گذشتہ ماہ اگست میں اطالوی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور عظیم مارکسی مفکر پالمیرو تولیاتی(Palmiro Togliatti) کی وفات ہوئی۔ اپنی اچانک موت سے چند دن پہلے تولیاتی نے کمیونسٹ تحریک کے مسائل حاضرہ پر ایک یاد داشت تیار کی تھی، جسے اطالیہ (اٹلی) کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے ان کی وفات کے چند روز بعد ہی شائع کر دیا۔ تو لیاتی کی یہ یادداشت (جو اکتوبر 1964ء کے نیو ایج ماہ نامے میں پوری شایع ہوئی ہے) نہایت اہم اور فکر انگیز دستاویز ہے۔ اس میں تولیاتی نے جہاں بہت سے سیاسی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، وہاں کلچرل مسائل کے متعلق بھی کچھ باتیں کہی ہیں۔ تو لیاتی نے لکھا ہے:
“آج کلچر کی دنیا میں (ادب، آرٹ، سائنسی ریسرچ وغیرہ) کمیونسٹ اثر و نفوذ کے لیے دروازے پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ سرمایہ دار دنیا میں دراصل ایسی صورتیں پیدا ہو رہی ہیں، جن سے ذہنی زندگی کی آزادی کے تباہ وبرباد ہو جانے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں ذہنی زندگی کی آزادی، آرٹ کی آزاد اور بے روک تخلیق اور سائنسی ترقی کا حمایتی اور طرف دار بننا چاہیے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے تصورات کو دوسرے مختلف نوعیت کے رجحانات کی ضد بنا کر پیش نہ کریں۔ ہمیں بلکہ یہ چاہیے کہ ہم ان رجحانات کے ماننے والوں سے بحث کا آغاز کریں۔ وہ سب لوگ جو کلچر کے مختلف میدانوں (فلسفہ، تاریخ یا سوشل سائنس) میں آج ہم سے دور ہیں، ہمارے دشمن یا ہمارے دشمنوں کے ایجنٹ نہیں ہیں۔
ایک دوسرے کے نقطہِ نظر کا شعور، جو مسلسل بحث کا ذریعہ ہو سکتا ہے، خود ہمارے اپنے تصورات کو اثر اور وقار دے سکتا ہے اور یوں ہی ہم ان لوگوں کے چہرے سے بھی نقاب ہٹا سکتے ہیں جو دراصل ہمارے دشمن ہیں، جن کی فکر غلط ہے یا جو آرٹ کے اظہار میں محض دھوکے باز ہیں۔ اس میدان میں ہم کو ان ملکوں سے بہت مدد ملنا چاہیے تھی جہاں پر معاشرتی زندگی کی باگ ہمارے ہاتھوں میں آ گئی ہے لیکن اس قسم کی مدد ہم کو ہمیشہ نہیں ملی ہے۔”
تولیاتی نے اپنے بیان میں سب سے پہلے تو مار کسی نظر یے پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور یہ رائے ظاہر کی ہے کہ سرمایہ داروں کی دنیا میں کلچر کی آزادانہ ترقی کے امکانات رفتہ رفتہ تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات غالباً یہ ہے کہ سرمایہ دار انہ نظام، سامراجی شکل اختیار کرنے کے بعد دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکتا ہے۔ اگر تیسری عالمی جنگ روکی نہ جا سکی تو نوع انسانی کی تقریباً مکمل بربادی اور تہذیب و تمدن کی تباہی کا خطرہ درپیش ہے۔ اس کے علاوہ اسلحہ سازی کی دوڑ سے قوموں کے مادّی و سائل کا بہت بڑا حصہ جنگی تیاریوں پر خرچ ہوتا ہے۔ وہ روپیہ جو انسانی فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف ہونا چاہیے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیاں جو انسان کی بھلائی کے لیے ہو نی چاہئیں، انسان کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سامراجی نظام قوموں کو غلام بناتا ہے اور ان کی آزادی کو سلب کرتا ہے، حالانکہ ایشیا اور افریقہ کے بیشتر ملکوں نے سامراجی جوے کو اتار پھینکا ہے، پھر بھی جب تک سامراج اور سرمایہ داری باقی ہے وہ مسلسل دنیا کی مختلف اقوام کو اپنے حلقۂ اثر، جنگی بلاکوں، اپنی معاشی محکومی میں لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ وہ ساری دنیا میں سرد جنگ کی فضا پھیلاتا ہے جس میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آزادی، جمہوریت اور سوشلزم کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، قوموں کے مابین نفرت پھیلائی جاتی ہے اور ایک مستقل تناؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
ان تمام حالات کے نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ سرمایہ دار نظام براہ راست یا بالواسطہ اس کی کوشش کرتا ہے کہ انسان دوستی، امن اور محبت کے بلند تصورات کی جگہ انسان کشی، خود غرضی اور انفرادیت پرستی کے تصورات لوگوں میں پیدا ہوں۔ ادیبوں، آرٹسٹوں، فنکاروں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پوری طرح اور آزادی کے ساتھ بہ روئے کا رلانے کا موقع نہیں ملتا۔ وہ سرمایہ دارانہ ریاست یا بڑے بڑے سرمایہ داروں کے محتاج بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ مسلسل معاشی تنگی کا شکار ہوتے ہیں۔
سوشلزم دنیا کے سامنے ان تمام مشکلات، مصائب اور خطرات سے نجات کا راستہ دکھاتی ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ ایک اشتراکی ادیب یا آرٹسٹ انسانی آزادی اور مساوات، اخوت اور محبت کا طرف دار ہوتا ہے۔ وہ دنیا میں امن چاہتا ہے، وہ ہر قوم اور ہر فرد کی آزادی کا طلب گار ہوتا ہے اور عوام کی ہر ایسی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیتا ہے جو انسانیت کے احترام، انسانیت کے جائز حقوق اور انصاف اور سچائی کے لیے جاری کی جائے۔
تولیاتی کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آرٹ اور ادب کے میدان میں، جہاں تخلیقی تجربے کیے جاتے ہیں، کمیونسٹوں کو عام طور پر اور کمیونسٹ فنکاروں کو خاص طور پر تخلیقی آزادی کا علم بردار ہونا چاہیے۔ ایسے آرٹسٹ اور فنکار، ادیب اور شاعرجو نظریاتی اعتبار سے اپنے فلسفیانہ نقطۂ نظر میں یا اپنے ہیئتی تجربوں میں ان سے مختلف بھی ہیں، انھیں اپنا مخالف یا دشمن نہیں سمجھ لینا چاہیے۔
آرٹ اور فن کسی ایک گروہ کی اجارہ داری نہیں ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کوئی شخص نظریاتی اعتبار سے صحیح ہو لیکن وہ اچھا فنکار نہ ہو۔ ایک اچھا فن کار ہونے کے لیے جدت، تنوع، زندگی کے مختلف اور رنگارنگ پہلوؤں کو نئی طرح سے دیکھنے کی صلاحیت، مزاج میں نفاست، احساس حسن وغیرہ بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے۔ حسن سخت کوشش وکاوش، گہری اور باریک بیں نظر، جوش، صداقت اور خلوص کے امتزاج سے ہی وجود میں آتا ہے۔
تولیاتی نے تنگ نظری، یعنی اپنے کو ہی صحیح سمجھنا اور دوسروں کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، کی مخالفت کی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کمیونسٹ آرٹ اور ادب کے مسائل پر سنجیدہ بحثوں کا آغاز کریں، کٹھ ملّاؤں کی طرح فتاویٰ صادرنہ کریں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ کمیونسٹوں نے اور کمیونسٹ ریاستوں نے بعض موقعوں پر (مثلاً سوویت یونین میں استالن کے عہد میں(1)) اس غلط فہمی میں مبتلا ہوکر کہ فنکاروں کو ایک خاص سیاسی نقطۂ نظر کی ترویج کرنا چاہیے (یہ نقطۂ نظر چاہے صحیح ہی کیوں نہ ہو) فنکاروں کی آزادی تخلیق پر پابندیاں عائد کیں۔
اس کے سبب سے نہ صرف خود ان کا فن مجروح ہوا بلکہ وہ فن کا ر بھی جو ان کے ساتھ آ سکتے تھے، ان سے دور چلے گئے۔ ضرورت اس کی ہے کہ فن کار سچائی اور خلوص کا دامن کسی حالت میں بھی نہ چھوڑیں اور فن میں انہی خیالات، خدمات اور احساسات کا اظہار کریں، جنھیں وہ اپنی روح کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہوں۔
حواشی:
1۔ سوویت یونین میں ادب و آرٹ پر سیاسی اجارہ داری کے حوالے سے اسٹالن کے عہد کے بارے میں سجاد ظہیر کے اس بیان کو اس وقت کے تاریخی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس دور میں سوویت یونین میں ادب و آرٹ پر ٹراٹسکائی رجحان کے حامل افراد کا غلبہ تھا جنہوں نے بوگدانوف کے ثقافتی نظریے کی مطابقت میں “پرولتاری کلچر” کی پالیسی کے تحت سوویت یونین کے ادیبوں اورفنکاروں پرادبی آمریت مسلط کرنے کی کوشش کی۔ لینن نے بوگدانوف کے ثقافتی نظریے کو مسترد کیا تھا۔ اسٹالن نے لینن کےخیالات کی مطابقت میں سوویت آرٹ کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ سوویت آرٹ کو اپنے جوہر میں سوشلسٹ اوراپنی شکل میں قومی ہونا چاہیے۔ تاہم سوویت کمیونسٹ پارٹی نے اسے مسترد کردیا تھا۔ اس حوالے سےبرطانوی سوشلسٹ محقق ، بل بلانڈ، کے مضامین اہمیت کے حامل ہیں جو سوویت یونین میں ادب اورآرٹ پر اجارہ داری کے حوالے سے اسٹالن کو موردِ الزام ٹہرانے کے عمومی تاثر کو تاریخی شواہد و تحقیق سے غلط ثابت کرتے ہیں۔