نمبر 4:جے وی اسٹالن کا ماؤ زی تنگ کو 14 جنوری 1949ء کا ٹیلیگرام
کامریڈ ماؤزے تنگ
نانجنگ امن کی تجویز کے حوالے سے آپ کا طویل ٹیلیگرام موصول ہوا۔
1۔یقیناً، یہ بہتر ہوتا کہ نانجنگ حکومت کی امن تجویز کا وجود نہ ہوتا، اگر امریکہ کی امن کی یہ ساری چالبازی موجود نہ ہوتی ۔ یہ واضح ہے کہ یہ ہتھکنڈہ مطلوبہ نہیں ہے کیونکہ یہ ہمارے مشترکہ مقصد کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے یہ چال ایک حقیقت ہے اور ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے، ہم اس پر غور کرنے کے پابند ہیں۔
2۔ بلاشبہ نانجنگ والوں اور امریکہ کی امن تجویز فریب کی سیاست کا مظہر ہے۔ سب سے پہلے، چونکہ حقیقت میں نانجنگ والے (چینی) کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ کوئی امن نہیں چاہتے، کیونکہ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ امن کا مطلب یہ ہو گا کہ کومینتانگ کمیونسٹ پارٹی اور اس کی فوج کو ختم کرنے کی اپنی پالیسی کو مسترد کر دے اور یہ بات کومینتاگ کے رہنماؤں کی سیاسی موت اور کومینتانگ کے سپاہیوں کے مکمل انتشار کی طرف لے جائے گی۔ دوم، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کومینتانگ کے ساتھ امن کو قبول نہیں کرے گی ،کیونکہ وہ کومینتانگ اور اس کی فوج کے خاتمے کی اپنی بنیادی پالیسی کو ترک نہیں کر سکتی۔
تو نانجنگ والے آخر چاہتے کیا ہیں؟ وہ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ امن کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس سے جنگ بندی کرنا چاہتے ہیں،یعنی دشمنی کو عارضی طور پر ختم کرنا ، تاکہ جنگ بندی کی مہلت سے فائدہ اٹھا کرکومینتاگ کی فوج کو منظم کریں، امریکہ سے اسلحہ لائیں، اپنی قوتوں کو مجتمع کریں اور پھر کمیونسٹ پارٹی کو امن مذاکرات کو تورنے کا ملزم ٹہراتے ہوئے، جنگ بندی توڑ کرپیپلز لبریشن آرمی پر حملہ کردیں ۔ جو وہ چاہتے ہیں وہ کم از کم یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کومینتانگ کی فوج کو ختم کرنے سے روکیں۔
یہ ہے نانجنگ والوں اور امریکہ کی طرف سے جاری فریب کی موجودہ پالیسی کا نچوڑ ۔
4۔ نانجنگ والوں اور امریکہ کی ایسی چالوں کا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے؟ دو طریقے ممکن ہیں۔ پہلا یہ کہ نانجنگ والوں کی امن کی تجاویز کو مسترد کرنا اور اس طرح خانہ جنگی کے جاری رہنے کی ضرورت کا کھلے عام اعلان کرنا ۔ لیکن اس کا کیا مطلب ہوگا؟ اس کا مطلب ہے، سب سے پہلے، یہ کہ آپ نے اپنا اصل ترپ کا پتہ میز پر رکھ دیا ہے اور امن کے پرچم جیسا اہم ہتھیار کومینتانگ کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ اس کا مطلب دوسری طرف یہ ہے کہ آپ چین میں اپنے دشمنوں کی مدد کر رہے ہیں، اور چین سے باہر آپ کمیونسٹ پارٹی کو خانہ جنگی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں اور کومینتانگ کو امن کے حامی کے طور پر سراہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب تیسری طرف یہ ہے کہ آپ امریکہ کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ وہ یورپ اور امریکہ میں رائے عامہ کو اس سمت میں اکٹھا کرے کہ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ امن ناممکن ہے کیونکہ وہ امن نہیں چاہتی، کہ چین میں امن کے حصول کا واحد ذریعہ چین میں بین الاقوامی طاقتوں کی اسی قسم کی مسلح مداخلت منظم کرنا ہے جو 1918 ءسے 1921 ءکے چار سالوں کے دوران روس میں کی گئی تھی۔
ہمارا خیال ہے کہ جب آپ ایماندار لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں تو سیدھا اور واضح جواب اچھا ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ نانجنگ والوں جیسے سیاسی بدمعاشوں سے نمٹ رہے ہیں تو سیدھا اور کھلا جواب خطرناک ہو سکتا ہے۔
لیکن دوسرا جواب بھی ممکن ہے۔ یعنی: (الف) چین میں امن کے قیام کو ایک مطلوبہ مقصد کے طور پر تسلیم کرنا؛ (ب) دونوں فریقوں کے درمیان کسی غیر ملکی ثالث کے بغیر بات چیت کی جائے کیونکہ چین ایک آزاد ملک ہے اور اسے کسی غیر ملکی ثالث کی ضرورت نہیں ہے؛ (پ) بات چیت کمیونسٹ پارٹی اور کومینتانگ کے درمیان فریق کے طور پر ہو نہ کہ حکومت کے طور پر جو کہ خانہ جنگی کی مجرم ہے اور جو اس بات کے پیش نظر، لوگوں کا اعتماد کھو چکی ہے؛(ت) جیسے ہی فریقین چین میں امن اور قیادت کے معاملے پر کسی معاہدے پر پہنچ جائیں ، فوجی کارروائیاں ختم ہو جائیں ۔
کیا کومینتانگ ان شرائط کو قبول کر سکتی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کومینتانگ ان شرائط کو قبول نہیں کرتی تو لوگ سمجھیں گے کہ جنگ جاری رہنے کی مجرم کومینتانگ ہے نہ کہ کمیونسٹ پارٹی۔ اس صورت میں امن کا پرچم کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں رہے گا۔ یہ صورت حال اس وقت خاص طور پر اہم ہے جب چین میں ایک ایسی اکثریت ابھری ہے جو خانہ جنگی سے تنگ آچکی ہے اور امن کا دفاع کرنے والوں کی حمایت کے لیے تیار ہے۔
لیکن آئیے ناقابل یقین کومان لیں اور فرض کریں کہ کومینتانگ ان شرائط کو قبول کرتی ہے۔ تب کمیونسٹ پارٹی کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟
سب سے پہلے یہ ضروری ہو گا کہ فوجی کارروائیاں بند کی جائیں، اس مقصد کے ساتھ مرکزی اتحادی حکومت کے ادارے بنائے جائیں کہ مشاورتی کونسل میں تین بٹا پانچ نشستیں اور حکومت میں دو تہائی قلمدان کمیونسٹ پارٹی کے پاس جائیں جبکہ باقی نشستیں اور قلمدان دوسری جمہوری جماعتوں اور کومینتانگ میں تقسیم کیے جائیں ۔
دوئم یہ ضروری ہے کہ وزیر اعظم، کمانڈر انچیف اور اگر ممکن ہو تو صدر کے عہدے کمیونسٹوں کے پاس جائیں۔
سوئم یہ ضروری ہے کہ مشاورتی کونسل اتحادی حکومت کو چین کی واحد حکومت قرار دے اور کوئی بھی حکومت جو چین کی حکومت کا کردار ادا کرنے کا بہانہ کرے اسے باغی، ایک ایسا جعلی گروہ قرار دیا جائے جس کا ختم ہونا ضروری ہے۔
آخر میں، یہ ضروری ہے کہ اتحادی حکومت آپ کی افواج اور کومینتانگ کی افواج دونوں کو اتحادی حکومت کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے کے احکامات جاری کرے اور یہ بھی کہ ایسے فوجیوں کے خلاف فوجی فوری طور پر ختم ہو جائیں جنہوں نے وفاداری کا حلف اٹھایا ہو اور جن فوجیوں نے حلف اٹھانے سے انکار کیا ہے ان کے خلاف فوجی کارروائیاں جاری رکھی جائیں۔
اس میں شبہ ہے کہ آیا کومینتانگ ان اقدامات کو قبول کرے گی۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کریں گے، تو یہ ان کے لیے اور بھی بدتر ہو گا کیونکہ بالآخر وہ الگ تھلگ ہو جائیں گے اور یہ اقدامات کومینتانگ والوں کے بغیر بھی انجام دیے جائیں گے۔
4۔ یہ اس مسئلے کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ ہے اور آپ کے لیے ہماری یہی تجاویز ہیں۔ عین ممکن ہے کہ پچھلے ٹیلی گرام میں ہم نے اپنا مشورہ واضح اور پوری تفصیل سے بیان نہ کیا ہو۔
ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری تجاویز کا جائزہ صرف ایسی تجاویز کے طور پرلیں جو آپ کو کچھ کرنے پر مجبور نہیں کرتیں اورجنہیں آپ قبول یا مسترد کر سکتے ہیں۔ آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہماری تجاویز کو قبول کرنے سے انکار ہمارے تعلقات کو کسی بھی طرح متاثر نہیں کرے گا اور ہم ہمیشہ کی طرح دوست رہیں گے۔
5۔ ثالثی پر نانجنگ والوں کی تجویز پر ہمارا جواب آپ کی خواہشات کے مطابق بنایا جائے گا۔
6۔لیکن ہمارا اصرار ہے کہ آپ ماسکو کا دورہ فی الحال ملتوی کر دیں کیونکہ اس وقت چین میں آپ کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ہم پولٹ بیورو کے ایک ذمہ دار رکن کو فوری طور پر آپ کے پاس ہاربن یا کسی اور جگہ آپ کی دلچسپی کے مسائل پر بات چیت کے لیے بھیج سکتے ہیں۔
14جنوری 1949ء
فلیپوف (اسٹالن)
نمبر5:ماؤ زے تنگ کا ٹیلی گرام جے وی اسٹالن کو، 14 جنوری 1949ء
کامریڈ فلیپوف،
1۔1جنوری کو آپ کا سپلیمنٹری ٹیلیگرام موصول ہونے پر مجھے خوشی ہوئی۔ بنیادی سمت (کومینتانگ کے ساتھ وسیع مذاکرات کی ناکامی، انقلابی جنگ کا آخر تک جاری رہنا) کے حوالے سے ہم بالکل متحد ہیں۔
آج ہم نے 8 شرائط شائع کی ہیں جن کی بنیاد پر ہم کومینتانگ کے ساتھ امن مذاکرات کرنے پر متفق ہیں۔ یہ شرائط ان پانچ رجعتی شرائط کا مقابلہ کرنے کے لیے دی گئی ہیں جو چیانگ کائی شیک نے یکم جنوری کو اپنی امن تجویز میں رکھی تھیں۔
اس سے کچھ دن پہلے امریکیوں نے ہماری رائے جاننے کی کوشش کی کہ آیا ہم 43 جنگی مجرموں کی شرکت کے بغیر کومینتانگ کے ساتھ امن مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا صرف ایک کم از کم شرط یعنی جنگی مجرموں کے بغیر امن مذاکرات میں شرکت کومینتانگ کی امن مذاکرات کی سازش کو بربادکرنے کے لیے پہلے ہی کافی نہیں ہے۔
2۔ [……]4
۔ 3کومینتانگ کی طرف سے امن کی تجاویز کی اشاعت کے بعد کومینتانگ کے زیر انتظام علاقوں میں بڑا ہنگامہ برپا ہے، آبادی بڑی تعداد میں امن کا مطالبہ کر رہی ہے اور شکایت کر رہی ہے کہ کومینتانگ کے حالات انتہائی سخت ہیں۔
کومینتانگ کے پروپیگنڈہ ادارے اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ کومینتانگ کے لیے اپنی قانونی حیثیت کا دفاع اور فوج کو برقرار رکھنا کیوں ضروری ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ کومینتانگ میں انتشار مزید پھیلنے والا ہے۔
14جنوری 1949ء
ماؤ زے تنگ
نمبر6:جے وی اسٹالن کا ماؤ زے تنگ کو 15 جنوری 1949 ءکو ٹیلیگرام
کامریڈ ماؤزے تنگ
ہمیں ابھی آپ کا تازہ ترین اور مختصر ٹیلیگرام موصول ہوا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نانجنگ والوں کی امن تجاویز کے معاملے پر ہمارے درمیان اتحاد قائم ہو چکا ہے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی نے پہلے ہی ‘امن’ مہم شروع کر دی ہے۔ اس طرح یہ معاملہ ختم سمجھا جا سکتا ہے۔
15 جنوری 1949ء
فلیپوف (اسٹالن)
نمبر 7:18جنوری 1949ء کو ازویستیا میں نانجنگ حکومت کے میمورنڈم (نوٹ) پر سوویت حکومت کے جواب کی اشاعت:
8جنوری کو چین کی وزارت خارجہ نے چین میں سوویت یونین کے سفارت خانے کو ایک میمورنڈم بھیجاجس میں سوویت حکومت سے چینی حکومت اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے درمیان امن مذاکرات میں ثالث کے طور پر کام کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ سوویت سفیر کو بتایا گیا کہ چینی حکومت نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں سے بھی ایسی ہی اپیل کی ہے۔
17 جنوری کو سوویت یونین کے نائب وزیر خارجہ اے۔ وائی۔ویشنسکی نے سوویت یونین میں چین کے سفیر مسٹر فو بن چانگ کا استقبال کیا اور انہیں سوویت حکومت کا جواب پہنچایا جس میں یہ نوٹ کیا گیا تھا کہ سوویت حکومت ہمیشہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر کاربند رہتی ہے (اور) اس ثالثی کو نبھانا مناسب نہیں سمجھتی جس کا ذکر میمورنڈم میں کیا گیا ہے۔
سوویت حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ ایک جمہوری اور امن پسند ریاست کے طور پر چین کی سالمیت کی بحالی خود چینی عوام کا معاملہ ہے اور یہ سالمیت ممکنہ طور پر دونوں فریقوں کے درمیان براہ راست بات چیت کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہےکسی بیرونی مداخلت کے بغیر۔
‘چین-سوویت تعلقات۔ 1911ء-1957ء’،دستاویزات کا مجموعہ، ماسکو، 1959ء، صفحہ 200۔
نوٹس:
۔نمبر 1رازداری کی خاطر اس خط و کتابت کے لیے، اسٹالن نے فلیپوف کا تخلص استعمال کیا۔
۔ نمبر2 چینی سفارت کار اور مصنف شی ژی کی یادداشتوں میں یہ غلطی سے کہا گیا ہے: ‘دسمبر 1948ء میں سوویت فریق نے ہمیں ایک خط بھیجا جو سوویت حکومت کو کومینتانگ حکومت کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ اس نے سوویت حکومت سے کومینتانگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے درمیان تنازعہ طے کرنے کی درخواست کی تاکہ خانہ جنگی کا خاتمہ ہو… سوویت حکومت نے بغیر کسی تبصرے کے خط کا اصل (روسی متن) ہمارے حوالے کر دیا۔ (شی ژی کی یادداشتیں، 1988ء، نمبر 5۔ روسی ترجمے میں شائع ہوا: مشرق بعید کے مسائل، 1989ء، نمبر1، ص 139-148۔ اقتباس کے لیے دیکھیں ص 141۔)
3۔جیان جیجن اور شاؤ لٹسی کو پہلے ہی 1946ء میں نانجنگ حکومت نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا اختیار دیا تھا۔ لیکن جنرل مارشل کی ثالثی کے ذریعے ہونے والی یہ بات چیت چیانگ کائی شیک نے روک دی۔
4۔اس پیراگراف میں چینی کمیونسٹ پارٹی اور ماسکو کے ریڈیو سٹیشن کے درمیان مزید کارروائیوں پر بات کی گئی تھی، اس لیے پیراگراف کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
روسی زبان سے ستیہ بھان سنگھ اور طاہر اصغر نے ترجمہ کیا۔
بشکریہ: نوایائے نووشایا استوریا۔ نمبر4-5، 1994ء، ص 132-140۔
‘Sino-Soviet Relations. 1911-1957,’
Collection of Documents, Moscow, 1959, pp. 200.
Notes
- For this correspondence out of concern for secrecy, Stalin used the pseudonym of Fillipov.
- In the memoirs of the Chinese diplomat and author Shi Zhe it is mistakenly asserted: ‘In December 1948 the Soviet side sent us a letter, received by the Soviet Government from the Kuomintang Government. This requested the Soviet Government to settle the dispute between the KMT and the CPC, to bring an end to the civil war… The Soviet Government handed over to us the original (Russian text) of the letter without any comments. (Recollections of Shi Zhe; Zheniu, 1988, No. 5. The Russian translation is published in: Problems of the Far East, 1989, No. 1, pp. 139-148. For the quotation see p. 141.)
- Jian Jijun and Shao Litsi were already authorised in 1946 by the Nanjing Government to hold talks with the representatives of the CPC. But these talks, held through the mediation of Gen. Marshall were disrupted by Chiang Kai shek.
- In this paragraph the further operations between the radio station of the CPC and Moscow were discussed, hence the paragraph is left out.
Translated from the Russian by Satyabhan Singh and Tahir Asghar
Courtesy: Novaya i Noveishaya Istoriya, No. 4-5, 1994, pp. 132-140.