ملکیت کیا ہے؟ (دسویں قسط)

ذرائع پیداوار پرسرمایہ دارانہ نجی ملکیت کے خصوصی اوصاف

سرمایہ دارانہ نجی ملکیت، نجی ملکیت پرغلبےکی آخری تاریخی صورت ہے۔چھوٹے پیمانے کی پیداوارکی جبری تباہی وبربادی سےسرمایہ داریت کے تاریخی ارتقاء کی شروعات ہوئی۔سرمایہ دارانہ نظام عوام الناس کو زمین اوردیگرذرائع پیداوارسے محروم کرکےاپنی ترقی کی جانب گامزن ہوا۔نتیجے کے طورپرسرمایہ داریت نےخوداپنی ذاتی محنت پرمبنی نجی ملکیت کا اخراج کرکے اجرتی محنت کے استحصال پرمبنی سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کی بنیاد ڈالی۔

سرمایہ دارانہ پیداوارکا ہدف منافع ہے۔اس طرز پیداوارکے دولوازمات ہیں۔ اول یہ کہ کچھ لوگ ذرائع پیداوار(کھڈیاں، کاتنے کی مشینیں،کپاس ، سوت وغیرہ)خریدنے کے قابل ہوں اوردوئم کچھ لوگ ذرائع کفالت سے محروم ہوں۔باالفاظ دیگر کچھ سرمایہ دارذرائع پیداوارکے مالک ہوں اورکچھ ایسے محنت کش ہوں جو صرف ان سرمایہ داروں کی مشینوں کو چلا کرہی اپنا کسب معاش کرسکتے ہوں۔ذرائع پیداوارپرنجی سرمایہ دارانہ ملکیت ہی سرمائےکی شکل اختیارکرتی ہے۔

چنانچہ سوال یہ ہے کہ سرمایہ کیا ہے؟ سرمایہ متنوع شکلیں اختیارکرتا ہے۔مثلا پیداوارکےلیے ضروری مشینیں،عمارتیں، خام مواد، ایندھن وغیرہ سرمایہ ہیں۔کارخانوں میں پیداہونے والی مصنوعہ تیاراشیاء مثلامشینیں، کپڑا، شکروغیرہ، بھی سرمائے کی ایک شکل ہیں۔اس کے علاوہ اجرتوں کی شکل میں ادا کی جانے والی رقومات یا ذرائع پیداوارکی خرید پرلگنے والا پیسہ بھی سرمائے کی صورتیں ہیں۔

تاہم ہرمشین، سازوسامان یا عمارت اورروپے پیسے کاہرڈھیرسرمایہ نہیں ہوتا۔ مثلا، ایک کسان کے پاس ایک رہائشی مکان ہوسکتا ہے، کچھ ڈھورڈنگربھی ہوسکتے ہیں، حتی کہ کچھ پیسہ بھی ہوسکتا ہے لیکن اگروہ کسی اورشخص کا آقا نہیں۔باالفاظ دیگر اگروہ اجرتی محنت کو ملازم نہیں کرتا تو اس کی ملکیت سرمایہ نہیں۔

ملکیت صرف اسی صورت میں سرمایہ بنتی ہےجب کہ وہ قدرزائد حاصل کرنے کےلیے استعمال کی جائے۔باالفاظ دیگر جب وہ ایسے مزدوروں کواجرت پررکھنے کے لیے استعمال کی جائے جو پیداوارکے دوران قدرزائد کی تخلیق کرتےہیں۔

سرمایہ دارقدرزائد کس طرح حاصل کرتے ہیں؟ مارکس کا جواب ہے چوری چھپے لوٹ کے زریعے۔سرمایہ دارمزدورکی قوت محنت خرید کراس کی قوت محنت کی قدراجرت کی شکل میں ادا کرتا ہے لیکن وہ قوت محنت کی اداکردہ رقم کووصول لینے کے بعد بھی مزدورکوزیادہ دیر تک کام پرلگائے رکھتا ہے اوراس طرح قدرزائد کی تخلیق کرتا ہے۔ان زائد گھنٹوں کے کام کے دوران محنت کش جس قدرتخلیق کرتا ہے، سرمایہ داراس کو ہتھیا لیتا ہے اوراس کا معاوضہ ادانہیں کرتا۔ یہ قدرزائد ہے۔سرمایہ داراس قدرزائد کے ایک حصے کواپنی ضروریات کی تشفی کے لیے استعمال کرتا ہے اورباقی کونئے سرمائے کے بطوراستعمال کرتا ہے۔دوسرے پیرائے میں ہم یہ بات یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ داراس حصے کو اپنے پرانے سرمائے میں ملالیتا ہے اوراس طرح زیادہ مزدوروں کو ملازم رکھنے کی صلاحیت کا حامل ہوجاتا ہے اوراس طرح اگلے چکرمیں پیداوارسے اوربھی زیادہ قدرزائد حاصل کرتا ہے۔اس کا مفہوم یہ ہےکہ اس کے سرمائے میں مزید اضافہ ہوتا ہے اوریوں یہ چکرلامتناہی طورپرچلتا رہتا ہے۔

صنعتی سرمایہ داری کے ابتدائی دورمیں فیکٹریاں اورکارخانےچھوٹے تھے اوربالعموم کسی خاندان یا شراکت داروں کے کسی چھوٹے سے گروہ کی ملکیت تھے۔ لیکن ہرنئی تیکنیکی دریافت نے مزید سرمائے کاحصول کیا اوراس طرح صنعتی کارخانوں کی جسامت تیزی سے بڑھی۔ کسی بھی صنعتی شعبے میں بڑے کارخانے معاشی طورپرکم خرچ ہوتے ہیں اورتیزی سے بڑھتے ہوئے زیادہ منافع دیتے ہیں۔چھوٹے کارخانے ان سے نہ تومسابقت کرسکے اوران کو یا توبندہوناپڑا یاپھرانہیں زیادہ مضبوط حریفوں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔اس طرح مسابقانہ کشمکش کے دوران بڑے سرمایہ داروں سے چھوٹوں کا اخراج کردیااورسرمایہ بڑی تیزرفتاری سے چند صنعتی اورمالیاتی خانوادوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے لگا ہے۔

اس عمل کو پیداوارمیں اجتماعیت کا عمل کہتے ہیں۔یہ عمل پیداواری عمل میں اجتماعیت لے آتا ہے۔اس اجتماعیت کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں:اول پیداوارایسے بڑے اورانتہائی دیوقامت کارخانوں میں مرتکز ہوجاتی ہے جن میں ہزاروں بلکہ دسیوں ہزاروں مزدورکام کرتے ہیں۔دوئم اجتماعی تقسیم محنت کا عمل مزید ترقی پاتا ہے اوراس کے نتیجے میں اشیاء کسی بھی ملک میں مادی پیداوارمیں مصروف تمام محنت کش عوام کی محنت کا پھل ہوتی ہیں(اورآج کل تواشیاء متعدد ممالک کے محنت کش عوام کی مشترکہ محنت کا نتیجہ ہیں) حتی کہ ہتھوڑے یا شیشے کی ایک پلیٹ جیسی سادہ اشیاء کی تیاری تک میں متعدد کارخانے اوربالآخرپورا معاشرہ شریک ہوتا ہے جبکہ اس ضمن میں کار جیسی چیز کا زکر کرنے کی توضرورت بھی نہیں جو انتہائی پیچیدہ تیکنیک کا تقاضا کرتی ہیں۔

ہتھوڑے کی تیاری میں بلاشبہ لوہے کی کچدھات کی ایک کان، دھات ساز کارخانےاوران دونوں کے لیے سازوسامان فراہم کرنے والے انجینئرنگ کے کارخانوں، لکڑی کی صنعت اوران تمام کو توانائی فراہم کرنے والے کارخانوں ، زراعت اوران کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو ذرائع کفالت فراہم کرنے کے لیے اشیائے خوردنی اورروشنی مہیا کرنے والے کارخانےمفروض ہیں۔اس امر میں کلام نہیں کہ بالآخرایک ہتھوڑے میں اجتماعی پیداوارمیں مصروف تقریبا تمام محنت کش عوام کی محنت کاایک ننھا سا حصہ مجسم ہوتا ہے۔

نتیجے کے طورپرسرمایہ داریت ملک کی پیداواری قوتوں کو ایک ایسی ہم آہنگ پیداواری قوت میں تبدیل کردیتی ہے جس کو اجتماعی پیداوار میں مصروف محنت کش اپنی متحدہ محنت کے زریعے متحرک کرسکتے ہیں۔لوگوں کے درمیان انحصارباہمی پہلے سے بڑھ بھی جاتا ہے اورمضبوط تربھی ہوتا ہے اوران کے درمیان رشتےاتنے وسیع بنیاد پرقائم ہوجاتے ہیں کہ اب معاشرے کا ہرفردپورے معاشرے میں ہونے والے واقعات اورطورطریقوں پرکسی نہ کسی حد تک منحصرضرورہوتا ہے۔

تاہم، پورے معاشرے کی اجتماعی محنت کے نتیجے میں تیارہونے والی شے پورے معاشرے کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ چند لوگوں کی ملکیت رہتی ہے۔یہ چند لوگ وہ سرمایہ دارہوتے ہیں جوذرائع پیداوارکے مالک ہیں۔یہ صورتحال پیداوارکی اجتماعی ماہیت اوراس پیداوارکوہتھیانے کی نجی سرمایہ دارانہ اشکال یا ذرائع پیداوارپرنجی سرمایہ دارانہ ملکیت کے درمیان گہرے تضاد کوجنم دیتی ہے۔یہ تضاد ہی سرمایہ داریت کا بنیادی تضاد ہے۔ یہی تضاد فاضل پیداوارکے ان معاشی بحرانوں کا باعث ہے جو وقفہ بہ وقفہ رونما ہوتے رہتے ہیں اورفہم سے بالاتر اورلغو ہیں۔

جاگیردارانہ معاشرے میں اگرکھیتیاں یکایک لہلہانے لگتی تھیں تواس کا لازمی مفہوم یہ ہوتا تھا کہ سب کے لیے زیادہ غذا مہیا ہوگی جبکہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں وافرمقدارمیں فصل کی موجودگی ان مزدوروں کے لیے بھوک کا پیغام لاتی ہے جن کی مزدوری اس لیے چھٹ گئی کہ پچھلے سال گیہوں بک نہ سکا اوراس لیے اس سال زیرکاشت علاقے کو کم کردیا گیا۔

معاشی بحران کا مفہوم یہ ہے کہ سرمائے کی ضرورت اورتقاضوں کی نسبت زیادہ اشیاء کی پیداوارہوگئی جس کا لازمی مضمرہ یہ ہے کہ پیداوارمیں انحطاط لایا جائے اوربے روزگاروں کی فوج میں اضافہ کیا جائے۔

Leave a Comment