ترکی کے الیکشن میں ترکی کی کمیونسٹ پارٹی ( ٹی کے پی) کی ایک امیدوار کرد ٹیکسٹائل مزدور زینب دیمیرل ہاتونو اوغلو کی تقریر

ترکی کے الیکشن میں ترکی کی کمیونسٹ پارٹی ( ٹی کے پی) کی ایک امیدوار کرد ٹیکسٹائل مزدور زینب دیمیرل ہاتونو اوغلو ہیں جو کردولوجی (کرد اسٹڈیز) گریجویٹ اور دیار باقر کے لیے پارلیمانی امیدوار ہیں۔ ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن پر سیاسی جماعتوں کے لیے وقف پروگرام میں کامریڈ زینب نے اپنی الیکشن تقریر کی جس کا ترجمہ نیچے دیا جا رہا ہے

“میں اپنے تمام ہم وطن عزیز ساتھیوں کو عزت و احترام کے ساتھ سلام پیش کرتی ہوں۔

میں ایک کردولوجسٹ ہوں: میں نے کرد زبان اور ادب کا مطالعہ کیا ہے۔ میں نے استاد بننے کا خواب دیکھا تھا لیکن لاکھوں دیگر تعلیمی کارکنوں کی طرح مجھے عہدہ نہیں ملا اور میں ٹیکسٹائل مزدور بن گئی۔

ترکی کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے میں قوم پرستانہ خیالات رکھتی تھی۔ میں اسے مزید واضح کروں تو میں ایک کرد قوم پرست تھی۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے جتنے بھی مسائل کا سامنا کیا وہ میرے کرد ورثے کی وجہ سے تھے۔

اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بحیثیت کرد ہمیں گہرے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ (مشرق وسطی) میں کرد بننا ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ یہ ایسا خطہ ہے جو ناانصافی، عدم مساوات اور جبر کا شکار ہے۔ میں جانتی ہوں کہ امتیازی سلوک کا کیا مطلب ہے۔

پھر بھی ان لوگوں کا کیا ہوگا جو کرد نہیں ہیں؟ کیا وہ ان ناانصافیوں، عدم مساوات اور جبر سے آزاد ہیں جن کا ہم کردوں کو سامنا ہے؟

ہاں، میں کرد قوم پرست تھی لیکن مجھے احساس ہوا کہ بھوک کی کوئی نسل نہیں ہوتی۔ بدحالی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ غربت کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔

ایک باوقار زندگی گزارنے کی خواہش نے مجھے اپنے آپ سے یہ بنیادی سوال پوچھنے پر مجبور کیا کہ میں اس زندگی کو کیسے حاصل کروں گی، یا ہم اس زندگی کو کیسے حاصل کریں گے؟

جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں نے امیر لوگوں کو دیکھا۔ بہت امیر لوگ۔ میں نے دیکھا کہ یہ امیر لوگ تو مٹھی بھر تھے، جب کہ غریب، بے روزگار بہت زیادہ تھے۔ میں اس مسئلے کی نشاندہی محض نسلی امتیاز کے زریعے نہیں کر سکتی تھی کیونکہ میں نے کرد مالکوں کو دیکھا جو اپنے مزدوروں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتے تھے اور میں نے غیر کرد مزدوروں کو دیکھا جو میری طرح تکلیف میں تھے۔

اس طرح میں نے قوم پرستی چھوڑ دی اور کمیونسٹ بن گئی۔ کمیونسٹ کے طور پر، بطور محنت کش ہم ایک باوقار زندگی مکمل طور پر حاصل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

میں ایک کرد عورت ہوں۔ میں اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے محبت کرتی ہوں لیکن سب سے بڑھ کر مجھے انسانیت، انسانیت کی کامیابیوں، بھائی چارے، مساوات اور امن سے پیار ہے۔ اس کے علاوہ، میں اپنے ملک سے محبت کرتی ہوں۔

میری پارٹی، ترکی کی کمیونسٹ پارٹی، ایڈرن (تھریس کے مغربی صوبوں میں سے ایک، جسے پہلے ایڈریانوپل کہا جاتا تھا) اور (کرد اکثریتی) دیار باقر میں اسی پروگرام اور اصولوں کا دفاع کرتی ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف ترکی واضح طور پر شناختی سیاست کو مسترد کرتی ہے۔ وہ اتحاد کو فروغ دیتی ہے اور فرقہ واریت کی مخالفت کرتی ہے۔ ہمارے مخالف سرمایہ دار اقلیت، جمہوریہ کے دشمن، اسلامی بنیاد پرست اور نیٹو اور امریکی سامراج کے ساتھ تعاون کرنے والوں میں سے ہیں۔ ہمارے مخالف ملکی اور غیر ملکی اجارہ دار ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر ہمارا استحصال کرتے ہیں۔

یہ دشمن ہمیں ہماری شناخت کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہم زیاده ہیں اور وہ تھوڑے ہیں۔ ہم ان کے جال میں نہیں پھنسیں گے۔

بطور کمیونسٹ ہم ایک آزاد، خودمختار، جدید، صنعتی اور سیکولر ترکی کو جمہوری، برادرانہ بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کریں گے۔

آپ پوچھ سکتے ہیں: کردوں کو اپنے ورثے کی وجہ سے درپیش مسائل کے بارے میں کیا خیال ہے؟جب ہم کمیونسٹ سامراجی منصوبوں کو ناکام بنا دیں گے اور صوفی فرقوں اور جاگیردار خاندانوں کی بالادستی کو توڑ دیں گے تو یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ وہ اس وقت حل ہوں گے

جب ہم کمیونسٹ ان کروڑ پتیوں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے جو کردوں کو سستی مزدوری کی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اس وقت حل ہوں گے جب ہم کمیونسٹ نسل پرستی کا خاتمہ کریں گے جو ہمارے مخالفین کو ہمیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

میرے ہم وطنو!

‘جمہوری خودمختاری’ اور ‘لوکلائزیشن (مقامیت پرستی)’ جیسے تصورات کو سامراجی طاقتیں اور ان کے لبرل غلام کئی دہائیوں سے اس دنیا کے لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہم شام اور مشرق وسطیٰ میں ان پالیسیوں کے خونی نتائج کا مشاہدہ کر رہے ہیں جیسا کہ ہم نے سابق سوویت یونین اور سابق یوگوسلاویہ کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی دیکھا تھا۔ ترکی درحقیقت ایک منصوبہ بند معیشت اور مرکزی انتظامیہ کے ساتھ امتیازی سلوک، عدم مساوات اور سامراجی جوئے سے آزاد ملک بن سکتا ہے جس کا مقصد غربت اور محکومی کو ختم کرنا ہو۔

میں (کرد اکثریتی) دیار باقر کی کمیونسٹ خاتون ہوں۔ ہم بطور کمیونسٹ اور محنت کش عوام کے نمائندے کی حیثیت سے اس ملک کے ہر ایک صوبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے۔ ہم مختلف قسم کی قوم پرستی، فرقہ واریت اور شناختی سیاست کی تمام شکلوں کا خاتمہ کریں گے۔ہماری جمہوریہ جس کی بنیاد 1923ء میں ایک باوقار سامراج مخالف اور شہنشاہیت مخالف جدوجہد کے نتیجے میں رکھی گئی تھی، تب سے استحصالیوں اور اسلامی بنیاد پرستوں کے قبضے میں ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم راکھ سے اٹھیں اور برابری اور آزادی کو اپنا نصب العین بنائیں۔

ٹی کے پی ہے جو ملک کو گوند کی طرح جوڑے رکھتی ہے؛

ٹی پی کے ایک آزاد اور خودمختار ملک کا راستہ ہے؛

ٹی کے پی سیکولرازم کی بحالی ہے؛

ٹی کے پی استحصال کا خاتمہ ہے؛

ئی کے پی سائنس، آرٹ، اور روشن خیالی کا فروغ ہے؛ئی کے پی خواتین کے خلاف بدسلوکی اور تشدد

خلاف جدوجہد ہے؛

ئی کے پی اِن نوجوانوں کے لی ایک روشن مستقبل ہے جو ایک ایسے ملک کا خواب دیکھتے ہیں جہاں انہیں بے روزگاری اور شہری اور سیاسی حقوق کی پامالی کی فکر نہ ہو؛ ٹی کے پی اس بات کی یقین دہانی ہے کہ ہر نسل کے شہری اپنے ثقافتی اور لسانی حقوق سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکتے ہیں؛ٹی کے پی صوفی فرقوں اور اسلامی بنیاد پرست فرقوں کا خاتمہ ہے جو ہمارے بچوں پر منظم طریقے سے حملہ کرتے ہیں

ٹی کے پی اس بات کی ضمانت ہے کہ سماجی زندگی میں بزرگوں کے ساتھ کبھی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا؛ٹی کے پی وبائ امراض اور قدرتی آفات کے مقابلہ میں یکجہتی کی مضبوط ترین شکل ہے؛ ٹی کے پی نے 6 فروری کو آنے والے زلزلے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ جب ہم عقلمندی اور مرکزی منصوبہ بندی اور حب الوطنی کے تحت ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں تو ہم محنت کش لوگوں کے طور پر کیا حاصل کر سکتے ہیں؛خدا کرے کہ ہمیں کبھی ایسی مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

میرے ہم وطنو!

ٹی کے پی کو ووٹ دیں، تاکہ ہمارا ملک کبھی ملبے تلے نہ دھنسے اور ہمارے عوام مالی بحرانوں اور قدرتی آفات کے سامنے کبھی بے بس نہ ہوں۔ برابری اور آزادی کی بنیاد پر اپنے ملک کی تعمیر نو کے لیے ٹی کے پی کو ووٹ دیں۔ٹی کے پی کو ووٹ دیں جو ہمارے پیارے ملک میں شعور اور ضمیر کی آواز ہے۔”

Leave a Comment