جاگیرداری کے خاتمے کے دو راستے

جاگیرداری کے خاتمے کے دو راستے
جوزف اسٹالن
مترجم: شاداب مرتضی

بنام کامریڈ ڈی۔ این۔ آئڈٹ

کسانوں کا سوال

یہ ایک خوش آئند حقیقت ہے کہ کسانوں کے سوال پر ہمارے درمیان اب کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال پر نہ صرف ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے بلکہ کوئی غلط فہمی بھی نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کے خط کا ایک حوالہ میرے ذہن میں ہے، جو کہتا ہے؛ “ہم کسانوں کے درمیان کام کو، یعنی جاگیرداری کے خاتمے کو، اپنا اصل کام بنائیں گے۔” یہ جملہ غلط فہمی کو جنم دے سکتا ہے، کیونکہ لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ انڈونیشیا میں مکمل، سو فیصد، جاگیرداری موجود ہے، جو کہ یقیناً غلط ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران، میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ انڈونیشیا میں سو فیصد جاگیرداری نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے، ویسے ہی جیسے 1917ء کے اکتوبر انقلاب سے پہلے روس میں نہیں تھی، بالکل ویسے جیسے چین یا دیگر عوامی جمہوریتوں میں بھی جاگیرداری مخالف انقلاب کے آغاز سے پہلے نہیں تھی۔

یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ان ممالک میں اس وقت جاگیرداری کس حد تک موجود تھی اور اب انڈونیشیا میں جو موجود ہے وہ کیا ہے؟ یقیناً وہاں سو فیصد جاگیرداری نہیں تھی، لیکن جاگیرداری کی اہم اورناپسندیدہ باقیات موجود تھیں۔ روسی کمیونسٹوں نے 1917ء میں جب کسانوں کو زمینداروں کے خلاف ابھارا تب انہوں نےجاگیرداری کی باقیات کے بارے میں بات کی ۔جاگیرداری کی باقیات کا ذکر “زرعی اصلاحات” کے دوران بھی کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انڈونیشیا میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، اس لیے پروگرام کا مسودہ تیار کرتے ہوئے، جاگیرداری کے خاتمے کے فارمولے کو جاگیرداری کی باقیات کے خاتمے کے فارمولے سے بدلنا چاہیے، جو کہ زیادہ درست ہوگا۔

البتہ بعض مضامین اور خطوط میں بعض اوقات جاگیرداری کے خاتمے کا فارمولا استعمال کیا جاتا ہے اور اس پر ہمیشہ اعتراض پیدانہیں ہوتا۔ تاہم، جب کسی پروگرام کا مسودہ تیار کرنے کا سوال ہو، تو اس کا بالکل درست ہونا ضروری ہے اور اسی وجہ سے جاگیرداری کی باقیات کے خاتمے کے فارمولے کو ترجیح دینا چاہیے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جاگیرداری کی باقیات کیا ہیں، ان کا جوہر کیا ہے؟

سب سے پہلے، ان سے مرادبڑے زمینداروں کااصل میں موجود یہ حق ہے کہ کسانوں کی طرف سے کاشت کی گئی زمین ان کی اجارہ دارانہ ملکیت ہے، کسانوں کی اکثریت اپنی غربت کی وجہ سے زمین کی مالک ہونے سے قاصر ہے اور اس وجہ سے وہ زمینداروں سے ان کی کسی بھی طرح کی شرائط پر(جاگیرداری کے تحت زمین پر زمینداروں کے “اجارہ دارنہ حق” کے تحت) زمین کرائے پر لینے پر مجبور ہے۔

دوئم، وہ زمینداروں کو اجناس کی شکل میں ادائیگی ہے، جو کسانوں کی فصل کا کافی حصہ بنتا ہے اور جو کسانوں کی اکثریت کی غریبی کا باعث بنتا ہے (جاگیرداری کے تحت “اجناس کی شکل میں ادائیگی کا فرض”)۔

سوئم،وہ زمینداروں کی جاگیروں پر مزدوری کی شکل میں کرائے کا نظام ہے، جو کسانوں کے قدیم آلات کی مدد سے چلایا جاتا ہے، جو کسانوں کی اکثریت کو غلاموں کی حیثیت میں رکھتا ہے (“Corvée” جاگیرداری)۔

آخرمیں، وہ قرضوں کا ایک گھناجال ہے، جو کسانوں کی اکثریت کوکچل رہا ہے ، انہیں نادہندہ مقروض بنا رہا ہے اور انہیں زمین کے مالکان کے مقابلے میں غلاموں کی حیثیت میں بدل رہا ہے(جاگیرداری کے تحت “قرضی غلامی”) ۔

جاگیرداری کی ان تمام باقیات کے نتائج بخوبی معلوم ہیں: زراعت کی تکنیکی پسماندگی، کسانوں کی اکثریت کی غریبی، اندرونی منڈی کا سکڑ جانا، ملک کی صنعت کاری کا ناممکن ہونا۔

اس لیے کمیونسٹوں کا فوری کام جاگیرداری کی باقیات کو ختم کرنا، جاگیرداری مخالف زرعی انقلاب کو فروغ دینا، زمینداروں کی زمین کو معاوضے کے بغیر کسانوں کی ذاتی ملکیت میں بدلنا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عارضی طور پر زمین کو قومیانے اور زمینداروں کی زمینوں کو کسانوں میں نجی ملکیت کے طور پر تقسیم کرنے کا مطلب زراعت کی ترقی میں سوشلسٹ امکانات کو ترک کرنا نہیں ہے؟نہیں۔ایسا نہیں ہے۔

روس میں زمین کو قومیانے کے لیےزمینداروں کی زمینوں کو کسانوں میں نجی ملکیت کے طور پرتقسیم کرنےکے بجائے براہ راست طریقے سے آگے بڑھنا ممکن اور ضروری تھا کیونکہ وہاں اس کے لیے سازگار حالات موجود تھے، یعنی: (الف) وہاں زمین کی نجی ملکیت کا اصول مناسب مقبولیت حاصل نہیں کر پایا تھا اور یہاں تک کہ کسانوں کی اکثریت کے درمیان زمین کی متواتر دوبارہ تقسیم کے ساتھ کسان کمیون کی روس میں موجودگی کی وجہ سے وہ کمزور ہوگیا تھا؛( ب) خود کسانوں، ان کی اکثریت، کا خیال تھا کہ “زمین کسی کی نہیں، زمین خدا کی ہے، لیکن زمین کا پھل زمین پر محنت کرنے والوں کا ہونا چاہیے”؛(پ) ملک کے مزدوروں کی سب سے مضبوط پارٹی، بالشویک لیننسٹ پارٹی، جسے کسانوں میں اعتماد حاصل تھا، نیشنلائزیشن کی حامی تھی اوراس نے زمین کو قومیانے کے لیے پروپیگنڈہ کیا؛(ت) ملک میں کسانوں کی سب سے مضبوط پارٹی، سوشلسٹ انقلابی پارٹی، اپنی پیٹی بورژوا اور کولاک(امیرکسانوں والی) فطرت کے باوجود بھی زمین کو قومیانے کے حق میں تھی، اور زمین کو قومیانے کے لیے پروپیگنڈا کرتی تھی۔ اس سب نے روس میں زمین کو قومیانے کے لیے ایک سازگار صورتحال پیدا کی۔

عوامی جمہوریتوں میں صورتحال مختلف تھی۔ یہ سازگار حالات نہ صرف وہاں موجود نہیں تھے بلکہ اس کے برعکس زمین کی نجی ملکیت کا اصول کسانوں کی زندگی میں اس قدر جڑ پکڑ گیا تھا کہ وہ زمینداروں کی جاگیروں کوکسانوں کی نجی ملکیت میں تقسیم کرنے کے علاوہ کسی اور شکل میں زرعی انقلاب کا تصور ہی نہیں رکھتے تھے ۔ جہاں تک زمین کو قومیانے کے نعرے کا تعلق ہے تو کسانوں کا اس کے بارے میں رویہ یا تو بے حسی کا تھا یا شدید بداعتمادی کا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ زمین کو قومیانے کا مطلب کسان مالکان سے ان کی زمین چھیننے کی کوشش کرناہے۔ لہذا، ان ملکوں میں یہ ضروری تھا کہ زمین کو قومیانے اور زراعت کی ترقی میں سوشلسٹ امکانات کے لیے براہ راست طریقہ اختیارکرنے کے بجائے گھوم کر، زمینداروں کی زمینوں کو کسانوں میں نجی ملکیت کے طور پر تقسیم کر کے،آگے بڑھا جائے ۔

یورپ کی عوامی جمہوریتوں میں زرعی انقلاب کو سات یا آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں زمینداروں کی زمینوں کی کسانوں میں نجی ملکیت کے طورپر تقسیم سے کیا ہوا، اس کے کیا نتائج نکلے؟ سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ زرعی انقلاب نے وہاں کسانوںمیں تفریق پیدا ہونے کے عمل کو نہیں روکا، بلکہ اس کے برعکس ،حال ہی میں اسے تیز ترکرتے ہوئے کسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کردیا ہے: غریب کسان (اکثریت) ،درمیانی کسان (25-30 فیصد)، امیرکسان(5-10 فیصد)۔ مزید یہ کہ غریب کسانوں کو یقین ہو گیا کہ زرعی انقلاب کے نتیجے میں انہیں حاصل ہونے والی زمین ان کی مادی حالت میں کوئی خاطر خواہ بہتری لانے کے لیے ناکافی ہے، کہ اس کے لیے انہیں لائیواسٹاک(مویشی) اور آلات، کافی مقدار میں بیج اور زرعی مشینری کی ضرورت ہے۔ تاہم کسانوں کو ان تمام چیزوں کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے محنت کش کسان اس نتیجے پر پہنچے کہ کسانوں کی چھوٹی اراضی اور ان کے سازوسامان کووسیع خطہ اراضی پرایک بڑے پیمانے کے کوآپریٹو کھیت میں جمع کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے ٹریکٹر، کمبائنز اوردیگرزرعی مشینری کی شکل میں ریاستی امداد کی ضرورت ہے ۔ دوسرے لفظوں میں، ان ممالک میں محنت کش کسانوں نے اجتماعی کھیتوں کا راستہ، سوشلسٹ ترقی کا راستہ، اختیار کیا۔

جہاں تک زمین کو قومیانے کا تعلق ہے، اس کی تیاری کی جا رہی ہے اور اس نے ان ممالک میں ایک مخصوص طریقے سے کام شروع کیا ہے، یعنی، زمین کی نجی ملکیت کے حق کو محدود کرنے کے لیے الگ الگ قوانین کا ایک سلسلہ جاری کر کے اورزمین کی خرید و فروخت کو مشکل بناکریااسے مکمل طور پر ممنوع قرار دے کر۔ یہ زمین کو قومیانے کا راستہ ہے۔

یہ زرعی انقلاب اور یورپ کی عوامی جمہوریتوں میں زمینداروں کی زمینوں کی تقسیم کے نتائج ہیں۔چین بھی یہی راستہ اختیار کر رہا ہے۔میرا خیال ہے کہ انڈونیشیا میں بھی زرعی انقلاب کی فتح کے بعد ایسا ہی ہوگا۔

قومی محاذ(نیشنل فرنٹ)

cیقیناً، اگر کمیونسٹ پارٹی اتنی کمزور ہے کہ وہ مزدوروں اور کسانوں کے اتحادکو اور قومی محاذ کی تشکیل کو ،دونوں کو، بیک وقت سنبھالنے سے قاصر ہے تو اسے ان دو سماجی کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا اور اپنی توجہ کو مزدوروں اور کسانوں کے اتحاد کی تنظیم کاری پر مرکوز کرنا ہوگا جو زیادہ اہم کام ہے۔ لیکن ایسی ناگہانی صورت حال کی کسی طوربھی خواہش نہیں کی جا سکتی۔ اس کے برعکس ،پارٹی کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ وہ بیک وقت مزدوروں اور کسانوں کے اتحاد اور قومی محاذ دونوں کی تعمیر کے امکان کوپیداکرے۔ اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ قومی محاذ نہ صرف اندرونی ردِ عمل بلکہ بیرونی خطرات کے خلاف بھی کامیاب جدوجہد کے لیے ضروری اور اہم ہے۔

اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ انقلابی زرعی پروگرام کی بنیاد پر مزدوروں اور کسانوں کے اتحاد کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کو متحدہ قومی محاذ کی بہتری اور مضبوطی کا کام بھی کرناچاہیے تاکہ وقت آنے پر کمیونسٹ پارٹی اس محاذ کے اندر قائدانہ مقام حاصل کرسکے۔

باقی کے لیے، آپ کے خط پرکسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔

,کمیونسٹ تمناؤں کےساتھ
جوزف اسٹالن۔


16 فروری، 1953ء۔
نوٹ: یہ خط اسٹالن اورانڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری ،دیپا ناسنتاراآئڈٹ ،کے درمیان انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی کے پارٹی منشورکوازسرنومرتب کرنے کے حوالے سے ہونے والے طویل تبادلہ خیالات کا ایک حصہ ہے۔

Leave a Comment