ندیژدا کرپسکایا
مترجم: سحر راحت
“سوشلزم اوپر سے دیے گئے احکامات سے تعمیر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا جذبہ رسمی افسرشاہانہ میکانیت سے اجنبی ہے؛ یہ ایک زندہ اور تخلیقی عمل ہے، جسے لوگ خود تعمیر کرتے ہیں۔” ہمارے سوشلسٹ اکتوبر انقلاب کے ابتدائی دنوں میں یہ بات لینن نے کہی تھی۔ (جلد 22، صفحہ 45۔)
غیر رسمی تعلیمِ بالغان کے بارے میں پہلی کل روسی کانگریس میں لینن نے 6 مئی 1919ء کو اظہار خیال کرتے ہوئے کہ تھا “۔۔اگر ہم خود کو کمیونسٹوں کی پارٹی کہتے ہیں تو ہمیں اب یہ سمجھنا چاہئے کہ جب ہم بیرونی رکاوٹوں کو ختم کرتے ہیں،پرانے اداروں کو توڑ ڈالتے ہیں ، تو ہمارے سامنے پہلی بار، مزدور انقلاب کا اصل کام – یعنی دسیوں لاکھوں لوگوں کی تنظیم کاری کرنا – آتا ہے۔” (جلد24، صفحات 272-278۔
جب لینن کا انتقال ہوا توعوام پارٹی کے قریب آگئی۔”لینن اب زندہ نہیں لیکن ان کا کام باقی ہے۔” سال گزرتے گئے اور ہم نے دیکھا کہ کیسے ہزاروں اور لاکھوں کارکنوں کی تنظیم دن بدن بڑھتی چلی گئی ، ایسے کارکنان جو ملک کی انتظام کاری میں، سوشلزم کی تعمیر میں محو ہو گئے۔ ہماری سوویتوں کے ملک کی پوری سماجی ہیئت بدل گئی۔لوگوں کی وسیع تعداد کے درمیان سے ہزاروں منتظمین ابھر کرسامنے آئے ہیں۔استاخنوائٹ تحریک (پیداوار میں اضافے کی مزدورتحریک) اس کی واضح گواہ ہے اور اسی طرح گذشتہ موسم ِسرما میں منعقد ہونے والی پارٹی اور حکومت کے رہنماؤں کی کانفرنس بھی ،جس میں مختلف پیداواری شعبوں کی تنظیموں نے اور ریاستی کھیت کے مزدوروں نے، زرعی مزدوروں نے، کمبائن آپریٹرز اور دیگر اجتماعی کسانوں نے شرکت کی، جنہوں نے زیادہ پیداوار حاصل کی تھی۔ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ مختلف معاشی تنظیموں کی بنیاد پر لوگوں کے مابین دوستی کس طرح مستحکم ہورہی ہے ، کس طرح عوام ثقافتی ترقی کرچکی ہے۔ عوام دیکھ سکتی ہے کہ کس طرح مکمل طور پر، انتھک انداز سے کامریڈ اسٹالن نے خود کو اس مقدس کام کے لیے ، لینن کے کام کے لیے ، سوشلزم کی تعمیر کے لیے ،وقف کررکھا ہے ، کس طرح وہ عوام کو ایک بہتر زندگی کی طرف لے جارہے ہیں۔ ہر کوئی یہ دیکھ سکتا ہے اور عوام ان پر یقین رکھتے ہیں ، وہ عوام کے اعتماد اور محبت میں گھرے ہوئے ہیں۔
ٹراٹسکی اور زینوویف کے مقلدین نے عوام کے بارے میں نہیں سوچا ۔ وہ حقیقت میں نہیں جی رہے تھے۔ وہ صرف اس بارے میں سوچ رہے تھے کہ اقتدار پر قبضہ کیسے کریں خواہ اس کے لیے گسٹاپو (جرمن خفیہ فوج) کے ساتھ،مزدور طبقے کی آمریت کے سب سے نمایاں دشمنوں کے ساتھ ہی، معاہدہ کیوں نہ کرنا پڑے اوراس طرح وہ سوو یتوں کے ملک میں محنت کش عوام کے سرمایہ دارانہ استحصال اورسرمایہ دارانہ ڈھانچے کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
1920ء کے آخر تک ٹریڈ یونینوں کے کردار کے بارے میں تبادلہِ خیال ہوتا رہا۔لینن نے اس پر ٹراٹسکی کے مؤقف کے بارے میں لکھا کہ وہ “پرولتاریہ (مزدوروں) کی آمریت کے سوال کے جوہر کے بارے میں ہی متعدد غلطیوں میں الجھ گیا تھا۔ اگرکوئی اس بات کو نظرانداز بھی کرتا تو تب بھی یہ سوال کیا جا سکتا تھا کہ ہم لوگ ہم آہنگی اور دوستی کے ساتھ کام کیوں نہیں کرسکتے جو کہ اس وقت بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام سے رجوع کرنے ، عوام کو اپنے قبضے میں لینے ، ان کے ساتھ ہمارے روابط کے طریقوں کے بارے میں، ہمارے درمیان اختلافات ہیں۔ اسی بات میں ہمارے اختلافات کا جوہر ہے۔” (جلد26، صفحہ 66۔)
اور یہ اتفاق نہیں ہے کہ وہ ٹراٹسکی جو پرولتاریہ کی آمریت کے جوہر کو ،سوشلزم کی تعمیر میں عوام کے کردارکو کبھی اس سوچ کی وجہ سے نہیں سمجھ سکاکہ اسے محض اوپر سےحکم دے کر تعمیر کیا جا سکتا ہے ، وہ اب اسٹالن، وروشلوف اورپولٹ بیورو کے ان دیگراراکین کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کو منظم کرنے کی راہ پر کھڑا ہے جو سوشلزم کی تعمیر کے لیے عوام کی مدد کررہے ہیں۔ لہذا ، یہ اتفاقی بات نہیں ہے کہ کامینیف اور زینوویف کے غیر اصولی اتحاد نے ٹراٹسکی کے ساتھ مل کر انہیں لینن کے کام سے، عوام کے کام سے، سوشلزم کے آدرشوں سےغداری کا ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھانے پرمجبور کیا۔ ٹراٹسکی ، زینوویف ، کامینیف اور ان کے قاتلوں کے پورے جتھے نے جرمن فاشسٹوں کے ساتھ مل کر کام کیا ۔ یہ لوگ گسٹاپو کے ساتھ معاہدے میں شامل ہوگئے۔
اسی لئے ملک نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ ان پاگل کتوں کو گولی مار دی جائے۔عدالت میں ان کے بیانات کے بارے میں پڑھ کر مزدور کہہ رہے ہیں: “وہ سرمایہ داروں کی آمریت کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ وہ ہمارے بارے میں ، عوام کے بارے میں بھول گئے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم انہیں اقتدار میں آنے دیتے ، تو وہ یہ بھی فراموش کر دیتے کہ’سوشلزم زندہ ہے؛ یہ عوام کی تخلیق ہے’۔وہ یہ بات بھول گئے اور انقلاب دشمن سرمایہ داروں کی پہلی صف بن گئے۔”
وہ عوام کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے ، انقلاب کے دماغ اور دل کو – خود کامریڈ اسٹالن کو- ہلاک کرنا چاہتے تھے ۔ایسا نہیں ہوا۔ بدمعاشوں کے اس قابلِ حقارت گروہ کو گولی مار دی گئی ہے۔
اب عوام پارٹی کے اور بھی نزدیک آرہے ہیں۔ اسٹالن کے لیے ان کی محبت بڑھ گئی ہے۔
یہاں تک کہ وہ لوگ جو پارٹی کے رکن نہیں ہیں یہ لکھ رہے ہیں کہ لینن اور اسٹالن کی مجموعہ تصانیف کو ان اخباروں میں ضمیموں کے طور پر سامنے لانا ضروری ہے جن کی اشاعت کا دائرہ وسیع ہے۔سماجی شعورکی، علم کی، پیاس مزید بڑھ رہی ہے۔پشکینو کے علاقے میں بالغ افراد کی اعلی تعلیم کے لیے ایک اسکول بنایا گیا ہے۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ وہ چھت کی تیاری کے آخری مرحلے میں ہیں۔ یہ بات مجھے حال ہی میں اتوار کے شام کے اسکول کے ایک سینئر معاشی مینیجر نے بتائی جو 40 سال پہلے میرا شاگرد تھا۔وہ جیل میں ایک سزا کاٹ چکا ہے۔ اپنے آبائی گاؤں میں اس نے پہلے ہی ایک اشتراکی حلقہ تشکیل دے دیا تھا اور اشتراکی کھیت میں مثالی کام کرنے پر اسے”ملین روبل” کے انعام سے بھی نوازا گیا جہاںاسے ڈائریکٹر کے عہدے پر مقرر کیا گیا تھا۔
ہاں ، سوشلسٹ ڈھانچہ بڑھ رہا ہے اور اسی طرح عوام کی ثقافتی ضروریات بھی۔ہمیں ان تقاضوں کے ساتھ قدم بڑھانا ہوں گے ، بالغوں کے لئے اسکولوں کو مستحکم کرنا ہوگا ، ان کا جال وسیع کرنا ہوگا ، لائبریریوں تک رسائی کو بڑھانا ہوگا ، ثقافت کے مراکز ، اشتراکی کھیتوں میں (ریڈر) کلب، میوزیم تیار کرنا ہوں گے۔ایک مخصوص مرحلے پر تعلیم ، لائبریریوں ، ریڈر کلبوں اور ثقافت کے مراکز کے معیار کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینا ہوگی۔
پیداوار کے مختلف شعبوں میں منتظمین کے ساتھ، اجتماعی کسانوں ، مزدوروں ، کمبائن ورکروں ، چقندر کے کاشت کاروں وغیرہ کے ساتھ ، ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح ان معاشی تنظیموں کی بنیاد پر سوویتوں کے ملک میں لوگوں کے مابین دوستی مستحکم ہورہی ہے ، ثقافتی طور پر عوام کس طرح ترقی کرچکے ہیں۔ اور دسیوں لاکھوں مزدور دیکھ سکتے ہیں کہ کس بے لوثی سے، مکمل طور پر اور بغیر وقفے کے ، کامریڈ اسٹالن ان کے اہم کام کے لیے، لینن کے کام کے لیے، سوشلزم کی تعمیر کے کام کے لیے ،خود کو وقف کیے ہوئے ہیں اور کس طرح وہ انھیں ایک بہتر زندگی کی جانب لے جارہے ہیں۔ وہ یہ دیکھ سکتے ہیں اور وہ ان پر یقین کرتے ہیں اور انہیں ہمہ گیر بھروسے اور محبت کی آغوش میں لیتے ہیں۔
ہمارے پاس پہلے ہی اس شعبے میں کافی تجربہ موجود ہے۔ اکتوبر کے سوشلسٹ انقلاب کے سالوں سے ثقافت کے میدان میں اہم اقدام مزدوروں کی طرف سے اٹھایا گیا ہے اور وہ شعبے جنہیں دھچکا لگا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سی مشکلات کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا ، ‘مطلوبہ’ اور ‘متوقع’ کو حال میں موجود چیزوں کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ اب ہم نے زندگی کو زیادہ باریک بینی سے دیکھنا ، ماضی کی باقیات سے زیادہ جوش و خروش سے نفرت کرنا سیکھ لیا ہے۔ ہم نے اپنی اس سوچ کو مستحکم کیا ہے کہ گہرا اور وسیع تر علم حاصل کرنا اوراس علم کو درست طریقے سے استعمال کرنا ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سوشلزم کی تعمیر کا کام ایک لمحے کے لئے بھی کمزور نہیں پڑرہا ہے۔یہ زیادہ طاقت اور زیادہ ہم آہنگی کے ساتھ جاری ہے۔
یہ اتفاق کی بات نہیں ہے کہ(دوسری) انٹرنیشنل کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے، کہ قاتلوں کا ٹراٹسکی- زینوویف گروہ عوامی محاذ کو برباد کرنے کی اپنی کوششوں میں اپنی ڈھال اٹھا رہا ہے۔ ڈی- بروکرس اور سٹرائن کے مقلد ان تمام تخریبی سرگرمیوں کی حمایت کر رہے ہیں جنہیں سوویت یونین کے مزدور طبقے کے اور اس کی پارٹی اوررہنماؤں کے دشمن بھڑکاتے ہیں۔ وہ سوویت یونین کےخلاف اس نعرے بازی میں سرِفہرست ہیں جسے سرمایہ داردنیا میں زبان دی جارہی ہے۔
تیسری انٹرنیشنل دوسری انٹرنیشنل کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی۔ دوسری انٹرنیشنل ، بھگوڑے کاؤتسکی اینڈ کمپنی کی مدد سے مزدورطبقے کی آمریت اور سوویت اقتدار کے خلاف پرتشدد پروپیگنڈا کر رہی تھی۔ دوسری انٹرنیشنل محنت کش عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع اورعذرخواہی کی خواہش رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گسٹاپو کے ایجنٹ ،ٹراٹسکی، کا دفاع کررہے ہیں۔لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
سوویتوں کا ہمارا ملک طاقتور بن چکا ہے۔ کمیونزم کا پرچم بلندسے بلند تر ہورہا ہے ، اور مارکس ، اینگلز اور لینن کےبنائے ہوئے راستے پر ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
نہ ٹراٹسکی ، نہ ہی زینوویف یا دوسری انٹرنیشنل سچے حقائق کو چھپا سکیں گے یاکارکنوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوں گے۔بین الاقوامی محاذپرپنپتا کشیدہ ماحول ، جنگ کا خوفناک خطرہ – یہ سارے حالات مزدوروں کی بصیرت کو تیز کرتے ہیں۔پوری دنیا میں مزدوروں کا عوامی محاذ ترقی کرے گا اور مضبوط تر ہوگا۔
ازویستیا اخبار، شمارہ نمبر 224 میں 4 ستمبر 1936ء کو شائع ہوا۔