ملکیت کیا ہے؟ (نویں قسط)
آلات محنت کے اس انفرادی اور اختصاصی وصف اوران پرقائم انفرادی محنت نے ہی ان آلات کے اکتساب کے طریقہ کار اورشکل میں تبدیلیاں لازم کردیں۔مشترکہ اکتساب سے انفرادی اکتساب کی طرف پیش قدمی ہوئی اورذرائع پیداوارپرنجی ملکیت قائم ہوئی۔پیداوارمیں تبدیلیوں کے باعث ایسا ہونا ناگزیر تھا۔اب جبکہ فرداپنے انفرادی آلات محنت لیےتنہا پیداوارکرنے لگا تو پیداواری عمل میں اس کی شرکت کی نوعیت ہی تبدیل ہوگئی۔
چنانچہ، ذرائع پیداوارپرقدیم اشتمالی ملکیت سے نجی ملکیت کی جانب پیش رفت اس بات کا نتیجہ نہیں تھی کہ طاقتورلوگوں نے ذرائع پیداوارکواپنے قبضے میں لے لیا تھابلکہ وہ آلات محنت اورخود محنت کی نوعیت میں تبدیلیوں اورپیداواری عمل میں تغیرات کا حاصل تھی۔ یہی وہ مفہوم ہے جس کے تحت انسانی تاریخ کے ایک خاص مرحلے پرنجی ملکیت کا قیام ایک ایسا پابند قانون عمل تھا جو تاریخی طورپرناگزیر بھی تھا اورترقی پسندانہ بھی۔
آلات محنت کے اختصاص نےنجی ملکیت کی جانب پیش رفت کے لیے بھی بنیاد فراہم کی اورساتھ ساتھ محنت کی اجتماعی تقسیم کے لیے بھی۔ پہلے مال مویشی کی افزائش زراعت سے علیحدہ ہوئی، اورپھر مختلف ہنروں اورتجارت کی نمو نے انسانی سرگرمی کے لیے نئی راہیں کھولیں۔ محنت کی اجتماعی تقسیم ایک جانب اوردوسری جانب ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت نے ایک نئے قسم کی معیشت کو جنم دیا۔ یہ تھی اشیائے خریدوفروخت کی پیداوار۔ یہ معیشت آزاد اختصاصی پیداواری لوگ چلاتے رہے۔ یہ لوگ ایسی اشیائے خرید وفروخت پیدا کرتے تھے جن کا منڈی میں تبادلہ ہوتا تھا۔ اشیائے خریدوفروخت کی پیداوار اس خود کفیل معیشت پر غالب آگئی جہاں اشیاء کسی موجودمعاشی اکائی میں اندرونی اصراف کے لیے بنائی جاتی تھیں نہ کہ مبادلے کے لیے۔
محنت کی اجتماعی تقسیم اس معنی میں مختلف پیداواری لوگوں کو باہم جوڑتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے پیداوارکرتے ہیں ۔لیکن چونکہ یہ علیحدہ علیحدہ لوگ اپنی نجی ملکیتوں کی بنیاد پریہ پیداوارکررہے ہوتے ہیں اس لیے یہ لوگ بنیادی انسانی سرگرمی یعنی پیداواری عمل کی صورت کے اعتبار سےایک دوسرے سے علیحدہ اورآزاد ہوتے ہیں۔ ان حالات میں پیداوارکرنے والےان مختلف لوگوں کے درمیان منڈی میں ثمرات محنت یا اپنی اپنی مصنوعہ اشیاء کا تبادلہ ہی رابطے کی واحد کڑی ہوتی ہے۔ایسے معاشی نظام کو اشیائے خریدوفروخت کا سادہ پیداواری نظام کہتے ہیں جس میں انسانی محنت کے حاصلات مبادلے کے لیے تیارکیے جاتے ہیں۔ کسان اورکاریگراشیائے خریدوفروخت کے سادے نظام کے تحت پیداوارکرتے ہیں۔
اشیائے خریدوفروخت کے سادہ نظام کا امتیازی وصف یہی ہے کہ اس میں ترقی خودکاراورغیرمنصوبہ بند طریقے سے ہوتی ہے۔ ہرکاروباری مہم کے اندرایک استاد پیداوارکی متوازن تنظیم کرتا ہے لیکن چونکہ نجی ملکیت قومی معیشت کو متعدد علیحدہ علیحدہ آزاد کاروباروں میں تقسیم کردیتی ہے اس لیے مجموعی معاشی ترقی بے ہنگم ہوتی ہے۔ کوئی بھی اجتماعی ضروریات کا تخمینہ نہیں لگاتا(ان حالات میں ایسا کرنا بمشکل ہی ممکن ہوسکتا ہے) اورپیداوارکرنے والوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے حریف کاریگران جیسی اشیائے خریدوفروخت کی کون سی مقدارپیداکررہے ہیں۔ پیداواراورتبادلے میں بے ہنگمی اورنراجیت کا سبب یہی ہے۔
دریں اثناء، غلام دارانہ نجی ملکیت کی شکل میں ذرائع پیداوارپرنجی ملکیت نے تاریخی طورپرغلبہ حاصل کرلیا۔نجی ملکیت کی اس صورت کا قیام جبرپرقائم تھا،اوراس کے نتیجے میں اصل پیداوارکرنے والے لوگ یعنی پیداوارکرتا(آبادی کابڑا حصہ) بزورقوت ٖغلام بنا لیے گئے۔ اگرچہ غلام دارانہ نجی ملکیت کے قیام اورچلن میں غیرمعاشی جبروتشدد نے بڑا کرداراداکیا،تاہم نجی ملکیت کی جانب پیش قدمی جبر کے بجائے خود پیداواری عمل میں تبدیلیوں کا ماحصل تھی۔غلام دارانہ نجی ملکیت سے جاگیردارانہ نجی ملکیت کی جانب پیش رفت میں بھی غیرمعاشی دباؤ اہمیت کا حامل رہااورصرف سرمایہ دارانہ نظام میں ہی اصل کرتار یعنی مزدورشخصی ماتحتی اوردست نگری سے نجات حاصل کرکے قانونی سطح پر آزاد فردہوجاتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں اس غیرمعاشی دباؤ کی جگہ معاشی دباؤ لے لیتا ہے جو غلام کو غلام داراورنیم غلام مزارعہ کو جاگیردار کے لیے بیگاردینے پرمجبورکرتا ہے۔چونککہ محنت کش کی ذرائع پیداوار تک دسترس نہیں ہوتی اس لیے اس پرمعاشی دباؤ پڑتا ہے جو اسے سرمایہ دار کے لیے کام کرنے کے لیے مجبورکرتا ہے اوروہ اجرتی مزدوربن جاتا ہے۔
چونکہ اشیائے خریدوفروخت پرمبنی سادہ معیشت قدیم اشتمالی برادری کے نظام کی بربادی کے ادوارمیں سب سے پہلے نمودارہوئی اس لیے یہ غلام دارانہ، جاگیردارانہ اورسرمایہ دارانہ پیدواری طریقوں کے نظاموں میں مغلوب عنصرکے طورپرجاری رہتی ہے۔غلام دارانہ اورجاگیردارانہ نظام میں خودکفیل بنیادوں پرکی جانے والی پیداوارغالب کرداراداکرنے لگتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بڑے پیمانے پرسرمایہ دارانہ خطوط پراشیائے خریدوفروخت کی پیداواریہ غالب کردارلے لیتی ہے۔بڑے پیمانے پرسرمایہ دارانہ خطوط پرکی جانے والی اشیائے خریدوفروخت کی پیداواراوراشیائے خریدوفروخت کی سادہ معیشت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جبکہ آخرالذکرقسم کی پیداوارچھوٹے چھوٹے آزاد پیداواری لوگ کرتے ہیں جو خود ہی اپنی اوراپنے خاندان کی محنت پربھروسہ کرتے ہیں، سرمایہ دارانہ اشیائے خریدوفروخت کی پیداوار کی معاشی بنیادیں کچھ اورہی ہوتی ہیں۔ پیداوارکے اصل کرتاراپنےذرائع پیداوارکھو دیتے ہیں اوراجرتی مزدوربن جاتے ہیں، اوریہ ذرائع پیداواران چند انفرادی سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں جمع ہوجاتے ہیں جو سادہ اشیائے خریدوفروخت تیار کرنے والےپیداواری کرتاروں کی مانند چھوٹے پیمانے پرپیداوارکرنے کے بجائے بڑے کاروباروں اورکارخانوں اورکانوں میں اجرتی مزدوروں کی محنت استعمال کرتے ہیں۔
ان تمام اختلافات کے باوجود اشیائے خرید و فروخت کی سادہ پیداوار اور اشیائے خرید و فروخت کی سرمایہ دارانہ پیداوار ایک ہی نوع کے پیداواری نظام ہیں کیونکہ ان کی بنیادیں ایک ہی معاشی بنیاد،یعنی ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت پر قائم ہیں۔ یہی وہ وصف ہے جو ان دو پیداواری نظاموں میں مماثلت پیدا کر دیتا ہے ۔چونکہ چھوٹے پیمانے پر اشیائے خرید و فروخت کی پیداوار کرنے والے اشیائے خرید و فروخت کی پیداوار کے (فطری)قوانین کے تحت ایک دوسرے سے مسابقت کرتے ہیں اس لئے لازمی طور پر ان کی درجہ بندی شروع ہو جاتی ہے۔
ایک مالا مال اقلیت ممتاز ہونا شروع ہو جاتی ہے جبکہ بیشتر تباہ ہو جاتے ہیں، اپنے ذرائع پیداوار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ان کے پاس زندہ رہنے کی صرف ایک راہ رہ جاتی ہے کہ وہ اپنی قوت محنت فروخت کریں ۔اشیائے خرید وفروخت کی سادہ پیداوار خودکارطریقے سے سرمایہ دارانہ عناصر کو جنم دے دیتی ہے۔ تاہم چھوٹے پیمانے پر پیداوار کرنے والوں کی درجہ بندی سرمایہ داریت کی جانب رہنمائی کرنے والی راہوں میں سے صرف ایک راہ ہے۔
پندرہویں صدی کے اواخر سے انیسویں صدی کے اوائل تک یورپ میں ابتدائی اضعافِ سرمایہ (سرمائے کے اجماع) کا جو عمل ہوا اس نے سرمایہ داریت کی نمو میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کا کل حاصل یہ تھا کہ کسانوں کو جبراان کی زمینوں سے الگ کیا گیا اور شاملات کی احاطہ بندی کر دی گئی، یعنی وہ مشترکہ زمین جس کے استعمال کاحق سب کو مساوی طور پر تھا اسے ہڑپ کر لیا گیا۔ متعدد جاگیردارانہ جنگوں کے دوران بردہ فروشی اور آبادیوں کی لوٹ مار نے بھی ابتدائی اضعافِ سرمایہ میں بڑا کردار ادا کیا۔
نوآبادیاتی فتوحات اور نوآبادیات کی لوٹ مار نے ابتدائی اضعافِ سرمایہ میں خصوصی طور پر گھناؤنا کردار ادا کیا۔ نوآبادیاتی نظام نے وسیع المشرب ملکوں کے سرمایہ داروں کو مالا مال کرنے میں انتہائی بڑا کردار ادا کیا۔ انہوں نے انتہائی منظم طریقے سے نوآبادیات سےغیر مساوی مبادلے کے ذریعے نوآبادیات کے وسائل کو سوت لیا۔ نوآبادیات میں محصولاتی حکمت عملی وسیع المشرب ممالک کے لئےبے پناہ آمدنی کا ذریعہ بنی۔
اس کے علاوہ نوآبادیات کی دولت کی کھلی لوٹ مار بھی کی گئی۔ ان حملوں کے نتیجے میں ہندوستان اور مصر جیسی قدیم تہذیبوں کے مالک ممالک نوآبادیات اورنصف نوآبادیات بن گئے۔
اگرچہ نوآبادیاتی غلامی کے دام میں پھنستے وقت یہ ممالک معاشی ترقی کی سطح کے اعتبار سے اپنے غلام دار ممالک(برطانیہ، فرانس ،اسپین،پرتگال وغیرہ )سے بمشکل ہی کمتر تھے، تاہم جس وقت انہوں نے اپنی سیاسی آزادی حاصل کی اس وقت یہ وسیع المشرب ممالک سے کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ آزادی کے وقت ان نوآبادیات میں جدید صنعت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
یہاں زراعت روایتی ماقبل نوآبادیاتی دور کے طور طریقوں پر جاری تھی اور ان کی آبادیوں کی فی کس مجموعی قومی پیداوار وسیع المشرب ممالک کا عشرعشیر تھی۔
اگرچہ سابقہ نو آبادیات نے سیاسی آزادی حاصل کر لی ہے اور ان کو معروف اصطلاح میں ترقی پذیر ممالک کہا جاتا ہے، تاہم یہ آج بھی ترقی یافتہ سرمایہ دارممالک کے استحصال کا شکار ہیں، اور ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں کے سرمایہ دار مالامال ہو رہے ہیں۔ اس لوٹ مار میں ماورائےقومی کارپوریشنوں(ٹرانس نیشنل کارپوریشنز) پر مبنی اجارہ داریاں سب سے آگے آگے ہیں۔