بہرحال اسلاف کی عظمتوں کے افسانوں نے دیوتا کا روپ اختیار کیا ہو یا مظاہرقدرت کی فعالی اور صاحب ارادہ شخصیتوں کا تصور دیوتاؤں کے پیکر میں ڈھل گیا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ دیوتاؤں کی تخلیق ذہن انسانی ہی کی مرہون منت ہے مگر تخلیق کا یہ عمل کئی مدارج سے گزرا ہے اور یہ وہی مدارج ہیں جہاں پہنچ کر انسان کی سماجی زندگی میں اہم تغیرات رونما ہوئے ہیں۔ سر جیمس فریزران مدارج کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پہلا دور وہ تھا جس میں سحر کو فروغ ہوا۔ اس دور کا سب سے بڑا مسئلہ خوراک تھا۔ چنانچہ انسان خوراک کی فراہمی کے لئے اپنی جسمانی طاقت کے علاوہ اعمال سحر سے بھی کام لیتا تھا۔
ابتد ا میں تو پورا قبیلہ ان رسموں میں برابر کا شریک ہوتا تھا۔ لیکن معاشرے میں جب تقسیم کار نے رواج پایا تو جادو منتر کے فرائض قبیلے کے سب سے تجربہ کار اور ذی فہم فرد کے سپرد کر دیئے گئے۔ وہ فراہمی خوراک کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو گیا اور اس کی ساری قوت اور وقت ساحرانہ عمل کو موثرسے موثر بنانے پرصرف ہونے لگی۔ یہی شخص قبیلے کا حکیم اور طبیب بھی ہوتا تھا۔ وہ علاج معالجے کے لئے دھاتیں اور جڑی بوٹیاں تلاش کرتا اور ان کی تاثیر معلوم کرتا تھا۔
موسم کی تبدیلیوں کا مطالعہ کرنا اور ان تبدیلیوں کا جو اثرحیوانات اور نباتات پر ہوتا ہے اس سے آگاہی بھی جادوگری کے فرائض میں داخل تھی اور قبیلے کو پورا یقین ہوتا تھا کہ ہماری شکاری مہمیں اس شخص کی ساحرانہ طاقتوں کی بدولت کامیاب ہوتی ہیں۔ وہ جب چاہتا ہے تو آسمان سے پانی برسنے لگتا ہے اور جب چاہتا ہے تو ہوا کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے جادو کے زور سے شکار میں زخمی ہونے والوں کو اچھا کر دیتا ہے اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑ دیتا ہے۔ وہی مویشیوں کی نسل بڑھاتا ہے اور اناج کی فصلیں اگاتا ہے۔
جس شخص میں اتنے اوصاف ہوں وہ ظاہر ہے کہ قبیلے کا سب سے صاحب اثر و اختیار شخص ہوگا۔ رفتہ رفتہ جب انفرادی ملکیت نے طاقت پکڑی تو ان ساحروں کی دولت اور قوت میں اور اضافہ ہوگیا۔ وہ بادشاہ بن گئے اور بادشاہوں کے لئے خدائی کا دعویٰ کرنا چنداں دشوار نہ تھا۔ چنانچہ سرجیمس فریزر دور حاضر کی پسماندہ قوموں سے مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جنوب مشرقی افریقہ کی زمباز قوم فقط اپنے راجہ کو دیوتا مانتی ہے اور اس کی پوجا کرتی ہے۔ یہ راجہ بھی اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ بارش اسی کے حکم سے ہوتی ہے اور اگر بادل کبھی حکم عدولی کرتے ہیں تو وہ آسمان میں تیر مار کر بادلوں کوسزا دیتا ہے۔ گرمی اور سردی کے موسم بھی اسی کی مرضی سے آتے جاتے ہیں۔
اسی طرح وسطی افریقہ کی باگاندہ قوم کا ایمان ہے کہ ان کا ساحر دیوتا جھیل نیانزا کے کنارے پہاڑوں میں رہتا ہے۔ اس دیوتا سے بادشاہ اور رعایا دونوں خوف کھاتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کوغیب کی باتیں بتاتا ہے۔ اس میں بیمار کو اچھا کرنے اور تندرست کو بیمار بنانے کی صلاحیت ہے۔ وہ چاہے تو بارش ہو اور نہ چاہے تو زمین کو پانی کا ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہو۔ اروار(Uruar)قوم کا سردار بھی اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا ۔وہ کئی کئی دن کچھ کھاتا نہ تھا اور ڈینگ مارتا تھا کہ میں خدا ہوں مجھ کوغذا کی کیا ضرورت ہے۔ میں تفریحا کبھی کبھی کچھ کھا لیتا ہوں۔ اور ادا قوم کے سردار نے انگریز افسروں سے ،جنہوں نے نائیجریا پرحملہ کیا تھا، کہا تھا کہ خدا نے مجھے اپنا ہم شکل بنایا ہے اور میں خود بھی خدا ہوں۔
سیام کا بادشاہ بھی دیوتا کی مانند پوجا جاتا تھا۔ اس کی رعایا کو بادشاہ کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ جب وہ سڑک پر گزرتا تو لوگ سر بسجدہ ہو جاتے تھے۔ اس کے لئے چند الفاظ مخصوص تھے اور یہ الفاظ کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کے سرکے بالوں، پاؤں کے تلوؤں، حتی کہ اس کی سانس کے لئے بھی الفاظ مخصوص تھے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جاپان کے موجودہ بادشاہ ہیروہیتو کو جاپانی قوم سورج دیوتا کا بیٹا اور دیوتا سمجھتی تھی۔ ان عقائد پر ہم کو حیرت نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ مسلمان بھی گزشتہ تیرہ سو سال سے ہر بادشاہ کو ظل اللہ اور ظل سبحانی کہہ کر پکارتے رہے ہیں حالانکہ اسلام تمام مذاہب سے زیادہ وحدانیت کی تلقین کرتا ہے اور ملوکیت کے بجائے جمہوریت کاعلم بردار ہے۔
وادی دجلہ و فرات کے دیوتاؤں کے ظہور و نمود کے بارے میں ہماری معلومات ہنوز بہت ناقص ہیں۔ چنانچہ وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اِن لیل، ایا، انو اور دوسرے دیوتا در اصل ساحر یا بادشاہ تھے جن کو لوگوں نے دیوتا بنا دیا۔ یا مظاہر قدرت کو شخصی پیکر دینے کے باعث یہ صورت پیدا ہوئی۔ البتہ یہ واقعہ ہے کہ دیوتاؤں کی آڑ میں ان کے پروہتوں نے اپنے عقیدت مندوں کے ذہنوں اور دلوں پر کئی ہزار برس تک حکومت کی۔ یہ پروہت پرانے زمانے کے ساحر ہی تھے جنہوں نے شخصی ملکیت کے دور میں ہر بڑے شہر میں اپنے اپنے مرکز قائم کر لئے تھے۔ وہی ان شہروں کے اولین سیاسی سربراہ بھی تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شہر کے بانی یا سربراہ کو آنے والی نسلوں نے دیوتاؤں کا مرتبہ دے دیا ہو اور سحر کے مرکزمذہبی معبدوں میں تبدیل ہو گئے ہوں کیونکہ ان مرکزوں میں دولت کی فراوانی کا تقاضا یہی تھا کہ لوگوں کو اطاعت، عقیدت اور عبادت کی طرف مائل کیا جائے۔
عراقی دیومالا کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وادی فرات کے دیوتاؤں کے خدوخال شہری ریاستوں کے دور میں ابھرے۔ چنانچہ انسان نے دیوتاؤں کے معاشرے کا جو نقشہ بنایا وہ اس کے اپنے معاشرے ہی کا عکس تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مطلق العنان بادشاہتیں ہنوز قائم نہیں ہوئی تھیں بلکہ ریاستوں کا نظم و نسق جمہوری طریقوں پر چلتا تھا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ عراقی دیومالا میں کائنات کے تمام اہم مسائل دیوتاؤں کی مجلس شوری میں طے پاتے ہیں۔ کائنات پرکسی ایک دیوتا کی فرماں روائی نہیں ہے بلکہ جو فیصلہ کرتا ہے وہ باہمی صلاح و مشورے سے ہوتا ہے۔ مجلس شوری ہی یہ فیصلہ بھی کرتی ہے کہ اس کے احکام کو نافذ کرنے کا فرض کس دیوتا کے سپرد کیا جائے۔
جس طرح جمہوری ریاستوں کے اندرسب لوگ برابرنہ تھے بلکہ کوئی دولت مند تھا، کوئی محتاج، کوئی آقا تھا اور کوئی غلام۔ اسی طرح دیوتاؤں کی آسمانی ریاست میں بھی سب کے مرتبے مساوی نہ تھے۔ بلکہ وہاں بھی چھوٹےبڑے کی تمیز ہوتی تھی اور انسان نے ان کے مرتبے کا معیار ان کی طاقت کوقرار دیا تھا۔ جو دیوتا جتنا طاقتور تھا مجلس شوری میں مساوات کے باوجود اس کا اثر و اقتدار اتنا ہی زیادہ تھا۔ یہی طاقتور دیوتا مجلس شوریٰ اور کا بینہ کے رکن سمجھے جاتے تھے۔ ان میں سب سے ممتاز مندرجہ ذیل دیوتا تھے۔
(1) انُو۔
(2) اِ ن لیل (ایا) جوہوا اور طوفان کا دیوتا اورانو کا بیٹا تھا۔
(3) اِن کی۔ زمین اور میٹھے پانی کا دیوتا۔
(4) ننورتا۔ جنگ کا دیوتا۔
(5) نن ہورسگ۔ مادر ارض یا مادر کائنات۔
(6) انانا (عشتار) محبت اور افرائش نسل کی دیوی۔ ان لیل کی بہن۔
(7) ارش کی گل۔ ملکہ ظلمات۔ موت کی دیوی۔ انانا کی بہن۔
(8) ننا (سین) چاند دیوتا۔
(9) انو (شمس) سورج دیوتا۔
انُو۔۔۔ کے لفظی معنی آسمان کی وسعتوں کے ہیں۔ یہ وسعتیں زمین، سورج، چاند سب کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اورسب سے زیادہ بسیط اور کشادہ ہیں، اس لئے دیوتاؤں کی مجلس شوری میں انو کی شخصیت سب سے زیادہ لائق احترام ہے۔ انو دیوتاؤں کے قبیلے کا سب سے بزرگ، سب سے سنجیدہ، سب سے متحمل مزاج اور باوقار فرد ہے۔ وہ قاعدے قانون سے کبھی انحراف نہیں کرتا اور نہ کبھی جانبداری دکھاتا ہے۔ وہ نہایت نیک، رحم دل اور خطا پوش ہے۔ ایک روایت کے مطابق کائنات کا خالق انو ہی ہے۔
انونے سب سے پہلے آسمان پیدا کیا۔
تب آسمان نے زمین کو پیدا کیا۔
اور زمین نے دریاؤں کو پیدا کیا۔
اور دریاؤں نے نہروں کو پیدا کیا۔
اور نہروں نے دلدل کو پیدا کیا۔
اور دلدل نے کیڑوں کو پیدا کیا۔ (دانت کے درد کے لیے منتر)
دیوتاؤں کی مجلس شوری طلب کرنا انو کا فرض تھا۔ البتہ وہ عام طور پر اظہار رائے سے گریز کرتا تھا۔ موجودات عالم کی تقدیر کا فیصلہ ایک لوح پر لکھ لیا جاتا تھا۔ اس لوح کا محافظ اِن لیل تھا۔
اِن لیل یا ایا— اِن لیل کے لفظی معنی طوفان کے آقا کے ہیں۔ عراقی دیومالا میں ان لیل سب سے زیادہ صاحب جلال اور طاقتور دیوتا شمار ہوتا تھا۔ وہ انو کی قوت تھا، انوکی طاقت کا مظہر تھا اور مجلس شوری کے فیصلوں پر عمل درآمد کا فرض عام طور پر اسی کے سپرد ہوتا تھا ۔آسمان اور زمین کے درمیان اسی کا راج تھا۔ اسی نے زمین کو آسمان سے الگ کیا تھا۔ ورنہ ابتدا میں دونوں آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ مجلس شوری میں بھی اکثر اسی کی بات مانی جاتی تھی۔ مثلا گل گامش کی داستان میں ثور فلک اور جمبابا کی ہلاکت کے بعد جب مجلس شوری میں انو یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ گل گامش اور ان کدو میں سے ایک کو مرنا ہوگا تو ان لیل بڑے تحکمانہ انداز میں یہ فیصلہ صادر کرتا ہے کہ ان کدو کو مرنا ہوگا۔ گل گامش نہیں مرے گا۔ شمس دیوتا دونوں کی وکالت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کدو اور گل گامش نے ثور فلک اور جمبابا کو میری اجازت سے ہلاک کیا تھا لہذا وہ بے قصور ہیں۔ مگر ان لیل اسے یہ کہہ کر ڈانٹ دیتا ہے کہ تم روزانہ ان کے پاس جاتے ہو اور انہیں میں گھل مل گئے ہو اسی لئے ان کی وکالت کر رہے ہو۔ بے چارہ شمس خاموش ہو جاتا ہے اور اِن لیل کی بات مان لی جاتی ہے۔
ان لیل کی اس ہیبت اور طاقت کی وجہ سے نیفر ،جہاں ان لیل کا بڑا مندر تھا، وادی کا سب سے مقدس شہر خیال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ بابل کے عروج سے پیشتر سومیر اور عکاد کے بادشاہوں کی رسم تاجپوشی ان لیل کے مندر ہی میں ادا کی جاتی تھی اور وادی کا ہر بادشاہ اپنا وقار بڑھانے کی خاطر نیفر کو اپنی قلمرو میں شامل کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔
سومیری اورعکادی زبانوں میں سب سے زیادہ بھجن اور گیت ان لیل ہی کی تعریف میں ہیں اور جن لوگوں نے عراق میں آندھیوں کے جھکڑوں اور ریت کے بگولوں کی حشرسامانیاں دیکھی ہیں وہ بخوبی محسوس کرسکتے ہیں کہ وہاں کے قدیم باشندے اس جلالی قوت سے کیوں خوف کھاتے تھے اوراس کی خوشنود ی اور رضاجوئی کی کیوں کرفکر کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ایک گیت میں ان لیل کی حمد و ثنا ان لفظوں میں کی گئی ہے۔
اِن لیل، کوہ عظیم کے بغیر
کوئی شہر نہیں بن سکتا، کوئی بستی نہیں بن سکتی
کوئی دکان نہیں چل سکتی،بھیڑوں کا باڑہ نہیں بن سکتی
کوئی بادشاہ پیدا نہیں ہوسکتا، کوئی مہاپروہت پیدا نہیں ہوسکتا
دریاؤں میں سیلاب کا پانی چڑھ نہیں سکتا
سمندر کی مچھلیاں بید کی جھاڑیوں میں انڈے نہیں دے سکتیں
پرندے زمین میں گھونسلے نہیں بنا سکتے
آسمان میں گشت لگانے والے بادلوں سے نمی نہیں برس سکتی
پودے اورجھاڑیاں جو میدانوں کی رونق ہیں پنپ نہیں سکتیں
کھیتوں اور مرغزاروں میں اناج کی بالیاں پھوٹ نہیں سکتیں
پہاڑی جنگلوں کے درختوں میں پھل نہیں آسکتے
سومیر و عکاد کے مشہور زمزمہ تخلیق کا ہیرو بھی ان لیل ہی ہے۔ البتہ 19ویں صدی قبل مسیح میں جب بابل کو فروغ ہوا تو وہاں کے پروہتوں نے اس نظم میں تحریف کر کے ان لیل کے بجائے اپنے شہر کے دیوتا مزدک کو داستان کا ہیرو بنا دیا۔
اِنکی۔۔۔ انکی کے لفظی معنی آقائے ارض کے ہیں۔ اس دیوتا کی شخصیت بہت پیچیدہ ہے۔ وہ بیک وقت خشکی کا دیوتا ہے اور میٹھے پانی کا بھی۔ سامی لوگ اسے آیا کہتے تھے۔ یعنی پانی کا گھر۔ کسی ایک دیوتا میں خشکی اور تری کا امتزاج بظاہرعجیب معلوم ہوتا ہے لیکن یہ تصور در اصل اس تجربے کا پرتو ہے جو دجلہ و فرات کے ڈیلٹا میں رہنے والوں کو ہرروز ہوتا ہے۔ وہاں دلدل اور ندی نالے اس کثرت سے ہیں کہ خشکی اور تری میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا لازمی جزو ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ انکی شہر اریدو کا ،جو اس خطے کی سب سے قدیم بستی ہے،خاص دیوتا تھا۔انکی دانائی اور فراست کا دیوتا تھا۔ وہ معلم اعظم بھی تھا۔ اورعلوم وفنون کا محافظ بھی۔ جادو منتر کرنے والے بھی اسی سے دعا کرتے تھے۔
وہ دیوتاؤں کا بڑا بھائی ہے جو خوش حالی لاتا ہے
جو کائنات کا حساب داں ہے
اور ساری دنیا کا دماغ اور کان
نناّ۔۔۔ چاند اور سورج کی تابانی نے دنیا کی سبھی پرانی قوموں کو متاثر کیا ہے۔ چنانچہ ہندوستان، ایران، مصر اور یونان غرض کہ ہر ملک میں چاند اور سورج کو رتبہ حاصل تھا۔ رگ وید اور پارسیوں کی مقدس کتاب گاتھا میں تو چاند سورج کی ثنا و صفت میں بہ کثرت گیت اور بھجن موجود ہیں۔ یہی صورت حال وادی دجلہ و فرات میں بھی پائی جاتی ہے۔ البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ مصر، ہند، ایران اور یونان کے برعکس اہل عراق چاند کو سورج پر فضیلت دیتے تھے۔ ان کے عقیدے میں اتو یا شمس در اصل ننا یاسین کا بیٹا تھا۔ اسی طرح فلسطین اور شام کی پرانی قوموں کا بڑا دیوتا چاند تھا جسے وہ ایلات کہتے تھے۔
چاند کی فضلیت کا سبب غالبا ان علاقوں کا موسم تھا۔ وہاں سورج کی تمازت اتنی تیز ہوتی ہے کہ لوگ دھوپ سے بچنے کے لئے پناہ کے گوشے تلاش کرتے ہیں۔ البتہ جب رات آتی ہے اور چاند کی خنک روشنی سے صحرا اور ریگزار منور ہو جاتے ہیں تو لوگوں کی جان میں جان آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں اُر اور ماری (حریری) کی بادشاہتیں بہت دن قائم رہیں۔ اور ان دونوں شہروں کا بڑا دیوتا چاند (سین) ہی تھا۔
جس طرح ہندو ایکادشی اور پورن ماشی کا تیوہار مناتے ہیں اسی طرح عراق کے لوگ “سوایل لا” کا تیوہار مناتے تھے۔ لیکن فرق یہ تھا کہ ہندو چاند کی پہلی تاریخ اور چودھویں تاریخ کو مقدس مانتے ہیں اور اہل عراق تیسویں تاریخ کو ۔”سوایل لا” کے معنی ہاتھ اٹھانے کے ہیں۔ غالبا چاند کی تیسویں تاریخ کو جب رات اندھیری ہوتی تھی تو لوگ ہاتھ اٹھا کر اٹھاکر دیوتا سے واپس آنے کی دعا کیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک دعا اشور بنی پال کے کتب خانے کی لوحوں پر لکھی ہوئی برآمد ہوئی ہے۔
اے سین! اے ننار تو جو منور ہے
تو جو اپنے بندوں کے لئے روشنی فراہم کرتا ہے
تیری مشعل آگ کی مانند چمکتی ہے
تو مسافروں کی رہنما ئی کرتا ہے
تونے زمین اور آسمان کو روشنی سے بھر دیا ہے
تجھے دیکھ کر لوگوں کی ڈھارس بندھتی ہے
تیری روشنی شمس کے مانند ہے
جو تیرا پلوٹھی کا بیٹا ہے
عظیم دیوتا تیرے آگے سر جھکاتے ہیں
اور زمین کے فیصلے تیرے روبرو رکھے جاتے ہیں
جب عظیم دیوتا تجھ سے مشورہ طلب کرتے ہیں
تو تو انہیں نیک مشورہ دیتا ہے
وہ مجلس شوری میں تیرے سائے میں بیٹھتے ہیں
آج تیسویں تاریخ کو تجھے گہن لگ گیا ہے
پس میں نے تیرے اعجاز میں لوبان اور نجور جلائے ہیں
اور سب سے شیریں شراب نذر کی ہے
ایک گیت میں ننار کی ما ورائی صفا ت بیا ن کرنے کے بعد شاعر اس کا رشتہ زمین سے ان نقطوں میں جوڑتا ہے۔
تو وہ ہے کہ جب تیرا کلام زمین پر نازل ہوتا ہے
تو ہریالی اورسبزیاں اگتی ہیں
اور بھیڑیں بکریاں موٹی ہوتی ہیں
اور ان کی نسل بڑھتی ہے
اور صداقت و انصاف کا ظہور ہوتا ہے
اور لوگ سچ بولتے ہیں
تیرا کلام دور آسمان میں اور زمین کے نیچے پوشیدہ ہے
تیرا کلام کون سمجھ سکتا ہے
کون اس کی ہمسری کر سکتا ہے
زمین اور آسمان میں تیرا کوئی ثانی نہیں
اَتُو شمس۔۔۔ یہ درست ہے کہ اہل عراق چاند کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور اس کی ٹھنڈی اور پر اسرار روشنی ان کے جسم کو آرام پہنچاتی تھی مگر وہ جانتے تھے کہ زندگی کی ساری رونق سورج ہی کے دم سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ ان کے عقیدے میں شمس کو وہ مقام حاصل ہو گیا جو مصر میں آمون رع کو حاصل تھا ۔چنانچہ، سورج سے وہ تمام صفات منسوب کر دی گئیں جو بعد میں خدا کی ذات سے منسوب ہوئیں۔ وہ جہاں بیں اور دانائے راز قرار پایا جس کی نگاہیں ہر نیکی بدی کو دیکھ لیتی تھیں۔ انسان کی کوئی حرکت اس سے پوشیدہ نہیں تھی اور نہ کائنات کا کوئی گوشہ اس سے چھپا ہوا تھا۔ لیکن اس ہمہ گیر قوت کے باوجود وہ نہایت شفیق، ستار عیوب اور رحم دل دیوتا تھا۔ وہ مشکل کے وقت ہر حاجت مند کے کام آتا تھا۔ وہ انصاف اور صداقت کا پیکر تھا۔ وہ بدلوگوں کو سزا دیتا تھا اور نیک لوگوں کو انعام و اکرام سے نوازتا تھا۔ چنانچہ ایک شاعر شمس دیوتا کی تعریف ان لفظوں میں کرتا ہے۔
تو جو تاریکی کو روشنی میں بدل دیتا ہے
اور زمین آسمان کی بدیوں کو کچل دیتا ہے
تیری شعاعیں سمندر کی لہروں اور پہاڑ کی اونچی چوٹیوں کو اپنے جال میں گرفتار کر لیتی ہیں
سب لوگ تیرے ظہور پر خوش ہوتے ہیں
تو دنیا کے سب لوگوں کا نگاہ بان ہے
خداوند ایا نے جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں
تو ان سب کی نگرانی کرتا ہے
اور جن لوگوں کو زندگی عطا ہوئی ہے تو ان کا بھی پاسبان ہے
بیشک تو زمین اور آسمان کی سب مخلوقات کا گڈریا ہے
تو روزانہ بڑی مستعدی سے زمین کے اوپر سے گزرتا ہے
تیری شعاعیں اس گہرائی میں پہنچ جاتی ہیں
جس کا علم عظیم دیوتاؤں کوبھی نہیں ہے
سمندر کے اژدہے بھی تیری روشنی کے منتظر رہتے ہیں
دن کے وقت تیرا چہرہ تردد سے تاریک نہیں ہوتا
اور رات کے وقت تو آسودہ اور مطمئن آرام کرتا ہے
تو کتنی دیر تک جاگتا رہتا ہے
تو دن کے وقت سفر کرتا رہتا ہے
اور رات کے وقت واپس جاتا ہے
تیرے سوا کسی دیوتا کو اتنی فکر نہیں
کہ ہمارے لئے اپنےکو تھکائے اور ہلکان کرے
اس کے باوجود کوئی دیوتا اتنا تاباں و شاداں نہیں جتنا تو ہے
تو ان تمام ملکوں کے منصوبوں سے بھی واقف ہے
جن کی زبانیں ہم سے مختلف ہیں
اے شمس! ساری دنیا تیری روشنی کے لئے بیتاب رہتی ہے
تو خشکی کے اس مسافر کا رفیق ہے
جس کی راہ کٹھن ہے
اور تری کے اس مسافر کی ہمت بڑھاتا ہے
جو پانی سے ڈرتا ہے
تو انجان راہوں میں شکاری کی رہبری کرتا ہے
اور وہ سورج کی مانند اونچی سے اونچی جگہوں کو آسانی سے عبور کر لیتا ہے
تو سوداگر اور اس کی تھیلی کو سیلاب سے بچاتا ہے
تیرا وسیع جال اس آدمی کو گرفتار کر لیتا ہے
جس نے اپنی دوست کی بیوی پر بری نگاہ ڈالی
تو بدی کرنے والوں کے سینگ توڑ دیتا ہے
اور جو شخص حساب میں بد دیانتی کرتا ہے
تو اس کی بنیاد گرا دیتا ہے
بے ایمان حاکم کو تو بندی خانے کی راہ دکھاتا ہے
اور رشوت لینے والے کو سزا دلواتا ہے
اور جو شخص رشوت نہیں لیتا
بلکہ کمزوروں اور مظلوموں کی وکالت کرتا ہے
تو اس کو خوشی کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے
اور وہ حاکم جو سچا فیصلہ کرتا ہے
شاہی محل کا مستحق قرار پاتا ہے
اور وہ ساہوکار جو بھاری سود لیتا ہے
اور ناجائز نفع کماتا ہے
آخر کار تیرے حکم سے تھیلی کا بوجھ کھو دیتا ہے
اور وہ جو تین شیکل پرایک شیکل نفع کماتا ہے
تیرا پسندیدہ ہوتا ہے
اور وہ جو تولتے وقت ڈنڈی مارتا ہے
یا غلط بٹے استعمال کرتا ہے
آخرکار تیرے حکم سے اپنی تھیلی کا بوجھ کھو دیتا ہے
نیک کام کرنے والوں کو تو
جیسے چشمہ حیات کے مانند اچھے پھل عطا کرتا ہے
کمزور انسان اپنی کھوکھلی آواز سے
تجھی کو پکارتا ہے
اور مفلس، مظلوم، ضعیف اور بدسلوکیوں کا شکار
تجھی سے فریاد کرتے ہیں
یہ تھے صف اول کے دیوتا جن کو انو اور ان لیل کا قرب حاصل تھا۔ مگر ان کے علاوہ قدرت کے تمام مظاہر اور اوصاف کے الگ الگ دیوتا بھی تھے۔ ان چھوٹے چھوٹے دیوتاؤں کی وہ حیثیت تونہ تھی جو انو کے ارکان وزارت کی تھی لیکن وادی دجلہ و فرات کے باشندے ان کی بھی پوجا کرتے تھے۔ اور ان کے بت مندروں میں رکھتے تھے۔ مثلا جو کا دیوتا اشنان تھا۔ اور مویشیوں کا دیوتا شموفان تھا۔ اور بچوں کی ولادت کی دیوی گولا تھی اور نرسل کی دیوی ندابا تھی اورسفر کا دیوتا پاسگ تھا۔ چنانچہ علماء آثار کا تخمینہ ہے کہ عراق میں کم از کم تین ہزار دیوی دیوتاؤں کی پرستش ہوتی تھی۔
ان خداؤں کے علاوہ ہر خاندان بلکہ ہر گھر کا ایک ذاتی معبود بھی ہوتا تھا۔ اس معبود کا نام نہ تھا اور نہ اس کا کوئی بت بنایا جاتا تھا البتہ اس کے لئے ہر گھر میں ایک چھوٹا سا حجرہ یا گوشہ ضرور مخصوص ہوتا تھا اور خاندان کا بزرگ اس حجرے میں بیٹھ کر اپنے انفرادی دیوتا کی پوجا کرتا تھا۔ اس معبود سے گھر والوں کے تعلقات بالکل ذاتی ہوتے تھے بلکہ یا یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ وہ گھر کا ایک فرد ہوتا تھا۔
قیاس کہتا ہے کہ اٹھارہویں صدی قبل مسیح میں جب حضرت ابراہیم نے اپنے آبائی وطن ارکر کوخیرباد کہا اور حاران ہوتے ہوئے فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اپنے اسی بے نام معبود کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے اور یہ وہ معبود تھا جس کو انجیل، ابراہیم اور اسحاق کا خدا کہتی ہے کیونکہ وہ ابراہیم کا ذاتی خدا تھا جو سفر اور حضر میں ابراہیم کے ساتھ رہتا تھا۔