عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی بین الاقوامی اہمیت (پہلا حصہ)

عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی بین الاقوامی اہمیت (پہلا حصہ)

مترجم: قیصر اعجاز

ماخذ: یہ مضمون کتاب، عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب، کا آخری باب ہے، جس کے مدیر اعلیٰ پی این سوبولوف ہیں اور اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ڈیوڈ سکورسکی نے 1977ء میں کیا۔

اپنی تاریخ کے دوران انسان نے کئی انقلابات دیکھے ہیں۔ تاہم، ان میں سے کوئی بھی اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ موازنہ نہیں رکھتا؛ تمام ممالک اور تمام اقوام پر اس کے اثرات کی قوت کے لحاظ سے، اوران بہت بڑی تبدیلیوں کے لئے جو اس نے قوموں کی تقدیر میں لکھی ہیں، کسی تاریخی واقعے کا اس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے دنیا میں سرمایہ داری کی غیر متنازع حکمرانی کا خاتمہ کیا اور کمیونزم کے دعوے کے دور کا آغاز کیا۔ اکتوبر انقلاب کے نتیجے میں دنیا دو سماجی نظاموں میں بٹ گئی- سوشلزم اور سرمایہ داری۔ اس انقلاب نے مارکسی-لیننی سبق کی درستگی کی تصدیق کی، جو تجربے کے امتحان میں کامیاب ہو چکا تھا۔

اکتوبر انقلاب کی فتح، محنت کشوں اور کسانوں کی ریاست کی تشکیل اور روس میں رونما ہونے والی انقلابی تبدیلیوں نے مارکسزم-لیننزم، سائنسی کمیونزم ،کے نظریے کو حقیقت میں بدل دیا۔ اکتوبر انقلاب نے وہ راستہ دکھایا جس پر چلتے ہوئے انسان سرمایہ داری کو، اور ان آفات کو جو یہ دنیا کے محنت کش عوام کے لیے لاتی ہے ،ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔

اکتوبر انقلاب کے تجربے نے تمام ممالک کے محنت کش عوام کو دکھایا کہ صرف سوشلسٹ انقلاب ہی بنیادی انقلابی اصلاحات کے لیے ایسے حالات پیدا کر سکتا ہے جو دنیا کی آبادی کی اکثریت کے مفادات کے مطابق ہیں۔ امن، جمہوری آزادیوں کا ادارہ، قوموں کی خود ارادیت کے حق کا نفاذ، کسانوں کو زمین کی منتقلی اور بنیادی ذرائع پیداوار کو قومی تحویل میں لینےکا عمل تمام ممالک اور براعظموں کے محنت کش عوام کی خواہشات رہی ہیں۔

اسی وجہ سے آج تک تمام ممالک کے محنت کش عوام یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست کو ہر ممکن تعاون دینا اُن کا فرض ہے۔ اکتوبر انقلاب نے پرولتاریہ(مزدور) بین الاقوامی یکجہتی کی طاقت اور عملداری کا مظاہرہ کیا، جس کے تحت تمام ممالک کے محنت کش عوام کے طبقاتی مفادات ہیں۔ اس یکجہتی کا ایک واضح مظہر جرمنی، ہنگری، چیکوسلواکیہ، بلغاریہ اور آسٹریا کے دسیوں ہزار جنگی قیدیوں کا اور پولینڈ، رومانیہ، سربیاکے خدمت گاروں اور

دیگر قومیتوں کے عوام کا، جو کہ اس وقت روس میں موجود تھے،
سنہ 1917ءمیں روس میں شامل خدمت گاروں کی سوشلسٹ انقلاب کی فتح اور استحکام کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں براہ راست شمولیت اختیار کرنا تھا۔

یہ لوگ جس ملک میں تھے نہ تو اس کی زبان اور نہ ہی اس کے رسم و رواج جانتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ اس بات کے خواہشمند تھے کہ جلد از جلد اپنے گھروں اور خاندانوں کو واپس لوٹیں۔ لیکن پرولتاری یکجہتی سے متاثر ہو کر، وہ رضاکارانہ طور پر روس میں سوشلسٹ انقلاب کی فتح کے لیے سرگرم جنگجو بن گئے۔

پیٹرو گراڈ اور ماسکو میں مسلح بغاوت کے دوران مختلف ممالک کے جنگی قیدیوں نے سڑکوں پر لڑائی میں حصہ لیا اور روس میں سوویت اقتدار قائم کرنے کے لئے لڑے۔ ان ہنگامہ خیز دنوں سے ملنے والے متعدد دستاویزات روس کے محنت کش طبقے کے ساتھ اس پرولتاری یکجہتی کو بیان کرتے ہیں جس نے سرمایہ داری کو معزول کر دیا تھا ۔ 20 فروری 1918ء کو پیٹرو گراڈ میں ایک ریلی میں، سابق جنگی قیدیوں نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا تھا: “جرمن سامراجیوں اور ان کے ساتھیوں کو، روسی بورژوازیوں (سرمایہ داروں)کو بتا دیں کہ روس کے پرولتاریہ تنہا نہیں ہیں! کسی بھی نازک لمحے، انہیں کئی ہزارقیدیوں کی حمایت حاصل ہو گی۔ بورژوا گروہ کو روسی انقلاب کی مخالفت میں آگے بڑھنے کے لیے پرولتاریوں کی لاشوں پر سے گزرنا ہو گا۔”

سرخ فوج (ریڈ آرمی) کے بین الاقوامی یونٹ 85 شہروں میں بنائے گئے تھے، جن میں ماسکو، سمارا، ساراتوف، پرم، اوریل، ارکتسک اور یاروسلاول شامل ہیں۔ ان کی سربراہی ہنگری کے باشندے تِبور سیمُؤلی، بیلا کُن، فیرینس میونک، میٹی زَلکا، چیک باشندے، جاروسلاو ہاسک، سرب باشندے، اولیکو ڈنڈک، اور باقی انقلابیوں نے کی تھی۔ ان یونٹوں نے بہادری کے ساتھ سفید فوج (وائٹ گارڈز) اور مداخلت کاروں(14 ملکوں کے فوجی دستوں) کے خلاف سوویت جمہوریہ کا دفاع کیا۔ اگست 1918ء میں وارسا انٹرنیشنل رجمنٹ کے محاذِ جنگ کی طرف مارچ کرنے سے پہلے سرخ فوج کی ایک ریلی میں لینن نے کہا: “آپ کو یہ عظیم شرف حاصل ہے کہ آپ مقدس نظریات کا ہتھیار اٹھائے، اپنے ماضی کے دشمنوں ،جرمن، آسٹریائی اور میگیاروں کے ساتھ مل کے لڑ کر اقوام کے بین الاقوامی بھائی چارے کو حقیقت کا روپ دیں گے۔”

اکتوبر انقلاب محنت کش عوام میں جو ہمدردی پیدا کر سکتا ہے اس سے آگاہ بورژوا ممالک کے حکمران حلقوں نے انقلاب کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر ممالک کے اخبارات سوویت جمہوریہ کی صورت حال، بالشویکوں کی طرف سے کی جانے والی “ہولناکیوں” کے بارے میں شاندار کہانیوں سے بھرے پڑے تھے۔ برطانوی حکومت روس میں انقلابی پیش رفت کے بارے میں بہتان تراشیوں سے بھری ایک وائٹ بک منظر عام پر لائی۔

سال 1920ء کے موسم گرما میں امریکی کالم نگار والٹر لپ مین اور چارلس مرز نے، جو بعد میں نیویارک ٹائمز کے ادارتی عملے میں شامل ہوئے، ایک کتابچہ شائع کیا جس میں انہوں نے نشاندہی کی کہ نومبر 1917ء سے نومبر 1919ء کے درمیان مذکورہ اخبار نے سوویت اقتدار کے خاتمے کی خبر 91 بار دی تھی۔

اسی دوران جن لوگوں نے سوویت روس کے بارے میں سچ بولا انہیں پولیس کے جبر اور عدالتی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ مثال کے طور پر امریکی سینیٹ نے اکتوبر انقلاب کے ان عینی شاہدین کی جانچ کے لیے ایک خصوصی کمیشن قائم کیا جو روس کے پرولتاریہ کی فتح کے بارے میں سچ بولتے تھے ۔ اس کمیشن نے صحافی جان ریڈ اور البرٹ رائس ولیمز، روس میں امریکن ریڈ کراس کے سربراہ کرنل ریمنڈ رابنز اور ان دوسرے امریکی شہریوں پر مقدمہ چلایا جو سوویت جمہوریہ سے امریکہ واپس آئے تھے ۔

فرانسیسی فوج کے کپتان جیک سیدول، جنہوں نے اکتوبر انقلاب کے بارے میں سچائی کو ایمانداری اور شجاعت کے ساتھ پیش کیا، فرانسیسی حکومت نے ان کی غیر موجودگی میں ان پرمقدمہ چلا کر 3 بار موت کی سزا سنائی۔ ستمبر 1917ء میں وہ فرانسیسی فوجی مشن کے سیاسی مبصر کے طور پر روس آئے تھے۔ لینن کے ساتھ ان کی ملاقاتوں اور ملک میں ہونے والے بہادری کے واقعات نے انہیں زبردست متاثر کیا۔ وہ انقلاب کا گلا گھونٹنے کے مجرمانہ منصوبوں کو بے نقاب کرتے ہوئے سوویت روس کے دفاع میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے لکھا: “روس کے مزدوروں اور کسانوں کے معاملات میں متحد ڈاکوؤں اور ان کے جاگیرداروں کی مسلح مداخلت کو کسی بھی صورت فرانسیسی اور روسی عوام کے درمیان جنگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ پرولتاریہ کے خلاف بورژوازی کی، استحصال کرنے والوں کے خلاف استحصال کے شکار طبقے کی جنگ ہے۔ اس طبقاتی جدوجہد میں ہر مخلص سوشلسٹ کا مقام اور نتیجتاً میرا مقام بورژوازی کے خلاف پرولتاری فوج کی صفوں میں ہے۔ لہٰذا میں سرخ فوج میں شامل ہو رہا ہوں۔”

فرانس میں رومین رولانڈ ، ہنری باربوس اور دیگر سیاسی شخصیات کو لکھے گئے جیک سدول کے خطوط نے سچائی کے ساتھ ان عظیم واقعات کو بیان کیا۔

سرمایہ دار ممالک کے مقتدر حلقوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے باوجود سچائی نے تمام رکاوٹیں توڑ دیں۔ اس کے بعد فرانسیسی کمیونسٹوں کے رہنما موریس تھورس نے لکھا: “بے لگام جھوٹ اور بہتان کی مہم نے فرانس کے محنت کشوں پر بہت کم اثر ڈالا۔ یہاں تک کہ ان میں سے سب سے زیادہ پسماندہ لوگوں نے بھی مبہم طور پر محسوس کیا کہ ان کی جمہوریہ روس میں تعمیر ہو رہی ہے، جس مقصد کے لیے روسی مزدور بہادری سے لڑ اور مر رہے ہیں وہ ان کا مقصد ہے، تمام ممالک کے محنت کش عوام کا مشترکہ مقصد۔”

مذکورہ بالا ممالک کے علاوہ متحارب ممالک کے عوام نے بھی لینن کے امن کے متعلق فرمان، اور سامراجی جنگ کے خاتمے کے لیے سوویت حکومت کی پرعزم اور مستقل کوششوں کا پرجوش انداز میں خیر مقدم کیا۔ سوویت روس کی اس مثال نے دکھا دیا کہ آنے والے تمام زمانوں کے لئے جنگوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ اکتوبر انقلاب کے اثرات کے تحت بہت سے ممالک میں جنگ کے فوری خاتمے کے لیے ایک عوامی تحریک شروع ہوئی۔ برلن، ویانا، پیرس، لندن اور بوڈاپیسٹ میں سوویت روس کی تجویز کردہ شرائط پر امن کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے بڑے سیاسی مظاہرے اور ہڑتالیں ہوئیں۔ صرف جنوری 1918ء میں ہی تقریباً دس لاکھ جرمن مزدوروں نے جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک سیاسی ہڑتال میں حصہ لیا۔

جنگ مخالف ریلیوں اور مظاہروں کی ایک لہر پورے امریکہ میں پھیل گئی، جہاں کے عوام نے براہِ راست جنگ کی تمام وحشتوں کا تجربہ نہیں کیاتھا۔ امریکی مزدوروں کے ایک رہنما یوجین وی ڈیبس نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “یہاں، اس ہنگامے میں اور متاثر کن اجتماع میں ہمارے دل روس کے بالشویکوں کے ساتھ ہیں۔ اُن بہادر مردوں اور عورتوں نے، ان ناقابل تسخیر ساتھیوں نے، اپنی بے مثال بہادری اور قربانیوں سے عالمی تحریک کی اِس شہرت میں نئی چمک پیدا کر دی ہے۔۔۔ فاتح روسی انقلاب کا پہلا کام تمام بنی نوع انسان کے ساتھ امن کی ریاست کا اعلان کرنا تھا، جس میں ایک پرجوش اخلاقی اپیل تھی، نہ صرف بادشاہوں کے لئے، نہ صرف شہنشاہوں، حکمرانوں یا سفارت کاروں کے لئے، بلکہ تمام اقوام کے عوام کے لئے۔”

روس کے واقعات سے متاثر ہو کر کچھ سرمایہ دارانہ ممالک میں محنت کشوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے سرگرم جدوجہد شروع کی۔

فن لینڈ میں، جسے سوویت حکومت نے آزادی دے دی تھی، محنت کش طبقے نے سرمایہ دار حکومت کو اکھاڑ پھینکا اور جنوری 1918ء کے اختتام پر فن لینڈ سوشلسٹ مزدورجمہوریہ قائم کی۔ لیکن فن لینڈ کی سرمایہ داروں نے جرمن فوجیوں کی مدد سے انقلاب کو خون میں ڈبو دیا۔

جرمنی میں 1918ء کے موسم خزاں میں ایک انقلاب نے بادشاہت کا تختہ الٹ دیا۔ کئی شہروں میں مزدوروں کے نائبین کی سوویت(جمہوری تنطیم) بنائی گئیں۔ جنوری 1919ء میں برلن، بریمن، ڈسلڈورف، اسٹٹ گارٹ اور لیپزگ میں مزدوروں کا زبردست مظاہرہ ہوا جو ایک مسلح جدوجہد کی شکل میں بھڑک اٹھا۔ اپریل 1919ء میں باویریا کا تقرر سوویت جمہوریہ کے طور پر کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ لیکن جرمن سرمایہ دار ، محنت کش عوام کے مقصد سے غداری کرنے والے سوشل ڈیموکریٹک قائدین کی مدد سے محنت کشوں کی انقلابی تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہو گئے۔

آسٹریا ہنگری میں 1918ء کے موسم خزاں میں ایک انقلابی لہر پھیلی اور اس نے بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ وہ مخلوط سلطنت، جو اس میں بسنے والے لوگوں کے لیے ایک جیل تھی، ٹوٹ گئی، اور اس کے کھنڈرات سے نئی ریاستیں ابھریں : ہنگری، آسٹریا، چیکوسلواکیہ اور یوگوسلاویہ۔

اکتوبر 1918ء کے اختتام پر ہنگری میں پرولتاریہ کی قیادت میں ایک بورژوا جمہوری انقلاب برپا ہوا۔ مارچ 1919ء میں کمیونسٹ پارٹی کی سربراہی میں بوڈاپیسٹ کے کارکنان اور سپاہیوں نے اقتدار سنبھالا اور ہنگری کی سوویت جمہوریہ کا اعلان کیا۔ اس جمہوریہ کا وجود صرف چار ماہ تک قائم رہ سکا: اسے سرمایہ داروں نے غیر ملکی فوجوں کی مدد سے تباہ کر دیا۔

اکتوبر انقلاب نے پوری دنیا میں سوویت روس کے ساتھ یکجہتی کی ایک بڑی لہر کی چنگاری بھڑکائی۔

فروری 1918ء کے وسط میں اخبار لا وکٹوائر نے رپورٹ کیا کہ 180،000 منظم مزدوروں کی جانب سے پیرس میں دھات کا کام کرنے والوں کے ایک اجلاس نے متفقہ طور پر روسی انقلاب کے ساتھ یکجہتی کی قرارداد کو منظور کیا۔ اسی سال مئی میں پیرس میں جنگی کارخانوں کے 200،000 سے زیادہ مزدوروں نے ان نعروں کے تحت ہڑتال کی: “یہ لعنتی جنگ بہت ہوئی!” اور “انقلاب زندہ باد!”

سال 1918ء کے موسم گرما میں فرانس میں سوویت روس میں مداخلت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اکتوبر کے اوائل میں فرانسیسی سوشلسٹ پارٹی کے ایک اجتماع میں ’’سوشلسٹ جمہوریہ زندہ باد!‘‘ کے نعرے کی آواز اٹھائی گئی۔ محنت کشوں کی ریلیوں میں سوویت روس کو مبارکباد کے پیغامات کی توثیق کی گئی۔

فرانسیسی جمہوری دانشوروں کے بہترین نمائندے —نامور مصنفین، سائنس دان اور شہری رہنما — سوویت روس کے سرگرم حامیوں میں شامل تھے۔ ان میں اناتول فرانس ، ہنری باربوس ، رومین رولینڈ، مارسیل کوچین، پال لینگیوین، پال ویلنٹ— کوٹوریر ، اور جین رچرڈ بلوک شامل تھے۔ اس دور کے بارے میں لکھتے ہوئے، لینن نے نوٹ کیا: “فرانسیسی عوام تقریباً سب سے زیادہ تجربہ کار، سیاسی طور پر سب سے زیادہ باشعور، سب سے زیادہ فعال اور متجاوب ہیں۔”

برطانوی پرولتاریہ کی انقلابی جدوجہد کی تاریخ میں بہت سے روشن صفحات لکھے گئے تھے۔ برطانیہ میں انقلابی تحریک کی سربراہی برٹش سوشلسٹ پارٹی کے اراکین اور فیکٹری نگران کمیٹیوں کے رہنما ولیم گیلاچر ، ہیری پولیٹ، تھامس بیل، آرتھر مک مینس اور دیگر افراد کر رہے تھے۔ برطانیہ بھر میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی گئیں جن میں محنت کشوں نے “روسی امن فارمولے” کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ برطانیہ روس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے۔

فرانس کی طرح برطانیہ میں مزدور تحریک نے نعرے لگائے: “روس سے فوجیں نکالو” اور “جو روس کے خلاف جنگ کرتا ہے وہ مجرم ہے”۔ 1918ء میں برطانیہ نے 1165 ہڑتالوں کا مشاہدہ کیا جن میں 1،116،000 مزدور شامل تھے۔

اکتوبر انقلاب کو اٹلی کے محنت کش عوام نے سراہا تھا۔ عوام کی جدوجہد کو انتونیو گرامشی اور پالمیرو تولیاتی نے منظم کیا تھا۔ “ویسا کرو جیسا روس میں کیا جا رہا ہے!” یہ اطالوی عوام کا عسکری نعرہ تھا۔ اُس ملک میں سب سے مشہور نام لینن تھا۔ پورے اٹلی میں مکانوں، درختوں، گرجا گھروں اور فوجی بیرکوں پر کوئلے، چاک، پینٹ اور پنسل سے ’’لینن زندہ باد!‘‘ اور “روس زندہ باد!” لکھا ہو تھا۔ جوہوانی جرمنیٹو نے، جو اطالوی محنت کش عوام کی سیاسی جدوجہد میں سرگرم تھا، نے لکھا: “لینن! یہ نام بورژوا طبقے کے لیے ایک انتباہ کے طور پر اور محنت کش عوام کے لیے امید کی ایک گھڑی کے طور پر اٹلی کی گلیوں اور چوکوں میں بولا جاتا تھا۔ لوگوں نے کہا ‘لینن یہاں بھی آئے گا۔’ اکتوبر انقلاب اور اس کے مشہور رہنما کے اعزاز میں مقبول گانوں کے الفاظ کو دوبارہ ترتیب دیا گیا۔ اور مظاہروں کے دوران ہجوم انقلابی بینڈیرا روساکے گانے کا اختتام ‘لینن زندہ باد! بادشاہ کو دفع کرو!” کے ساتھ کیا کرتے”۔ 30 جنوری 1918ء کو نیپلز میں محاصرے کی حالت کا اعلان کیا گیا؛ کئی جنگ کی فیکٹریوں کا کام بند ہو گیا۔ 29 دسمبر کو عوام کے دباؤ میں، سوشلسٹ تنظیموں، ٹریڈ یونینوں اور کوآپریٹوز کے نمائندوں کی ایک کانفرنس میں سوویت روس سے مداخلت پسند افواج کے فوری انخلاء کی قرارداد منظور کی گئی۔

مغربی نصف کرہ، خاص طور پر امریکہ میں اکتوبر انقلاب نے محنت کش عوام کی جدوجہد کو ایک طاقتور محرک دیا۔ روس کی اس تمثیل کے بعد مزدوروں، سپاہیوں اور ملاحوں کے نائبین کے سوویت کئی امریکی شہروں میں پھیل گئے۔ سیاٹل میں محنت کشوں کے سوویت نے ریلیوں کا اہتمام کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ امریکی صدر سوویت حکومت کو تسلیم کریں اور روسی عوام کے خلاف تمام مداخلت پسندانہ کاروائیاں بند کریں۔ سوویت آف ورکرز ڈپٹیز آف پٹسبرگ کے مزدوروں کے نائبین کے سوویت جمہوریہ کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے خلاف پٹسبرگ صنعتی علاقے کے مزدوروں کو احتجاج کی کال دی گئی۔ ملک کے مختلف حصوں میں “روس سے دور رہو!” نامی تنظیمیں قائم کی گئیں۔ جلسوں اور ریلیوں میں سوویت روس کے لیے عطیات جمع کئے گئے۔

امریکی محنت کشوں نے مبادراتی کمیٹیاں تشکیل دیں جنہوں نے وہ رضاکاران نامزد کیے جو روس جا کر انقلاب کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں کے خلاف سوویت عوام کی جدوجہد میں براہ راست حصہ لینے کے خواہشمند تھے۔ مارچ 1918ء میں خارجہ امور کی عوامی کمیٹی کو امریکی بین الاقوامی انقلابی گروہ (یو ایس انٹرنیشنل ریولوشنری گروپ) کی طرف سے ایک ٹیلی گرام موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ گروہ امریکہ سے ایک بین الاقوامی انقلابی فوج کو منظم کرنے اور روس بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ ایک اور ٹیلی گرام میں کہا گیا تھا کہ انقلاب کا دفاع کرنے میں مدد کے لیے سرخ محافظ (ریڈ گارڈز )بنائے جا رہے ہیں۔ صرف سیٹل میں 500 آدمیوں نے رضاکارانہ طور پر روس جانا تھا، لیکن انہیں خارجی ویزا دینے سے انکار کر دیا گیا۔ امریکہ میں 1918ء میں 3285 سے زیادہ ہڑتالیں کی گئیں جن میں 1،200،000 محنت کشوں نے حصہ لیا۔ مارچ 1919 ءمیں لینن نے لکھا: “امریکہ میں، جو سب سے مضبوط اور سب سے کم عمر سرمایہ دار ملک ہے، محنت کشوں کو سوویت یونین کے ساتھ زبردست ہمدردی ہے۔”

لاطینی امریکہ کے کئی شہروں میں انقلابی روس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے زبردست مظاہرے اور اجلاس کیے گئے۔

نوٹ: یہ مضمون 10 فروری 2022ء کو آن لائن اردو اخبار، مکالمہ، میں شائع ہو چکا ہے۔ اس متن کو انگریزی میں یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔

Leave a Comment