مصنف: اعجاز احمد
مترجم: شاداب مرتضی
جس چیز کو بعد میں لیوٹارڈ نے ‘معاشرے کی کمپیوٹرائزیشن’ کا نام دیا،اس پر 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں کے دوران امریکہ میں پہلے ہی سے خوشی منائی جارہی تھی کہ سرمایہ داری کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن تبدیلی آگئی ہے۔ جیسا کہ ماضی میں یورپی معیشت نے زراعت سے سادہ مینوفیکچرنگ، اور سادہ مینوفیکچرنگ سے جدید صنعت تک صحیح معنوں میں بنیادی تبدیلیوں کا تجربہ کیا تھا، اب انفارمیشن ٹیکنالوجیوں کے بارے میں کہا جانے لگا کہ وہ ‘پروڈکشن سوسائٹی(پیداواری معاشرے)’ سے ‘انفارمیش سوسائٹی’ کی طرف اور صنعتی سے ‘پوسٹ انڈسٹریل (مابعدصنعتی)’ معاشرے تک اسی طرح کی عہد ساز تبدیلی کی حامل تھیں۔ بعد میں جن فلسفیانہ نقاط نظرنے خود کو اس سے جوڑ ا، اور فن اور جمالیات کے میدان میں یہ اصطلاح آخر کارجن معنی میں بھی استعمال میں آئی ، مابعد جدیدیت کے سماجی نظریے کی اصل جڑیں ‘پوسٹ –فورڈسٹ’پروڈکشن اورپوسٹ-انڈسٹریل سوسائٹی کے پچھلے نظریات میں تھیں۔
پوسٹ فورڈازم کا مطلب یہ تھا کہ مرکزی کارخانے کی پیداوار کے عظیم نظام کو چھوٹے یونٹوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا جو پیداوار کے خاص پہلوؤں میں مہارت رکھتے تھے، اور بالآخر، ایک ایسے پیداواری نظام میں جو اس قدر منتشر اور ‘لچکدار’ تھا کہ چیزوں کےپرزے درجنوں مختلف جگہوں پر بنائے جا سکتے تھےاورڈیٹرائٹ علاقے کے عظیم آٹوموبائل مراکز کا کام صرف ان پرزوں سے پوری کاریں تیار کرنا رہ گیا تھا۔ اس نظام کو پھر کثیر القومی (ملٹی نیشنل) کارپوریشنوں اور ان کے لاتعداد ذیلی اداروں نے عالمگیر بناناتھا۔ صنعتی محنت کش طبقے کے بارے میں کہا جانے لگا کہ وہ نہ صرف انفارمیشن سیکٹر اور دفتری کام کرنے والے سفید کالر کارکنوں کے مقابلے میں کم ہورہا ہے بلکہ یہ کہ وہ اب خاص شہروں یا علاقوں میں بہت بڑے مینوفیکچرنگ پلانٹوں میں مرکوز نہیں رہا بلکہ بڑی تعداد میں ملک بھر میں اور درحقیقت تمام براعظموں میں منتشرہوگیا ہے۔
‘پوسٹ انڈسٹریل’ اصطلاح سے مراد بہت سی مختلف چیزیں تھیں۔ سب سے پہلے، پیداوار کی اولیت سے کھپت کی اولیت کی طرف ایک تبدیلی، یعنی صنعتی پلانٹ اب مخصوص سرمایہ داروں کی ترجیحات اور فیصلوں سے نہیں بلکہ موثر طلب کے ردعمل میں پھیلتا تھا، جسے تخلیق کرنے کے لیے مکمل روزگار، زیادہ کھپت کی حوصلہ افزائی کے لیے قرضوں کی توسیع، اورنئی مصنوعات کے لیے نئی مارکیٹوں کی مستقل تخلیق کے لیے اشتہارات سے کام لیا جاتا تھا۔ دوسرا، اس کا مطلب پیداواراور کھپت کی پوری زنجیر کی منصوبہ بندی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکزی کردار تھا، تاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی محض پیداواری ٹیکنالوجی کے بجائے زیادہ مرکزی کردار ادا کرے۔ تیسرا، اس کا مطلب صنعتی روزگار اور خدماتی(سروسز) روزگار کے درمیان تناسب کی تبدیلی تھا۔ چوتھا، کمپیوٹرائزیشن، روبوٹائزیشن اور مسلسل تکنیکی جدت طرازی کی بدولت پیداواری صلاحیت میں اضافے کا مطلب یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرنے کے لیے کم سے کم مزدوروں کی ضرورت تھی (اور غالباً، ان کم مزدوروں کو ‘درمیانہ طبقہ’ بنانے کے لیے کافی زیادہ اجرت دی جا سکتی تھی) ۔ پانچواں، یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ کثیر القومی کارپوریشن کے غلبے نےکھلی منڈی میں حصص (شیئرز)کی فروخت سے حاصل کیے گئے سرمائے سے جدید سرمائے کی نوعیت کو ہی بدل دیا ہے جو اب مٹھی بھر سرمایہ داروں کی ملکیت نہیں رہا بلکہ حصص رکھنے والی تمام آبادی کی ملکیت ہے، یعنی ایک لحاظ سے سرمایہ داروں کے زریعے سرمایہ سماجی دولت بن گیا ہے۔مزید برآں، کارپوریشنوں کے فیصلے سرمایہ داروں کے بجائے ایک تکنیکی مینیجر اشرافیہ کرتی تھی جسے خاندانی وراثت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اہلیت اور مہارت کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا تھا۔ اس طرح ‘مابعد صنعتی’معاشروں میں سرمایہ دار طبقے کواہلیت ( میریٹو کریسی) کے ذریعے عروج حاصل ہوا تھا۔ چنانچہ،یہ تجویز کیا گیا کہ چونکہ مابعد جدید سرمایہ داری کے پاس نہ تو وہ پیداواری نظام تھا، نہ وہ مزدور طبقہ تھا اور نہ ہی وہ سرمایہ دار طبقہ جس کے بارے میں مارکس نے لکھا تھا،لہذا، مارکسزم بے کار ہو گیا تھا۔
تاہم، اس وسیع ترتجزیے کے اندرمتضاد لہجے پائے جاتے تھے۔ سائنس اور میڈیالوجی کو مقبول عام بنانے والےافراد، جیسے کہ مارشل مکلوہان یا ایلون ٹوفلر، اور کچھ زیادہ متمدن ثقافتی نقاد، جیسےکہ لیزلی فیڈلر، اس بارے میں سب سے زیادہ پرجوش تھے؛ لامحدود مواصلات اور کھپت پرمبنی معاشرہ، کھیل اور بہتات کا ایک عالمی گاؤں،گویا ہاتھ میں تھا۔ ارونگ ہاوے اور ڈینیل بیل، سابق ٹراٹسکائی، جو ثقافتی اشرافیہ اور ہلکی پھلکی سماجی جمہوری سیاست کے امتزاج میں رچ بس گئے تھے، انہوں نے(مصنوعات کی) بہتات پرمبنی دنیا کا جشن منایا، صارفیت (کنزیومرازم)اور ثقافت کےعوامی ہونے کا ماتم کیا، اور عام طور پر ایک ایسے معاشرے کی نسبتاً تاریک تصویر کھینچی جو ارونگ ہا وےکے الفاظ میں ‘جزوی فلاحی، جزوی فوجی(گیریژن)’ تھا۔ ڈینیل بیل نے اس سب میں ایک نیا بگاڑ متعارف کرایا: اس کے نزدیک جدید سے مراد (میکس)ویبرکے طرزکی پروٹسٹنٹ اخلاق پرمبنی ‘بچت کرنے والی سوسائٹی’ تھی جہاں لوگ خرچ کرنے سے پہلے بچت کرتے تھے، جبکہ مابعد جدید معاشرہ’خرچ کرنے والی سوسائٹی’ تھی جسے پہلے پہل 1930ء کےقرضداری نظام (کریڈٹ سسٹم) کے ذریعے تخلیق کیا گیاتھا جس کے تحت آپ آسانی سے ادھار لے سکتے تھے اور جو آپ کے پاس نہیں تھا اس پرخرچ کر سکتے تھے (مثلاً، رہن پر خریدا گیا مکان، قرض پر لی گئی کاریں وغیرہ)۔ جسے ‘مابعدجدید’ کہا گیا وہ ایک نشہ آور، نرگسیت پسند چیز تھی، جو ‘پیداوار’سے ‘کھپت’ کی طرف ترقی کےمحرک کے طور پر سرمایہ دارانہ معاشرے میں بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتی تھی۔ اس کے لیے صارفیت کا یہ ہسٹیریا سماجی زوال کی علامت اور اعلیٰ سرمایہ دارمعاشرے کی اقدار سے تنزلی کے مترادف تھا۔ یہ سوچ کہ تیکنیک کے باعث آنے والی خوشحالی سماجی انحطاط کا باعث بنی ہے، بحر اوقیانوس کے دونوں کناروں پر بار بار سامنے آتی،مگر اس قابل ذکر فرق کے ساتھ کہ جہاں امریکی ناقدین روشن خیالی کی اقدار کے خاتمے کو ایک المیے کے طور پر دیکھتے ہیں، فرانسیسی مابعد جدیدیوں نے اسے معیاری اقدار اور عقلی طرز عمل کی رکاوٹوں سے ایک خوش کن آزادی کے بطوردیکھا۔ مصنفین کے اس پورے سلسلے کے نزدیک، کسی بھی صورت میں کوئی انقلابی تاریخی تبدیلی ممکن نہیں تھی کیونکہ مزدور طبقے کا اب کوئی انقلابی کردار نہیں رہا تھا۔ پوسٹ انڈسٹریل سوسائٹی کے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں آئیڈیالوجی کا خاتمہ لکھ دیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ چالیس سال بعد، سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد، فوکویاما نے ‘تاریخ کے خاتمے’ کےاپنے مقالے میں از سر نو مرتب کیا: یہ دعویٰ کہ لبرل سرمایہ داری کے تمام ممکنہ متبادلوں کو اب فیصلہ کن شکست دے کرپسپا کیا جا چکا ہے اور وہ سب جو باقی بچا ہے وہ اب اس لبرل سرمایہ داری کی عالمگیریت تھی جو جاری وساری تھی۔
یہ بات واقعی نہایت قابل ذکر ہے کہ مابعد جدید (پوسٹ ماڈرن)نظریات کے کتنے ہی مفکرین سابقہ مارکسی تھے یا ہنوز مارکسی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ میں پہلے ہی ارونگ ہاوے اور ڈینیل بیل کا ذکر کر چکا ہوں،جو سابق ٹراٹسکائی تھے۔ 1960ء کی دہائی کے دوران ایک اور انتہائی بااثر شخصیت فرینکفرٹ اسکول(مکتبہ فکر) کا رکن ہربرٹ مارکوزے تھا جو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ ہجرت کر گیا تھا اور پھر وہیں مستقل آباد ہو گیا تھا۔ اس نے شاید سب سے زیادہ مقبول کتاب ‘یک رخی انسان(ون ڈامینشنل مین)’لکھی جو بےعقل صارفیت کے کلچر کوبےنقاب کرتی ہے،لیکن اس نے مارکسزم (مارکس بشمول فرائیڈ، جنسی انقلاب) کی ایک لذتیت پرستانہ (ہیڈونسٹک) قسم کی تبلیغ کرتے ہوئے پرولتاریہ (مزدور طبقے) کو ایک زوال پذیر، اصلاح پسند اور آرام پسند طبقہ قراردیا اورطلباء اور اندرونی شہروں کے لمپن پرولتاریہ سے اس کی (مارکسزم کی) تخلیق نو کی امیدیں وابستہ کیں جو 1960ء کی دہائی کے دوران جنگ مخالف مظاہروں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اندرون شہر کی کچی آبادیوں کی بغاوتوں کی براہ راست عکاسی کرتی ہیں۔ اس طرح، ان لوگوں کی صفوں میں جو مارکسزم کے ساتھ کسی نہ کسی قسم کی وفاداری کا اعلان کرتے رہے لیکن جو امریکی ‘نئے لیفٹ’ اور ایک انقلابی عنصر کے طور پر مزدور طبقے کے خاتمے کے نظریے کے درمیان پل بناتے رہے، جیسے کہ مارکوزے ، سرمایہ دارانہ معاشرے کی تنقید طبقاتی سیاست کے کسی بھی واضح احساس سے جدا ہو کربیگانگی، جنسی جبر، ثقافتی بغاوت، اقلیتی حقوق، طلبہ کی بنیاد پرستی، مقامی بغاوتوں وغیرہ کی حمایت کی طرف منتقل ہو گئی۔ طبقے کے بجائے کلچرکی طرف تبدیلیاں نوجوانوں کی ان تحریکوں میں ایک عمومی رجحان بنتی جا رہی تھیں جو 1960ء کی دہائی میں بڑھنا شروع ہوئیں، خاص طور پر سفید فام درمیانے طبقے میں، اورانہوں نے سرمایہ داری کے مسائل کو پیداوار کے مقام پر استحصال کی حیثیت سے دیکھنے کے بجائے انہیں زیادہ تر غلط تقسیم اور سماجی بیگانگی کے بطوردیکھا۔