مضامینِ سبطِ حسن: زندگی کی نقش گری (پانچواں حصہ)

لاسکا کے غار میں مختلف نسل کے گھوڑوں کی 57 تصویریں ہیں۔ دو جنگلی گدھے ہیں، بیس بیل اور گائیں ہیں۔ ہرنوں کی تعداد بیلوں سے کم ہے، سات بیسن ہیں، چھ بلی کی نسل کے جانور ہیں، ایک گینڈا ہے، ایک بھیڑیا ہے، ایک ریچھ ہے، ایک یونی کارن ہے اور ایک چڑیا۔

یوں تو قدیمی حجری دور کا ہر مصور غار دیدنی ہے لیکن فنی اعتبار سے چھ غار خاص طور پر ذکر کے قابل ہیں۔ اول التمیرا کاغار، جو سب سے پہلے دریافت ہوا اور سب سے مشہور ہے۔ دوئم فونت واگام، سوئم تین بھائیوں کا غار، چہارم لاسیل، پنجم لے کومبریل اور ششم لاسکا۔

التمیرا کے غار میں جانوروں کی تقریباً 170 تصویریں اب تک صحیح و سالم موجود ہیں۔ اس کے بڑے کمرے میں جو چار پانچ فٹ اونچا ہے چھت پر جو رنگین تصویریں بنی ہوئی ہیں، وہ دیواری فن مصوری کے قیمتی نوادر میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ در اصل پندرہ گز لمبا ایک منظر ہے جس میں ایک ہرن اور بیس بیسنوں کی خاموش جنگ کا مرقع پیش کیا گیا ہے۔ فقط دو گھوڑے اور دو سور، ہرن کے حمایتی ہیں۔ مگر ہرن فتح یاب ہے۔ یہ تصویریں کندہ ہیں اور رنگ آمیز بھی۔ ان تصویروں میں حسنِ ترتیب کے علاوہ بڑا تنوع ہے۔ در اصل اس مرقعے میں ہر جانور کی انفرادی کیفیت کا اظہار کیا گیا ہے مگر مجموعی تاثر کا خون نہیں ہوتا بلکہ اس میں اور شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ میکس رفیل نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ ہرن در اصل ایک قبیلے کی نمائندگی کرتا ہے، جس نے اپنے سحر کے زور سے دوسرے حریف جانوروں کو جو دشمن قبیلوں کی علامت ہیں، ہلاک کیا ہے۔ یہ منظر مثلث یا عمودی اصولِ توضیح پر نہیں بنا ہے بلکہ انسان کے کھلے ہوئے ہاتھ سے مشابہ ہے۔

لے کومبریل کا غارنو سوفٹ لمبا اور تین تا چھ فٹ چوڑا ہے۔ اس غار میں تقریباً تین سو تصویریں بنی ہیں جو مختلف جانوروں کی ہیں البتہ سوانگ بھرے ہوئے حیوان نما انسانوں کی تعداد یہاں سب سے زیادہ ہے۔ ایک آدمی کا سر تو ممیتھ کا ہے۔ ان کے علاوہ ایک موٹا آدمی ہے جو ایک عورت کا تعاقب کر رہا ہے۔ دیواروں پر جابجا انسانی شکلیں کھدی ہیں مگر ان کے سر جانوروں کے ہیں۔

تین بھائیوں کا غار فرانس کے ایک پرانے نواب کی زمین پر ہے۔ 1922ء میں نواب کے تین لڑکے تعطیل میں گھر آئے ہوئے تھے۔ قریب ہی دریائے دولپ بہتا ہے۔ یہ دریا قصبے سے تھوڑے فاصلے پر ایک غار میں غائب ہو جاتا ہے اور پھر ایک دوسرے مقام پر پہاڑ سے نمودار ہوتا ہے۔ تین بھائیوں نے ایک چھوٹی سی کشتی بنائی اور اس زمین دوز دریا کا سراغ لگانے نکلے۔ کشتی غار میں چلتی رہی اور ایک ایسے مقام پر پہنچی جو در اصل ایک جھیل تھی۔ وہاں چٹان پر انہیں سترہویں صدی کے چند آثار ملے، جس سے اندازہ ہوا کہ کچھ لوگ ان سے پیشتر بھی وہاں تک پہنچے تھے۔ وہ اور آگے بڑھے تو ایک سمت ایک سرنگ ملی جس کا دہانہ پتھر کی ایک باریک سی چادر سے ڈھک گیا تھا مگر اس پار کی روشنی چھن کر آرہی تھی۔

لڑکوں نے یہ چادر توڑ دی اور اب وہ ایک نگار خانے میں تھے۔ اس غار میں یوں تو دوسرے غاروں کی مانند کندہ کاری اور مصوری کے بہ کثرت نمونے موجود ہیں مگر وہاں کی چند اپنی خصوصیتیں بھی ہیں۔ مثلاً مٹی کے دو بیسن ایک چٹان سے لگے کھڑے ہیں۔ برفانی اُلو کا ایک جوڑا چٹان پر کھدا ہوا ہے۔ قریب ہی ان کے بچے کی شکل بھی بنی ہے لیکن سب سے اہم دریافت وہ جادو گر ہے، جس کے گرد لاتعداد جانوروں کا ہجوم نقش کیا گیا ہے۔ اس جادوگر کے کان بارہ سنگھے کے کانوں سے مشابہ ہیں اور کھڑے ہیں۔ اس کی داڑھی بہت لمبی ہے البتہ دہانہ ندارد ہے۔ اس کی کہنیاں اٹھی اور آپس میں ملی ہوئی ہیں اور دونوں ہاتھ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ انگلیاں ننھی ننھی اور پھیلی ہوئی ہیں۔ عضو تناسل بہت نمایاں ہے مگر استادہ نہیں ہے بلکہ بال دار دُم کے اندر پیوست ہے۔ ایبے بروئیل کی رائے میں اس کے سحر کا تعلق جانوروں کی افزائشِ نسل سے ہے۔

لاسیل (وادیِ دوردون) کے غار کی نمایاں خصوصیات عورتوں کے فرازی مجسمے ہیں جو چٹانوں پر ابھرے ہوئے ہیں۔ لاسیل کے غار میں عورتوں کے جوپانچ فرازی مجسمے ملے ہیں وہ اس فن کی سب سے پرانی یادگار ہیں۔ ان مجسموں میں نسوانی اندام بہت نمایاں ہیں۔ انہی میں ڈیڑھ فٹ کا وہ مشہور فرازی مجسمہ بھی ہے، جو اب عجائب گھر کی زینت ہے۔ عورت کے اس مجسمے کے چاروں طرف پتھر کو کھود کر بہت گہرا کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے مجسمے کا ابھار اور واضح ہوگیا ہے۔

یہ عورت سرسے پاؤں تک برہنہ ہے۔ اس کے کولھے بہت بھاری اور چوڑے ہیں۔ چھاتیاں بھی بہت بڑی ہیں اور لوکی کی مانند لٹکی ہوئی ہیں۔ رانوں کے درمیان کا ابھار بھی بہت واضح ہے۔ وہ بیسن کی ایک سینگ لیے ہوئے ہے جو ہلالی ہے۔ سینگ پرچند متوازی عمودی نشان کندہ ہیں۔ اس کا بایاں ہاتھ پیڑو پھر دھرا ہے۔ پیٹرو پھولا ہوا ہے جس سے حمل کا گمان ہوتا ہے۔ چہرے کی تفصیلات جان بوجھ کر نہیں بنائی گئی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ صرف انہیں اعضا کی نمائش مقصود تھی جن کا تعلق افزائشِ نسل سے ہے۔ عورتوں کے چار اور مجسمے بھی ہیں جو اسی انداز کے ہیں۔ ان مجسموں پر جگہ جگہ سرخ رنگ بھی پایا گیا ہے۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ شاید یہ سرخ رنگے ہوئے تھے۔ سرخ رنگ حجری دور میں زندگی کی علامت تھا۔

گار گاس کا غار اس لحاظ سے اہم ہے کہ وہاں ہاتھ کے چھاپے بہ کثرت ملے ہیں۔ یہ چھاپے الگ الگ بھی ہیں اور اکٹھے بھی۔ ایک چٹان پر تو ایک ہی جگہ ڈیڑھ سو چھاپے لگے ہیں۔ ان میں ایک کمسن بچے کا چھوٹا سا ہاتھ بھی ہے۔ یہ چھاپے سرخ بھی ہیں اور سیاہ بھی۔ بعض جگہوں پر ہاتھ کو رنگ میں ڈبو کر دیوار پر چھاپہ لگا دیا گیا ہے اور بعض جگہوں پر ہاتھ کے سلہوٹ بنے ہیں، یعنی انگلیوں کو دیوار پر پھیلا دیا گیا ہے اور پھر ان کے گرد رنگ پھیر دیا گیا ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اکثر چھاپوں میں چار انگلیاں نظر آتی ہیں مگر انگوٹھا غائب ہے اور انگلیوں کے سرے کے پور کٹے ہوئے مگر بعض پنجے پورے بھی ہیں۔ ان چھاپوں میں بائیں ہاتھ کی کثرت ہے اور یہ قدرتی بات ہے، کیوں کہ دائیں ہاتھ سے رنگ آمیزی کی جاتی تھی۔

قدیم حجری فن میں ہاتھ کے نشان کی جو اہمیت اور خصوصیت ہے اس پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے۔ یہاں فقط اتنا بتا دینا کافی ہے کہ حجری فن کے ہیئتی ارتقا کی سب سے ابتدائی شکل ہاتھ کے یہی چھاپے ہیں۔ اسی غار میں عورت کے جنسی عضو کی شکل بھی الگ کندہ ہے اور ایک مرغابی کو پانی میں تیرتا دکھایا گیا ہے۔

ابتدا میں عام خیال یہی تھا کہ قدیم حجری دور میں فنکار اپنی تصویریں اور مجسمے فقط غار کے عمیق ترین گوشوں میں بناتے تھے یا نہایت دشوار گزار مقامات پر جو تنگ و تاریک ہوتے تھے۔ التمیرا اور اس قبیل کے غاروں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے مگر جنوبی اور مشرقی اسپین میں جو دریافتیں ہوئیں ان سے اس خیال کی تردید ہوگئی کیوں کہ ان خطوں میں بکثرت رنگین تصویریں زمین کے اوپر چٹانوں پر منقوش یا کندہ ملی ہیں۔ شاید اس عہد کے فنکاروں نے تصویریں غاروں کے اندر بھی بنائیں اور کھلی ہوئی چٹانوں پر بھی۔ جو تصویریں کھلی جگہوں پر تھیں وہ دھوپ، ہوا اور بارش کے سبب ضائع ہوگئیں اور جو غاروں میں تھیں وہ موسمی اثرات سے محفوظ رہیں۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ جو قبیلے غاروں کے اندر رہتے تھے اور جن کی بود و باش نسبتاً سخت ماحول میں تھی انہوں نے غاروں میں تصویریں بنائیں اور جنوبی اسپین اور افریقہ کے لوگوں نے جو دوسری نسل سے تعلق رکھتے تھے اور نسبتاً گرم ماحول میں رہتے تھے، کھلی ہوئی چٹانوں کو ترجیح دی۔

سطح زمین سے اوپر کی حجری تصویروں کو بناتے وقت شاید مصنوعی روشنی کی ضرورت نہ پڑی ہو لیکن گہرے غاروں اور تاریک سرنگوں میں تو دن کے وقت بھی ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا چہ جائیکہ تصویر کشی اور کندہ کاری کرنا۔ اس لیے روشنی کا انتظام ضروری تھا۔ قدیم حجری دور میں روشنی کے لئے چراغ اور مشعل استعمال ہوتے تھے۔ ان میں چربی جلائی جاتی تھی۔ غاروں میں بہ کثرت ایسی چیزیں ملی ہیں جن سے چراغ یا مشعل کا کام لیا جاتا تھا۔ کئی مقامات پر پتھر کے ایسے دیے بھی دست یاب ہوئے ہیں جن میں چربی کے ٹکڑے اور جلی ہوئی بتیوں کے گل موجود تھے۔ اسی طرح جلی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے بھی افراط سے ملے ہیں۔

Leave a Comment