سوویت یونین اوردیگر سوشلسٹ ملکوں میں کسان آبادی کا تعاون حاصل کرنے کے لیے اس طرزکی ترغیبات سے استفادہ کیا گیاتھا۔سوویت یونین کاشتکاروں کو بڑے پیمانے پرکھیتی باڑی اورجدید مشینی طورطریقے اختیارکرنے کے فوائد سے آگاہ کرنے کے لیے زراعت میں ریاستی مہم جوئیوں(ریاستی کھیتوں) اورمشینوں اورٹریکٹروں وغیرہ کے مراکز قائم کیے گئے تھے۔کسانوں کو دی جانے والی ریاستی امدادکے باعث بھی کسان انفرادی کھیتی باڑی سے مشترکہ کھیتی باڑی کی جانب راغب ہوئے۔
سینکڑوں چھوٹے چھوٹے کھیتوں کی جگہ ایک بڑے مشترکہ کھیت(کولخوز) نے لے لی۔جوں جوں بڑے چھوٹے پیمانے پرکام کرنے والوں نے اکٹھا کام کرنا سیکھا، ان کی نظری انفرادیت پسندی نےبتدریج اجتماعی فکر کے لیے جگہ چھوڑ دی۔ایسے بڑے کھیتوں پربہتر تعلیمی نظام اوربہتر رہائشی حالات بھی قائم ہو سکتے تھےاورمعیاری زندگی میں بھی اضافہ ہوا۔ ان تمام باتوں کے مجموعی اثر نے اجتماعیت کے عمل کو مہمیز دی۔
اندراجات بالاسے پتہ چلتا ہے کہ زرائع پیداوار پراجتماعی ملکیت کے قیام کا عمل پیچیدہ ہونے کے علاوہ ایک تاریخی عمل ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب اشتراکی ریاست تمام محنت کش عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک قانون سازاقدام کے تحت تمام پیداوار کو قومیا کرانہیں محنت کش عوام کو منتقل کردیتی ہے۔اشتراکی انقلاب کی فتح کے سیاق میں یہ کام ازحد سادہ اورآسان ہوجاتا ہے۔تاہم صرف قانون سازی معاشی سطح پر ذرائع پیداوار کوتمام عوام کی تحویل میں نہیں دے دیتی۔
ذرائع پیداوار کو واقعی اجتماعی ملکیت میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ پیداوار میں عملا اجتماعیت سرایت کی جائے۔باالفاظ دیگر ضروری ہے کہ لوگوں کے درمیان ذرائع پیداوارسے وابستہ پیداواری رشتوں کے ایک نئے نظام کی تعمیر کی جائے۔ایسے نظام کی پہلی ترجیح تو یہی ہو گی کہ اس میں پیداوارکاہدف معاشرے کے تمام اراکین کی ضروریات کی تسکین ہواوریہ نظام پیداوار کو متوازن طریقے سے جاری رکھنے کا تیقن کرے۔”ہرشخص سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لینے اورہرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق دینے” کے اصول پر تقسیم پیداوار کے اشتراکی نظام کو قائم کرے، پیداوارکی تنظیم کے عمل میں عوام الناس کا اشتراک حاصل کرے، اورمزدوروں اورکسانوں میں سے ایسے اختصاصی ماہرین کی تربیت کرے جو بڑے پیمانے پرپیداوارکا انتظام وانصرام کرسکیں،معاشرے کے ہرتندرست و توانا شخص کو روزگار فراہم کرے، اورسرمایہ داری سے ورثے میں ملنے والی بیروزگاری کو مٹائے، وغیرہ وغیرہ۔
باالفاظ دیگر اجتماعی ملکیت کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ اشتراکی پیداواری رشتوں کے ایک نئے نظام کی تعمیر کی جائے۔انتہائی پیچیدہ کام میں مزید دقتیں اس لیے پیداہوجاتی ہیں کہ محنت کش طبقہ اوراس کی ہراول کمیونسٹ پارٹی ان کاموں کو کسی تاریخی تجربے کے بغیر پہلی دفعہ سلجھا رہی ہوتی ہے۔یہ کام سرمایہ داریت سے کمیونزم کی جانب پیش رفت کے عبوری وقفے اورکمیونسٹ معاشرے کے ابتدائی مراحل میں کیے جاتے ہیں۔
اجتماعی ملکیت کا قیام و استحکام انسانی شعور اور ان کی اجتماعی ذہنیت میں انقلاب کا تقاضا بھی کرتا ہے، تاکہ وہ اجتماعی ملکیت کو اپنی سب کی ملکیت سمجھیں۔چونکہ اس کام کا مطلب یہ ہے کہ انسانی شعور نئے سانچوں میں ڈھلے اس لیے ذہنی تبدیلی کا یہ کام عملا اجتماعی ملکیت کے قیام سے کہیں ذیادہ تاخیر طلب ہوتا ہے۔ اس کام کی تکمیل اورنجام دہی تک کچھ لوگ اپنی ذاتی ملکیت کی نسبت اجتماعی ملکیت کی جانب ذرا مختلف رویہ رکھتے ہیں۔ ان ذہنی روشوں کا عملی اظہار کئی باتوں سے ہوتا ہے۔مثلا، اجتماعی ملکیت کے استعمال میں تساہلی اورسست کاری، اس کی خبرگیری اورافزونی میں کوتاہیاں، اوریہ روش کہ معاشرہ اوردیگرلوگ تو بھاڑ میں جائیں بس اپنا بھلا ہو، وغیرہ ، وغیرہ، اجتماعی ملکیت کے بارے میں شعوری پسماندگی کا ہی نتیجہ ہیں۔ان منفی مظاہر کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ اول تو معاشی کل پرزوں کا ایک ایسا تانا بانا تعمیر کیا جائےجس میں سوشلسٹ معاشرے کے ہر فرد کی مادی بہبود کا انحصار کلیتا اس بات پر ہوکہ وہ تمام لوگوں کی تحویل میکں ذرائع پیداوار کے استعمال میں کس قدر استعداد اورکفایت شعارانہ سلیفے کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اجتماعی ملکیت کی خبرگیری اورحفاظت اوراس کی بڑھوتری کے لیے کتنا مستعد و زیرک ہے۔دوئم، محنت کش عوام میں نظریاتی و تعلیمی کام کر تیز کرنا چاہیے۔
بلاشبہ سوویت روس کو دنیا کے پہلےسوشلسٹ معاشرے کے قیام میں بڑی دقتیں ہوئیں۔ ایک جانب وہ سابقہ جاگیرداروں اورسرمایہ داروں پر مبنی ان اندرونی دشمنوں کی جنونی مزاحمتوں پرغلبہ پانے کے لیے لڑرہا تھاجنہوں نے اپنے پرانے نظام بست وکشاد کو واپس لانے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا۔حتی کہ انہوں نےخانہ جنگی تک کی۔ دوسری جانب محنت کشوں کی پہلی ریاست کو چودہ سرمایہ دار ملکوں کی مسلح مداخلت کا سامنا بھی تھا۔ ان پر فتح حاصل کرنے کے بعد اس نئی سوویت جمہوریہ کو شدید ترین معاشی توڑ پھوڑ کا سامنا بھی تھا۔ اس ریاست کی باربارمعاشی ناکہ بندیاں بھی ہوئیں اورتخریب کاریاں بھی گی گئیں۔ 1941ء میں نازی جرمنی نےفریب کارانہ حملہ کیا جس کو سوویت یونین نے دو کروڑ آدمیوں کی جان دے کرشکست دی۔سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام میں سوویت عوام نے ان تمام کٹھن آزمائشوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا اورساتھ ساتھ انہوں نے عظیم اجتماعی تبدیلیوں اورتشکیلات نو پر عملدرآمد بھی کیا۔ انہوں نے اشتراکی صنعت قائم کی، تعاونی ذراعت کو متعارف کرایا، ثقافتی انقلاب بپا کیا اوردنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست کی تعمیر کر کےسوویت یونین کو عظیم سوشلسٹ قوت میں تبدیل کردیا۔