ملکیت کیا ہے؟ (چھٹی قسط)

ملکیت کیا ہے؟ (چھٹی قسط)

اصراف کی صورت گری میں پیداوار کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے اور اس معنی میں پیداوار اصراف کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ پیدا کردہ شے کے بغیر اصراف ناممکن ہے یعنی کسی شے کو اسی صورت میں صرف کیا جا سکتا ہے کہ اس کو پیدا کیا جائے۔ پیداواری عمل کی اس فضیلت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ پیداوار ضروریات کو جنم دیتی ہے جیسا کہ مارکس نے لکھا کہ پیدا کردہ چیز اپنے استعمال کی تحریک فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ ضروریات ہمیشہ ہی انسانی شعورکی چھلنی سے گزر کر سامنے آتی ہیں اور ان پر ذاتی ترجیحات، حالات زندگی اور ثقافتی معیارات کی چھاپ ہوتی ہے اور اگرچہ اسی باعث ضروریات بادی النظر میں خالصتا ایسے موضوعی مطالبے محسوس ہوتے ہیں جن کا انحصار صرف فرد کی ذات پرہوتا ہے تاہم ان کی ہمیشہ ہی ایک معروضی بنیاد ہوتی ہے اور یہ معروضی بنیاد پیداوار پر قائم ہوتی ہے۔ چنانچہ ریفریجریٹروں، ٹی وی اور ٹرانزسٹر ریڈیو وغیرہ کی طلب ان اشیاء کی پیداوار کے بعد ہی شروع ہوئی۔

چنانچہ مادی اقدار کی حرکت ان اقدار کی پیداوار، تقسیم، تبادلے اور اصراف سے وابستہ ہے اور پیداوار، تقسیم، تبادلہ اور اصراف اجتماعی پیداوار کی حرکت کے مختلف مرحلے ہیں۔ اجتماعی پیداوار پہلے پیدا کی جاتی ہے، پھر تقسیم ہوتی ہے، پھر اس کا تبادلہ ہوتا ہے اور آخر کار وہ صرف ہوتی ہے۔ اس معنی میں پیداوار، تقسیم، تبادلہ اور اصراف ایک ہی ثمر محنت یا پیدا کردہ شے کی حرکت کی اکائی کے اجزاء ہیں اور ان میں پیداوار ایک فیصلہ کن حیثیت کا حامل جز ہے۔

ان چار مراحل پر مشتمل کلیت اوراکائی کو بالعموم پیداوار کے نام سے جانا جاتا ہے یا لفظ پیداوار سے وسیع معنوں میں یہ چار مرحلے مراد ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس جب پیدا کردہ شے کی حرکت کے پہلے مرحلے کے لیے لفظ پیداوار استعمال ہوتا ہے تو اس لفظ کے ان محدود معنی کے اظہار کے لئے “پیداوار بالخصوص” یا “راست پیداوار” کی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں۔ اپنے وسیع تر معنی میں پیداوار، راست پیداوار، تقسیم، مبادلے اور اصراف کی ایک ایسی نامیاتی اکائی ہوتی ہے جس میں راست پیداوار کو فوقیت حاصل ہے۔

چونکہ پیداوار ایک ایسا عمل جاریہ ہے جو مسلسل ان چار مراحل سے گزرتا رہتا ہے، اس لئے صرف راست پیداواری عمل کے دوران صورت پذیر ہونے والے رشتے ہی پیداواری رشتے نہیں کہلاتے بلکہ پیداواری رشتوں کا تصور تقسیم، تبادلے اور اصراف کے دوران لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے تمام رشتوں کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ چنانچہ، پیداواری رشتے وہ رشتے ہیں جو مادی اقدار کی راست پیداوار، تقسیم، تبادلے اوراصراف کے دوران لوگوں کے درمیان جنم لیتے ہیں۔

پیداواری قوتوں اور پیداواری رشتوں کی اکائی کی ایک مخصوص صورت کو اجتماعی پیداوار کہتے ہیں اوراس اعتبار سے اسی اکائی کو طریقہ پیداوار بھی کہا جاتا ہے۔ فطرت کی جانب انسان کے رویے پیداواری قوت کہلاتے ہیں اور یہ پیداواری قوتیں پیداوار ی طریقے کا مواد ہیں جبکہ پیداواری رشتے پیداواری طریقے کی سماجی صورت متعین کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر، پیداواری رشتے اقدار کی حرکت کی سماجی صورت شکل متعین کرتے ہیں۔ ان مادی اقدار میں وہ اشیاء بھی شامل ہیں جو ذرائع پیداوار کے بطور استعمال ہوتی ہیں اور وہ بھی جو پیداوار کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔

تاریخ میں پانچ طریقہ ہائے پیداوار رہے ہیں۔ قدیم اشتمالی (کمیونسٹ)، غلام دارانہ، جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور اشتمالی (اشتراکیت یعنی سوشلزم اس کا پہلا مرحلہ ہے)۔ ان میں سے ہر پیداواری نظام پیداواری قوتوں کی ترقی کی ایک خاص سطح اور پیداواری یا معاشی رشتوں کے ایک خاص نظام سے متصف ہے جبکہ طبقاتی معاشرے اپنی اپنی طبقاتی ساخت کے اوصاف کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ پیداواری رشتوں کی کلیت ہی کسی معاشرے کے معاشی نظام یا معیشت کو ترکیب دیتی ہے اور یہی وہ معنی ہیں جن میں ہم سرمایہ دارانہ یا اشترا کی معیشت کی بات کرتے ہیں۔

Leave a Comment