فیدل کاسترو: چین اور ماوزے تنگ کے بارے میں

فیدل کاسترو: چین اور ماوزے تنگ کے بارے میں

(امریکی صحافی باربرا والٹرز کو مئی 1977ء میں دیئے گئے ایک انٹرویو کے اقتباسات)

والٹرز: آپ چین کو دوست سمجھتے ہیں یا دشمن؟

کاسترو: میں چین کو امریکہ کا اچھا اتحادی سمجھتا ہوں۔

والٹرز: کیا اس سے وہ کیوبا کا دشمن بن جاتا ہے؟

کاسترو: اس حد تک جہاں تک امریکہ ہمارا دشمن ہے۔ لیکن تم نے چین کے ساتھ بہت اچھا سفارتی کام کیا ہے۔ تم نے اب تمام بنیادی مسائل پر انہیں اپنی طرف کر لیا ہے۔

والٹرز: کیا تم یہ کہہ رہے ہو کہ چین امریکہ کی جیب میں ہے؟

کاسترو: میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ چین امریکہ کی جیب میں ہے کیونکہ وہ اتنا بڑا ہے کہ کسی جیب میں نہیں آسکتا۔

والٹرز: امریکہ تائیوان کی مدد کرتا ہے۔ چین نہیں کرتا۔ امریکہ اسرائیل کی مدد کرتا ہے۔ چین نہیں کرتا۔ امریکہ نے اقوام متحدہ میں “صیہونیت نسل پرستی ہے” بیان کے خلاف ووٹ دیا۔ چین نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ وہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی طرح ووٹ نہیں کرتے۔ وہ یقینا۔۔۔

کاسترو: لیکن اگر اقوام متحدہ میں ان کے درمیان اختلافات ہیں مگر باقی تمام چیزوں میں وہ متفق ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ میں بھی جانتا ہوں اور تم بھی اور ویسے بھی تم اس سے خوش ہو۔

والٹرز: ہمیں خوشی ہے کہ چین سے ہمارے نئے تعلقات بن رہے ہیں جیسے ہم تم سے تعلقات بنا کر خوش ہوں گے۔

کاسترو: لیکن ہم چین جیسا برتاؤ نہیں کریں گے۔ اگر میں شمالی امریکیوں سے وعدہ کرتا کہ اگر پابندی ہٹالی جائے اور تعلقات قائم ہوں تو ہم چین کی طرح برتاؤ کریں گے اور امریکہ کے اتحادی بن جائیں گے تو یہ ایک سنگین دھوکہ ہوتا۔۔

والٹرز: مجھے چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کے بارے میں تمہاری سوچ بچکانہ لگتی ہے۔ چین خود کو ہمارا اتحادی نہیں سمجھتا۔ ہم صرف تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر رہے ہیں۔ اب تک تو ہمارے سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ تائیوان پر ہمارا اختلاف ہے۔ ہمارا تیل بالکل مختلف ہے۔ چین سے ہمارا تعلق کسی بھی طرح ویسا نہیں ہے جیسا تمھارا سوویت یونین سے ہے۔

کاسترو: نہیں، نہیں۔ یقینا نہیں۔ سوویت یونین سے ہمارا بین الاقوامیت پسند (انٹرنیشنلسٹ) تعلق ہے اور چین کا امریکہ کے ساتھ رجعتی (ری ایکشنری) تعلق ہے۔ سو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تم نے پنوشے کو تخلیق کیا۔ چین نے پنوشے کی مدد کی۔ تم نے فنلا (FNLA) اور ہولڈن رابرٹو کو تخلیق کیا۔ چین نے فنلا اور ہولڈن رابرٹو کی مدد کی۔ تم نے مبوتو کو تخلیق کیا۔ چین مبوتو کی مدد کرتا ہے۔۔۔ تم نے نیٹو کو بھی تخلیق کیا ناں؟

والٹرز: چین نیٹو کو سپورٹ نہیں کرتا۔

کاسترو: چین نیٹو کو سپورٹ نہیں کرتا۔ چین انگلش کنزرویٹو پارٹی کو سپورٹ کرتا ہے۔ چین جرمن فیڈرل ریپبلک کی رجعتی قوتوں کو سپورٹ کرتا ہے۔ میں سنجیدہ چیزیں کہہ رہا ہوں۔ چین کی سیکرٹ سروس پیرس میں فرانس، فیڈرل ریپبلک آف جرمنی، انگلینڈ اور امریکہ کی سیکرٹ سروسز سے ملتی ہے۔ چین گوانتانامو نیول سے امریکہ کی واپسی کی مخالفت کرتا ہے۔ چین وہی دلیلیں دیتا ہے جو امریکہ کیوبا پر حملے میں استعمال کرتا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ ان میں سے کچھ چینی لیڈر بعد میں خارج کر دیئے جائیں اور پھر وہ کہیں کہ وہ “چار کے گینگ” کا حصہ ہیں۔ چین کے بارے میں کچھ چیزیں مجھے سمجھ نہیں آتیں۔ اب وہ ماوزے تنگ کی بیوہ اور تین دوسروں کو اس سب کا الزام دے رہے ہیں جو چین میں ہوا ہے۔ لیکن دس سال سے زیادہ یہ چیزیں ہوتی رہی تھیں۔ ماؤزے تنگ کس طرح کا جینئس، یا خدا یا انقلابی تھا کہ اس کی بیوی اور چار اتاشیوں کا ایک گروہ وہ سب چیزیں کرنے کے قابل تھے جن سے موجودہ چینی قیادت لڑ رہی ہے؟

والٹرز: کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ ماؤزے تنگ ایک سچا انقلابی تھا؟

کاسترو: میں کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایک عظیم انقلابی لیڈر تھا۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ ماؤ نے اپنے پیروں سے اسے برباد کر دیا جسے اس نے کئی سال اپنے ذہن سے بنایا تھا۔ میں اس پر قائل ہوں۔ اور کسی روز چینی لوگوں کو اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ وقت کا سوال ہے۔ یہ میری عاجزانہ رائے ہے۔

والٹرز؛ تمھارے خیال میں ماؤ نے کیا تباہ کیا؟ اس کی غلطیاں کیا تھیں؟

کاسترو: پہلے۔ شخصیت پرستی۔ اس نے عملا چینی کمیونسٹ پارٹی کو تباہ کر دیا۔ اس نے وہاں پارٹی کے بہترین کیڈروں کے خلاف انسدادی مہم شروع کر دی۔ اس نے خدا بن جانا تسلیم کیا اور لوگوں کی انقلابی یکجہتی کو دھوکہ دیا۔ یہ ماؤ کی سنگین ترین غلطی تھی۔ میرا خیال ہے کہ وہ ایک غیر معمولی انسان تھا، جس نے عظیم صلاحیت کے ساتھ چین کو بدل دیا۔ پھر کیا ہوا؟ ان فعلیتوں میں حصہ لینے والا شخص عظیم طاقت حاصل کر لیتا ہے اور بعد میں اس طاقت کا غلط استعمال کرتا ہے۔ میں نے بھی یہ طاقت حاصل کی تھی لیکن میں نے کبھی اسے غلط استعمال نہیں کیا اور نہ ہی میں اسے اپنے ہاتھ میں رکھتا ہوں۔ میں نے اسے تقسیم کر دیا۔ میں نے اسے انقلابی اداروں کو دے دیا۔

والٹرز: اور اسٹالن کا کیا؟ لینن کا کیا؟ کیا ان کی شخصیت پرستی کا ہالہ بھی تھا؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ہیرو اور لیجنڈ بن گئے۔

کاسترو: کوئی اسٹالن کا موازنہ لینن سے نہیں کر سکتا۔ میرے خیال میں لینن ہر پہلو سے ایک غیر معمولی انسان تھا اور اس کی زندگی میں ایک بھی سیاہ دھبہ نہیں ہے۔ اسٹالن کی صلاحیتیں بھی غیر معمولی تھیں، لیکن اسٹالن کے دور میں شخصیت پرستی کا ارتقاء ہوا اور طاقت کا ناجائز استعمال بھی ہوا۔

والٹرز: کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ چین ایک حقیقی سوشلسٹ ملک ہے؟

کاسترو: میں یہی سمجھتا ہوں کہ چین ایک سوشلسٹ ملک ہے۔ وہاں کوئی بڑے زمیندار نہیں ہیں۔ وہاں کوئی سرمایہ دار نہیں ہیں۔ چین کا تضاد یہ ہے کہ اس کی گھریلو پالیسی انقلابی ہے مگر وہ ایسی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جو بین الاقوامی انقلابی تحریک کو دھوکہ دیتی ہے۔ مگر چونکہ اس کی گھریلو بنیاد نہیں ہے، چونکہ یہ مسخ شدہ پالیسی ہے، اس لیے مجھے اعتماد ہے کہ ایسا زیادہ عرصے نہیں رہے گا۔

مکمل انٹرویو کا لنک

http://www.idcommunism.com/2022/12/fidel-castros-interview-with-barbara-walters-1977.html?m=1

Leave a Comment