورتنظیموں کوایک طاقتور بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک قائم کرنے کی دعوت دیتی ہےتاکہ کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تعمیرنوکے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا ئے۔

اگست 2021ء

کمیونسٹ پلیٹ فارم-اٹلی کے مزدوروں کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے۔

Leave a Comment