سوشلسٹ معیشت کا ماؤاسٹ تصوراوربھاری صنعت (مصنف: رفائیل مارٹینیز؛ مترجم: شاداب مرتضی)

سوشلسٹ معیشت کا ماؤاسٹ تصوراوربھاری صنعت (مصنف: رفائیل مارٹینیز؛ مترجم: شاداب مرتضی)

پچھلے حصے میں ہم نے ان اہم ترین دعووں کا زکر کیا تھا جن پر شنگھائی نصابی کتاب انحصار کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا، اس کے مصنف واضح طور پریہ سمجھتے ہیں کہ معیشت کی بنیاد زراعت ہے اور زراعت ہی معیشت کے دوسرے شعبوں کا تعین کرتی ہے، خصوصا بھاری صنعت کا۔ حالانکہ شنگھائی نصابی کتاب کے مصنف رسمی طور پر اس بات سے متفق ہیں کہ بھاری صنعت کا کردار قائدانہ ہے، لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ معیشت کے مختلف شعبوں کے درمیان محنت کی تقسیم کے بارے میں ان کا تصور اس سے بہت مختلف ہے جس کی وکالت مارکسزم-لینن ازم کے بانیوں نے کی ہے۔ خاص طورپر کہا جائے تو مصنفین زراعت کو ترجیح دیتے ہیں، اس کے بعد ہلکی صنعت کو اور پھر بھاری صنعت کو۔ اس حصے میں ہم زیادہ تر مقداری /کمیتی پہلو سے معاملے کا جائزہ لیں گے اور یہ دکھانے کی کوشش کریں گے کہ یہ تصورعبوری اور سوشلسٹ معاشروں کی سیاسی معیشت میں اس مارکسی-لیننی اصول کی خلاف ورزی کی جانب لے جاتا ہے کہ بھاری صنعت معاشی ترقی کو متعین کرنے کا کردار رکھتی ہے۔ جب ہم پہلے پنج سالہ منصوبے کے اکنامک کنٹرول کے اشاریوں کا موازنہ کرتے ہیں اور ان معاشی اصلاحات کا جو 1960ء کی ابتداء میں شکل پزیرہوئیں اورجنہوں نے، ہماری رائے میں، پہلے پنج سالہ منصوبے میں شامل بنیادی ترقی کی خصوصیات کو ختم کردیا تو ہم بھاری صنعت کی ترقی میں ہونے والی معیاری (کیفیتی) تبدیلی پرزوردیتے ہیں۔

بھاری صنعت کی ترقی کے قائدانہ کردار کے مارکسی-لیننی اصول کو سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی عوامی جمہوری ریاستوں میں استعمال کیا گیا تھا اور جب چینی کمیونسٹ اقتدارمیں آئے تو یہ ایک وسیع خیال بن چکا تھا۔ ان معنی میں پہلا پنج سالہ منصوبہ چین کے حالات میں اس چیز کی ٹھوس شکل بن چکا تھا جسے ایک خوب تسلیم شدہ اورغیرمتنازع طرزِ عمل سمجھا جاتا تھا۔ یہ بات موجودہ تحریر کے احاطے میں نہیں آتی کہ ان کلاسیکی اسباب کی توجیہہ کی جائے جو مارکسزم-لینن ازم کے بانیوں کو اس نتیجے کی جانب لے گئے کہ عبوری معیشت میں بھاری صنعت کے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس نتیجہ اخذ کرنا، جیسا کہ شنگھائی نصابی کتاب کے مصنفین کرتے ہیں، مارکسی سیاسی معیشت کی بنیادوں سے ہی انکار کرنا ہے۔ مارکس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی سطح کا محنت کی افزودگی کی حاصل شدہ سطح سے مضبوط ربط ہے جو کہ محنت کی مشینیت/میکانیت (Mechanization) کے درجے پرمنحصرہے۔ محنت کی بڑھتی ہوئی مشینیت لازمی طور پر سماجی پیداوار کی ترتیب (کمپوزیشن) میں اس تبدیلی سے ہوتی ہے جوزراعت کے حوالے سے صنعت کے مفاد میں اورہلکی صنعت کے حوالے سے بھاری صنعت کے مفاد میں ہوتی ہے۔ یہ سماجی پیداوار کے حصول کے مارکسی تجزیے کا ضروری نتیجہ ہے، پیداوارنو(Reproduction) اورتوسیعی پیداوارنو(Extended Reproduction) کے مارکسی نظریے کا ایک ضروری نتیجہ۔ اس کا اطلاق سرمایہ دارانہ، سوشلسٹ اورکمیونسٹ پیداواری طریقوں اوراس کے ساتھ ساتھ عبوری معیشت پربھی ہوتا ہے۔ قومی معیشت کے دوسرے شعبوں پربھاری صنعت کی ترقی کے قائدانہ کردار سے انکار کرنا نہ صرف فاش مارکسزم مخالف رویہ ہے بلکہ یہ اس خالصتا مظہری مشاہدے (Phenomenological Observation) سے بھی متضاد ہے جو جدید پیداواری طریقوں میں معیشت کی مجموعی ترقی اورصنعت کی ترقی کے باہمی تعلق کوظاہرکرتا ہے۔

اس مقام پردوباتیں کرنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ہم “عظیم چھلانگ” کے سالوں کے دوران چینی معیشت کی ترقی کی بنیادی خصوصیات کا احاطہ نہیں کریں گے۔ یہ معاشی اصلاحات چین کی معاشی ترقی کے دوسرے مرحلوں کے مقابلے میں نسبتا مختصرتھیں۔ “عظیم چھلانگ” سے پیدا ہونے والے معاشی مظاہر کے جوہر پر بات کرنے کی خواہش نہ رکھتے ہوئے، ہم پہلے پنج سالہ منصوبے کی روح اور 1960ء کے ابتدائی عرصے کے دوران معاشی اصلاحات کے موازنے کو ترجیح دیں گے۔ اس کا پہلا مقصد تو یہ ہے کہ تجزیے کو سادہ رکھا جائے اورچین کی معاشی تاریخ کے دو اچھی طرح متعین ادوارکے درمیان واضح لکیرکھیچی جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پہلے پنج سالہ منصوبے کو ایک ہمہ گیر مرحلہ سمجھنا درست ہو یہ ضروری نہیں۔ درحقیقت، پہلے پنج سالہ منصوبے کے کنٹرول کے اعدادوشمار 1956-1957ء کی جانب تبدیلیاں ظاہر کرتے ہیں جو اس وقت کے معاشی مباحثوں میں بعض تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ نئے معاشی نظریے کے ستون، جن کا خلاصہ شنگھائی نصابی کتاب میں کیا گیا ہے، ان کی بنیاد 1956-1957ء کے دوران، سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی 20ویں کانگریس کے نتیجے میں رکھی گئی تھی، اوربعد کے سالوں میں انہیں مستحکم کیا گیا اورہماری رائے میں 1960ء کے ابتدائی برسوں میں ان کا اطلاق مستقل مزاجی سے کیا گیا۔ جب ہم پہلے پنج سالہ منصوبے اور1960ء کی دہائی کی معاشی اصلاحات میں موازنہ کرتے ہیں تو ہم ایک آسان طریقہ استعمال کرتے ہیں۔

چین کی معاشی تاریخ کے مختلف مرحلوں کے تعین سے متعلق اکیڈمک خیالات سے قطعِ نظر، ہمارے سامنے یہ ثابت ہے کہ پہلے پنج سالہ منصوبے کی روح اور1960ء کی دہائی کی ابتدائی معاشی اصلاحات بنیادی طورپرمختلف ہیں۔ پہلے پنج سالہ منصوبے کا دائرہ کار بہت اچھی طرح طے تھا اورملک کی صنعتکاری کے زریعے سوشلزم کی مادی بنیاد کی تعمیراس میں شامل تھی: “قومی معیشت کی ترقی کے لیے عطیم اولین پنچ سالہ منصوبے کو 1953ء میں شروع کیا گیا۔ اس کے بنیادی فرائض میں سے ایک ملک کی سوشلسٹ صنعتکاری کی ابتدائی بنیادیں ڈالنا تھا”۔ (‘دس عظیم سال’، ریاستی شماریاتی ادارہ، فارن لینگویج پریس، پیکنگ، 1960ء، ص۔ 80)

اصولا، دائیں بازوکی رجعتی سیاسی معیشت، سوشلسٹ تبدیلی کی کامیابی کے قائدانہ معیار کے طور پر صنعتکاری کے حق میں دعووں کو مسترد نہیں کرتی۔ یہ بات پہلے پنج سالہ منصوبے کو بعد کے منصوبوں سے لازما بہتر نہیں بناتی اگریہ بات سچ نہ ہوتی کہ اول الذکر(پہلے پنج سالہ منصوبے) کی رہنما ہدایات مخصوص اورصاف تھیں: “چین کے عبوری دورمیں مرکزی فریضہ سوشلسٹ صنعتکاری کرنا ہے اوربھاری صنعت کی ترقی کو ترجیح دینا سوشلسٹ تعمیر کے لیے بنیادی پالیسی ہے۔” (ایضا، ص، 46)

بھاری صنعت کی ترقی کے فیصلہ کن کردار کے مارکسی-لیننی اصول کو پہلے پنج سالہ منصوبے کی روح میں مضبوطی سے جمایا گیا تھا۔ جیسا کہ مقداری (کمیتی) تجزیہ دکھاتا ہے، چینی معیشت دانوں اورمنصوبہ سازوں نے اس بنیادی اصول کو معاشی عمل میں برتا۔ مزید برآں، بھاری صنعت کا قائدانہ کردار پہلے پنج سالہ منصوبے کی بنیاد تھا۔ پیچھے مڑکردیکھیں تو پہلے پنج سالہ منصوبے کے بہت سے سامراجی اورپیٹی بورژوا ناقدین نے اس کا ناطہ اسٹالن کی پالیسیوں سے جوڑا جو چین اوردیگر ترقی پسند ملکوں پر مبینہ طورپر باہرسے مسلط کی گئی تھیں۔ سامراجیت کے نظریہ دان اوران کے مقلد ہمیشہ اس عزت افزائی کوالجھاتے ہیں جو سوویت یونین اوراس کی قیادت کو اپنے سیاسی قدوقامت کی وجہ سے ترقی پسند دنیا سے ملی، خصوصا (دوسری عالمی) جنگ کے بعد کے دورمیں۔ ہم اس زبردست عزت و تکریم سے انکار نہیں کرتے جو ترقی پسند دنیا اس معاشی ماڈل کے لیے رکھتی ہے جس نے ایک پسماندہ اورزرعی ملک کو ایک عظیم اور صنعتی عالمی طاقت میں بدل دیا اورتمام جنگوں میں سے سب سے زیادہ سخت جنگ میں اسے فتح سے ہمکنار کیا۔ تاہم، ہمارے سامنے یہ ثابت ہے کہ ایک ایسے معاشی ماڈل کے بنیادی اصولوں کو اس وقت روس کے ٹھوس تاریخی-معاشی حالات کے لیے دائمی نہیں سمجھا گیا بلکہ، اس کے بجائے، یہ مارکسزم-لینن ازم کے معاشی اصولوں کو ٹھوس بنانے پرمشتمل تھے۔ تمام ترقی پسند دنیا میں یہ تسلیم کیا گیا کہ سوویت یونین کی فتح کی بنیاد مارکسزم-لینن ازم کے معاشی اصولوں کو درست انداز سے ٹھوس بنانے پرتھی جس میں بھاری صنعت کا قائدانہ کردار خاص طورپراہم تھا۔ درحقیقت، پائیدارمعاشی ترقی کی اعلی ترین شرحوں کا حصول تب ممکن ہوا جب بھاری صنعت کے قائدانہ کردار کے اصول کا مستقل مزاجی سے اطلاق کیا گیا۔ دائیں بازو کی ترمیم پسندی کے نظریہ دان، سامراجی اورپیٹی بورژوا معیشت دان اس کے برعکس بات کرتے ہیں اورواضح تاریخی حقائق کا انکار کرتے ہیں:

“(چینی) کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے ایک حصے نے تیزی سے صنعتکاری کرنے کے پروگرام کی وکالت کی۔ ان کا رجحان یہ تھا کہ وسائل کو بڑی اورجدید فیکٹریوں اور جدید ٹیکنالوجی پرمرکوز کیا جائے۔ وہ شہری علاقوں کی ترقی چاہتے تھے۔ ان کی نظر میں اس کے بعد ترقی چھلک کردیہی علاقوں تک پہنچ جاتی۔ ان رہنماؤں نے کہا کہ معیشت کو چلانے کے لیے بڑے پیمانے کی مرکزی منصوبہ بندی کے آلے کی ضرورت ہے اور انتظامی اداروں اور نئی معیشت میں کام کرنے والوں میں ماہرین کی بڑی فوجوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔ ان کی دلیل تھی کہ کاروباری اداروں کے اسٹاف اورعوام کی حوصلہ افزائی کا راستہ یہ تھا کہ اجرت میں وسیع تفریق اورمعاشی ترغیب (Incentive) پرانحصار کیا جائے۔

“اس پروگرام سے سوویت یونین کے غلبے کی عکاسی ہوتی تھی جو چین میں 1950ء کی دہائی میں بہت مضبوط تھا۔ لیکن ماؤکواس ماڈل میں دونوں طرح سے مسائل نظرآئے، اس لیے بھی کہ جس طرح اس پر سوویت یونین میں عمل کیا گیا، اوردوسرا جس طرح 1950ء کی دہائی میں چین میں اس پرعمل کیا جا رہا تھا۔ ترقی کے اس راستے نے شعوری پیش رفت اورعوامی سرگرمی پرتیکنیک اورمہارت کو ترجیح دے کر پروان چڑھایا۔ اس نے زراعت کو شہری بنیاد پرصنعتکاری کے تابع کرنے کے ماڈل کو مسترد کردیا۔ اوراگرچین سامراجی حملے اوردراندازی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونا چاہتا تھا تو اس کے لیے صنعت کی عدم مرکزیت کرنا اور ترقی کو کمزورشہروں اورساحلی علاقوں میں مرتکز نہیں کرنا تھا۔” (ریمنڈ لیوٹا، “ماؤ کی پیش قدمی – سوویت ماڈل سے علیحدگی”، انقلاب نمبر 302، 29 جنوری 2006ء)

یہاں ہم کسی ایک یا دوسرے رہنما کی سیاسی لائن پربات نہیں کرنا چاہتے جس نے کسی خاص وقت میں تیزی سے صنعتکاری کرنے کی پالیسیوں کی حمایت کی یا نہیں کی۔ یہ ہمارا نکتہ نہیں ہے اورموجودہ گفتگو سے تعلق نہیں رکھتا۔ ہمارے نزدیک یہ ثابت شدہ بات ہے کہ جسے پیٹی بورژوا نظریہ دان سوویت ماڈل کہتے ہیں اس کی معیاری تنقید ایک جانب مارکسزم-لینن ازم کی سیاسی معیشت کے بنیادی اصولوں کے بارے میں ان کی کم علمی کی عکاسی کرتی ہے اوردوسری جانب معاشی اورتاریخی حقائق کے مطالعے سے ان کی لاتعلقی کی۔ مزید برآں، شنگھائی نصابی کتاب میں خلاصہ کیے گئے خیالات کی عذرخواہی کرنے والے بنیادی طورپرسامراجی نظریہ دانوں کے پیش کیے گئے متعدد دلائل کی ہی نقل کرتے ہیں، جن میں امریکی اسکالرزسب سے نمایاں ہیں۔ شنگھائی نصابی کتاب کے خیالات کے ایک عام حمایتی کے طور پر(ریمنڈ) لیوٹا سوویت ماڈل کی نام نہاد سرمایہ دارانہ تنقید کی ان امتیازی خاصیتوں کو ہی دوہراتا ہے جس کے مطابق مبینہ طورپر صنعت کی ترقی دیہی علاقوں کو نقصان پہنچا کرہی ہوتی ہے۔ لیوٹا کا اعتراض بخارن-ٹراٹسکی کی جانب سے سوویت روس میں صنعتکاری اوردیہی علاقوں کی اجتماع کاری (Collectivization) کے لیے پارٹی لائن کی “تردید” میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں کرتا۔ نہ ہی لیوٹا ان عام سرمایہ دارناقدین سے کچھ مختلف ہے جو معاشی ماڈل کے ایک بنیادی ستون کی حیثیت سے مرکزی منصوبہ بندی پرتنقید کرتے ہیں۔ یہ ایک عام تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ (چین میں) پہلے پنج سالہ منصوبے کی تکمیل کے بعد ہونے والی معاشی اصلاحات میں معاشی مینجمنٹ اورفیصلہ سازی کی وسیع پیمانے پرعدم مرکزیت شامل تھی جس میں مرکزی منصوبہ بندی کو گھٹا کراسے خودمختارپروڈکشن کرنے والوں کی بڑی تعداد کے درمیان رابطہ کاری (کوآرڈینیشن) کے ایک ادارے میں بدل دیا گیا تھا، جو محنت کا تبادلہ (لیبرایکسچینج) مساوی قدروں کے تبادلے (قدرکے قانون) کے تحت اورخودانحصاری کے نام نہاد اصول کے تحت کرتا تھا۔ شنگھائی نصابی کتاب کے خیالات کی طرفداری کرنے والے خواہ کچھ بھی یقین کریں، یہ اصول “مارکیٹ سوشلزم” کے جدید نظریات میں یوگوسلاویہ میں ٹیٹو کی “حصے داری” میں بھی مشترک ہیں۔ یہ وہ معاشی ماڈل ہے جسے لیوٹا اورشنگھائی نصابی کتاب کے مصنفین مارکسی-لیننی مآڈل قرار دیتے ہیں۔ نام نہاد سوویت ماڈل اجرتوں میں وسیع فرق اورمادی ترغیب پراتنا انحصار نہیں کرتا تھا جتنا کہ لیوٹا اوراس جیسے دوسرے لوگ دعوی کرتے ہیں۔ سوویت پروڈکشن میں زیادہ ترغیب نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، اجرتوں میں اورمادی ترغیب میں فرق (پیداوار کی) تقسیم کے سوشلسٹ اصول سے مطابقت رکھتے ہیں اورانہیں سوشلزم میں موجود ہونا چاہے، تاہم انہیں عوام کی جانب سے پروڈکشن میں حصہ لینے کے لیے بنیادی ترغیب نہیں بننا چاہیے۔ اس کے برعکس بات کرنا یوٹوپیائی (خیالی) بات کرنا ہے۔ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ لیوٹا شعورکے مظہرکی جانب جاتا ہے جب وہ سوویت ماڈل کی خاصیت بیان کرتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ “ترقی کے اس راستے نے شعوری پیش رفت اورعوامی سرگرمی پرتیکنیک اورمہارت کو ترجیح دے کر پروان چڑھایا۔” جیسا کہ آخری حصے میں دیکھا جائے گا کہ سیاسی معیشت کے معاملات میں یہ سیاست اورشعور کے حوالے سے مابعد الطبعیات (میٹافزکس) اورخیال پرستی (آئیڈیلزم) کا اظہار ہے۔ یہاں موضوع سے ہٹتے ہوئے ہم ان لوگوں کی حماقت کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے معیشت کے دوسرے شعبوں کے تعلق سے بھاری صنعت کے فیصلہ کن کردار کے خلاف بحث کی یا اب بھی کرتے ہیں۔

معاشی ترقی کے اعتبار سے پہلی دہائی، 1949ء سے 1959ء تک، کو تین مختلف مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: پہلا مرحلہ صحتیابی کا ہے جو 1949ء سے 1952ء تک کا ہے؛ دوسرا مرحلہ پہلے پنج سالہ منصوبے کا ہے جو 1952ء سے 1957ء کے عرصے پر مشتمل ہے؛ اورتیسرا مرحلہ “آگے کی جانب ایک عظیم چھلانگ” کا ہے جو 1957ء سے 1959ء تک کا ہے۔ 1949ء سے 1952ء کا عرصہ جس میں انقلابی حکومت نے اقتدارپرقبضہ کیا، اس میں خاطرخواہ معاشی ترقی ہوئی کیونکہ اس میں پیداواری قوتوں کے غیرفعال شعبوں کو بحال کرنے کی کوشش ہوئی، خصوصا صنعت اورقومی معیشت کے دوسرے اہم شعبوں میں۔ متعدد زرائع کے مطابق، اس دورمیں معاشی مجموعی قومی پیداوار(Gross National Product) اوسطا 25 فیصد بڑھی۔ اس کی وجہ ایک ایسے وقت میں سیاسی کیڈر اور محنت کش آبادی کی موبلائزیشن کرنا تھا جب سیاسی عدم استحکام کے دور میں، جو 1949ء کے بعد فورا ختم ہوا، پوری پوری صنعتیں غیرپیداواری تھیں۔

“1949ء اور1952ء کے دور میں صنعت کی مجموعی پیداواری قدر(Gross Output Value) 145 فیصد بڑھی اورزراعت کی مجموعی پیداواری قدر میں 48.5 فیصد اضافہ ہوا۔ 1952ء تک صنعت اورزراعت کی اکثراہم مصنوعات کو یا تو پرانی سطح پر بحال کیا جا چکا تھا یا وہ پرانی سطح سے آگے نکل چکی تھیں۔” (“دس عظیم سال”، ریاستی شماریاتی ادارہ، فارن لینگویج پریس، پیکنگ، 1960ء، ص۔ 3)

معیشت کی صحتیابی کے ایک مختصر لیکن شاندارعمل کے بعد چینی منصوبہ سازوں نے اپنے سوویت ہم منصبوں کے تعاون سے، وہ منصوبہ تیار کیا جسے پہلا پنج سالہ منصوبہ کہا جاتا ہے۔ یہ دوربلا شک و شبہ انقلابی چین کی معاشی تاریخ کا کامیاب ترین معاشی دور ہے۔ اس کے برعکس دلیل دینا زبردست تاریخی حقائق کونظرانداز کرنا اوران کی غلط تشریح کرنا ہے:

“1952ء سے 1957ء کے عرصے کے دوران صنعت کی مجموعی پیداواری قدرمیں 18 فیصد اوسط سالانہ اضافے کے ساتھ 128 فیصد اضافہ ہوا، اورزراعت کی مجموعی پیداواری قدرمیں 4.5 فیصد اوسط سالانہ اضافے کے ساتھ 25 فیصد اضافہ ہوا۔” (ایضا، ص 3)۔

پہلے پنج سالہ منصوبے کی مضبوط کامیابی کی بازگشت پوری دنیا میں گونجی۔ سوویت پریس کے ساتھ ساتھ اسے عوامی جمہوریاؤں کی پریس میں بھی داد و تحسین ملی۔ حتی کہ سرمایہ دارمعیشت دانوں نے بھی پہلے پنج سالہ منصوبے کی شاندار کامیابی کو تسلیم کیا، جس کا اولین ہدف، جیسا کہ پہلے زکرہوا، پسماندہ چین کی صنعت کی بنیاد ڈالنا تھا:

“چین کا پہلا پنج سالہ منصوبہ (1952ء-1957ء) معاشی ترقی کے لیے نسبتا زیادہ عقلمندی سے بنایا گیا تیکنیکی منصوبہ تھا اور اس دورمیں کافی متاثرکن معاشی ترقی سامنے آئی۔” (بی۔ ایم۔ رچ مین، “کمیونسٹ چین میں صنعتی معاشرہ”، رینڈم ہاؤس، نیویارک، 1969ء، ص 47)۔

پہلے پنج سالہ منصوبے کی پالیسیوں کی تاریخی کامیابی، جو مارکسی اقتصادی سائنس کی درستگی کی تصدیق کرتی ہے، ایک زیادہ بنیادی سوال کو چھوتی ہے، یعنی، سرمایہ داری کے مقابلے میں پروڈکشن کے سوشلسٹ طریقے کی برتری کو۔ پروڈوکشن کے سوشلسٹ طریقے کی برتری کو بھاری صنعت کی ترقی کو ترجیح دینے کی بنیاد پرثابت کیا گیا:

“اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ دو مختلف نظام، سوشلزم اورسرمایہ دای، قومی معیشت کی ترقی کی دو بالکل مختلف شرحوں کو تخلیق کرتے ہیں اورسوشلزم ناقابل موازنہ طور پرزیادہ بہترنظام ہے۔” (“دس عظیم سال”، ریاستی شماریاتی ادارہ، فارن لینگویج پریس، پیکنگ، 1960ء، ص۔ 6)

یہ ممتاز خصوصیت عام طور پر دائیں بازو کے ترمیم پسندوں اورسامراجیت کے نظریہ دانوں کی طرف سے نظرانداز کردی جاتی ہے۔ مؤخرالذکرواضح اسباب کی بناء پرایسا کرتے ہیں۔ اول الذکر کا سامنا اس تلخ حقیقت سے ہوا کہ بھاری صنعت اور سوشلزم کی سیاسی معیشت کے دیگر اہم نکات کے معاملے میں ان کے مارکس مخالف نظریات نے سوویت یونین اورعوامی جمہوریاؤں میں 1930ء سے 1950ء کے دوران ہونے والی اس شاندار معاشی ترقی کوعملا ختم کردیا جس نے ترقی یافتہ ترین سرمایہ دار ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ پروڈکشن کی تنظیم کی سوشلسٹ شکل کی برتری کوسوشلزم اورعبوری معیشت میں بھاری صنعت کی ترقی کے قائدانہ کردار کے مارکسی-لیننی اصول کو ختم کرکے ختم کردیا گیا۔ یہ ایک اور تاریخی-معاشی حقیقت ہے جسے شنگھائی نصابی کتاب کی طرفداری کرنے والے نظرانداز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے بجائے، وہ معاشیات میں شعورکے کردار کے بارے میں بحث پرتوجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ معاشی ترقی کے معروضی قوانین کو گرفت میں لانے میں ناکام رہتے ہیں، جو کہ سیاسی معیشت کا اصل کام ہے۔ چین میں دائیں بازوکی ترمیم پسند سوچ نے، جس کا خلاصہ شنگھائی نصاب کتاب میں کیا گیا ہے، شعورکے مظہر پرزوردیا اور”ریوولوشن ان کمانڈ” کا تصور پیش کیا جبکہ سوویت یونین اوردوسرے ملکوں میں ترمیم پسند معیشت دانوں نے، عام خیال پرستانہ غلطیوں سے بچتے ہوئے، صنعتکاری کے اسٹالنسٹ ماڈل کی نام نہاد زیادہ “باضمیر” تنقید پرتوجہ مرکوز کی۔ بہرحال، اپنی طرزفکراوراستدلال کی مختلف شکلوں کے باوجود، وہ سب کے سب “پرانے مآڈل(سوویت ماڈل)” کو ایسا شیطانی ماڈل بنا کرپیش کرنے پراتفاق کرتے تھے جو بھاری صنعت کی حد سے زیادہ حمایت کرتا تھا اورمعاشی نابرابریاں پیدا کرتا تھا۔

پہلے پنج سالہ منصوبے کے اعدادوشمار اورحقیقی معاشی کارکردگی کا تجزیہ ایک متحیر کردینے والا موضوع ہے جسے ہماری رائے میں ان لوگوں نے نظر انداز کیا ہے جو چینی انقلابیوں کی انقلابی روایتوں کو برقراررکھنے کا دعوی کرتے ہیں۔ قومی معیشت کے مختلف شعبوں میں معاشی ترقی کے ٹھوس اعدادوشمار یقینا بہت متاثرکرنے والے تھے۔ مجموعی معاشی ترقی زبردست تھی، جبکہ سب سے زیادہ متاثرکن ترقی بھاری صنعت میں ہوئی:

“1949ء اور 1958ء کی پروڈکشن کے اعدادوشمار کا موازنہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل اضافے ریکارڈ کیے گئے: اسٹیل کی پروڈکشن میں 4960 فیصد اضافہ ہوا (جس میں مقامی طریقوں سے بنایا گیا اسٹیل شامل نہیں)؛ خام لوہے کی پیداوار میں 3680 فیصد اضافہ ہوا (جس میں مقامی طریقوں سے بنایا گیا لوہا شامل نہیں)؛ بجلی کی پیداوار540 فیصد بڑھی؛ کوئلے میں 730 فیصد اضافہ ہوا؛ کچے تیل میں 1770 فیصد؛ دھات کاٹنے کے میشنی اوزاروں کی پیداوار میں 3060 فیصد؛ سیمنٹ میں 1310 فیصد؛ کاٹن کے کپڑے میں 200 فیصد؛ کاغذ میں 610 فیصد؛ سبزیوں کے خوردنی تیل میں 180 فیصد؛ چینی کی پیداوارمیں 350 فیصد؛ اناج میں 130 فیصد؛ کپاس میں 370 فیصد۔ (“دس عظیم سال”، ریاستی شماریاتی ادارہ، فارن لینگویج پریس، پیکنگ، 1960ء، ص۔ 6)

ٹیبل نمر1 زراعت اورصنعت کی مجموعی پیداوارکے نسبتی حجم میں سال بہ سال ہونے والی تبدیلیاں دکھاتا ہے جو 1949ء سے1957ء کے عرصے کے دوران ہوئیں اورمعیشت کی صحتیابی اورپہلے پنج سالہ منصوبے کے ادوار کا احاطہ کرتی ہیں۔ (“دس عظیم سال”، ریاستی شماریاتی ادارہ، فارن لینگویج پریس، پیکنگ، 1960ء، ص۔ 17)

صنعت میں نسبتی حجم (اشیائے صرف اورزرائع پیداوار دونوں) 1950ء میں تقریبا 33 فیصد تھا اورزراعت کا نسبتی حجم تقریبا 67 فیصد تھا۔ پہلے پنج سالہ منصوبے کے اختتام پرزراعت کے غلبے کو اس حد تک کم کیا گیا کہ صنعت کی مجموعی پیداواری قدر کافی زیادہ بڑھ کرزراعت سے آگے نکل گئی۔ یہ نوٹ کرنا اہم ہے کہ جسے صنعتی پروڈکشن کی حیثیت سے شناخت کیا گیا اس کے ایک اہم حصے میں دستی پروڈکشن اورچھوٹے پیمانے کے ورکشاپس بھی شامل تھے۔ صنعت کی مجموعی پیداواری قدر میں ان کا نسبتی حجم پہلے پنج سالہ منصوبے کے اختتام پرکافی کم ہوگیا۔ اختصار کے سبب، قومی معیشت کے دونوں اہم شعبوں میں سے ہر ایک کی مجموعی پیداواری قدر کی سال بہ سال مطلق قدروں (Absolute Values) کو یہاں نہیں دکھایا گیا ہے۔ زراعت کے حصے میں ہونے والی نسبتی کمی کا کسی بھی طرح سے یہ مطلب نہیں کہ حقیقی زرعی پیداوار میں کمی ہوئی؛ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ صنعت کی ترقی کی شرح زراعت سے بہت زیادہ تھی۔ یہ نوٹ کرنا اہم ہے کہ اس عرصے کے دوران زراعت کی ترقی کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اوراس نے انقلاب سے پہلے کی چین کی سطح کو اوراس وقت آبادی میں ہونے والے اضافے کی شرح کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

ٹیبل نمبر1 دکھاتا ہے کہ قومی معیشت کے دو بنیادی حصوں میں مقداری اورمعیاری تبدیلیاں ہوئیں، لیکن یہ اس بات پرروشنی نہیں ڈالتا کہ صنعت کی اندرونی ترتیب میں کیا تبدیلی ہوئی۔ 1949ء میں، زرائع پیداوار کی پیداوار کا نسبتی حجم 26.6 فیصد تھا، جہاں اشیائے صرف کی پیداوارکی قدر کا نسبتی حجم73.4 فیصد پرپہنچ گیا تھا۔ پہلے پنچ سالہ منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے، 1952ء میں، بھاری صنعت کا نسبتی حجم 35.6 فیصد تک ہہنچ گیا تھا۔ 1957ء میں پہلے پنج سالہ منصوبے میں زرائع پیداوار کی پیداوارکی قدر کا نسبتی حجم صنعت کے 57.3 فیصد حصے کے برابرہوگیا تھا۔ یہ تبدیلیاں صنعت کے شعبے میں بھاری صنعت کی جانب ہونے والی معیاری تبدیلی کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ بات چینی معیشت کی ترتیب میں ہونے والی اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کرتی ہے جو جنگ کے بعد کے زمانے میں مشرقی یورپ کی عوامی جمہوریاؤں میں حاصل کی گئی ترقی سے مطابقت رکھتی ہے۔

ٹیبل نمبر2 صنعت کی مجموعی پیداواری قدر کی ترقی کی شرح میں سالانہ تبدیلیوں کوظاہرکرتا ہے (“دس عظیم سال”، ریاستی شماریاتی ادارہ، فارن لینگویج پریس، پیکنگ، 1960ء، ص۔ 89)۔ ٹیبل نمبر2 زرائع پیداوار کی پروڈکشن میں اوراشیائے صرف کی پروڈکشن میں مجموعی پیداواری قدر کی تبدیلی کو بھی دکھاتا ہے۔ صنعت کی سال بہ سال مجموعی شرح ترقی بہت متاثرکن تھی جیسا کہ ٹیبل کا دوسرا کالم ظاہرکرتا ہے۔ اس ترقی کو زرائع پیداوارکی مجموعی پیداواری قدر کی زیادہ متاثرکن ترقی نے ممکن بنایا۔ تیسرا اورچوتھا کالم دکھاتا ہے کہ اشیائے صرف (کنزیومرآئٹمز) کے انڈیکس کے تقابل میں زرائع پیداوار کی شرح ترقی ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔ اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ آبادی کی مادی ضروریات کو نظرانداز کیا گیا، جیسا کہ سرمایہ دارانہ پروپیگنڈہ کا سالہا سال سے دعوی ہے۔ درحقیقت، بھاری صنعت کی ترقی کی شرح سے ہلکی صنعت کی ترقی کی شرح میں بڑا اضافہ ہوا جو کہ آبادی میں اضافے کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ قومی آمدنی کی ترتیب میں تبدیلی کے محرکات معیشت کی عمومی ترقی سے اور معیشت کے تمام شعبوں میں محنت کی افزودگی کی خصوصی ترقی سے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ 1957ء-1965ء کے عرصے میں مجموعی قومی آمدنی کی اوسط شرح میں 1953ء-1957ء کے عرصے کے مقابلے میں 2.5 کے فیکٹرسے کمی آئی جب کہ مؤخرالزکردورمیں صنعت کا تناسبی حجم کافی نمایاں ہوگیا تھا۔ زرائع پیداوار کی ترقی کو ترجیح دینے کی ضرورت کو بہت اچھی طرح سے سماجی پیداوارنوکے مارکسی تجزیے میں ثابت کیا گیا ہے۔ یہ مارکسزم کی ابجد کا حصہ ہے۔ ہرسوشلسٹ معیشت کو ان ہدایات پرعمل کرنا چاہیے تاکہ وہ معاشی پسماندگی پرقابو پاسکے اورحقیقی خودمختاری حاصل کرسکے۔

چین کی صنعتکاری کو پہلے پنج سالہ منصوبے میں نہایت سنجیدگی سے لیا گیا تھا جو اس کی مضبوط ترقی کا بنیادی سبب تھا۔ اس میں بھاری صنعت کو وسیع کرنا شامل تھا، نہ صرف پہلے سے موجود صنعتی شاخوں کو بحال کرکے بلکہ صنعت کو متنوع (Diversify) کرتے ہوئے نئی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر نئی صنعتی شاخیں تخلیق کرکے:

“چین، ایک پسماندہ زرعی ملک، کو نہایت ترقی یافتہ جدید صنعت، جدید زراعت اورجدید سائنس اورکلچر کے زریعے بتدریج ایک عظیم سوشلسٹ ملک میں تبدیل کرنا پڑا۔ اس عظیم کام کوانجام دینے کے لیے پہلے سے موجود پیداواری آلات کو پوری طرح استعمال کرنے اور ان کی صلاحیت میں اضآفہ کرنے کے علاوہ یہ ضروری تھا کہ نئی بڑے پیمانے کی بنیادی تعمیر (Capital Construction) کی تکمیل کی جائے، نئی صنعتی شاخیں قائم کی جائیں، خصوصا بھاری صنعت میں، تاکہ قومی معیشت کے مختلف شعبوں کو نئے آلات اورتینیک فراہم کی جا سکے اورمضبوط سوشلسٹ مواد اورتیکنیکی بنیادیں تعمیر کی جا سکیں۔” (“دس عظیم سال”، ریاستی شماریاتی ادارہ، فارن لینگویج پریس، پیکنگ، 1960ء، ص۔ 45)۔

بھاری صنعت کی ترقی کو ترجیح دینے کے مارکسی-لیننی اصول پرعملدرآمد کی عکاسی قومی معیشت کی مختلف شاخوں میں سرمایہ کاری کی ساخت میں ہوئی۔ بھاری صنعت کے مفاد میں سرمایہ کاری کی تقسیم مرکزی سوشلسٹ منصوبہ بندی کے کردار کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ یہ بات سوشلسٹ ریاست کے اس استحقاق کا براہِ راست اظہار ہے جس میں سوشلزم کے معروضی قوانین کے مطابق پیداواری قوتوں کی تنظیم کاری کی جاتی ہے اورسوشلسٹ پروڈکشن کے بیادی قانون کی تسکین ہوتی ہے۔ یہ بات شنگھائی نصابی کتاب کے مصنفین کی طرفداری کرنے والوں کے اس تصور کے بالکل خلاف ہے جو، اسٹالن کے بعد کے سوویت یونین میں اپنے ہمرکابوں کی طرح، قدرکے مساوی تبادلے کو (یعنی قدر کا قانون؛ “جنس-پیسہ تعلقات کا کردار” پرمشتمل حصہ دیکھیے) وہ قائدانہ معیار قراردیتے ہیں جو قومی معیشت میں محنت کی تقسیم کی نگہبانی کرتا ہے۔ ان کے اس ماقبل مارکس تصور کے ساتھ کہ بھاری صنعت اوردوسرے شعبوں کے لیے درکاروسائل “اناج کی مقدار سے، خام مال سے، کیپٹل فنڈ سے، اورزرعی شعبے سے فراہم کی جانے والی محنت سے” تجاوزنہیں کرسکتے، ان کا “مارکیٹی” تصور صنعت کی صحتمند ترقی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اس کے برعکس، سرمایہ کاری کے لحاظ سے بھاری صنعت کو ترجیح دینے کی پالیسیوں کو پہلے پہنج سالہ منصوبے کے دوران مرکزی منصوبہ بندی میں نہایت سنجیدگی سے لیا گیا تھا۔

“1952ء-1958ء کے دوران ریاست نے بنیادی تعمیر کے لیے 86 ہزارملین یوآن سے زیادہ کی جوسرمایہ کاری کی اس کا 51.1 فیصد حصہ صنعتی تعمیر کے لیے تھا، جس میں 43.8 فیصد بھاری صنعت کے لیے تھا۔ بقیہ رقم کو اس طرح صرف کیا گیا: 8.6 فیصد زراعت، جنگلات اورپانی کے ذخائر کے لیے، 15.3 فیصد کمیونیکیشن، ٹرانسپورٹ، پورٹ اورٹیلی کمیونیکیشن کے لیے، 9 فیصد کلچر، تعلیم اورعوامی فلاح وبہبود اورعوامی سہولتوں کے لیے، اور16 فیصد دوسری تعمیرات کے لیے۔” (ایضا، ص، 46)۔

اوپربیان کیے گیے کمیتی رجحانوں کو سرمایہ دارمعیشت دانوں نے بھی تسلیم کیا۔ سرمایہ دارانہ زرائع کے مطابق صنعت کا نسبتی حجم (مینوفیکچرنگ، کان کنی، ٹرانسپورٹ اورکنسٹرکشن) 1957ء میں خالص گھریلو پیداوار (Net Domestic Product) کا 27 فیصد تھا (1952ء کی یوآن کی قیمت کے مطابق)، یعنی 1952ء کے مقابلے میں 16.6 فیصد زیادہ۔ اسی عرصے کے دوران زراعت کا نسبتی حجم 48 فیصد سے کم ہو کر39 فیصد پرآگیا، جب کہ اس نے مجموعی قومی پیداوار اورزرعی پیداوار میں مستحکم اورپائیدارترقی کو ظاہر کیا، (ٹی-سی-لیو اورکے-سی-یاہے، “چین کی معیشت”، پرنسٹن، پرنسٹن یونیوریسٹی پریس، 1965ء، ص۔ 88)۔

بے شمارسرمایہ دارانہ زرائع نے بھی اس کی تصدیق کی۔ سرمایہ دارماہرین اوراسکالرزعام طورپراسے اچھی طرح تسلیم کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مارکسی-لیننی سیاستی معیشت کے عمومی بنیادی قوانین اور بھاری صنعت کے قائدانہ کردار کے خصوصی قانون کی درستگی پربھروسہ کرنے کے لیے مارکسیوں کو سرمایہ داراورسامراجی نظریہ دانوں کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔ درحقیقت، سرمایہ دارمعیشت دان خود کو کمیتی تجزیے تک گھٹا دیتے ہیں اورایسے بے قاعدہ سیاسی بیانات پرانحصارکرتے ہیں جو ان کی رائے میں کسی ایک یا دوسری معاشی پالیسی کا محرک ہوسکتے تھے۔ ان کا رویہ خالصتا مظہری (Phenomenological) ہے کیونکہ وہ مارکسی سیاسی معیشت کے جوہر(Essence) کو نہیں سمجھتے۔ تاہم، معاشی مظہر کے تجزیے کی ایسی سطحی اپروچ بھی ان واضح ترین معاشی فوائد کو نظرانداز نہیں کرسکتی جو صنعتکاری کی مارکسی-لیننی پالیسیاں پنج سالہ منصوبے جیسے مختصر وقت میں برپا کرسکتی ہیں۔

ان معاشی اصولوں کا خاتمہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جن پر پہلا پنج سالہ منصوبہ قائم کیا گیا تھا اوراسے عملی جامعہ پہنایا گیا تھا، اوریہ کوئی سیدھا سادہ عمل نہیں تھا۔ یہ اس آرٹیکل کے دائرے میں نہیں آتا کہ پہلے پنج سالہ منصوبے کے بعد ہونے والی معاشی اصلاحات کے مختلف مرحلوں کو تقسیم کرکے ان کا جائزہ لیا جائے۔ جیسا کہ اوپرزکرکیا گیا، پہلے پنج سالہ منصوبے پرعملدرآماد ہم آہنگی کے ساتھ نہیں ہوا اوراپنے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے اس میں چینی قیادت کے اندر ہونے والے معاشی مباحثوں کی روشنی میں “درستگیاں” کی گئیں۔ اسی طرح “آگے کی جانب ایک عظیم چھلانگ” کی معاشی اصلاحات کے پیچھے کارفرما فہم کا جائزہ لینا بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ چنانچہ، شنگھائی نصابی کتاب کے تجزیے کوسادہ رکھنے کے لیے ہم نے چینی معیشت دانوں کی سوچ میں ارتقاء کی نزاکتوں پردھیان دینے کے بجائے اس کی مرکزی خاصیتوں پراوردائیں بازو کی ترمیم پسند معاشیات کے ساتھ اس کی مشترکہ خاصیتوں پر توجہ مرکوز کی ہے جنہیں اسٹالن کے بعد کے سوویت یونین میں تخلیق کیا گیا تھا۔

آگے کی جانب ایک عظیم چھلانگ کی معاشی پالیسیاں لازمی طورپربھاری صنعت کے قائدانہ کردار کو ختم کرنے کا مقصد نہیں رکھتی تھیں، یا کم ازکم اپنے بیرونی اظہار میں وہ ایسی نہیں تھیں۔ جوبات ہم پرواضح ہے اورامید ہے کہ اس نکتے تک غیرمتنازعہ ہے وہ یہ ہے کہ “عظیم چھلانگ” کی پالیسیاں مقامی اورعلاقائی حکام کے مفاد میں اکنامک مینجمنٹ کی عدم مرکزیت (ڈی سنٹرلائزیشن) کی کاوشوں کے ساتھ واقع ہوئیں، جو بھاری صنعت کی مدد کے لیے مستقل اورباشعورپالیسی کے طورپرنہایت اہم ہے۔ “عظیم چھلانگ” کی معاشی پالیسیاں مختصرعرصے تک رہیں اوران کے خلاف متعدد اقدامات کیے گئے، جو دیگرچیزوں کے علاوہ، بھاری صنعت کے قائدانہ کردار کے خاتمے کی جانب اور”مارکیٹ ازم” کے اصولوں کی ترقی اوراستحکام کی جانب لے گئے۔

قومی معیشت کے شعبوں میں محنت کے بہاؤ کی حرکیات کو1960ء کے بعد کیفیتی تبیدلیوں کو برداشت کرنا پڑا تاکہ ان معاشی مفروضوں کے لیے گنجائش پیدا کی جا سکے جن کا خلاصہ بعد میں شنگھائی نصابی کتاب میں کیا گیا۔ یقینا، قومی معیشت کی ترتیب میں ہونے والی سریع کیفیتی تبدیلیوں کو 1959ء-1960ء کے بعد روک دیا گیا۔ چین کے سرکاری اعدادوشمارکے مطابق، زراعت کے مقابلے میں صنعت کے نسبتی حجم کا تناسب 1953ء میں 0.89 کے فیکٹر سے بڑھ کر 1957ء میں 1.3 ہوگیا، جس سے معیشت کی ساخت میں کیفیتی تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے (دیکھیے ٹیبل نمبر1)۔ پہلے پنج سالہ منصوبے کے بعد “آگے کی جانب ایک عظیم چھلانگ” کی پالیسیاں نافذ کی گئیں جن کے دوران بڑی تعداد میں کسان عوام کو صنعت میں شراکت کے لیے متحرک (موبلائز) کیا گیا۔ 1957ء سے 1960ء کے درمیان، زراعت کے مقابلے میں صنعت کے نسبتی حجم کا تناسب 3.6 کے فیکٹر سے بڑھا جس کا سبب صنعتی پیداوار میں سریع اضافہ اورزرعی پیداوار کی پیداواری قدر میں 20 فیصد کمی تھی۔ “عظیم چھلانگ” کی پالیسیوں کو بھی 1961ء میں اسی طرح اچانک خاتمے کا سامنا کرنا پڑا۔ 1962ء تک زراعت کے مقابلے میں صنعت کا نسبتی حجم 1.6 کے فیکٹر سے گرچکا تھا۔ نئی پالیسیوں کی نتیجے میں، جنہوں نے معیشت کے دوسرے شعبوں پر بھاری صنعت کی ترقی کے غلبے کے مارکسی-لیننی اصول کے اطلاق کوبالآخر ختم کردیا تھا، 1962ء سے 1965ء کے دوران زراعت کے مقابلے میں صنعت کی پیداواری قدرکا تناسب بہت آہستگی سے بڑھا، 1.6 سے 1.68۔ (“چین کی سوشلسٹ معیشت کی مختصرتاریخ” سے، بیجنگ 1984)۔

جہاں تک صنعت کی ترقی کا تعلق ہے تو “عظیم چھلانگ” کے بعد کی سماجی اصلاحات کا جوہرہم پرواضح ہے۔ وسائل کو صنعت کی جانب اچانک دوبارہ منتقل کرنے سے پیدا ہونے والے معاشی عدم تناسبات (Economic Disproportions) کو”دوبارہ ٹھیک” کرنے کے بہانے پر مبنی 1960ء کی معاشی اصلاحات نے ان رجحانات کو واپس موڑنے پر توجہ مرکوز کی۔ صنعت کی ترقی سست کی گئی اور ہلکی صنعت کے مقابلے میں بھاری صنعت کے حجم کے تناسب کو بہتربنایا گیا تاکہ معیشت کے شعبوں کے درمیان رشتوں کے “ہم آہنگ” نظام کی عکاسی کی جا سکے۔

“زراعت اورصنعت کے درمیان اور ہلکی صنعت اوربھاری صنعت کے درمیان نسبتی تعلق بہترہوا۔ 1962ء میں زرعی پیداوار کی مجموعی پیداواری قدر بڑھ کر 43.000 ملین یوآن تک جا پہنچی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 6.2 فیصد زیادہ تھی، جبکہ صنعتی پیداوار 85.000 (ملین) یوآن پرآگئی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 16.6 فیصد کم تھی؛ زرعی پیداوارکے مقابلے میں صنعتی پیداوار کا تناسب، 1960ء میں، 4:1 اور 1962ء میں 2:1 تھا۔ صنعتی پیداوارمیں، ہلکی صنعت کی پیداوارکی قدر39.500 ملین یوآن تھی، جو 1961ء کے مقابلے میں 8.4 فیصد کم تھی، جبکہ بھاری صنعت کی پیداوار 45.500 ملین یوآن تھی، جو پہلے کے مقابلے میں 22.6 فیصد کم تھی؛ اوراس کا نسبتی حجم 1961ء میں 42.5:57.5 سے 1962ء میں 47.2:52.8 تک آگیا تھا۔” (“چین کی سوشلسٹ معیشت کی مختصرتاریخ” سے، بیجنگ 1984، ص 300)۔

“عظیم چھلانگ” کی پالیسیوں کو “ٹھیک کرنے” کے لیے 1960ء کی ابتداء میں کی گئی معاشی اصلاحات نے بھاری صنعت کے غلبے کے سوشلسٹ اصول کو مکمل طورپر ختم کردیا۔ اس کے بجائے، تناسبات اورمطلق اورنسبتی ترقیوں کا ایک نظام پیدا ہوا، جو اس نظام سے زیادہ قربی مشابہت رکھتا تھا جس کا مشاہدہ پروڈکشن کے سرمایہ دارطریقے میں کیا جاتا ہے۔ ٹیبل نمبر3، 1949ء سے 1975ء کے عرصے میں صنعت کی کل مجموعی پیداواری قدر کے مقابلے میں ہلکی اوربھاری صنعتوں کی مجموعی پیداواری قدر کے تناسب (یا نسبتی حجم) میں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ (“چین کی سوشلسٹ معیشت کی مختصرتاریخ” سے، بیجنگ 1984، ٹیبل 1 سے، ص 481)۔ ٹیبل کا چوتھا کالم ہلکی صنعت کے مقابلے میں بھاری صنعت کے نسبتی حجم کے تناسب میں تبدیلی کو ظاہرکرتا ہے (یا ہلکی صنعت کے مقابلے میں بھاری صنعت کی مجموعی پیداواری قدر کے تناسب کو)۔ یہ اعداد وشمارحیران کن ہیں: ہلکی صنعت کے مقابلے میں بھاری صنعت کے نسبتی حجم کے تناسب کی ترقی، 1952ء سے 1957ء کے دوران (0.55 سے 0.82 تک، یا 1.5 کے فیکٹرسے ہونے والی ترقی) 1957ء سے 1975ء کے عرصے جیسی ہے (0.82 سے 1.27 تک یا 1.55 کے فیکٹرسے ہونے والی ترقی)۔ دوسرے لفظوں میں، 1952ء سے 1957ء تک کے 5 سالہ عرصے میں بھاری صنعت کی نبستی ترقی اتنی ہی تھی جتنی کے بعد کے 18 سالوں میں! یہ مشاہدہ کرنا دلچسپ ہے کہ ہلکی صنعت کے مقابلے میں بھاری صنعت کے نسبتی حجموں کا تناسب ماؤزے تنگ کی وفات کے بعد کے سالوں میں بھی ایسا ہی رہا۔ یہاں یہ نوٹ کرنا چاہیے کہ یہ خاصیت اس دورکے لیے مخصوص ہے جس کا ہم زکرکررہے ہیں۔ بھاری معیشت کے غلبے کے سوشلسٹ اصول کا خاتمہ معاشی عمل میں لازمی طورپران تباسبات کی کمی یا انجماد کی طرف نہیں لے جاتا جن کا زکراوپرکیا گیا ہے۔ درحقیقت، ترقی یافتہ سرمایہ دارملکوں میں یہ تباسب وقت کے عمل کے ساتھ بڑھتا ہے، تاہم اس میں اضافے کا تناسب اس سے کم ہوتا ہے جو سوشلزم کا خاصہ ہے (جس طرح سوویت یونین، عوامی جمہوری ریاستوں، اورچین کے پہلے پنج سالہ منصوبے میں دیکھا گیا)۔

Leave a Comment