ٹراٹسکی ازم کی سماجی بنیاد

ٹراٹسکی ازم کی سماجی بنیاد

تحریر: ایم۔ جے۔ آلگن

ترجمہ: شاداب مرتضی

ہم نے ٹراٹسکی کی سیاسی زندگی کی تاریخ کچھ تفصیل سے بیان کی ہے، لیکن ٹراٹسکی ازم ایک آدمی کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ کسی فرد کی خصوصیت نہیں ہے۔ ٹراٹسکی ازم ایک سماجی رجحان ہے۔یہ حقیقت کہ ٹراٹسکی انقلاب میں شامل ہوا، بے خبر لوگوں کی نظر میں اس کے بیانات میں ایک خاص وقار کا اضافہ کرتی ہے۔ اس میں بہت سی دوسری مثالوں کی طرح، ذاتی عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر ٹراٹسکی کا وجود نہ بھی ہوتا تو انقلاب کی مخالفت کا وہ برانڈ اپنے اظہار کا کوئی اورذریعہ تلاش کرلیتا جس کی نمائندگی ٹراٹسکی کرتا ہے ۔ انقلابی تحریک کے ہر مرحلے پر ٹراٹسکی ازم دوبارہ جنم لے رہا ہے کیونکہ یہ ایک مخصوص طبقے، یعنی پیٹی بورژوازی (چھوٹی، درمیانی ملکیت والےطبقے)کے رویے کا اظہار کرتاہے۔

اس طبقے کے بارے میں کارل مارکس نے ایک بار کہا تھا کہ یہ ایک عبوری طبقہ ہے جس میں بیک وقت دو طبقوں کے مفادات گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ پیٹی بورژوا طبقہ خود کو پرولتاریہ(مزدور) اور بڑے پیمانے کی بورژوازی(بڑےسرمایہ دار) کے درمیان موجود پاتا ہے۔ یہ بڑے سرمایہ دار کے مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن مؤخر الذکر، مرتکز اور مرکزی سرمائے کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے، اسے مسلسل پرولتاریہ کی پوزیشن تک دھکیلتا رہتاہے۔ پیٹی بورژوا، موضوعی طور پر(فکری طورپر) امیر بننا، سرمایہ دارانہ معاشی طاقت کی بلندیوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تاہم، معروضی طور پر(مادی طورپر)، اس کے مفادات سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں مضمر ہوتے ہیں کیونکہ سرمایہ داری اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دیتی ہے اور اس لیے کہ صرف سوشلسٹ نظام کے تحت ہی آج کا پیٹی بورژوا شخص سماج کا ایک آزاد رکن بن پائے گا، اور اپنے مستقبل سے بے خوف ہو گا، کیونکہ سوشلزم کے تحت وہ مفید پیداواری محنت میں مصروف عمل شخص میں تبدیل ہو جائے گا۔ پیٹی بورژوازی ایک طبقے کے طور پر اس لیے ڈگمگا تی ہے۔ مارکس نے کہا کہ دو طبقوں کے مفادات اس میں “گڈٖمڈ” ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیٹی بورژوا طبقہ بڑے سرمایہ دار کی طرح مستقل طور پر رد انقلابی نہیں ہوسکتا، لیکن یہ اتنی مستقل مزاجی سے انقلابی بھی نہیں ہو سکتا جتنا کہ مزدور طبقہ ہے۔ درمیانہ طبقہ بڑے سرمایہ دار طبقے سے ڈرتا ہے لیکن وہ انقلاب سے بھی ڈرتا ہے۔درمیانے طبقے کے کچھ حصے اس انقلاب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو ان کے مستقبل کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن وہ انقلابی جدوجہد کی تیز لکیر کے سامنے سکڑ جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ طبقاتی امن چاہتے ہیں، کیونکہ درمیانے طبقے کے دل کو سماجی امن سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی ۔ تاہم، وہ محسوس کرتے ہیں کہ سماجی امن کا مطلب ان کی اپنی تباہی ہے۔ لہٰذا، جب پرولتاریہ ایک مضبوط انقلابی تحریک تیار کرتا ہے، تو بہت سے پیٹی بورژوا عناصر انقلابی کیمپ کی طرف آجاتے ہیں، بعد میں صرف اس کی “انتہاپسندی” کی مذمت کرنے کے لیے ،اور خود “انتہائی بائیں بازو” کا نقاب پہننے کے لیے۔ وہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں خرابی تلاش کر تے ہیں، لیکن وہ انقلاب اور اس کے قائدین میں بھی خامی تلاش کرتے ہیں۔ صحیح معنوں میں انقلابی نہ ہونے کی وجہ سے، وہ صرف انقلاب کی پیروی کرنے، اس کے پیچھے چلنے کے قابل ہوتے ہیں اور اس لیے خود میں اکثر بڑا غرور پیدا کر لیتے ہیں۔ وہ خود کو “واحد” اور “حقیقی” انقلابی سمجھتے ہیں۔ وہ حقیقی انقلابیوں کو “عقیدہ پرست” اور”تنگ نظر” قرار دے کر ان کی مذمت کرتے ہیں۔

انقلاب کے لیے ٹراٹسکی کا نقطہ نظر پیٹی بورژوازی، درمیانے طبقے، کا نقطہِ نظر ہے۔

یہ حقیقت ان لوگوں کو جو سماجی تحریکوں کی مارکسی تشریح سے واقف نہیں ہیں یہ جاننے سے نہیں روک سکتی کہ وہ نہ تو دکاندار ہے اور نہ ہی ایک چھوٹا کاریگرہے۔ مارکس کے بقول، یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ جو لوگ درمیانے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں وہ “تمام دکاندار، یا چھوٹے دکاندار طبقے کے پرجوش چیمپئن ہیں”۔

مارکس کہتا ہے:”ثقافتی طور پر اور انفرادی حیثیت کے لحاظ سے وہ دکاندار طبقے کے ارکان کے قطبی مخالف ہو سکتے ہیں۔ جس چیز نے انہیں درمیانے طبقے کا سیاسی نمائندہ بننے پر مجبور کیا ہے وہ یہ ہے: فکری طور پر وہ ان حدود کو عبور کرنے میں ناکام رہے ہیں جو درمیانے طبقے کے وجود کے حالات درمیانے طبقے پر مادی طور پر مسلط کرتے ہیں۔ نتیجتاً نظریاتی میدان میں وہ انہی امنگوں اور حلوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن کی طرف عملی زندگی میں درمیانے طبقے کے لوگ اپنے مادی مفادات اور سماجی حیثیت کی وجہ سے متوجہ ہوتے ہیں۔ عام طور پر، کسی طبقے کے سیاسی اور ادبی نمائندوں اور جس طبقے کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، ان کے درمیان ہمیشہ ایسا ہی تعلق ہوتا ہے۔” (کارل مارکس، لوئس بوناپارٹ کا اٹھارہویں برومائر، انگریزی ایڈیشن، صفحہ 58-59۔)

روسی انقلاب میں پیٹی بورژوازی کا کیا اثر رہا ہے؟

1908ء کے اوائل میں، لینن نے مارکسزم میں ترمیم پسندی کے رجحان کے بارے میں بات کرتے ہوئے، اس کے خطرے کو اس طرح بیان کیا:”ہر سرمایہ دار ملک میں ، پیٹی بورژوا طبقے کی وسیع پرتوں کےلوگ، یعنی چھوٹے مالکان، ہمیشہ پرولتاریہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔ یہ بالکل فطری بات ہے کہ پیٹی بورژوا دنیا کا تصور مزدوروں کی وسیع پارٹیوں کی صفوں میں بار بار درآئے۔ یہ بالکل فطری ہے کہ ایسا ہو، اور پرولتاری انقلاب کے نشیب و فراز تک ہمیشہ ہی ایسا ہوتا رہے گا ، کیونکہ یہ سوچنا ایک گہری غلطی ہو گی کہ مزدور انقلاب کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے آبادی کی اکثریت کا”مکمل” مزدور بن جانا ضروری ہے۔ جس چیزکا تجربہ ہم اب تک صرف نظریات کے دائرے میں ہی کر رہے ہیں وہ یہ ہے: مارکس کی نظریاتی ترامیم کے خلاف دلائل، جو کہ اب عملی طور پر صرف مزدور تحریک کے الگ الگ مخصوص سوالات کے حوالے سے درآئے ہیں، جیسا کہ ترمیم پسندوں کے ساتھ حکمت عملی کے اختلافات اور اس بنیاد پر ان سے علیحدگی ، -اس کانہایت وسیع پیمانے پر پورے محنت کش طبقے کو اس وقت تجربہ کرنا پڑے گا جب مزدور انقلاب تمام متنازعہ سوالات کو تیز کر دے گا، تمام اختلاف رائے کو ان نکات پر مرکوز کر دے گا جن کا سب سے زیادہ براہ راست اثر عوام کے طرز عمل کی وضاحت پر ، طاقت پر، جدوجہد کی گرمی پر، دشمنوں کو دوستوں سے الگ کرنےپر، برے اتحادیوں کو باہر پھینکنے پر ہے تاکہ دشمن کو فیصلہ کن ضربوں سے ٹھکانے لگایا جا سکے۔”( لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 12، روسی ایڈیشن، ص 189)

ایک باصلاحیت شخص کی واضح نظر کے ساتھ، لینن نے پیٹی بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والے اپنے “برے اتحادیوں” کے ساتھ مزدور انقلاب کی آنے والی جدوجہد کی پیش گوئی کی۔

ایسے برے اتحادیوں کا کیا کردار ہوتاہے؟ بیس سال بعد اسٹالن نے اس کی وضاحت ایسے کی:”چونکہ پرولتاریہ خلاء میں نہیں رہتا، بلکہ حقیقی اور اصلی زندگی میں اپنے تمام تر تنوع کے ساتھ رہتا ہے، اس لیے سرمایہ دار عناصر جو چھوٹی پیداوار کی بنیاد پر دوبارہ جنم لیتے ہیں، وہ مزدور طبقے کو ہر طرف سے پیٹی بورژوا عنصر کے زریعےگھیرے میں لے لیتے ہیں ، اسے مزدور طبقے میں پھیلا دیتے ہیں ،اس کے ذریعے اس کا حوصلہ پست کرتے ہیں، پرولتاریہ کے اندرمستقل طور پر درمیانے طبقے کی بدکرداری کو ،انتشار کو، انفرادیت پسندی کو، جوش سے اداسی کی طرف منتقلی کی تکرار کو، مسلسل پیدا کرتے رہتے ہیں (لینن، جلد28، صفحہ 190) اور اس طرح پرولتاریہ اور اس کی پارٹی میں کچھ خلفشار، کچھ تزلزل شامل کردیتے ہیں۔۔۔ہماری پارٹی کی صفوں میں لینن کی لائن سے ہر قسم کےتزلزل اور انحراف کی جڑ اور بنیاد ی یہی ہے۔” (جوزف اسٹالن، لیننزم کے مسائل، دسواں روسی ایڈیشن، صفحہ 234۔)

مزید خصوصیت کے ساتھ، اسٹالن نے اپنی تصنیف ” لینن ازم کی بنیادیں” میں اس کی وضاحت کی ہے۔”یہ تمام پیٹی بورژوا گروہ کسی نہ کسی طرح پارٹی میں گھس جاتے ہیں اور اس میں ہچکچاہٹ اور موقع پرستی کا عنصر متعارف کراتے ہیں۔ ٹوٹ پھوٹ اور خود اعتمادی کی کمی، دھڑے بندی اور پھوٹ، بے ترتیبی اور پارٹی کو اندر سے کمزور کرنا بنیادی طور پر ان کی وجہ سے ہے۔ ایسے ‘اتحادیوں’ کے ساتھ اپنے عقب میں سامراج سے لڑنا اتنا ہی برا ہے جتنا آگے اور پیچھے سے آنے والی دو آگوں کے درمیان لڑنا۔ لہٰذا، ایسے عناصر سے لڑنے میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، اور ان کی پارٹی سے مسلسل بے دخلی سامراج کے خلاف کامیاب جدوجہد کے لیے ایک شرط ہے۔” (جوزف اسٹالن، لیننزم کی بنیادیں، انگریزی ایڈیشن، صفحہ 121۔)

پرولتاریہ اور کمیونسٹ پارٹی کے بعض عناصر پر پیٹی بورژوازی کے اثر و رسوخ کی نمائندگی کرنے والے رجحان کی حیثیت سے ٹراٹسکی ازم کی تفہیم کا اظہار سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کی قراردادوں میں باربار کیا گیا۔ اسی طرح تیرہویں کانگریس (1924ء) نے اعلان کیا:”موجودہ ‘حزبِ اختلاف (اپوزیشن)کےا فراد میں ہمیں نہ صرف بالشویزم میں ترمیم پسندی کی کوشش کا سامنا ہے، نہ صرف براہ راست لینن ازم سے ہٹنا، بلکہ ایک واضح طور پر بیان کردہ پیٹی بورژوا انحراف کا بھی سامنا ہے۔ اس میں ذرا سا بھی شک نہیں ہے کہ یہ “مخالفت ” پرولتاریہ کی پارٹی کے مؤقفوں اور اس کی پالیسیوں پر پیٹی بورژوازی کے دباؤ کو معروضی طور پر ظاہر کرتی ہے۔”

1927ء میں ایک بار پھر، پندرہویں کانگریس میں، سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی نے اس طرح ٹراٹسکی-زینوویف-کامینیف کی مخالفت کو نمایاں کیا:”سوویت یونین میں سوشلزم کی کامیابی سے تعمیر کے امکان سے انکار اور اس کے نتیجے میں ہمارے انقلاب کے سوشلسٹ کردار سے انکار؛ ریاستی صنعت کے سوشلسٹ کردار سے انکار؛ پرولتاریہ آمریت کے حالات میں گاؤں میں ترقی کی سوشلسٹ راہوں سے انکار اور سوشلسٹ تعمیر کی بنیاد پر بنیادی کسان عوام کے ساتھ پرولتاریہ کے اتحاد کی پالیسی سے انکار؛ آخر کار،سوویت یونین میں پرولتاریہ آمریت کا حقیقی انکار (‘تھرمیڈور’) اور اس کے ساتھ جڑے ہوا سرنگوئی اور شکست خوردگی کا رویہ، اس تمام نظریاتی رجحان نے ٹراٹسکی کی جانب سے کی جانے والی مخالفت کو سوویت یونین کے اندر پیٹی بورژوا جمہوریت کے ایک آلے میں تبدیل کر دیا ہے اور اپنی سرحدوں سے باہر بین الاقوامی سوشل ڈیموکریسی کے ایک معاون دستے میں۔”

ایک فرد کے طور پر ٹراٹسکی صرف ایک مخصوص سماجی طبقے کا نمائندہ ہے۔ وہ ایک پیٹی بورژوا دانشور ہے۔ اس نے انقلاب اور کمیونسٹ پارٹی کی مخالفت سے شروعات کی تھی، اور اس نے رد انقلاب کی سربراہی کے ساتھ اختتام کیا۔ اپنی پیٹی بورژوا فطرت کے عین مطابق، وہ محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک کی طرف متوجہ ہوا لیکن اس نے انقلاب کو کامیاب انجام تک پہنچانے کے لیے انقلابی قوتوں کی صلاحیت پر کبھی یقین نہیں کیا اور اس نے مزدور طبقے کی پارٹی کے جوہر سے ہمیشہ نفرت کی۔ وہ کارکنوں کی تنظیم کو بنانے اور اسے مکمل کرنے کی روز مرہ کی تھکا دینے والی سرگرمیوں سے نفرت کرتا ہے۔ وہ اس وقت نظم و ضبط سے (ڈسپلن سے) نفرت کرتا ہے جب وہ اس پر لاگو کیا جائے۔ لیکن وہ نظم و ضبط کو پسند کرتا ہے جب وہ اسے دوسروں پر لاگو کرتا ہے۔ جب وہ جنگی وزیر تھا تو اپنے ماتحتوں سے سفاکی سے پیش آتا تھا۔ جب بالشویک پارٹی میں اسے ہزار کے مقابلے میں ایک ووٹ سے شکست ہوئی تو اس نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

اپنی زندگی کے سب سے انقلابی دور میں وہ ہمیشہ بدگمانیوں سے بھرارہا۔ انقلاب کو جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوا، وہ گھبراہٹ کا شکار ہوگیا۔ جب صبر اور برداشت کی ضرورت تھی تو اس نے کڑی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جب عارضی پسپائی ضروری تھی، اس نے بے ہودہ بہادری کی وکالت کی جو انقلاب کو بربادکردیتی ۔ جب انقلاب ایک نئی پیش قدمی کے لیے زور پکڑ رہا تھا، اس نے انقلاب کی “تباہی” پر افسوس کا اظہار کیا۔ جب کوئی نئی فتح حاصل ہوئی تو اس نے اسے شکست قرار دیا۔

اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور خود پر تنقید کرنے سے انکار کر کے اس نے صرف اپنے طبقے کا اظہار کیا۔

جب وہ (بالشویک پارٹی کا) محض ایک مخالف تھا تب جس چیز نے اس کی مخالفت کو نمایاں کیا وہ انقلاب کی متحرک قوتوں کوسمجھنے میں کمی اور مسائل کے حل کے لیے خالص عقلی نقطہ نظر تھا، ایسا نقطہ نظر جس کا زندگی کی حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اب جب کہ وہ ردِ انقلاب کے ہراول دستے کی قیادت کر رہا ہے، تو جو چیز اس کی خاصیت ہے وہ انقلاب، سوویت یونین، سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی، پوری دنیا میں کمیونسٹ تحریک کو نقصان پہنچانے کے طریقوں اور زرائع کی اس کی دانستہ ایجاد ہے۔ یہ اس کا واحد مقصد بن گیا ہے، اس کے وجود کی واحد وجہ۔

اس نے زندگی میں ایک بار خواب دیکھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بالشویک پارٹی میں لینن کی جگہ لے سکتا ہے۔ لینن کی پارٹی کی قیادت کوئی ایسا شخص نہیں کر سکتا تھا جو کبھی بالشویک نہیں تھا اور ہمیشہ لینن سے لڑتا تھا۔ لیکن وہ اس واضح حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہا۔ کیونکہ اس نے ڈرامائی انداز میں اپنے تئیں یہ مان لیا تھا کہ وہ انقلاب کی محرک قوت ہے اور اس وجہ سے اس نے اپنے لیے کوئی چھوٹا عہدہ لینا مناسب نہیں سمجھا ۔ کیونکہ وہ ایک پیٹی بورژوا دانشور تھا اس لیے وہ پارٹی کے مفادات کو اپنے ذاتی عزائم سے بالاتر نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس لیے اس نے ڈرامائی طور پر خود کو ایسے شخص میں ڈھال لیا جو اپنے خیالات پر اڑا رہتا ہے ۔ اس مقام سے گر کر وہ اس گھناؤنے نالے کی طرف کھسک گیا جس میں وہ آج خود کو پاتا ہے۔

اس کے پچھلے دس سالوں کی تاریخ مسلسل تنزلی کی تاریخ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے پولیٹیکل بیورو کے ممبر سے لے کر کمیونسٹ پارٹی کے اندر اپوزیشن تک، کمیونسٹ پارٹی سے نکالے جانے تک، سوویت یونین سے نکالے گئے دشمن تک، عالمی بورژوازی کو سوویت یونین کے بارے میں جھوٹ کی فراہمی تک، ایک ایسے شخص تک جو کمیونسٹ پارٹی اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے خلاف انتشار پھیلانے والی قوتوں کو منظم کرتا ہے، جو انقلاب کے قائدین کے قتل کی سازشوں کا محرک بنتا ہے- جس کا مقصد انقلاب کے بالکل دل پر حملہ کرنا ہے۔

بے شک کوئی آدمی اتنا گرا ہوا نہیں ہے۔

اس نے پہلے بھی ایک خواب دیکھا تھا۔ اس کا اب بھی ایک خواب ہے:سوویت یونین کو تباہ ہوتے دیکھنا، بالشویک پارٹی کو تباہ ہوتے دیکھنا، بالشویزم کے لیڈروں کو قتل ہوتے دیکھنا، عالمی کمیونسٹ تحریک کو کچلتے دیکھنا، کمیونسٹ انٹرنیشنل کو زمین سے مٹتا دیکھنا۔ اس کا دل کتنا خوش ہو گا! وہ اپنے اس خیال پر کتنا مسرور ہوتا ہوگاا! بے شک، وہ یہ بات کھل کر نہیں کہتا۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کے سامنے بے نقاب نہیں کر سکتا۔ بنیاد پرست فقروں کے زریعے ردِ انقلاب کے لیے لوگوں کوبھرتی کرنا اس کا ملعون کام ہے۔ وہ ایک ماہر جعل ساز فقرہ باز ہے ۔ لیکن یہ سارے اعمال وہ اپنے خواب کو سچ کرنے کی خاطر کرتاہے۔

اس کام میں وہ میتھیو ول اور رینڈولف ہرسٹ، ابرامووچ اور ہیملٹن فش کا مجاہد بھائی ہے۔

حوالہ: ایم۔ جے۔ آلگن، “ٹراٹسکی ازم:پوشیدہ ردِ انقلاب”، باب “ٹراٹسکی ازم کی سماجی بنیاد”، ورکرز لائبریری پبلشرز، نیویارک، 1935ء۔

Leave a Comment