انیسویں صدی کے اختتام کو ابھی پانچ سال باقی تھے کہ ایک اور مصور غارلاموتھ (فرانس) کے مقام پر دریافت ہوا، وہ بھی اتفاقاً۔ ایک کاشت کار اپنے مویشیوں کے لیے ایک پہاڑی پناہ گاہ صاف کررہا تھا کہ اچانک غار کا دہانہ کھل گیا۔ گاؤں میں یہ خبر پھیلی تو چند نڈر لڑکوں نے غار میں اترنے کی ٹھانی۔ انہوں نے موم بتیاں لیں اور غار میں گھس گئے۔ واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ غار کی دیواروں پر جا بجا گھوڑے، بیل، بارہ سنگھے، گینڈے، بیسن اور بیسن سے بھی بڑے بڑے جانوروں کی تصویریں بنی ہیں۔
چند سال بعد اسی غار کے نواح میں ایک پورا نگار خانہ ملا جس میں دو سو دیواری تصویریں موجود تھیں۔ یہ فونت دے گام کا مشہور غار تھا جو ستمبر 1901ء میں دریافت ہوا۔ اسی دوران میں مشرقی اسپین کی کھلی چٹانوں پر رنگین تصویروں کے آثار دیکھے گئے۔ ان تصویروں میں غلبہ جانوروں کا تھا، مگر ہیئت میں یہ تصویریں التمیرا اور فونت دے گام سے مختلف تھیں لیکن کتابی علم کا غرور اور پندار کی بےاعتنائی کہیے کہ دانشوران روشن نشانیوں کو بھی جھٹلانے پر اصرار کرتے رہے۔ چنانچہ فرانس میں آثار قدیمہ کے ماہرین کی جو بین الاقوامی کانفرنس ہوئی اس میں ان جدید دریافتوں پربحث کرنے کی بھی اجازت نہ ملی۔
مگر حقیقت سے بہت دن تک چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اسے دیر سویر ماننا ہی پڑتا ہے۔ چنانچہ یکم اکتوبر 1902ء کو ماہروں کا ایک گروہ ایبے بروئیل کے اصرار پر پہلی بار التمیرا کے غار میں داخل ہوا۔ اس مہم کا ذکر کرتے ہوئے ایبے بروئیل لکھتا ہے کہ روشنی کے لئے ہمارے پاس فقط موم بتیاں تھیں مگر اس نیم تاریک ماحول میں بھی ہماری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ غار میں نمی تھی اس لیے سقفی تصویروں کا چربہ نہیں لیا جاسکا تھا کیوں کہ رنگ گیلا تھا اور کاغذ پر چپک جاتا تھا۔ چربہ لینے کے معنی ان تصویروں کو ضائع کرنے کے ہوتے لہٰذا ایبے بروئیل نے ان کو ہوبہو نقل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ’’میں روزانہ آٹھ گھنٹے زمین پر پیٹھ کے بل لیٹ کر ان تصویروں کو نقل کرتا جو چھت پر بنی ہوئی تھیں۔‘‘ ایبے بروئیل نے یہ کام تین ہفتے میں مکمل کر لیا مگر کوئی پبلشر التمیرا کے اس رنگین مرقعے کو چھاپنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر ایبے بروئیل نے پرائیویٹ امداد سے التمیرا پر ایک مصور کتاب 1908ء میں شائع کی۔
ان حجری فن پاروں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کو ایبے بروئیل جیسا دھن کا پکا اور لگن کا سچا فنکار مل گیا۔ ایبے بروئیل نے اپنی زندگی حجری فن پاروں کی نقل اور تفتیش و تحقیق کے لیے وقف کردی۔ چنانچہ آج ایبے بروئیل کی نقل کی ہوئی تصویروں کا اتنا بڑا ذخیرہ فرانس میں موجود ہے کہ اس سے کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔
اب چراغ سے چراغ جلنے لگا۔ غاروں کی دریافت نے ایک مہم کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ ہر سال ایک نہ ایک مصور غار کا سراغ ملتا۔ کبھی اسپین اور فرانس میں کبھی جرمنی اور اٹلی میں، کبھی روس اور چیکو سلواکیہ میں، کبھی سویڈن اور ناروے میں۔ آخری غار وہ ہے جوبامود ڈلنس (Baumed Dullins) کے مقام پر مارچ 1951ء میں دریافت ہوا۔ اس سے پیشتر ایک نہایت اہم غار لاسکا میں ستمبر 1940ء میں دو لڑکوں نے دریافت کیا تھا۔
یوں تو قدیم حجری دور کے یہ فن پارے یورپ میں التمیرا سے جھیل بیکال تک اور فن ہاگن (ناروے) سے کیڈز (اسپین) تک بکھرے ہوئے ہیں مگر اسدور کے فن کا سب سے بڑا مرکز جنوب مغربی فرانس ہے۔ وہاں اب تک ستر غار دریافت ہو چکے ہیں۔ یہ غار دو منطقوں میں واقع ہیں۔ ایک وہ پہاڑی علاقہ ہے جو دریائے دور دون کی وادی میں ہے اور دوسرا فرانس کی جنوبی سرحد پر کوہِ پیر نیز میں۔ ان کے علاوہ اسپین کے شمال مغربی، مشرقی اور جنوبی علاقوں میں اس عہد کے کم وبیش چالیس غار اور کوہستانی پناہ گاہیں اب تک مل چکی ہیں۔
پھر چٹانوں پر اور کھوہوں کے اندر رنگین تصویروں اور کندہ نقوش کا وہ طویل سلسلہ ہے جو اسپین سے شروع ہوتا ہے اور سمندر پار کر کے مراکش اور الجزائر سے گزرتا ہوا صحرائے اعظم کو عبور کرتا وسطی مشرقی اور جنوبی افریقہ میں اپنے نشان چھوڑتا کیپ ٹاؤن پر ختم ہوتا ہے۔ یہ نقوش اور تصویریں گو قدیم حجری دَور سے تعلق رکھتی ہیں مگر تکنیک اور ہیئت کے اعتبار سے یورپ کے ان فن پاروں سے مختلف ہیں جن کا ذکر ہم کر رہے ہیں اس لیے ان پر الگ بحث کی جائے گی۔ آسٹریلیا کی حجری دور کی تصویریں افریقی تصویروں کے علاوہ ہیں البتہ وہ تکنیک کے لحاظ سے آپس میں بڑی مشابہت رکھتی ہیں۔
سو ڈیڑھ سو سال پیشتر تک اس زمین کے بسنے والوں اور ان کے ماضی بعید کے بارے میں ہماری معلومات بہت ناقص اور محدود تھیں۔ عہد قدیم زمین کے سینے میں دفن تھا۔ ہمیں ان دفینوں کی خبر تھی اور نہ ان کی تلاش و تحقیق کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس موجود تھا۔ ہماری آگہی کا سارا اثاثہ چند مذہبی کتابیں تھیں یا وہ لوک کہانیاں جو پرانی قوموں میں مدت سے رائج ہیں۔ انہی روایتوں اور کتابوں کی روشنی میں انسان اور اس کے قدیم معاشرے کی ابتدا کا سراغ لگایا جاتا تھا۔ چنانچہ سترہویں صدی کے ایک پادری اشر نے انجیل کی کتاب پیدائش کی مدد سے یہ ثابت کیا تھا کہ ظہور آدم کا واقعہ 4004قبل مسیح میں پیش آیا تھا اور دانایان مغرب نے پادری اُشر کی اس حساب دانی کو بہت سراہا تھا لیکن انیسویں صدی عیسوی میں جب سائنس نے ترقی کی اور نئے نئے علوم مثلاً علم الافلاک، علم الارض اور علم الحیوان کو فروغ ہوا تو ان پرانے عقیدوں کی صداقت خطرے میں پڑ گئی۔
سائنس دان زمین اور زندگی کی عمریں متعین کرنے لگے۔ ارتقائے حیات کے نظریے بنانے لگے۔ انہوں نے زمین کی تہوں سے بے شمار ایسی چیزیں برآمد کیں جن سے ان کے دعوؤں کی تصدیق ہوتی تھی۔ انہوں نے ان معدوم جانوروں کے ڈھانچے بھی ڈھونڈ نکالے جو لاکھوں برس گزرے زمین پر موجود تھے اور جب 1891ء میں پروفیسر دوبائے کو جاوا میں قدیم انسان کی چار لاکھ برس پرانی ایک کھوپڑی دستیاب ہوئی تو پادری اُشر کا حساب بالکل ہی غلط ثابت ہوگیا۔ اس کے بعد 1907ء میں ہائیڈل برگ (جرمنی) کے مقام پر آدمی کا ایک جبڑا ملا جو پانچ لاکھ برس پرانا تھا اور 1927ء میں پیکنگ (چین) کے نواح میں ایک غار میں آدمیوں کے 45 ڈھانچے نکلے جو چارلاکھ برس پرانے تھے اور اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انسان کم سے کم پندرہ لاکھ برس سے اس کرۂ ارض پر آباد ہے۔
محققین نے یہ بھی ثابت کیا کہ اس پندرہ لاکھ برس کے عرصے میں انسان کے رہن سہن، رسم و رواج، آلات و اوزار، عقائد اور عادات اور فکر و فن میں وقتاً فوقتاً نمایاں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ انسانی تہذیب کوئی ساکت اور جامد شے نہیں ہے جو ایک مقام پر ٹھہری رہتی ہو بلکہ وہ ایک تغیر پذیر اور فعال حقیقت ہے جس نے اب تک ارتقا کے محتلف مدارج طے کیے ہیں اور یہ عمل بدستور جاری ہے۔ ان تبدیلیوں کا باعث وہ آلات و اوزار ہیں جن کو انسان اپنی سماجی ضرورتوں کے تحت خود بناتا رہتا ہے۔ در اصل تہذیب انسانی کے مختلف عہدوں کی شناخت انہیں آلات و اوزار سے ہوتی ہے چنانچہ 1836ء میں کرسٹین ٹامیسن (Christian Tomsen) نامی ایک فرانسیسی عالم نے آلات و اوزار کے فرق کے پیش نظر انسانی تہذیب کے تین بنیادی عہد متعین کیے تھے۔
(1) پتھر کا زمانہ، جب کہ آلات و اوزار پتھر، لکڑی یا ہڈی کے ہوتے تھے۔
(2) دھات کا زمانہ، جب کہ آلات و اوزار (تانبے اور ٹن کو ملا کر) کانسے کے ہوتے تھے۔
(3) لوہے کا زمانہ، جو ایک ہزار قبل مسیح کے قریب شروع ہوا اور ہنوز جاری ہے۔
پتھر کا زمانہ اندازاً پانچ لاکھ قبل مسیح سے پانچ ہزار قبل مسیح تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کو زمانہ قبل از تاریخ بھی کہتے ہیں۔
قدیم حجری دور کے جو آثار اب تک ملے ہیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے کا انسان نقاشی، مصوری، مجسمہ سازی اور موسیقی سے واقف تھا۔ یورپ کے غاروں میں حجری دور کے سب سے قدیم فن پارے 30، 40ہزار برس پانے ہیں۔ ان کے عروج و کمال کا زمانہ مادی لانی کے دور کا وسطی عہد ہے جس کے آخر تک آتے آتے یہ فن ختم ہو گیا۔ کیوں کہ جن لوگوں نے یہ فن پارے تخلیق کیے تھے وہ معدوم ہوگئے یا ان علاقوں سے مستقل طور پر ہجرت کر کے کہیں اور آباد ہوگئے۔ قدیم حجری دور کا ماحول سخت برفانی تھا اسی لیے اس دور کو برفانی دور بھی کہتے ہیں۔ اس وقت یورپ کا تمام وسطی اور شمالی علاقہ (برطانیہ، جرمنی، پولینڈ، ناروے، سویڈن اور شمالی روس) برف کی چادروں سے ڈھکا ہوا ہوا تھا اور کسی جانور یا انسان کا وہاں گزر نہ تھا۔
البتہ اسپین، فرانس، اٹلی، جزیرہ نما بلقان اور دریائے وولگا کی وادی برف سے نسبتاً محفوظ تھی۔ سردیوں میں گو اس خطے میں بھی شدید برف باری ہوتی تھی اور سرد ہواؤں کے طوفان آتے تھے لیکن شمالی یورپ کے مقابلے میں وہاں کا موسم معتدل تھا۔ اس خطے میں اونچے اونچے درختوں کے جنگل تھے۔ پھل دار جھاڑیاں تھیں، دریا اور میدان تھے اور گھاس تھی لہٰذا میتمہ، بیسن، ریچھ، بالدار، گینڈے، بارہ سنگھے، جنگلی بیل، گھوڑے اور ہرن، غرض اس عہد کے تمام جانور اسی خطے میں رہتے تھے اور ا ن کے بڑے بڑے غول خوراک کی تلاش میں دور دور تک نکل جاتے تھے۔ اس وقت کے انسان کا دار و مدار انہی جانوروں کے شکار پر تھا اس لیے انسانی قبیلے بھی جانوروں کے تعاقب میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے تھے۔