ریاست کیا ہے؟ (پانچویں قسط)
ریاست اور جمہوریت
آج کل جمہوریت سے کیا مراد لی جاتی ہے؟ اس کے اوصاف کیا ہیں اور اس کو جانچنے اور پرکھنے کے معیارات کیا ہیں؟آئیے ہم اس گفتگو کے آغاز سے ہی یہ بات واضح کردیں کہ بذاتہی خالص جمہوریت نام کا کوئی تصور نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس اصطلاح کی مارکسی لیننی تفہیم اور سرمایہ دارانہ تفہیم میں بڑا فرق ہے ۔مارکسی لیننی لوگ جمہوریت کے صرف رسمی قانونی اوصاف کی نشاندہی پر اکتفا نہیں کرتے چونکہ بسا اوقات یہ او صاف سیاسی زندگی کے خارجی پہلوؤں تک ہی محدود ہوتے ہیں ۔اس کے برعکس وہ جمہوریت کی سماجی ماہیت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
اگر معاشرے میں موجود طبقات کے مفادات میں معاندانہ تضاد ہے تو ریاست کی مانند جمہوریت بھی صرف حکمران طبقات کے مفادات کی نگہبانی ہی کرتی ہے۔ استحصالی ریاست میں غالب طبقہ آبادی کے ذہن میں اس سراب کی آبیاری کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ فی الوقت موجود حالات بہترین حالات ہیں اور اس طرح وہ اپنے غلبے کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج کل کے صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں یہی صورتحال ہے۔
ابتدا میں سرمایہ دارانہ جمہوریت پر کشش تھی ۔اس وقت جمہوری جدوجہد وں کا یہ ہدف تھا کہ جاگیرداروں کے من مانے اقتدار کو ختم کیا جائےاوریہ مطالبے عوام کی بڑی اکثریت کی تمنا سے ہم آہنگ تھے۔ لیکن جوں جوں اقتدار کی باگیں سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں آتی گئیں اس نے اپنے طبقے یعنی ایک اقلیت کے محدود مفادات کی ترجمانی اور نگہبانی شروع کردی ۔نتیجے کے طور پر آزادی گھٹ کر اکثریت پر جبر کے لیے اقلیت کی آزادی رہ گئی۔
جمہوریت کی ماہیت کی عکاسی بنیادی طور پر فرد کے حقوق اور آزادیوں سے ہوتی ہے۔سرمایہ دارانہ دستورنجی ملکیت کی تقدیس و تحریم پر بہت زور دیتے ہیں۔ اگر کسی شخص کی ملکیت میں زرائع پیداوار ہیں تو وہ جس طرح چاہے ان کا تصفیہ کر سکتا ہے۔ وہ دوسروں کی محنت کا استحصال کر کے منافقوں کی تحصیل کر سکتا ہے، وہ ملکیت کو لگان پر دے سکتا ہے، فروخت کر سکتا ہے اور حاصل ہونے والی رقم کو کسی منافع بخش کاروبار میں لگا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس صرف ذہن اور ہاتھ ہیں تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ روزگار دیکھے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔سرمایہ دارریاست اسے روزگار کی ضمانت نہیں دیتی۔نتیجے کے طور پر بے روزگاروں کی فوج مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے کے رکن کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی بھی ہے مگر اگر اس کے پاس تعلیم کے لیے پیسہ نہیں تو یہ آزادی بھی کاغذی آزادی ہی رہ جاتی ہے۔
سوشلسٹ معاشرے میں فرد کا مرتبہ یکسر مختلف ہے۔ ریاستی دستور کی صراحتوں کے مطابق فرد کے حقوق و فرائض کا مفہوم یہ ہے کہ فرد کی ہمہ گیر ہم آہنگ نشوونما اور ترقی کے لیے تمام ضروری شرائط اورمواقع فراہم کیے جائیں گے، محنت اور حکومت کے میدانوں میں اس کی سرگرمی کو فروغ دیا جائے گا اور اس کی ثقافتی سطح بلند کی جائے گی۔سوشلسٹ جمہوریت ،انفرادی حقوق اور آزادیوں کا ایک بھرپور نظام فراہم کرتی ہے اور سوشلسٹ ریاست یہ ضمانت دیتی ہے کہ اس نظام کو حقیقت میں ڈھالا جائے گا۔
سرمایہ دارانہ ریاست
اجارہ دارانہ مفادات کے حیلہ ساز
صنعتی طور سے ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں عظیم ترین اجارہ داریاں ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں ۔بینک،ٹرسٹ اور کارپوریشنیں ملک کی دولت کے بڑے حصے کو اپنی آغوش میں سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں اور اس کے تمام کلیدی حلقوں پر قابض ہوتی ہیں۔اس لیے ریاست پابند ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اس اجارہ دارسرمایہ داری کے مفادات کا تحفظ کرے۔وہ سرمایہ دارانہ نظام کی پاسبان ہوتی ہے، جبکہ محنت کش عوام کو استحصالیوں کے چھوٹے سے گروہ کو امیر تر کرنے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔سرمایہ دارریاست کو ایسے حالات میں کام کرنا ہوتا ہے جب سیاسی جدوجہد بھی زوروشور سے جاری ہوتی ہے۔ سرمایہ دار ملکوں میں محنت کش عوام اور اجارہ داروں،سرمایہ دارطبقے اورمحنت کش طبقے،اجارہ دارانہ اور متوسط سرمایہ داروں، شہری متوسط طبقے، چھوٹے سرمایہ داروں اور دانشوروں کے متصادم ومتضاد مفادات ہی ان ممالک کی سیاسی صورتحال کو متعین کرتے ہیں۔
اپنے غلبے کو قائم رکھنے اور اسے استحکام بخشنے کے لئے اجارہ دار سرمایہ داروں کی حرص وطمع نے ایک جانب اور دوسری جانب اپنے مفادات کے دفاع اور اپنی ضروریات کی زیادہ بھرپور تسکین کے لیے محنت کش عوام کی جدوجہد نے دو یکسر مخالف سیاسی رجحانوں کو جنم دیاہے۔ایک طرف تو زندگی کے ہر حلقے پر رجعت پرستوں کی یلغارہے جبکہ دوسری طرف جمہوریت اور سماجی ترقی کی صف اول کی قوتوں کی جدوجہد ہے۔ مختلف ملکوں اور مختلف ادوار میں ان دونوں رجحانوں کے درمیان قوت کا توازن جھکتا اٹھتا رہتا ہے۔ بعض اوقات طبقاتی کشمکشیں سرمایہ داروں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ کچھ مراعات دیتے ہوئے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کریں۔ حکمران اشرافیہ سرمایہ دارانہ نظام کے لازمی تضادات کی لیپاپوتی کرکے طبقاتی کشمکش کو دھیما کرنے اور معاشی بحرانوں کے زخموں کو مندمل کرنے کے لئے بے روزگاری اور افراط زر کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
حالیہ دہائیوں میں سرمایہ دار ریاستوں نے سماجی رشتوں میں باقاعدگی لانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس نے آجروں(مالکوں) اور مزدوروں کے درمیان رشتوں کوبہتر بنانے پر دھیان دیا ہے اور اوقات کار، اجرتوں اور پینشنوں کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی ہے ۔اس طرح سرمایہ دار ریاست سرمائے کے خلاف بڑھتی ہوئی منظم جدوجہد وں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں طبی علاج معالجے کے تانے بانے اور اسکولوں کا جال، علمی تحقیق کے لیے مالی وسائل کی فراہمی، جسمانی ورزش اور کھیل کود کی سہولیات کا قیام اور ثقافتی اداروں وغیرہ کا قیام ،ریاست کے سماجی کام کا حصہ ہیں۔ مختلف ملکوں میں اس کام کی سطح مختلف ہے۔
تاہم، سرمایہ دار ریاست کے سماجی کاموں کے قصائد پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اس ضمن میں یہ حقیقت منہ بولتا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ان تمام کاموں کے باوجود اپنے حقوق کے دفاع کے لیے محنت کش مرد و خواتین کی جدوجہد ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹہری ۔وہ جزوی رعایتوں سے مطمئن نہیں اور ان کا یہ عدم اطمینان قابل فہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست کا سماجی کام اس کی اپنی طبقاتی ماہیت سے ہم آہنگ ہے ۔وہ سرمایہ داروں کے مقررکردہ واضح سماجی و سیاسی اہداف کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ سرمایہ داروں کی سماجی پالیسی کا تعین پوری دنیا میں طبقاتی قوتوں کے توازن کے علاوہ خود ریاست کے اندر اس توازن کے تناظر میں ہوتا ہے۔ یہ اس سماجی پالیسیوں کو اپنانے پر مجبور ہے اور محض سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو دوام دینے کے لئے اس پرعملدرآمد کرتی ہے۔
سرمایہ دار ریاست ملک کے انتظام و انصرام کا بار اپنے سر لیتی ہے۔ دوسرے اسباب کے علاوہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ریاست کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کو ہمہ بستہ کرے اور چنانچہ اس کام کو نمٹانے کے لیےوہ ریاستی ملکیت کا انتظام و انصرام کرتی ہے۔اس انتظام و انصرا م کا مفہوم یہ ہے کہ ریاست سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی رشتوں کی افزونی میں براہ راست شرکت کرتی ہے۔ریاستی ملکیت کو چلانے والے لوگ اجارہ داریوں سے گہرے روابط میں منسلک ہوتے ہیں اور یوں ریاست سرمائے اور محنت کے رشتوں میں داخل ہوتی ہے۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟اس لیے کہ بالعموم محنت کشوں نے اپنی معاشی جدوجہد کا قانونی حق حاصل کرکے اس جدوجہد کو ادارہ جاتی شکل دے دی ہے اور ٹریڈ یونینیں بنا لی ہیں۔ ریاستی ادارے اورمحکمے محنت کشوں اور جمہوری تنظیموں میں اپنے درندازجاسوس گھسا دیتے ہیں ،ترقی پسند شخصیات کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور ٹیلی ویژن پر ان کی گفتگو کی سن گن لیتے رہتے ہیں۔
دور حاضر میں اگر ریاست ایسی خصوصی ایجنسیوں کو استعمال نہ کرے جو آبادی کو نظریاتی سطح پر گمراہ کرتی ہیں تو سرمایہ داروں کے لیے اپنے اقتدار کو سہارا دینا ناممکن ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے ابلاغ عامہ کے اداروں کا وسیع استعمال کیا جاتا ہے۔ اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن کے علاوہ ریاستی کل پرزوں کے دیگر تمام ادارے بھی اس نظریاتی کام میں بڑی مستعدی سے حصہ لیتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے سرمایہ دار ریاست فوج دارانہ پالیسیوں پر عمل کرتی ہے۔وہ دیگر ملکوں کے خلاف بھی جارحانہ منصوبہ بندیاں کرتی ہےاورخود ملک کے اندر لوگوں کی سرگرمی کو کچلنے کے لئے اپنے پاس ایک طاقتور قوت کو ہمہ دم تیاررکھتی ہے۔ اگر ریاست کے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہ ہوتی تو لاکھوں کی تعداد میں عوام کی بے چینی و اضطراب کو قابو رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ماحول کوہولناک بنادینے میں سرمایہ داروں کا فائدہ ہے چونکہ اس طرح لوگ مستقبل کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہو کر مطیع و فرمانبردارہوجاتے ہیں۔