ادبی مسائل میں حکم دینے کی بدعت
سوشلسٹ سماج میں ادب اور آرٹ عوام کے لیے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی نوعیت بھی عوامی ہو جاتی ہے۔ آرٹ کے بہترین اور ترقی پسند مظاہر کی ہمیشہ یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس کا عوام کے ساتھ گہرا ربط ہوتا ہے، اس میں عوام کے بہت بڑے حصے کی آرزوؤں اور امیدوں کی جھلک ہوتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی نے ہمیشہ ایسے ہی لٹریچر اور آرٹ کی حمایت کی ہے جس کا عوام کے ساتھ گہرا ربط ہو۔ ساتھ ساتھ اس نے اس غلط تصور کی مخالفت کی ہے جو فنی تخلیق کو سطحی یا سوقیانہ مذاق اور رجحان کی پست سطح پر گھسیٹ لے جانا چاہتا ہے۔
فن میں عوام کے ساتھ رابطے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں بڑی سچائی اور گہرائی سے زندگی کی تصویر کو اپنی ساری پیچیدگی، تنوع اور رنگا رنگی کے ساتھ پیش کیا جائے۔ ایسی ہی فنی تخلیق سے معاشرت کو، نیز فرد کی اندرونی زندگی کو بہتر اور زیادہ گہرے طور سے سمجھنے میں ہمیں مدد ملتی ہے۔ زندگی کے حسن اور اس کی رفعت کا ہمیں احساس ہوتا ہے اور ہم میں زندگی کو اشتراکی نصب العین کے مطابق بدلنے کی خواہش ہوتی ہے۔ تخلیق کا اصلی مفہوم کسی نئی یا ایسی چیز کو دریافت کرنا ہے جو ابھی تک نا معلوم ہے۔ چاہے یہ سائنس کا کوئی نیا اصول ہو یا آرٹ کے ذریعے سے زندگی کے کسی نئے پہلو کی دریافت، یا کسی معلوم شدہ معنی یا مضمون کو نادر اسلوب کے ساتھ پیش کرنا۔
تخلیق، انسانی ذہن اور روح کا بلند ترین مظاہر ہ ہے۔ تخلیق حکم دے کر یا کسی دوسرے کی مرضی پوری کرنے کے لیے نہیں کی جا سکتی۔ تخلیق بیوروکریسی کے طور طریقے، گھٹیا سرپرستانہ برتاؤ یا فوجی قسم کی گردہ بندی برداشت نہیں کر سکتی۔ تخلیق کا سرچشمہ سماجی ضرورت ہے، جو سائنسدان یا فنکار کے اندرونی جذبے کے وفور سے بہ روئےکار آتی ہے۔ اصلی تخلیقی صلاحیت تجربے، علم، مشاہدے، حالات زندگی، ایک فرد کے عالمی نظریۂ حیات، اس کے مقاصد اور نصب العین اور ان سب کی پیچدہ نفسیاتی آمیزش سے ابھرتی ہے۔
تخلیق صلاحیت کے ابھرنے کے لیے تفتیش و تحقیق، جستجو اور تجربہ، اظہار خیال کی آزادی، تصورات اور آرا ءکا تصادم ضروری ہے۔ سائنس، آرٹ اور لٹریچر کی ترقی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف مکاتب خیال اور مختلف رجحانات موجود ہوں، مختلف طرز اور اسالیب ایک دوسرے سے مقابلہ کریں اور یہ سب جدتی مادیت کے عالمی نظریہ حیات اور سوشلسٹ حقیقت پسندی کے اصولوں کی بنا پر متحد بھی ہو۔
کمیونسٹ پارٹی یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ سائنس میں مابعد الطبیعاتی یا عینیت پرست تصورات داخل ہوں یا فنون لطیفہ اور ادب کو بلند اصولوں اور نصب العین سے مبرا کر کے زوال پرستی یا کوری ہئیت پرستی کے دلدل میں گھسیٹا جائے۔ ہماری پارٹی نے بوژروا تصورات کے مظاہر کے خلاف ہمیشہ اصولی جدوجہد کی ہے اور وہ اس جدوجہد کو جاری رکھےگی۔ ہم سائنس اور آرٹ میں گٹ بندی کے بھی مخالف ہیں۔ گٹ بندی کے سبب سے سائنس اور آرٹ کی تخلیقی صلاحیتوں کے بہ روئےکار آنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ اس کے لیے تو صحت مند باہمی مقابلہ کرنا چاہیے۔ ان معاملات میں حددرجہ صبر کی ضرورت ہے اور بےسوچے سمجھے فیصلہ صادر کر دینے کی تو بالکل اجازت نہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح عمل کرکے غلطیوں کو روکا جا سکتا ہے اور آدھی سچائی کو پوری سچائی سمجھنے کی غلط فہمی سے بچا یا جا سکتا ہے۔ ہمیں تفتیش اور تحقیق کی راہ میں رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہئیں۔ تخلیق کے بعض مرحلے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا ارتقا نا مکمل ہوتا ہے، ان پر رائے قائم کرنے سے پہلے انھیں تکمیل کا موقع دینا چاہیے۔ لینن کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ کلچر کے سوالات میں اس سے زیادہ کوئی دوسرا رویہ نقصان دہ نہیں کہ جلد بازی کر کے مطلق فیصلے صادر کر دیے جائیں۔
لینن، تحقیق کرنے والے دانش دروں کا بہت خیال رکھتا تھا اور ان کے ساتھ ہمدردی اور دوستی کا رویہ اختیار کرتا تھا۔ لونا چار سکی نے ہمیں بتایا کہ لینن کہتا تھا کہ عام جلسے اور مظاہرے دانشوروں سے گفتگو کے لیے مناسب مقام نہیں ہیں۔ دانشوروں کے کام کی نوعیت اور ماہئیت کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہمیں ان کی مدد کرنا چاہیے کہ وہ صحیح رویہ اختیار کریں۔ خطابت کے ذریعے سے نہیں بلکہ ہمدردانہ اور رفیقانہ تنقید اور سنجیدہ دلیل دے کر ہمیں دانش وروں کو قائل کرنا چاہیے۔
من مانے فیصلوں اور ذاتی پسند کو فنی تخلیق کا معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ کبھی کبھی یہ بات پارٹی کے نام پر کی جاتی ہے۔ لیکن یہ طریقہ پارٹی کی پالیسی کے سراسر خلاف ہے۔ 1925 ءمیں ہماری پارٹی نے لٹریچر کے متعلق ایک تجویز منظور کی تھی، جس میں کہا گیا تھا،:”کمیونسٹ تنقید کو ادب کے معاملات میں حکم دینے کی عادت بالکل ترک دینا چاہیے۔ تنقید صرف اسی صورت میں کارگر ہو سکتی ہے اور اس سے سیکھا جا سکتا ہے، جب اس کی بنیاد نظر یاتی بہتری پر ہو۔ مارکسی تنقید کے میدان سے ہر قسم کی مصنوعی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنے کا رجحان اور نیم پختہ و نیم تعلیم یافتہ، خود پسند انہ تکبر کے اظہار کی سختی سے بیخ کنی کرنا چاہیے۔ کمیونسٹ کبھی کبھی ایسی حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔ پارٹی کو ہر طریقے سے کوشش کرنا چاہیے کہ وہ ادبی معاملات پر نالائقی پر مبنی انتظامی مداخلت کو قطعی طور پر ختم کر دے۔”
فنی تخلیق کے معاملے میں اب بھی ہماری پارٹی کی یہی پالیسی ہے۔ زمانہ گذرنے پر لٹریچر اور آرٹ کی تخلیقات کی اصلی قدروقیمت خود ہی ظاہر ہو جاتی ہے اور ایسے معیار قائم ہو جاتے ہیں جن میں جانب داری بالکل نہیں ہوتی اور جو سچے ہوتے ہیں، تاہم کمیونسٹ پارٹی کا فیصلہ سننے کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ سکتی اور اپنے رہ نمایانہ رول سے سبک دوش نہیں ہو سکتی۔ ہمیں ایسے عام معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے ہم تخلیق کے کاموں پر اثر انداز ہو سکیں۔ اس قسم کا معیار ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ وہ سائنسی طور سے مرتب کیا ہوا نصب العین ہے جو ہماری پارٹی کے تمام کاموں اور سوویت یونین کے تمام لوگوں کے سامنے ہے۔ یہ ہے کمیو نزم کی تعمیر کا نصب العین، جسے مختصر لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ سماج کے ہر فرد بشر کی شخصیت کا آزاد انہ اور ہمہ جہتی ارتقا۔
ہر وہ شے جو انسانی شخصیت کو ابھرنے اور گل بار ہونے میں مدد کرے، جو ذہنی افق کو وسعت دے، رفعت اور بلندی کی طرف لے جائے، جو اخلاق اور نفس کا تزکیہ کرے، جوارد گرد پھیلی ہوئی دنیا کو دیکھنے میں جمالیاتی حسن اور نیک اور بدکی تمیز اور اس سے پیدا ہونے والے رد عمل کو تیزتر کرے، مختصر یہ کہ ہر وہ شے جو انسان کی انسانیت کو فروغ دے، یہی سچے فن کی بنیاد ہے اور یہی قدروقیمت رکھتی ہے۔
سرمایہ داری نظام کے پاس اس قسم کا معیار نہیں ہو سکتا۔ اس کا بنیادی قانون ایک انسان کو دوسرے انسان کا دشمن بناتا ہے۔ سرمایہ داری مسلسل خواص کے ایسے چھوٹے چھوٹے گروہ پیدا کرتی ہے جن کے چاروں طرف حصار کھنچا ہوتا ہے، جو عوام کے مخالف ہوتے ہیں اور جو انھیں اپنا غلام بناتے ہیں۔
سوشلسٹ نظام کا عام فنی معیار یہی ہے اور اسی معیار سے ہم ادب اور آرٹ کی تمام تخلیقات کو جانچ سکتے ہیں۔ چاہے یہ تخلیقات کسی سوشلسٹ ملک میں کئی گئی ہوں یا کسی ایسے ملک میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے۔ ہم ماضی اور حال کی تمام فنی تخلیقات کو اسی معیار سے پرکھ سکتے ہیں۔ یہی ترقی پسند اور رجعت پرست نظریوں کی حد فاصل بھی ہے۔
موجودہ زمانے میں دنیا کے ہر حصے میں دو مخالف سماجی اور معاشی نظاموں (اشتراکیت اور سرمایہ داری) کی جدوجہد زندگی کے ہر شعبے میں جاری ہے۔ فکرونظر رکھنے والے ہر فرد بشر کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ ان دوراستوں میں کون سا راستہ اپنے لیے چنتا ہے۔ پرانی دنیا کی ا قدار مسلسل ٹوٹ رہی ہیں۔ نئی اشتراکی دنیا کا نظریہ نیز اس کے عملی کارنامے سرمایہ دار ملکوں کے دانش وروں کے لیے اپنے اندر ایک غیرمعمولی کشش رکھتے ہیں۔ سرمایہ داری اور اشتراکیت کے اس عالم گیر تصادم میں تمام ایمان دار اور سمجھ دار دانشور ایک ایسے نظام کی طرف کھنچتے ہیں جو ہر فرد بشر کی حقیقی، آزادانہ اور ہمہ جہت ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔ تمام غیرمتعصب دانشور جب اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو لامحالہ ان کی تخلیقات پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے اور وہ اشتراکیت کے حامی اور طرف دار ہو جاتے ہیں۔
سوویت یونین کے دانش وروں میں اب پختگی آ گئی ہے۔ سوویت عوام اور ان کی کمیونسٹ پارٹی کی پشت پنا ہی حاصل کر کے وہ مسلسل ترقی کر رہے ہیں۔ مغربی سرمایہ دار دنیا کے بعض مبلغ جو بھی کہیں یا سوچیں، سوویت یونین کے دانشوروں کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ کمیونسٹ نصب العین کے دائرے سے باہر رہ کر زندگی کا تصور بھی کریں اور کمیو نزم کی تعمیر کے عظیم کام میں سوویت عوام کے دوش بہ دوش جدوجہد نہ کریں۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں اور بائیسویں کا نگرس نے کمیونسٹ تعمیر کے جو نئے راستے کھولے ہیں، سوویت یونین کے عوامی دانشور اس پر گامزن ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی بھی ان پر پورا بھروسا رکھتی ہے۔ وہ ہر طرح سے ان کی مدد اور حمایت کرتی ہے۔ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے اپنے جون 1963ء کے اجلاس میں سوویت دانشوروں پر اپنے پورے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ سوویت سماج کی روحانی دولت میں اضافہ کرنے کے لیے وہ مسلسل کام کرتے رہیں اور اشتراکیت کے عالمی نظر یہ حیات کو سوویت عوام میں زیادہ سے زیادہ مقبول بنانے کے کام میں پارٹی کی مدد کریں۔
کمیونزم کی تعمیر کے لیے سوویت عوام کی ذہنی سطح کو مسلسل بلند کرتے رہنا لازمی ہے۔ ایک ایسے سماج کی تعمیر کا کام جو حقیقی معنوں میں انسانی ہو، سوویت کمیونسٹ پارٹی اور سوویت دانشوروں کی ذمےداریوں کو بہت بڑھا دیتا ہے۔ ہمیں اس میں ذرا بھی شبہ نہ کرنا چاہیے کہ سوویت یونین کے عوامی دانشوروں کی مساعی سے سائنس، ادب اور آرٹ کی غیرمعمولی ترقی ہوگی اور یہ ترقی سوویت عوام کے لیے ہی نہیں، ساری نوع انسانی کے لیے مفید ثابت ہوگی۔