امریکی لیبر پارٹی
مترجم: فہد جتوئی
1۔تعارف
امریکن لیبر پارٹی خصوصا مارکس ازم -لینن ازم- ٹراٹسکی ازم کو مزدور طبقے کی تحریک کا ایک سازشی اور جعلی اشتراکی(سوشلسٹ) نظریہ سمجھتی ہے۔ اس کا مقصد سوشلزم کی جدوجہد کو بگاڑنا اور کمزور کرنا ہے۔ اس تصنیف کو لکھنے کا مقصد لیون ٹراٹسکی اور اس کے مقلدین کی ردانقلابی فطرت کے ساتھ ساتھ ان کی انتہاپسند اور خالص انقلابی لفاظی کا پردہ فاش کرنا ہے ۔ مارکس ازم اور ٹراٹسکی ازم ناقابل مصالحت طور پرایک دوسرے کے مخالف نظریے ہیں۔
جو لوگ مارکسسٹ ہونے کا دعوہ کرتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ وہ مسلسل نظریاتی جدوجہد کرتے ہوئے اس عام تاریخی غلط بیانیے کے متعلق لوگوں کی رہنمائی کریں جو کہ ٹراٹسکائیوں کی بامقصد کوششوں کے نتیجے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس تصنیف کوخود ٹراٹسکی اور اس کے موجودہ مقلدین کی غداری کی ایک جامع تاریخ ہرگز نہ سمجھا جائے۔ اس ایک تحریر میں ہم قطعی طور پر ان کے افکار و کردار کا مکمل جائزہ پیش نہیں کر سکتے۔ اس کام کے لیے ایک وسیع پیمانے کی کتاب درکار ہے۔ اس کے برعکس، ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم ٹراٹسکی اور اس کے نظریے کی سوشلزم کے ساتھ ماضی کی غداریوں کا ایک فوری اور مناسب خلاصہ بیان کریں اور اس کے کچھ اہم جز اور مثالوں کا یہاں حوالہ دیں۔ اس دستاویز کا مقصد ٹراٹسکی ازم کی سیاسی تاریخ اور اس کے مقاصد کے حوالے سے مزید کچھ معلومات فراہم کرنا ہے۔ امریکن لیبر پارٹی اپنا مقدمہ صاف وشفاف انداز سے رکھنا چاہتی ہے :”ٹراٹسکی ازم کا رجعت پسند اور محنت کش طبقے کے مخالف نظریے کے طور پر بے نقاب ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ٹراٹسکی ازم، مارکس ازم نہیں ہے اور یقینا لینن ازم تو بالکل نہیں ہے۔”
ٹراٹسکی ازم کا اصل مقصد سوشلزم کی تعمیر نہیں بلکہ اس کی تعمیر کو معدوم کرنا ہے۔ کسی ملک کے حالات چاہے جیسے بھی ہوں لیکن ٹراٹسکائیوں کے کام کرنے کا طریقہ ہر جگہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ سامراجی ریاست امریکا کے معروف ٹراٹسکائی، سی ایل آر جیمس (CLR James) نے 1941ء میں سوویت یونین کو ایک فسطائی(فاشسٹ) ریاست ٹھیک اسی وقت قرار دیا تھا جس وقت دو کروڑ ساٹھ لاکھ سوویت فوجی اور شہری دنیا کو فاشزم سے بچانے کے لیے بیرونی ملکوں میں خود کو موت کی بھینٹ چڑھا رہے تھے۔
ٹراٹسکائی سرمایادار طبقے اور فاشسٹوں کے بہترین رفیق ہیں اور اس رفاقت کی ترجمانی ایک اورمعروف ٹراٹسکائی، ٹونی کلف (Tony Cliff) کےزریعے ہوتی ہے ۔ اس نے سامراجیت کے ہاتھوں کوریامیں لاکھوں لوگوں کے قتل پر غیرجانبدار رویہ اختیارکیا اور شخمانی(1) ٹراٹسکائیوں (Shachmanite) نے ویتنام میں سامراج کے قبضے کی کھلے عام حمایت کی۔ اس کے علاوہ ٹراٹسکی ازم اپنا اظہار خود ٹراٹسکی کے زریعے اسٹالن کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی اور جرمن اور جاپانی سامراجیوں کے ساتھ تعاون کرنے یا اس کے دوست ڈیاگو رویرا (Diego Rivera) کی طرف سے میکسیکو کے “اسٹالنسٹوں” کی فہرست ریاستی حکام کے حوالے کرنے یا جارج آرویل کی جانب سے اسی طرح کی فہرست برطانوی انٹلیجنس ایجنسیوں کو فراہم کرنے کی صورت میں کرچکا ہے۔
2۔لینن اور ٹراٹسکی پر ایک مختصر وضاحت
ایک بہت مشہور کہانی یہ ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی کی آپس میں بہت رفاقت تھی اوردونوں سیاسی اور ذاتی اعتبار سے نہایت قریب تھے۔ اس خیال سے اب مغرب میں ناقابل تردید تاریخ کی حد تک عقیدت رکھی جاتی ہے۔ اس کا آغاز درحقیقت خود ٹراٹسکی کے دعووں اور تحریروں سے ہوا تھا۔ امریکا کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے منہ سے یہ بات سننا ایک عام سی بات ہے کہ لینن کا حقیقی متبادل و جانشین اسٹالن نہیں بلکہ ٹراٹسکی تھا اور یہاں تک کہ لینن اپنی وفات کے بعد ٹراٹسکی کو قیادت کا مستحق سمجھتا تھا۔ اس بیانیے کے مطابق ٹراٹسکی ازم اور لینن ازم ایک ہی نظریہ ہیں اور خود لینن کے مطابق اس کے بعد اگر کوئی ذی شعور مارکسسٹ تھا تو وہ ٹراٹسکی تھا۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ لینن خود ایک ٹراٹسکائی تھا۔ اس فرضی کہانی کے مطابق لینن اور ٹراٹسکی ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔ ان کے سیاسی خیالات کم و بیش ایک جیسے تھے اور اگر اسٹالن کی جگہ ٹراٹسکی اقتدار میں آیا ہوتا تو آج دنیا کی حالت بہتر ہوتی۔ اس بیانیے کا اختتام شیکسپیئرکی اس المناک کہانی کے مانند ہوتا ہے جس میں ایک قابل نفرت اور اوسط درجے کی شخصیت رکھنے والے ایشیائی چال باز اور جابر حاکم جوزف اسٹالن نے ٹراٹسکی کو تاریخ میں سوویت یونین کے ایک عظیم سلطان ہونے کے پیدائشی حق سے محروم کر دیا۔
جس نے لینن کی تحریروں کا تھوڑا سا بھی مطالعہ کیا ہے وہ اس کہانی کے فریب سے بخوبی واقف ہے۔ یہ تاریخی عقیدہ حقائق کو مسخ کرنے کا عمل اور ایک بے باک جھوٹ ہے۔ جیسا کہ لینن نے کہا ہے:”ہر کوئی جانتا ہے کہ ٹراٹسکی کو گونجدار اورکھوکھلی باتیں کرنے کا شوق ہے۔ ٹراٹسکی کی باتوں میں بہت شور اور چمک دمک ہوتی ہے لیکن وہ بے معنی ہوتی ہیں۔ ٹراٹسکی تاریخی واقعے کی تشریح کرنے کے لیے عالمانہ انداز سے نمائشی فقرے استعمال کرتا ہے جو کہ اسےخود اپنی تحسین و آفرین کرنے میں مدد دیتے ہیں”۔ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 20، ص 330)
حقیقت میں لینن کی تجویز سے ہی مرکزی کمیٹی نے جوزف اسٹالن کو اپریل 1922ء میں جنرل سیکرٹری منتخب کیا تھا۔ لیون ٹراٹسکی ایک منشویک (2) تھا جس نے لینن اور بالشویزم (3)کو روس میں اقتدار حاصل کرنے تک ہر قدم پر شدید نقصان پہنچایا۔ ٹراٹسکی کمیونسٹ پارٹی کا واحدرہنما تھا جس نے لینن کےجنازے میں شرکت نہیں کی۔ اسے کبھی پارٹی کے قائد کے عہدے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ ٹراٹسکی کے پروگرام کو 1924ء کی13ویں پارٹی کانگریس اور 1927 ءکی 15ویں پارٹی کانگریس میں بھاری اکثریت سے شکست مل چکی تھی۔ 15ویں کانگریس میں اس نے صرف 4 ہزار ووٹ حاصل کیے جب کہ74 ہزار ووٹ اس کی مخالفت میں تھے۔ ٹراٹسکی نے اپنے سیاسی پروگرام کی ناکامی کے بعد پارٹی میں دھڑا بندی کرنے اور مظاہروں کے ذریعے سوویت ریاست کی جڑ کاٹنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اسے کمیونسٹ پارٹی اور سوویت یونین سے نکال دیا گیا۔ پارٹی کے اکثریتی ووٹ سے جلاوطن ہونے کے بعد اس نے پارٹی کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی اور خود کو اقتدار میں لانے کے لیے سوویت یونین میں نئے انقلاب کا مطالبہ کیا۔ وہ مغرب کی طرف فرار ہوگیا جہاں اس نے بشمول ایف بی آئی(FBI) اور گسٹاپو(Gestapo) جیسی مغربی سامراجی قوتوں کا 1941ءتک ساتھ دیا جب تک کہ اس کے شاگرد رامون مرکیدورنے اس کی دھوکہ بازی سے تنگ آکر اسے قتل نہیں کردیا۔
لینن نے ٹراٹسکی کی موقع پرستی کو پہچان لیا تھااور اس کےکردار اور اس کے نظریات، بشمول انقلاب مسلسل کے نظریے کے بارے میں کچھ اس طرح ذکر کیا:”روس کی مارکسی تحریک کے پرانے ساتھیوں کے لیے ٹراٹسکی کے بارے میں وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ وہ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ لیکن نئی نسل کے مزدور اس سے واقف نہیں لہذا، انہیں اس کے بارے میں آگاہی دینا ضروری ہے۔ 1901ء سے 1903ء کے درمیان ٹراٹسکی سرگرم اسکرائی(ٰI Iskrist ((4) رہااورریازانوف ( Ryazanov) نے 1903ء کی کانگریس میں اس کو “لینن کی لاٹھی” کالقب دیا۔ 1903ء کے اختتام تک وہ کٹر منشویک بن چکا تھا یعنی اس نے اسکرا والوں کو چھوڑ کر معیشت پرستوں میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اس نے کہا “پرانے اور نئے اسکرا کے درمیان سمندر کے مخالف کناروں جتنا فرق ہے”۔ 1904ء سے 1905ء کے درمیان ایک معیشت پرست مارتینوف (Martinov) کے ساتھ مل کر اور انقلابِ مسلسل کے اپنے نا معقول نظریے کا اعلان کرتے ہوئے اس نے منشویکوں کو چھوڑ کر ایک متزلزل راستہ اختیار کرلیا۔ 1906ء سے 1907ء کے درمیان وہ پھرسے بالشویکوں سے رجوع کرنے کی کوشش کرتا رہا اور 1907ء کے آغاز میں اس نے اقرار کیا کہ وہ روزا للکسمبرگ کے ساتھ اتفاق کرتا ہے۔ ایک عرصہ تذبذب میں رہنے کے بعد 1912ء میں وہ دوبارہ دائیں بازو کی طرف گامزن ہوا اور اس نے تحلیل پسندوں( Liquidators) کے ساتھ اتحاد قائم کرلیا۔ اب اس نے ان سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی ہے حالانکہ اب بھی دراصل وہ ان کے فرسودہ خیالات کواپنے فقروں میں استعمال کرتا ہے۔(لینن، مجموعہ تصانیف، ص 7-348)۔
لینن نے یہ بھی کہا کہ :”ٹراٹسکی نے مارکسزم کے کسی بھی اہم سوال پرکبھی کوئی مستحکم رائے قائم نہیں کی۔ وہ ہمیشہ مختلف آراء کے درمیان میں سے کوئی نیا نظریہ ایجاد کرنے کے جگاڑ میں لگا رہتا ہے”۔(لینن، مجموعہ تصانیف ، جلد 20، ص9-448)
مزید:”ٹراٹسکی البتہ صرف اپنے ذاتی تذبذب کی نمائندگی کرتا ہے۔ 1903ء میں وہ ایک منشویک تھا۔ 1904ء میں اس نے منشوازم کوچھوڑ دیا۔ پھر 1905ء میں وہ دوبارہ منشویکوں کے ساتھ شریک ہوگیااور محض شدید انقلابی فقرے بازی سے اپنی نمائش کرتا رہا۔ 1906ء میں وہ پھر ان سے الگ ہوگیا۔ 1906ء کے آخر میں اس نے آئینی جمہوریت پسندوں (Cadets) کے انتخابی سمجھوتے کی حمایت کی یعنی وہ پھر منشویکوں کے ساتھ مل گیا۔ 1907ء کی شروعات میں لندن کانگریس میں اس نے کہا کہ وہ روزا لکسمبرگ سے سیاسی اختلاف نہیں بلکہ ذاتی بنیادوں پر اختلاف رکھتا ہے۔ وہ ایک دن ایک اور دوسرے دن دوسرے دھڑے کے نظریاتی وسائل کی نقل کرتا ہے۔ نتیجتا وہ خود کو دونوں دھڑوں سے مقدس قرار دیتا ہے۔”(لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 16، ص391)
ٹراٹسکی ازم ،کمیونزم(اشتراکیت) کی تمثیل نہیں ہے بلکہ پیٹی بورژوازمثالیت پسندی، مغرب نوازی اور شدید موقع پرستی کی ایک مثال ہے جو درحقیقت کمیونزم کے خلاف ہے ۔ ٹراٹسکی نے اکتوبر انقلاب کی ابتدا ہی سے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ مارکسسٹ نہیں ہے: “مجھے بالشویک نہ بولا جائے اور نہ ہی ہم سے بالشویزم کو قبول کرنے کی شرط رکھی جائے۔”(ٹراٹسکی، میزرایونتسی کانفرنس)
لینن خود ٹراٹسکی کو بالشویک نہیں سمجھتا تھا۔ لینن نے اس بارے میں کہا : “ٹراٹسکی بالشویزم کو مسخ کرتا ہے کیونکہ ٹراٹسکی نے کبھی بھی روسی سرمایہ دارانہ انقلاب میں پرولتاریہ کے کردار کے بارے میں کوئی واضح نقطہ نظر پیش نہیں کیا۔ اس سے زیادہ بدتر اسکی روسی سرمایہ دارانہ انقلاب کی تاریخ کی تحریف ہے۔ “(لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 16، ص 381)
لینن نے ٹراٹسکی کے بارے میں اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کھلی جدوجہد اور غیرخوشامدانہ القاب کے زریعے کیا جیسے کہ “غدار ٹراٹسکی”:” یہ ٹراٹسکی کس قدر سؤر ہے۔۔۔ اس کی اصلیت ظاہر کرنا ضروری ہے چاہے وہ ایک مختصر خط میں ہی میں کیوں نہ ہو”۔(لینن، مادام کولونتائی کو خط)
“اس بدمعاش ٹراٹسکی نے آتے ہی فورا بائیں بازو کے زمروالڈ گروہ کے خلاف نووی میر (لبرل ادبی جریدہ) کے دائیں بازو کے ساتھ اتفاق کرلیا۔ صرف یہی کام ہیں ٹراٹسکی کے۔ یہ کبھی نہیں سدھرنے والا۔ یہ جتنا کر سکتا ہے اتنا بگاڑ پیدا کرے گا، فریب کاری کرے گا، خود کو بائیں بازو کا ظاہر کرکے دائیں بازو کی مدد کرے گا”۔ (لینن کا ماہوار مزدور میں اقتباس)
لینن نے یہ بھی تنقید کی کہ “ٹراٹسکی کی باتوں سے اسکی نظریاتی تفہیم کی قلت کا اظہار ہوتا ہے”(لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 16، ص 390)۔ اور کہا کہ “ٹراٹسکی حقائق اور ٹھوس حوالوں کو اس لیےنظرانداز کرتا ہے کیونکہ وہ اسکی ساری جنونی چیخ وپکار اور نمائشی باتوں کو بے رحمی سے مسترد کرتے ہیں۔”(لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 20، ص 346)۔دور حاظر کے ٹراٹسکی ازم کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس روسی انقلاب کے بانی کے الفاظ موجود ہیں۔ اپنے موجودہ مقلدوں کی طرح ٹراٹسکی مارکسزم کے مخالفین کا دوست تھا ۔
“ٹراٹسکی ان سب لوگوں کو اکھٹا کرتا ہے جو نظریاتی طور پر زوال کا شکار ہوتے ہیں ،جو مارکسزم کا دفاع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، وہ سارے نادان لوگ جو جدوجہد کے مقاصد کو سمجھنے سے قاصر ہیں ،جو نہ سیکھنے اور سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور نہ وہ مختلف آراء کی نظریاتی بنیادوں کو معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ تذبذب ،انتشار اور تزلزل کے اس وقت میں ٹراٹسکی کے لیے ایک مجاہدکے طور پر نمایاں ہونا اور متوسط درجے کے افراد کو جمع کرنا آسان ہے۔ یہ قصد جتنا زیادہ برملا طور پر کیا جائے گا، شکست اتنی ہی شاندار ہوگی”۔(لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 17، ص 22)۔
لینن ازم کے حوالے سے ٹراٹسکی کے اپنے خیالات بھی بالکل واضح تھے:”لینن ازم کی پوری بنیاد ہی جھوٹ اور غلط بیانی پر کھڑی ہے اوراپنی تباہی کے زہریلے عناصر اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے۔”(ٹراٹسکی، نکولائی چکدزے کو خط)
“ٹراٹسکی نے اپنی ساری توانائی لینن اور بالشویزم سے لڑنے میں لگا دی۔ اس نے صاف صاف کہا تھا کہ یہی اس کی سیاسی سرگرمی کا اصلی مقصد ہے۔ 1910ء میں جوفی (Joffe) کو بھیجے ہوئے مبارکبادی پوسٹ کارڈ سے عموما لوگ بخوبی واقف ہیں جس میں ٹراٹسکی نے لینن کے خلاف زبردست لڑائی کا تقاضا کیا اور دھمکی دی کہ اس لڑائی میں لینن کا خاتمہ ہوجائیگا”۔(بسمانوف (Basmanov))
ٹراٹسکی کی موقع پرستی کو سمجھنے کے لیے یہاں سب کے سامنے رکھا جارہا ہے۔ کسی قسم کے کمیونسٹ، بالشویک اور مارکسسٹ نہ ہونے کاصاف اعتراف کرنے کے علاوہ اور لینن کی کھلے بندوں، پرجوش مخالفت کرنے کے علاوہ ٹراٹسکی اور ٹراٹسکائیوں نے بعد میں مزدور طبقے کا انتہا درجے کا حامی، نہایت خالص اورپختہ ترین مارکسسٹ ہونے کا تصور پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔ یہاں تک کہ انہوں خود کو بالشویک لیننسٹ کہنا شروع کردیا جو کہ اس شخص کے مقلدین کے لیے ایک طنزیہ لقب ہے جس نے دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست کو تباہ کرنے کے لیے کوئی کثر نہ چھوڑی۔ ٹراٹسکی نے اس کے بعد خود کو لینن کی وفات کے بعد اس کا جانشین ثابت کرنے کے لیے پوری جلدیں لکھیں:”اگر میں 1917 ءمیں سینٹ پیٹرسبرگ میں موجود نہیں ہوتا تب بھی اکتوبر انقلاب آچکا ہوتا ،بشرطیکہ لینن وہاں موجود ہوتا اور وہی اسکی قیادت کرتا۔ اگر دونوں میں سے کسی کی بھی پیٹرسبرگ میں موجودگی نہیں ہوتی تو اکتوبر انقلاب بھی نہیں ہوتا: اس بات پر مجھے ذرا سا بھی شک نہیں کہ بالشویک پارٹی کی قیادت نے انقلاب کو نہ ہونے دیا ہوتا “۔ (ٹراٹسکی، جلاوطنی کی ڈائری، 46)
حقیقت یہ ہے کہ لیون ٹراٹسکی ایک رجعت پسند تھا۔ اس کانظریہ مارکسی نظریے کی بنیادسے محروم ہے اور صرف ردعمل اورمدافعت کرنے میں مفید ہے۔ ٹراٹسکی ازم اور بائیں بازو کی انتہا پسندی کا معاملہ قابل غور ہے اور یہ مرض ابھی تک ساری دنیا کے بائیں بازو میں پھیلا ہوا ہے۔ اس میں ٹراٹسکائیوں کا وہ “انمول ہیرا” بھی شامل ہے جسے لینن نے “بائیں بازو کےمضحکہ خیز نظریے” کا نام دیا(یعنی انقلابِ مسلسل کا ٹراٹسکائی نظریہ)۔
“سرمایہ داری کا اظہار مختلف ملکوں میں شدید ناہموار طریقے سے ہوتا ہے۔ جہاں اجناس کی پیداوار براہ راست استعمال کے بجائے منڈی میں تبادلے کے لیے کی جائے وہاں ترقی ناہموار طریقے سے ہی ہوگی۔ یہاں سے یہ ناقابل تردید نتیجا نکلتا ہے کہ سوشلزم بیک وقت سارے ملکوں میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی کامیابی پہلے ایک یا چند ملکوں میں ہوگی جبکہ باقی ملک کچھ عرصے کے لیے سرمایہ داراور ماقبل سرمایہ دار ہی رہیں گے۔”(لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 23، ص 80)
“میں بلکل جانتا ہوں کہ کچھ ایسے دانشور بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ بہت سیانے ہیں اور وہ خود کو سوشلسٹ بھی کہتے ہیں۔ ان کا یہ اصرار ہے کہ جب تک سارے ملکوں میں انقلاب نہیں آجاتا تب تک اقتدار پر قبضہ نہ کیا جائے۔ ان کو یہ گمان نہیں کہ اس طرح کی بات کا مطلب انقلاب سے دستبردار ہونا اور سرمایہ دار طبقے کی طرفداری کرنا ہے۔ عالمی پیمانے پر محنت کش طبقے کے انقلاب لانے تک انتظار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی جوں کا توں بت کے مانند انتظار میں کھڑا رہے۔ یہ بکواس بات ہے۔”(لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 23، ص 9)
ٹراٹسکی نے کئی معاملات پر شدت کے ساتھ لینن کی مخالفت کی۔ اس میں (جرمنی کے ساتھ) بریست -لتوسک معاہدہ بھی شامل ہے جس نے روس کو پہلی عالمی جنگ سے نکلنے کا راستہ دیا۔ سامراجی جنگ نے اس وقت تک لاکھوں روسی لوگوں کی جان لے لی تھی۔ ٹراٹسکی نے پارٹی کے جمہوری مرکزیت کے اصول کی خلاف ورزی کی اورمذاکرات کو من مانے انداز سے یکطرفہ طور پر ختم کردیا جس نے جرمنی کی جانب سے روس پر حملہ کرنے کا راستہ ہموار کیا:”ٹراٹسکی نے اشتعال میں آکر جرمنوں سے کہا کہ وہ ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گا اور لینن سے “نہ امن”اور “نہ جنگ” کی پالیسی اختیار کرنے کے لیے اصرار کیا جس میں روس نہ جنگ کو برقرار رکھے گا اور نہ وہ جرمنوں کے ساتھ کوئی مصالحت کرے گا۔1مارچ کو یوکرین کے دارالحکومت کائیف (Kiev) جرمنوں کے قبضے میں آگیا۔ ٹراٹسکی نے برہمی میں کہا کہ روس کو دوبارہ متحد ہونا چاہیے اور جنگ کو پھر شروع کرنا چاہیے۔ لینن نے ٹراٹسکی کو منع کرتے ہوئے پیٹروگراڈ پر قبضہ ہونے اور نوخیز حکومت کے خاتمے کے خوف سے اپنی حکومت کو ماسکو منتقل کردیا”۔ (میئر،619-620)
لینن کی وفات کے وقت بھی ٹراٹسکی کے لیے اسکے خیالات بالکل واضح تھے۔”لینن کی وفات کے بعد ایگزیکٹو کمیٹی کے ہم انیس لوگ ساتھ بیٹھے بے چینی سے اپنے قائد کے مشورے کے منتظر تھے۔ اسی دوران لینن کی اہلیہ ہمارے پاس ایک خط لے کر آئیں۔ اسٹالن نے وہ بلند آواز سے ہمیں پڑھ کر سنایا۔ سب نےخاموشی سے اسے سنا۔ جب ٹراٹسکی کی بات آئی تو اس میں لکھا تھا کہ “ٹراٹسکی کا بالشویک مخالف ماضی کوئی اتفاق کی بات نہیں”۔ ٹراٹسکی نے فورامداخلت کی اور کہا “یہ کیا تھا؟”پھر اس جملے کو دوبارہ سے پڑھا گیا۔ اس گھمبیر،سنجیدہ گھڑی میں یہی واحد الفاظ بولے گئے”۔ (لڈوگ، 364)
نتیجہ بلکل واضح ہے: لینن اور ٹراٹسکی سیاسی طور پر متحد نہیں تھے۔ مارکس ازم – لینن ازم ،اور ٹراٹسکی ازم ایک دوسرے سے بالکل متضاد نظریے ہیں۔
3۔دوسری جنگ عظیم میں ٹراٹسکی کا کردار: اصلی خطرہ اسٹالن ازم ہے
24 ستمبر1938ء میں جب نازی فوج نے چیکوسلواکیہ پر حملہ کر کے قبضہ کیا، اس وقت نیو یارک کے ٹراٹسکائی اخبار” سوشلسٹ اپیل” نے اعلان کیا:”یہ چیکوسلواکیہ ا ورسیلیا کی بدنام کانفرنس کی محنت کا نتیجہ ہے جو سب سے بھیانک قومی نتائج میں سے ایک ہے۔ چیکوسلواکیہ کی جمہوریت کبھی بھی جدید سرمایہ دارانہ استحصال کے خستہ حال لبادے سے زیادہ نہیں رہی۔۔۔ اس نقط نطر سے ناگزیر طور پر ہر حال میں چیکوسلواکیہ کی سرمایہ دار ریاست کے لیے سخت ترین انقلابی مخالفت کا اظہار ہوتا ہے”۔(کاہن اورسیئر، 325)
سارے رجعت پسند عہد حاضر تک ٹراٹسکی کی سوشلسٹ سوویت یونین کے ساتھ سیاسی مخالفت کی ہی عکاسی کرتے ہیں چاہے وہ کلاس روم میں ہوں ،ٹیلی ویژن میں ہوں، سی آئی اے یا واشنگٹن میں ہوں۔ ٹراٹسکی کی رد انقلابی تصانیف کے شائع ہونے کے کچھ سالوں بعد ہی بڑے سرمایہ داروں میں اشتراکیت کے نظریے سے نفرت کو ترک کرنا اور اس کی جگہ ٹراٹسکی کے نقط نظر کو اختیار کرنا اور روسی انقلاب پر “بائیں بازو سے” تنقید کرنا مقبول ہوگیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں جب دنیا نازی قوتوں کی بمباری کے ذریعے نسل کشی اور برق رفتار جنگ (دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوج کی فوجی کاروائی کا نام بلٹزکریگ( Blitzkrieg) تھا) کی شدید مار دھاڑ کا سامنا کر رہی تھی اور جب سوویت یونین جوزف اسٹالن اور کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں پوری انسانیت کی طرف سےتقریبا اکیلے لڑ رہا تھا اسی وقت جلا وطن ٹراٹسکی کی رہنمائی میں بائیں بازو کی مخالف جماعت نے لامتناہی طور پر سوویت یونین میں اس حد تک تخریب کاری اور بربادی کی کہ اس نے بالشویکوں کو ختم کرنے کے لیے سوویت یونین کے خلاف بے پناہ فوجی حملے اور دہشت گردی کی برملا تائید کی۔
اپنے عوامی بیانات میں ٹراٹسکی نے سوویت ریاست کا تختہ الٹنے کی خواہش کا برملا اظہار کیا اور غیر ملکی حملے کو محرک کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اقتدار پراپنا قبضہ کرنے کے لیے راستہ ہموار کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ ٹراٹسکی نے کہا: “بیوروکریسی کا انہدام صرف نئے سیاسی انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے”۔(ٹراٹسکی، عالمی صورتحال)
“رجعت پسند بیوروکریسی کا انہدام لازم ہوگا۔ سوویت یونین میں سیاسی انقلاب ناگزیر ہے”۔ (ٹراٹسکی، حکومت)
“میں سمجھتا ہوں کہ عالمی صورت حال میں سوویت یونین کو اصل خطرہ اسٹالن اور اس کی بنائی ہوئی اشرافیہ سے ہے۔ سوویت یونین کے دفاع کے لیے ان کے خلاف کھلی جدوجہد کرنا میرے لیے لازم ہے”۔ ( ٹراٹسکی، فن لینڈ کے تجربے کے بعد اسٹالن)
“صرف کریملن کے ٹولے کی بوناپارٹ طرز حکومت کا انہدام ہی سوویت یونین کی فوجی طاقت کو دوبارہ قائم کر سکتا ہے۔ صرف کمیونسٹ انٹرنیشنل کی ایگزیکٹو کمیٹی کا خاتمہ ہی انقلابی بین الاقوامیت کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔ جنگ ،سامراجیت اور فاشزم کے خلاف جدوجہد کے لیے جرائم سے لبریز اسٹالن ازم کے خلاف بے رحمانہ جدوجہد ضروری ہے۔ جو بھی اسٹالن ازم کا براہ راست یا بالواسطہ دفاع کرتا ہے ،جو بھی اسکی دھوکہ دہی پر خاموشی اختیار کرتا ہے، یا اسکی فوجی قوت کو بڑھا چڑھا کر بتاتا ہے، وہ انقلاب، سوشلزم اور مظلوموں کا بدترین دشمن ہے “۔ (ٹراٹسکی، ایک تازہ سبق)
ان حوالوں کے علاوہ ٹراٹسکی کی مشہورتصنیف “انقلاب سے غداری” کا ایک پورا باب”نئے انقلاب کی نا گزیریت ” سوویت یونین کی ریاست کے خلاف انقلاب کی حمایت پرمرکوزہے۔ ٹراٹسکی کا دعوی ہے کہ وہ اصلی سوشلزم کی تعمیر کی خاطر یہ انقلاب لانا چاہتا ہے۔ تاہم انقلاب کی آواز بلند کرتے ہوئے وہ سوویت ریاست کی منسوخی اور انہدام کی تلقین کرتا ہے۔ امریکن لیبر پارٹی کا ماننا ہے کہ سوویت یونین اس وقت ایک سوشلسٹ ریاست تھی جہاں پرولتاریا (مزدور طبقہ) سماج کا حکمران طبقہ تھا۔ لہذا جو اس دعوے کو قبول کرتا ہے اس کے لیے ظاہرہے کہ ٹراٹسکی کا منصوبہ سوویت یونین میں سرمایہ دارانہ نظام کو بحال کرنا تھا۔ اس کا مطلب فاشسٹ قوتوں کے حملے کے وقت سوویت یونین کی کمر توڑنا ہوگا۔ اگر کسی کو ٹراٹسکائیوں کے کمیونسٹ نہ ہونے کے مزید ثبوت چاہییں تو اسے ان کی جانب سے سوشلسٹ ریاست پر خونخوار ہٹلر اور مسولینی،اور ہیروہیٹو اور فرانکو کی فاشسٹ حکومتوں کوفوقیت دینے پر نظر ڈالنا چاہیے۔ سرمایہ داروں کے مقاصد کو تقویت دیتے ہوئے ٹراٹسکی اور اس کے مقلدین نے فاشزم اور کمیونزم کو ایک ہی اخلاقی دائرے میں ڈال دیا۔”دوسری عالمی جنگ میں دونوں محاذوں کی شکست کے امکانات ہیں چاہے وہ جمہوری ہو یا فاشسٹ ہو: ایک کی عسکری طور پر اور دوسرے کی معاشی طور پر۔ چاہے مزدورطبقہ دونوں میں سے خود کو کسی کی بھی نظر کرے ،ان کا مقدر شکست ہی ہوگا۔ لحاظہ نہ انہیں جمہوری حکومتوں کا ساتھ دینا چاہیے اور نہ ہی مطلق العنان حکومتوں کا”۔
یہاں مطلق العنان کی اصطلاح سے مراد ہٹلر اور اسٹالن دونوں ہیں۔ یہاں مصنف کن “جمہوری حکومتوں” کی بات کر رہا ہے؟ بے شک برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی۔ ٹراٹسکی ازم سے یہ سب متوقع ہے جس نے غیر ناقدانہ طور پر سامراجی گندگی کا پرچم اٹھایا جس میں یہ اصطلاح “مطلق العنان”بھی شامل ہے۔ یہ اصطلاح سرد جنگ کے عہد میں استعمال کی گئی، جس کو آزاد خیال (لبرل) دانشوروں نے سوویت یونین اور نازی جرمنی کو نسبت دینے کے لیے ایجاد کیا۔ ان کےمطابق سوشلسٹ ریاست اورسامراجی اتحادی ایک ہی چیز ہیں اور یہ امریکہ اور برطانیہ سے بہت بدتر ہیں۔یہ واضح ہے کہ لینن ازم اور سوشلزم کے خلاف ، ٹراٹسکائی سامراجیوں اور فاشسٹوں کا ساتھ دیتے ہیں۔”امریکن کمیونسٹ پارٹی نے ہمیشہ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کا سوویت ریاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں پر حقیقت یہ ہے کہ امریکن کمیونسٹ پارٹی کا سوویت ریاست سے وہی تعلق ہے جو امریکا میں نازی جرمنی کے جاسوسوں کا جرمنی کی حکومت کے ساتھ ہے۔”(ٹراٹسکی، کمیونسٹ انٹرنیشنل اور جی پی یو)
اس لفاظی کے باوجود ایسا انقلاب کبھی عیاں نہیں ہوگا۔ درحقیقت ٹراٹسکی نے کسی ایسے انقلاب کا تجربہ نہیں کیا جس کو وہ اپنا کہہ سکے۔ اس کے برعکس سوویت سوشلسٹ جمہوریاؤں کے اتحاد کی ساری کامیابیاں ٹراٹسکی کے نظریات کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہیں جس نے اسے اتنا شکست خوردہ کردیا کہ اس نے بلا تامل خود کو اقتدار میں لانے کے لیے دشمن طبقے سے مالی امداد لی۔ مارکس ازم اور لینن ازم نے نازیوں کو شکست دی جبکہ ٹراٹسکی ازم نے سرمایہ دار دانشوروں کو سوشلزم پر حملہ کرنے کے لیے ایک الگ زاویہ دیا۔ کیا ابھی بھی جاننا ضرووی ہے کہ کونسا نظریہ پرولتاریا کے لیے زیادہ مفید رہا ہے ؟
4۔ٹراٹسکی کا سوویت یونین کا جعلی دفاع
ٹراٹسکائی آج تک اصرار کرتے ہیں کہ حقیقت میں ٹراٹسکی نے سرمایہ داروں اور فاشسٹوں کے مفاد میں سوویت یونین کے خلاف انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام کی بحالی کے لیے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کہانی اسٹالن پرستوں نے گھڑی ہے جو کہ ایک کھلا جھوٹ ہے۔ ٹراٹسکائی اخبار “ورکرز وینگارڈ (Workers Vanguard)” نے کہا کہ “اس عہد میں اسٹالن پرستوں کا پسندیدہ الزام یہ تھا کہ ٹراٹسکی نے بیرونی قوتوں کے ساتھ سوویت ریاست کے خلاف اتحاد قائم کرلیا ۔ یہ ایک سفید جھوٹ تھا حالانکہ ٹراٹسکی نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ اصلی بالشویک لیننسٹوں کے لیے غیر مشروط طور پر اکتوبر انقلاب کی تاریخی کامیابیوں کا دفاع کرنا لازم ہے۔ بائیں بازو کی مخالف جماعت کے پروگرام کی ہر ایک دستاویزنے ، بین الاقوامی کمیونسٹ لیگ اورچوتھی انٹرنیشنل نے سرمایہ دارانہ نظام کی بحالی اور سامراجی حملے کے خلاف سوویت یونین کے دفاع کی غیر مشروط حمایت کو مشتہر کیا”۔ لیکن وہ فوری طور پر اسی مضمون میں خود کو رد کرتے ہیں اور یہ بات صاف طور پرتسلیم کرتے ہیں کہ “سوویت (یونین) کے دفاع کے لیے سب سے زیادہ ضروری تھا کہ اسٹالن کی حکومت کو منسوخ کیا جائے جس نے اس کے دفاع کی مسلسل تخریب کاری کی” ۔
جیسا کہ پہلے دیےگئے حوالوں میں ثابت ہوچکا ہے کہ ٹراٹسکی کی تحریروں میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس نے سوویت یونین کے دفاع کی نہیں بلکہ اس کے خلاف دہشت گردی اور توڑ پھوڑ کی حمایت کی۔ “پارٹی کے اندر اسٹالن نے خود کو ساری تنقید اور ریاست سے بالا تررکھا ہوا ہے۔” ٹراٹسکی نے کہا “اسے ہٹانا ناممکن ہے ماسوا ہلاکت کے۔ (اس لیے اسٹالن کا ) ہر مخا لف خود بخود دہشتگرد بن جاتا ہے”۔ (نیویارک ایوننگ جرنل)۔ اس نے مزید کہا: “گزرے ہوئے کچھ سالوں کے تجربے کے بعد یہ فرض کرنابچکانہ ہوگا کہ اسٹالنی بیوروکریسی کو پارٹی یا سوویت کانگریس کے ذریعے معزول کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں بالشویک پارٹی کی آخری کانگریس 1923ء کی ابتداء میں منعقد ہوئی تھی جو کہ پارٹی کی بارہویں کانگریس تھی۔ آگے ، بعد کی ساری کانگریسیں محض بیوروکریسی کی نمائش تھیں۔ یہاں تک کہ آج اس طرح کی کانگریس کو بھی ترک کردیا گیا ہے۔ حکمران ٹولے کو ہٹانے کے لیے کوئی حسب معمول قانونی طریقہ نہیں بچا۔ پرولتاریا کے ہراول دستے کے ہاتھوں میں اقتدار دینے کے لیے بیوروکریسی کو صرف طاقت کے ذریعے ہی مجبور کیا جاسکتا ہے”۔(ٹراٹسکی، سوویت ریاست کی طبقاتی نوعیت)
ٹراٹسکی نے اصرار کیا کہ “سوویت(یونین) کی آبادی خود کو لٹیروں کی قوم کے ذلت آمیز تسلط سے آزاد کرائے بغیر کبھی اعلی سطح کی تہذیب کی طرف گامزن نہیں ہوسکتی۔ کسی شیطان نے آج تک رضاکارانہ طور پر اپنے پنجے نہیں کاٹے۔ سوویت بیوروکریسی لڑائی کے بغیر اپنے منصب سے دست بردار نہیں ہوگی۔” (ٹراٹسکی، سوویت ریاست کی طبقاتی نوعیت)
ٹراٹسکی کے کافی ساتھیوں کی گواہیوں سے واضع طور پر اس کی سوویت یونین کو نقصان پہنچانے، قیادت کو قتل کرنے اور سرمایہ داری کو بحال کرنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔
“روس روانہ ہونے سے کچھ عرصہ پہلے ٹراٹسکی کے مخبر کونون برمن-یورن اور ڈیوڈ فرٹز کو ٹراٹسکی کے ساتھ مخصوص کانفرنسوں کے لیے طلب کیا گیا۔ یہ ملاقاتیں نومبر 1932ء کے آخرمیں کوپن ہیگن میں منعقد ہوئیں۔ بعد میں کونون برمن یورن نے ظاہر کیا کہ “میری ٹراٹسکی سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ سب سے پہلے اس نے میرے ماضی کے کام کی تعریف کی۔ پھر وہ سوویت(یونین ) کے معاملات کی طرف بڑھا۔ ٹراٹسکی نے کہا:”اہم سوال اسٹالن کا سوال ہے۔ اسٹالن کو ہلاک کرنا لازم ہوچکا ہے۔” اس نے کہا کہ جدوجہد کے دوسرے طریقے بیکار ہوچکے ہیں۔ اس نے مزید یہ کہا کہ اس مقصد کے لیے ان لوگوں کی ضرورت ہے جن میں کچھ بھی کرنے کی جرات ہو، جو خود کو اس تاریخی کام کے لیے قربان کردیں۔
“شام کے وقت ہم نے اپنی بات چیت شروع کی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ انفرادی دہشتگردی کی مصالحت مارکسزم کے ساتھ کیسے ہوسکتی ہے؟ ٹراٹسکی نے اس بات کا جواب دیا: “مسائل کا حل عقیدے کی بنیاد پر نہیں نکالا جاتا”۔ اس نے کہا کہ سوویت یونین میں موجودہ صورتحال کا اندازہ مارکس بھی نہیں لگا سکتا تھا۔ ٹراٹسکی نے یہ بھی کہا کہ اسٹالن کے ساتھ ساتھ کاگانووچ اور وروشلوف کو بھی قتل کرنا ہوگا۔ ۔ ۔ بات چیت کے دوران وہ گھبراہٹ کے ساتھ کمرے میں چہل قدمی کرتا رہا اور اسٹالن کے بارے میں شدید نفرت انگیز جملے کستا رہا۔ اس نے کہا کہ اگر ممکن ہو تو دہشت گردی کا یہ عمل بھری محفل میں یا کمیونسٹ انٹرنیشنل کی کانگریس میں ہونا چاہیے تا کہ اسٹالن پر چلائی ہوئی گولی کی آواز پوری محفل میں گونج اٹھے۔ “(کاہن اور سیئرز)
ٹراٹسکی اازم اور اسکے مقلدین کی موقع پرستی کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ ٹراٹسکی نے اپنی جلا وطنی کے بعد فوری طور پر اسٹالن اور ہٹلر کو تشبیہ دینے کی بنیاد ڈالنا شروع کردی جیسے کہ “سوویت بیوروکریسی اور باقی بیوروکریسی خصوصا فاشسٹ بیوروکریسی میں کوئی فرق نہیں”۔ (ٹراٹسکی، انقلاب سے غداری) ۔ اپنی آخری سانس تک ٹراٹسکی نے یہ دعوی کیا کہ نام نہاد “اسٹالن ازم” درحقیقت فاشزم کا شریک جرم تھا،حالانکہ یہ خود ٹراٹسکی ہی تھا جس نے سوویت یونین کے خاتمے کی حمایت کی اور ہٹلر کی پورے یورپ کی نوآبادکاری کا دفاع کیا: “فاشزم ایک کے بعد دوسری کامیابی حاصل کر رہا ہے اور اسکا بہترین اتحادی اسٹالن ازم ہے جو پوری دنیا میں اس کی کامیابی کے لیے راستہ صاف کر رہا ہے”۔ اسٹالن ازم ایک ایسی اصطلاح ہے جسے ٹراٹسکی نے مارکس ازم -لینن ازم کو بدنام کرنے کے لیے ایجاد کیا اور مارکس ازم -لینن ازم وہی نظریہ ہے جس کی حمایت کا وہ دعوی کرتا رہا۔
اس میں کسی کے لیے حیرت کی کوئی بات نہیں ہونا چاہیے کہ ٹراٹسکی کی سب سے مشہور تصنیف “انقلاب سے غداری”سرمایہ داروں، فاشسٹوں اور رجعت پسندوں میں مقبول ترین کتابوں میں سے ایک ہے اور یہ دنیا کے سارے حکمران سامراجی ملکوں میں شدت سے فروخت ہونے والی کتاب ہے۔ امریکہ کے ایک متوسط درجے کے کتب خانے میں بھی لینن یا اسٹالن کے کام کی کوئی جگہ نہیں اور اس کے برعکس ٹراٹسکی کی بہتان بازی آپ کو شیلف میں عام ملے گی۔ شروع سے ٹراٹسکی کے چاہنے والوں کی تعداد منجمد ہی رہی ہے:”ایڈولف ہٹلر نے ٹراٹسکی کی سوانح عمری کو شائع ہوتے ہی پڑھا تھا۔ ہٹلر کا سوانح نگار، کونراڈ ہائیڈن، ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے نازی لیڈر نے 1930ء میں ٹراٹسکی کی کتاب کی پرجوش تعریف کرتے ہوئے اپنے دوستوں کے اجتماع کو تعجب میں ڈال دیا تھا۔ ‘شاندار!’ ٹراٹسکی کی کتاب”میری زندگی” کو ہٹلر نے اپنے مقلدین کے سامنے لہراتے ہوئے بلند آواز سے کہا تھا:”میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے اور تم بھی سیکھ سکتے ہو!”(کاہن اورسیئرز، 216)
5۔جارج آرویل کی فہرست
سامراجی ملکوں میں آج تک طالب علموں کو ایک اور ٹراٹسکائی، جارج آرویل ،کی متوسط ناولوں کو پڑھنے پر مجبور کرنا معمول ہےجسے ٹراٹسکائی علم و فن کی بنیاد پر نہیں بلکہ فقط ناپختہ کمیونسٹ مخالف نقط نظر کی بنیاد پر زیادہ تر پڑھتے اور پسند کرتے ہیں۔ابھی تک اس کی تحریروں،” اینیمل فارم “اور”سال 1984ء” کو سوویت یونین کے بارے میں ایک کامل عقیدہ سمجھا جاتا ہے۔ ان دو افسانوی ناولوں کو کمیونزم میں لوگوں کے حالات زندگی کی حقیقی تصویرکے طور پر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ جارج آرویل خود اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ “میں کبھی روس نہیں گیا اور کمیونزم کے بارے میں میرا علم کتابوں اور اخبارات تک محدود ہے”۔(آرویل، 366)
انتہائی بائیں بازو کی کمیونسٹ اور سوویت مخالفت کی ضرب کے ساتھ ساتھ ٹراٹسکائی رجحان رکھتے ہوئے جارج آرویل مستقل مزاجی سے اپنا کام جاری رکھتا رہا۔ اسٹالن مخالف پارٹی( POUM) کے ساتھ مل کر اسپین کی خانہ جنگی میں لڑنے کے بعد وہ اسپین سے فرار ہوگیا اور برطانیہ کی انٹلیجنس کو ان لوگوں کی فہرست مہیا کی جن کو وہ کمیونزم کا ہمدرد سمجھتا تھا اورمزید ایسے لوگوں کی فہرست مہیا کی جن کے بارے میں وہ سمجھتا تھا کہ وہ کمیونسٹ مخالف پروپیگنڈہ لکھنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
نیویارک ریویو آف بکس کے لکھاری ٹموتھی گارٹن کو برطانیہ کے دفتر خارجہ کے آرکائیوز تک رسائی ملی اور اسے اس اصلی فہرست کو دیکھنے کی اجازت دی گئی۔ اس نے لکھا “یہاں پورے 135 نام ہیں”۔اس نے غور کیا کہ “جو فہرست آرویل نے برطانوی سامراجیوں کو مہیا کی اس میں اس کے سابق ساتھیوں میں سے خصوصا وہ لوگ بھی شامل تھے جو جارج آرویل کی طرح بائیں بازو کی کمیونزم مخالف جماعت کے لیے اہم تھے۔ وہ آرویل کی طرح اس بات کے قائل تھے جیسے جارج آرویل نے خود بھی لکھا کہ “اگر ہمیں سوشلزم کی تحریک کو دوبارہ نافذ کرنا ہے تو سوویت(یونین) کی داستان کا خاتمہ ضروری ہے”۔ یہ فہرست برطانوی حکومت کی گزارش پراکھٹی کی گئی تھی۔
“29مارچ کو سیلیا کی آرویل سےگلوسسٹرشائر میں ملاقات ہوئی؛ پر وہ ملاقات کسی خاص مقصد سے تھی۔ وہ دفتر خارجہ کے اس نئے محکمے(انفارمیشن ریسرچ ڈپارٹمنٹ) کے لیے کام کر رہی تھی جو کہ اسٹالن کی حال ہی میں بنائی گئی انجمن(انفارمیشن بیورو آف کمیونسٹ اینڈ ورکرز پارٹیز- کمیونسٹ انفارمیشن بیورو) کی کمیونسٹ نشر و اشاعت کے حملے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔”کیا وہ مدد کرسکتا ہے؟” جیسا کہ اس نے اپنی ملاقات کی سرکاری دستاویز میں درج کیا:”آرویل نے ہمارے مقاصد سےمخلصانہ اور پرجوش رضامندی کا اظہار کیا”۔ یہ وہی برطانوی ایجنٹ “سیلیا” ہے جس نے”سوویت دہشت: اسٹالن کا 1930ء کا قتلِ عام” کے تجربہ کار مؤرخ ،رابرٹ کانکویسٹ کے ساتھ اس ڈپارٹمنٹ میں سرکاری معاون کے طور پر کام کیا اور جس کے ساتھ رابرٹ کانکویسٹ شدید محبت میں مبتلا ہوا” (ٹموتھی گارٹن ایش)
حواشی:
1۔(پہلا)منشویک: روسی انقلابی تحریک میں ایک انقلابی سیاسی پارٹی ، روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی، کا ایک اقلیتی گروہ۔ روسی زبان میں منشویک کا مطلب “اقلیتی” ہے۔
۔ (دوسرا)-بالشویزم: روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبرپارٹی کے اکثریتی گروہ کا سیاسی رجحان جس کی قیادت لینن کررہا تھا۔ روسی زبان میں بالشویک کا مطلب ہے “اکثریتی”۔
۔ (تیسرا)شخمانی: امریکہ میں سوشلسٹ ورکرزپارٹی کا ایک ٹراٹسکائی رجحان تھا جو 1939 ء میں سامنے آیا۔ یہ میکس شخمان سے منسوب ہے جو اس پارٹی کا ایک رہنما تھا۔سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے دوسرے گروہ کے برعکس شخمانی ٹراٹسکائیوں کا خیال تھا کہ فاشزم کے خلاف سوویت یونین کا دفاع کرنا چاہیے اورسوویت یونین زوال پذیر مزدور ریاست نہیں تھی بلکہ ایک ایسی ریاست تھی جو بیوروکریٹک اجتماعیت کی بنیاد پر قائم تھی اورجس میں بیوروکریسی نے ایک نئے طبقے کی شکل اختیار کرلی تھی۔
۔(چوتھا) اسکرا روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کا ایک سیاسی اخبار تھا۔