طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کے معاملے پر تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان مزدور محاذ کی سیکریٹری انفارمیشن پنجاب، محترمہ شمیم چوہدری صاحبہ نے اپنے قسط وار مضامین میں افغان جہاد میں سوویت یونین اور چین کے کردار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ سوویت یونین کے کردار کے بارے میں اپنے مضمون کی دوسری قسط میں وہ لکھتی ہیں:
“1978ء میں روس نواز خلق پارٹی نے انہیں (داؤد خان کو) قتل کر کے اقتدار حاصل کر لیا اور 1979ء میں روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں یعنی روس نے فوجی قوت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ جبکہ 1919ء کے بعد سابق سویت یونین اور برطانیہ میں پس پردہ یہ طے پا گیا تھا کہ روس اور برطانیہ افغانستان میں براہ راست فوجی مداخلت نہیں کریں گے اور افغانستان کی دونوں طاقتوں کے درمیاں بفر زون کی حیثیت ہو گی۔ افغانستان پر روس کے فوجی قبضے کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی۔ روسی مداخلت صرف افغانستان کے خلاف کھلم کھلا جارحیت نہیں تھی بلکہ دیگر پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی سطح پر عوام اور امن عالم کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ تھی۔”
افغانستان کے ثور انقلاب (اپریل انقلاب) کو افغانستان کے داخلی حالات کا نتیجہ سمجھنے کے بجائے اسے باہر سے مسلط کیا گیا انقلاب سمجھنا، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کو افغان انقلابیوں کی داخلی جدوجہد کا ثمر سمجھنے کے بجائے اسے کسی خارجی قوت کی، سوویت یونین، کی کٹھ پتلی سمجھنا اور افغان انقلاب میں سوویت یونین کے کردار کو سامراجی طاقت کی بیرونی مداخلت، قبضہ گیری یا توسیع پسندی سے تعبیر کرنا کمیونزم کے خلاف سامراجی تاریخ نویسی کا خاصہ ہے۔ اس معاملے میں بات کا آغاز ہی اس مقدس تاریخی عقیدے سے ہوتا ہے کہ سوویت یونین نے افغانستان پر فوجی حملہ کر کے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اسی کے ردعمل میں افغان جہاد کا آغاز ہوا تھا۔
تاہم، اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے عوامی جمہوری انقلاب کے خلاف سامراجی جہاد افغانستان میں سوویت یونین کی فوج کے داخلے سے چھ مہینے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا اور سوویت یونین نے افغان حکومت کی درخواست پر اس کی مدد کے لیے بین الریاستی معاہدے کے تحت اپنی فوج افغانستان بھیجی تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر اور افغان جہاد کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جانے والے زبگنیف برژنسکی کا ایک انٹرویو رسالے “کاؤنٹر پنچ” میں 15 جنوری 1998 کو شائع ہوا۔۔ اپنے انٹرویو میں برژنسکی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں سوویت فوج کی آمد سے چھ ماہ پہلے ہی امریکہ کی خفیہ اجنسیوں نے افغان مجاہدین کو امداد دینا شروع کر دی تھی۔
انٹرویو میں زبگنیف برژنسکی سے سوال پوچھا گیا: “سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر، رابرٹ گیٹس، نے اپنی یادداشتوں کے تذکرے “From The Shadows” میں لکھا ہے کہ امریکی انٹیلجنس ایجنسیوں نے سوویت یونین کی مداخلت سے 6 مہینے پہلے سے افغانستان میں مجاہدین کی امداد شروع کر دی تھی۔ اس زمانے میں آپ امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر تھے۔ لہذا اس میں آپ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ کیا یہ بات درست ہے؟”
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے برژنسکی نے کہا: ” ہاں۔ سرکاری تاریخ کے مطابق تو سی آئی اے کی جانب سے افغان مجاہدین کی امداد کا آغاز 1980ء کے دوران ہوا یعنی سوویت فوجوں کی جانب سے افغانستان میں دراندازی کے بعد۔ لیکن حقیقت ، جس کی خفیہ طریقے سے اب بھی حفاظت کی جاتی ہے، اس کے بالکل برعکس ہے۔ بالکل، یہ 3 جولائی 1979ء کا دن تھا جب صدرجمی کارٹر نے کابل میں سوویت یونین کی حامی حکومت کے مخالفین کو خفیہ امداد فراہم کرنے کے پہلے حکم نامے پر دستخط کیے۔ اوراسی دن میں نے صدرکارٹرکو ایک نوٹ لکھا جس میں ان سے اس بات کی وضاحت کی کہ میرے خیال میں یہ امداد سوویت یونین کو فوجی مداخلت پراکسائے گی۔”
افغان رہنما ببرک کارمل نے ایفروایشین پیپلز سالیڈیریٹی آرگنائزیشن (ایپسو – AAPSO) کی کابل میں منعقدہ کانفرنس سے نومبر 1981ء میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روسی فوجوں کو اس لیے ملک میں بلایا گیا تھا کہ وہ “عوامی جمہوری افغانستان کے خلاف ہونے والی مسلح کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دے سکیں”.
دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان جہاد میں چین کے کردار پر شمیم چوہدری صاحبہ اپنے مضمون کی تیسری قسط میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتی ہیں کہ “چین بھی اس جنگ کا حصہ بنا کیوں کہ وہ بھی اس خطے میں روس کا پھیلاؤ نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس پھیلاؤ سے چین کے مفادات کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے”. انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ افغانستان میں سوویت فوج کی موجودگی سے چین کے مفادات کو کیا خطرات لاحق تھے؟ سوویت یونین کی فوج نے افغانستان میں چین کے کن مفادات کو نقصان پہنچایا، چین نے افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کیسے کیا اور افغان جہاد میں مجاہدین کی مدد سے اس کا کیا تعلق تھا؟
افغان جہاد میں چین کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے ببرک کارمل نے ایپسو کی کابل کانفرنس میں اپنے خطاب میں کہا: “انقلابِ اپریل (ثور انقلاب) کے فوراً بعد ہی بین الاقوامی نوکر شاہی نے امریکہ کی سربراہی میں اور پاکستانی، چینی دوستوں کے ساتھ مل کر افغان انقلاب کی مذمت کرنا شروع کر دی جس کے نتیجے میں افغانستان کے خلاف غیراعلان شدہ جنگ کا آغاز ہوگیا۔۔۔افغان دشمن چھاپہ ماروں کو پاکستان اور چین کے انسٹرکٹر تربیت دیتے ہیں۔ اسی قسم کے فوجی کیمپ ایران اور چین کے علاقے زنجیانگ میں قائم کیے گئے ہیں۔ ان کیمپوں میں ہر سال 40 ہزار سے زائد انقلاب دشمن اپنی تربیت مکمل کرتے ہیں”َ۔ افغان جہاد میں مجاہدین کی مدد کر کے چین افغانستان میں اپنے کن مفادات کا تحفظ کر رہا تھا یہ سمجھنا بعید از فہم ہے۔ سوویت یونین کی “کٹھ پتلی” افغان حکومت نے کبھی چین پر حملہ یا اس میں دراندازی کرنے کی کوشش نہیں کی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ چین ان ملکون میں شامل تھا جنہوں نے افغان مسئلے پر جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کو امریکہ سے پہلے امداد دینا شروع کردی تھی۔
چین نے سوویت یونین کی جانب سے مجاہدین کے خلاف افغان حکومت کی فوجی مدد کو افغانستان پر حملہ اور مداخلت قرار دیا اور سوویت یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی فوج واپس بلائے۔ چین کا خیال تھا کہ سوویت یونین طویل عرصے سے افغانستان پر فوجی قبضے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تاکہ افغانستان کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کر سکے اور پاکستان میں بلوچستان پر قبضہ کر کے “گرم پانیوں تک رسائی” حاصل کر سکے۔ ان خدشات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
افغانستان میں سوویت فوج کی آمد کے موقع پر چین نے اس کی مخالفت کی اور چینی حکومت نے دسمبر 1979ء کو اپنے بیان میں کہا کہ “افغانستان پر سوویت حملہ ناقابلِ برداشت ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا”َ۔چینی حکومت نے سوویت یونین کی جانب سے بیان کی جانے والی اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ اس نے افغان حکومت کی درخواست پر اس کی مدد کے لیے اپنی فوج افغانستان بھیجی تھی۔ 1978ء میں ہونے والے 20 سالہ افغان-سوویت معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی دفاع کے لیے فوجی تعاون کا معاہدہ بھی شامل تھا۔
چینی حکومت کے نکتہِ نظر کے مطابق افغان جہاد افغانستان کی عوامی جمہوری حکومت کے خلاف سامراجی سازش نہیں تھی بلکہ الٹا یہ سامراجیت کے خلاف افغان عوام کی حب الوطنی اور قومی آزادی کی جنگ تھی۔ مثلاً ، چینی حکومت نے کہا کہ “جب کسی چھوٹی قوم پر حملہ کیا جائے تو اس کے لوگ تمام محب وطن قوتوں کو متحرک کرسکتے ہیں اور ایسے فوجی داؤپیچ اختیار کرسکتے ہیں جو ان کی اپنی قوم کے مخصوص حالات سے مطابقت رکھتے ہوں تاکہ وہ سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کا مقابلہ کر سکیں”. دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بھی بعض ماؤاسٹ حلقے ماضی کے مجاہدین اور آج کے طالبان کو سامراجی آلہِ کار سمجھنے کے بجائے، اس کے برعکس، انہیں ایک سامراج مخالف قوت کا درجہ دیتے ہیں۔
مجاہدین کے حملوں کے خلاف افغان حکومت کی مدد کر کے سوویت یونین سامراجیت کے خلاف اپنا بین الاقوامی کردار نبھا رہا تھا مگر چین نے تیسری دنیا کے ملکوں کے سامنے اسے سامراجی کردار کی مثال بنا کر پیش کیا۔ تیسری دنیا کے ملکوں کے لیے چین نے سوویت یونین کے بین الاقوامی کردار کی وضاحت اس طرح کی: “افغانستان میں افغانوں کو قتل کرنے والے سوویت ٹینک، ہوائی جہاز اور توپیں دنیا میں ہر جگہ لوگوں کو زیادہ صفائی کے ساتھ یہ دکھا رہی ہیں کہ تیسری دنیا کے “فطری اتحادی” ہونے کے خود ساختہ (سوویت) دعوے کی اصل حقیقت کیا ہے۔” چینی حکومت کی رائے میں تیسری دنیا کے ملکوں کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ سوویت یونین اور افغان حکومت سامراجیت کی نمائندگی کرتی ہیں جبکہ مجاہدین اور امریکی سامراج قومی آزادی کی قوتوں کی نمائندگی کرتے ہیں!
جنوری 1980ء میں امریکی سامراج کے نمائندے، سیکریٹری دفاع، ہیرالڈ براؤن نے کمیونسٹ چین کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر چین اور امریکہ کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ مجاہدین کو ہتھیار پہنچانے کے لیے امریکی جہاز چین کی فضائی حدود استعمال کر سکتے ہیں۔ بعض محققین کے مطابق خود چین نے جہادی دہشت گردوں کو راکٹ لانچر، طیارہ اور ٹینک شکن اسلحہ اور بارودی سرنگیں مہیا کیں۔
جنوری 1980ء میں ہی چین کے وزیرِ خارجہ ہوانگ ہوا نے پاکستان کا دورہ کیا اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو فوجی اور اقتصادی تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ “امن پسند قومیں (چین) پاکستان کو حقیقی مدد فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ سوویت یونین کا مقابلہ کر سکے۔” اس امداد کے طفیل خیرسگالی کے طور پر جنرل ضیاء الحق نے کمپوچیا کے معاملے پر ویتنام کے خلاف چین کے مؤقف کی حمایت کی۔ برسبیلِ تذکرہ، چین کے برعکس سوویت یونین ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر افغانستان کے مؤقف سے اتفاق کرتا تھا۔
جولائی 1980ء میں افغانستان کی عوامی جمہوری حکومت اور اس کے اتحادی سوویت یونین کے خلاف چینی کمیونسٹ پارٹی اور امریکی سامراج کے درمیان اعلیٰ ترین ریاستی سطح پر اشتراک و اتحاد کا مظاہرہ کیا گیا۔ جمی کارٹر اور چینی سربراہ گوا ہوفینگ کے درمیان ہونے والے تبادلہ خیال میں کہا گیا کہ “تزویراتی مفادات کے معاملے میں، خصوصا ً افغانستان اور کمپوچیا پر سوویت یونین کے حملے کے حوالے سے، امریکہ اور چین کے درمیان بنیادی طور پر اتفاق ہے”۔ اسی طرح ڈینگ ژیاؤ پنگ نے 1982ء میں امریکی سیکریٹری دفاع، ہیرالڈ براؤن کے دورے کے موقع پر کہا کہ “چین اور امریکہ کو منکسرالمزاجی کے ساتھ امنِ عالم کا دفاع کرنا چاہیے”۔ چین کا خیال تھا کہ سوویت یونین امن کے لیے عالمی خطرہ ہے جبکہ امریکی سامراج امنِ عالم کا محافظ ہے!