تحریر: مشتاق علی شان
تین جنوری کامریڈ کاکاجی صنوبرحسین مومند کاساٹھواں یومِ وفات ہے۔ کاکا جی کے نام سے معروف کامریڈ صنوبر حسین نہ صرف پختونخوا بلکہ پورے برصغیر میں محنت کار انسانوں کے طبقاتی مبارزے اورسامراج مخالف جدوجہد کا ایک ایسا استعارہ ہے جسے اس ملک کے محنت کش عوام اور مظلوموں سے چھپانے کی، اس کی یاد کے نقوش مٹانے کی اور اس کی جہدِ مسلسل کو فراموش کیے جانے کی شعوری کوششیں جاری ہیں۔
وہ ایک ایسے سیاسی کارکن اور مساعی پسند تھے جن کا شمار پشتو ادب کی ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے جہاں طبقاتی وقومی جدوجہد کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے وہاں نہ صرف خود کو پشتو زبان کے ممتاز ترقی پسند شاعر، ادیب، نقاد وصحافی کے طور پر بھی منوایا بلکہ مقصدیت کے حامل لکھاریوں کی ایک پوری کھیپ کی تیاری میں بنیادی کردار ادا کیا۔
جنوری 1897ء میں پشاور کے قریب ’’ کگہ ولہ ‘‘ ( ٹیڑھی نہر) نامی ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے صنوبر حسین نے پشاور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر معلمی کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ برطانوی استعمار کے قبضے تلے سسکتے بلکتے برصغیر کے عوام کی جہدِ آزادی نے انھیں جلد ہی اپنی جانب متوجہ کر لیا جس میں انھوں نے قلم اور بندوق، دونوں سے حصہ لیا،ل۔ 1924ء میں کامریڈ کاکا جی نے ’’زمیندارہ انجمن‘‘ کے نام سے دیہات کے سدھار کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک تنظیم بنائی اوراگلے سال پشاور میں اپنے ساتھیوں عبدالرحمن ریا اور عبدالعزیز خوش باش کے ساتھ مل کر ’’نوجوانانِ سرحد‘‘ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں برصغیر کی آزادی کے عظیم انقلابی شہید کامریڈ بھگت سنگھ، کامریڈ سکھ دیو اور کامریڈ بی۔ کے۔ دت کی قائم کردہ ’’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن‘‘ کے محاذ ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ کے نام سے کام کرنے لگی۔ یہی “نوجوان بھارت سبھا” کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین کا پہلا مستند سیاسی حوالہ ہے۔
دسمبر 1929ء کو لاہور میں اسی’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ اور ’’کیرتی پارٹی‘‘ کے سالانہ اجلاس میں اپنی دھواں دھار تقریر سے عوام کے دل موہ لینے والے کامریڈ کاکاجی صنوبر حسین اپریل 1930ء میں قصہ خوانی بازار کے قتلِ عام کے بعد انگریز سرکار کے ہاتھوں پہلی بارگرفتار ہوئے۔ اس وقت وہ ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ کے جنرل سیکرٹری تھے۔
اس حوالے سے حنیف خلیل لکھتے ہیں کہ ’’1930ء کے دوران انگریز حکومت کے خلاف برصغیر کے مختلف علاقوں میں آزادی کی تحریکیں زوروں پر تھیں۔ پشتونوں کے قبائلی علاقوں میں بھی سیاسی حریت پسندوں نے اپنی جدوجہد تیز کر رکھی تھی۔ وزیرستان میں فقیر ایپی (مرزا علی خان) اور وادی پشاور میں حاجی صاحب ترنگزئی، حاجی محمد امین، عبدالغفار خان اور کاکا جی صنوبر حسین نمایاں حریت پسند رہنماؤں میں شامل تھے۔ اسی سال قصہ خوانی پشاور کا خونی واقعہ رونما ہوا جو برصغیر کی سیاسی تاریخ کا ایک انمٹ باب ہے۔ جب 23 اپریل 1930ء کوانگریز سامراج نے پشتون رہنماؤں کے ایک بڑے جلسے پر گولیاں چلائی تھیں اور کئی لوگوں کو خون میں نہلایا گیا اور کئی کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔ کاکا جی صنوبر حسین ان دنوں نوجوان بھارت سبھا کے عمومی سیکریٹری (سیکریٹری جنرل) اور مولانا عبدالرحیم پوپلزئی اس کے صدر تھے۔(1)
گرفتاری کے بعد کاکا جی صنوبر حسین کو قلعہ بالاحصار میں رکھا گیا۔ اپنی گرفتاری سے قبل کاکا جی نے انقلابی نظریات کی تشہیر کے لیے ’’سرفروش‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کیا تھا جس کی ڈیکلریشن ضبط کر لی گئی۔ چھ ماہ قید کاٹنے کے بعد جب وہ رہا ہوئے تو پشاور سے اردو زبان میں نوجوان بھارت سبھا کے اردو، پشتو اور فارسی ترجمان اخبار ’’سیلاب‘‘ کا اجراء کیا۔ کاکا جی کی ادارت میں نکلنے والے اس اخبار کے ابھی تین پرچے ہی نکلے تھے کہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ یہ 1931ء کا سال تھا جب وہ گرفتار ی سے بچنے اور برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کے لیے برطانوی راج سے باہر ’’علاقہ غیر‘‘ چلے گئے اور آزادی کے ایک اور عظیم رہنما حاجی صاحب ترنگزئی کے ہمراہ برطانوی سامراج کے خلاف لڑنے لگے۔
اس جدوجہد کے دوران انھوں نے قبائلی علاقے سے ’’شعلہ‘‘ کے نام سے ایک پرچے کا اجراء کیا جس کے متعلق کاکا جی نے لکھا کہ ’’جیل سے رہائی ملی تو ہمیں قبائلی علاقے میں جلاوطنی کی مدت گزارنی پڑی۔ ایک دو سال نہیں پورے اٹھارہ سال۔ یہاں ہم نے قبائلیوں کی ترجمانی کے لیے ایک پرچہ ’’شعلہ‘‘ نکالا لیکن دشواری وہی تھی بلکہ اس سے بھی زیاد تھی۔ نہ ایڈیٹر تھا، نہ کاتب اور نہ پریس۔ ایڈیٹر تو میں تھا ہی، کاتب و پریس مین بھی بننا پڑا۔ میں پرچہ مرتب کرتا، اس کی کتابت کرتا، پھر ہینڈ پریس پر خود ہی چھاپتا۔ قبائلی عوام میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا جذبہ بیدار کرنے اور انھیں جوش دلانے کے لیے مجھے نظمیں بھی لکھنی پڑتیں جو اس پرچے میں شائع ہوتیں تھیں۔‘‘(2)
برطانوی راج کا سورج غروب ہونے کے بعد کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین پشاور واپس آ گئے اور یہاں سے اپنے ایک دیرینہ ہمدم اور انگریزی استعمار کے ساتھ ایک مسلح جھڑپ میں شہید ہونے والے تحریکِ آزادی کے مجاہد صاحبزادہ محمد اسلم کی یاد میں ’’اسلم‘‘ کے نام سے پشتو زبان میں ایک خالص ادبی مجلے کا اجراء کیا جسے پشتو صحافت میں ایک سنگِ میل تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسلم کے سولہ شمارے ہی نکل سکے تھے۔ اس کا آخری شمارہ اکتوبر 1952ء میں جاری ہوا کیوں کہ انگریزوں کے ہاتھوں حوالہ زنداں اور جلاوطن ہونے والے کامریڈ کاکاجی صنوبر حسین پاکستان کے سامراج نواز حکمرانوں سے بھی قید وبند کی سزا کے مستحق ٹھہرے تھے۔ خود کاکا جی کی وفات کے بعد ان کی یاد میں ان کے نظریاتی ساتھی اور ’’مزدور کسان پارٹی‘‘ کے بانی کامریڈ افضل بنگش نے پشاور سے ’’صنوبر‘‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار مجلہ پشتو اور اردو زبان میں جاری کیا تھا۔
کامریڈ بھگت سنگھ کی طرح کامریڈ کاکاجی بھی گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد میں یقین نہیں رکھتے تھے جس کے پختونخوا میں خان عبدالغفار خان (باچا خان) داعی تھے۔ مارچ 1930ء میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلباء سے اپنے خطاب کے دوران باچا خان نے کہا تھا کہ ’’یہ وطن ہمارا ہے لیکن انگریز سامراج اس پر غاصب ہو گیا ہے۔ انگریز کو چاہیے کہ وہ ہمارا وطن چھوڑ کر واپس چلا جائے اور ہمیں سکھ کا سانس لینے کا موقع دے۔‘‘ اس موقع پر کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین نے باچا خان کی تقریر کے بعد طلباء سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’باچا خان کا موقف یہاں تک تو درست ہے کہ انگریز ظالم ہیں اور ان کو یہ وطن چھوڑنا چاہیے لیکن باچا خان نے یہ نہیں کہا کہ انگریز کے جانے کے بعد اس سرمایہ دار طبقے کا کیا علاج ہو گا جو ظالم کی پشت پناہی کرتا اور مظلوم ومفلس عوام کا خون چوستا ہے۔ ہمیں ہر ظالم کے خلاف مسلح ہو کر لڑنا ہو گا خواہ وہ انگریز ہو یا انگریزوں کا پروردہ سرمایہ دار طبقہ۔” (3)
گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’’وہ ( پشتون) گاندھی کے نامراد فلسفہ عدم تشدد کے ایسے مرید ہوئے کہ ہاتھ پیر ہلانے سے بھی گئے اور انگریز ہر قسم کا جبر وستم من مانے طریقے سے کرتے۔ سب پشتون گاندھی کے مرید نہیں تھے۔ غریب طبقہ ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لیے تیار تھا مگر اس وقت ان کی قیادت خوانین کر رہے تھے۔ اور خان کبھی خنجر یا بندوق سے نہیں مرے، اس لیے کہ یہ بہت چالاک ہوتے ہیں، مالدار ہوتے ہیں، خود کو بچاتے ہیں اور دوسروں کو سامنے کرتے ہیں۔‘‘ (4)
کامریڈ کاکا جی کا یہ کہنا کہ سب پشتون نہ تو گاندھی کے مرید تھے اور نہ ہی ان کے فلسفہ عدم تشدد پر یقین رکھتے تھے، بالکل درست تھا جس کی تائید تاریخی شواہد سے بھی ہوتی ہے۔مثال کے طور پر بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی شہادت کا انتقام لینے کے لیے ایک انگریز کو قتل کرنے کی پہلی کارروائی پشاور کے ایک انقلابی نوجوان عبدالرشید نے کی تھی جس کی پاداش میں اسے پھانسی کی سزا ہوئی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا ایک انقلابی نوجوان پریتم خان بھی اسی پھانسی سے متاثر ہو کر زینتِ دار بنا تھا جس کا بدلہ لینے کے لیے دو گورے سپاہیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح مردان کے غلہ ڈھیر کے باسی شہید ہری کشن کو اگر پختونخوا کا بھگت سنگھ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن آرمی کے اس سرباز کا خاندان مردان کے کسانو ں کی تحریک جو غلہ ڈھیر تحریک کے نام سے مشہور ہوئی، شروع کرنے میں پیش پیش تھا۔ ’’سامراج صرف بندوق کی زبان ہی سمجھتا ہے‘‘ کے قائل ہری کشن نے 23 دسمبر 1930ء کو پنجاب کے گورنر سر جیفری پر گولیاں برسائی تھیں۔ اس کارروائی میں گورنر بچ گیا تھا البتہ ایک انگریز عورت زخمی اور ان کا ایک دیسی کارندہ تھانے دار چنن سنگھ مارا گیا تھا۔ اس انقلابی کارروائی کی پاداش میں ہری کشن نے 9 جون 1931ء کو میانوالی جیل میں پھانسی کی سزا پائی تھی۔ اس کا چھوٹا بھائی بھگت رام تلواڑ بھی جنگِ آزادی کے متوالوں میں سے تھا اور اس کے کامریڈ کاکاجی سے قریبی مراسم تھے۔ کامریڈ کاکاجی کے انتہائی عزیز ساتھی صاحبزادہ محمد اسلم انگریزوں کے ساتھ ایک معرکے میں گولی کا نشانہ بنے جنھیں زخمی حالت میں علاج کے لیے کاکا جی افغانستان لے گئے لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور 26 جنوری 1934ء کو وطن کی آزادی کے خواب آنکھوں میں لیے اس جہاں سے رخصت ہوئے
اس زمانے میں سامراجی تشدد کے جواب میں انقلابی تشدد کے حوالے سے پشاور کے ایک اور مزاحمتی کردار رام سرن نگینہ کا ایک پوسٹر ’’لال جھنڈا‘‘ ملاحظہ کیجیے جو پشاور کے چوک یادگار میں چپکے سے لگایا گیا تھا اور اس نے گورے حاکموں کی صفوں میں زلزال بپا کر دیا تھا: ’’لال جھنڈا سرحد کے لوگوں کا ترجمان ہے۔سرحد کے لوگ چاہتے ہیں کہ انگریزوں کو جلد از جلد ہندوستان سے نکال دیا جاوے۔ آزادی لینے کا طریقہ صرف عدم تشدد ہی نہیں ہو سکتا بلکہ تشدد کا ہونا بھی ضروری ہے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ جس سرکار نے بے گناہ نوجوانوں کو پھانسی پر لٹکا دیا، گولیوں کا شکار بنا دیا، اس کے آگے ہاتھ جوڑنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ سرحد کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ تمام کام کاج چھوڑ کر حکومت کے خلاف بغاوت کا پرچم اٹھائیں، خفیہ پوسٹر شائع کریں، بم بنائیں، ڈاکے ماریں، مفروروں کو پناہ دیں، باغی اڈے قائم کریں، خفیہ پریس تیار کریں۔ یہ پریس کھر یا مٹی اور گلیسرین سے بنایا جا سکتا ہے۔ انقلابیوں کو چاہیے کہ وہ خفیہ پوسٹر سرکار کے ہر بڑے ادارے میں پہنچائیں۔ انقلاب زندہ باد۔‘‘(5)
گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد سے اختلاف اور برصغیر کی آزادی کی مسلح انقلابی تحریکوں سے گہری وابستگی کے باوجود کامریڈ کاکاجی تشدد کو بہر صورت کوئی اٹل یا حرفِ آخر اصول نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ بجا طور پر مخصوص حالات میں سیاسی جدوجہد اور حکمتِ عملی کا سوال تھا۔ وہ انقلابی نظریات کی روشنی میں اس حقیقت کو پا گئے تھے کہ انقلابی قوتوں کو جدوجہد کی ہر صورت، مسلح و پرامن، پر قادر ہونا چاہیے اور پھر اپنے معروض کے مطابق ان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مصروفِ جہد ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے 1951ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا جس میں انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان کا مقابل علاقے کا ایک بڑا زمیندار ارباب نور محمد خان تھا جس نے انتخابات میں انھیں ہرانے کے لیے ’’کمیونسٹ‘‘ ،’’سور کافر‘‘( سرخ کافر) جیسے پروپیگنڈوں سے لے کر ہر ایک حربہ آزمایا۔
طبقات میں منقسم دنیا اور استحصالی طبقات کے مکروہ مفادات اور اسے خوش نما پردوں میں ملفوف پیش کرنے والے طبقاتی دشمنوں کے کردار پر وارد کامریڈ کاکاجی صنوبر حسین اپنی ایک نظم میں محنت کار عوام کو طبقاتی شناخت کا درس یوں دیتے ہیں
میرے ادیب بھائی
یہ ایک الگ طبقہ ہے
یہ ایک الگ مدرسہ ہے
تمہاری آرزو الگ ہے
ان کانشہ الگ ہے
ہمارا اپنا کعبہ ہے
ان کا کعبہ الگ ہے
ان کامذہب حکومت کرنا
ان کا مذہب سلطنت ہے
وہ اعلی حضرت کہلاتے ہیں
وہ عالی نسب کہلاتے ہیں
کیا ہوا اگر انہوں نے
اپنا نام مسلمان رکھا ہے
یا پٹھان اور افغان رکھا ہے
کامریڈ کاکاجی سرمایہ دار طبقے کو ایسی جوئیں قرار دیتے تھے جو ہمیشہ دوسروں کے خون پر پلتی تھیں اور ان کے بقول ’’پشتون پیدائشی سوشلسٹ ہے۔ یہ ہر کام شراکت سے کرتا ہے۔ یہ اپنے دشمن کو بھی کمزور نہیں دیکھنا چاہتا۔ پشتون کا حجرہ ہزاروں سال سے انسان دوستی کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ یہ تو مسجد میں بھی جاتا ہے تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ گلی، محلے، گاؤں کے حالات سے آگاہ ہوسکے۔‘‘(6)
کامریڈ کاکا جی نوجوان بھارت سبھا، کیرتی پارٹی کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے بھی وابستہ رہے اور ان کے برصغیر سے لے کر افغانستان اور سوویت یونین تک کے انقلابیوں اور سامراج مخالف مزاحمت کاروں سے پرجوش تعلقات تھے جن میں کامریڈ اسٹالین اور دیگر بالشویک رہنماؤں کے علاوہ افغانستان کے عظیم سامراج مخالف رہنما امان اللہ خان بھی شامل تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والے بنگال کے عظیم انقلابی رہنما اور ’’آزاد ہند فوج‘‘ کے بانی جناب سبھاش چندر بوس( نیتا جی) پر جب برصغیر کی دھرتی تنگ کر دی گئی اورانھوں نے افغانستان ہجرت کا فیصلہ کیا توان کی مدد کرنے والے پشتون حریت پسندوں میں نوشہرہ کے عباد خان، مردان کے بھگت رام تلواڑ ( شہید ہری کشن کے بھائی) کے علاوہ کاکا جی صنوبر حسین نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کا تذکرہ بعد ازاں بھگت رام تلواڑ نے انگریزی زبان میں لکھی اپنی کتاب “پٹھان سرزمینوں کے تلواڑ اور سبھاش چندرا کا عظیم فرار” اور تحریکِ آزادی کے ایک اور کردار چرن سنگھ نے اپنی گورمکھی میں لکھی کتاب ’’وہ بھی دن سن‘‘ ( وہ بھی دن تھے ) میں کیا۔
کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین ایک عظیم سامراج مخالف مبارز تھے جن کی جدوجہد روز روشن کی طرح عیاں ہے لیکن وہ ایک شیطان کو شکست دینے کے لیے دوسرے شیطان کی مدد پر بالکل یقین نہیں رکھتے تھے اور اسے بھٹی سے نکل کر تندور میں گرنے کے مترادف قرار دیتے تھے۔ اس حوالے سے حنیف خلیل اپنی کتاب ’’کاکا جی صنوبر: شخصیت اور فن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ چونکہ کاکا جی صنوبر حسین کمیونسٹ پارٹی، کیرتی پارٹی، نوجوان بھارت سبھا اور دیگر مزدور کسان پارٹیوں سے منسلک تھے اور انگریز سامراج کے شدید مخالف تھے اس لیے جرمنی اور جاپان اپنے مقصد کے لیے برصغیر میں کاکا جی صنوبر حسین کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی بھی یہی کوشش رہی۔‘‘(7) جب کہ پشتو زبان کے ممتاز ترقی پسند شاعر، ادیب اور دانشور قلندر مومند کے بقول ’’موجودہ دور میں آج تک میں نے اتنا دیانتدار سیاست دان نہیں دیکھا۔ ہٹلر سے ایک بڑی غلطی ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا چونکہ کاکا جی انگریزوں کے سخت مخالف تھے، اس کو اپنا ہمنوا بنا لوں گا۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ ہزاروں لاکھوں پونڈ جو وہ کاکا جی کو بھیجتے، کاکا جی وہ رقم انڈیا کی کمیونسٹ پارٹی کو بھجوا دیتے۔‘‘(8)
اگست 1947ء کے داغ داغ اجالے کی شب گزیدہ سحر کے بعد کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین پشاور لوٹ آئے۔ گوتاجِ برطانیہ کے سپوت رخصت ہو چکے تھے لیکن وہ اپنے ایسے جانشین یہاں چھوڑ گئے جن کے نزدیک قومی وطبقاتی جبر کے خلاف اور جمہور و جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنا اور آواز بلند کرنا شجرِ ممنوعہ تھا اور ہے۔ اس زمانے میں کامریڈ کاکا جی سیاست کے ساتھ ساتھ پشتو زبان وادب اور صحافت کی ترقی وترویج کے لیے ایک بار پھر مصروفِ جہد ہو گئے۔ وہ ان دنوں تقسیم سے قبل وجود میں آئی ادبی تنظیم ’’ادبی ٹولہ پشاور‘‘ سے بھی منسلک رہے جسں میں مختلف الخیال وطن پرست، سامراج مخالف، ترقی پسند اور انقلابی ادبا شامل تھے۔ اس ادبی تنظیم کے متعلق اس زمانے میں خفیہ پولیس کی 11 اگست 1950ء کی یہ رپورٹ ملاحظہ کیجیے: ’’جہاں تک ادبی ٹولہ کا مطالعہ ہوا ان میٹنگوں میں سوائے شعر وشاعری اور اس کے اردو انگریزی ترجمہ کے اور کچھ نہ ہوتا۔ اس پارٹی نے کبھی بھی پاکستان کے فلاح وبہبود پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ نہ ہی اس کی کار گزاریوں پر کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی انھوں نے کبھی دشمن ملک کے پروپیگنڈا کا کوئی منہ توڑ جواب دیا۔ نہ ان کے خلاف کسی قسم کی قرارداد پاس کی۔ میرے خیال میں ان کے سامنے پاکستان کا ہونا یا نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس ٹولہ میں اکثر ایسے لوگ شامل ہیں (مثلاََ نصر اللہ نصر، حکیم محمد اسلم سنجری، دوست محمد کامل، ولی محمد طوفان، میر مہدی شاہ، فارغ بخاری، صنوبر حسین، مالک رسالہ اسلم، فضل حق شیدا وغیرہ) جن کا پاکستان سے کوئی مفاد وابستہ نہیں اور صرف دھوکا دے کر ضرورت کے وقت اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں ہمیشہ پاکستان کے خلاف ہیں یا پاکستان دشمن ملک کے ایجنٹوں سے ناطہ رکھا ہے۔ اس لیے اس ٹولہ پر کسی وقت بھی کوئی اعتبار کرنا درست ثابت نہ ہو گا۔‘‘(9)
اسپیشل برانچ کی اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ملک کے وجود میں آتے ہی یہاں مقتدرہ قوتوں نے ہر حقیقی وطن دوست، جمہوری اور انقلابی مخالف آواز یا اس کا امکان رکھنے والی قوتوں کے خلاف جبر کے موسم میں اس غیر جمہوری، آمرانہ خصائل کے حامل پودے کے بیج بوئے جو آج ستر سال بعد ایک قد آور درخت میں تبدیل ہو کر پورے ملک پر سایہ فگن ہے اور اس کی جڑیں دور دور تک پیوست ہیں۔ آج بھی یہاں جو قومی، طبقاتی، جمہوری اور عوام کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو ’’غدار‘‘ اور ’’ایجنٹ‘‘ ہونے کے سرٹیفیکٹ جاری کیے جاتے ہیں یہ جبر کے اسی چلن سے یادگار اور اس کا تسلسل ہے۔
کامریڈ کاکا جی 1948ء میں پشاور میں فارغ بخاری کی کوششوں سے ’’انجمن ترقی پسند مصفین‘‘ کی تنظیم سازی میں معاونت اور بعد ازاں سرپرستی کرتے رہے۔ جب نام نہاد راولپنڈی سازش کیس کو بنیاد بناتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور اس کی تنظیموں پر پابندی لگی اس وقت پختونخوا میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین اور جنرل سیکریٹری فارغ بخاری تھے اور یہ اسی حیثیت سے گرفتار کیے گئے۔ ترقی پسند تحریک سے کاکا جی کی وابستگی اور خدمات کے حوالے سے پشتو زبان کے ممتاز ترقی پسند شاعر، ادیب اور دانشور جناب سلیم راز لکھتے ہیں کہ ’’برصغیر جنوبی ایشیاء کی آزادی کی تحریک کے ایک نامور رہبر اور پشتو زبان کے ایک بڑے ادیب اور دانشور کاکا جی صنوبر حسین مومند سرحد کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر رہ چکے ہیں اور پشتو زبان کے سارے بڑے اور معروف ادبا، شعرا نے کاکا جی کی قیادت میں ترقی پسند ادبی تحریک کے ذریعے ظلم وجبر، استحصال، آمریت، سامراجیت، جہالت، توہم پرستی اور غربت کے خلاف عوام میں شعور پیدا کیا اور انھیں اپنے حقوق کا احساس دلایا۔‘‘ (10)
’’آزاد وطن‘‘ کے حکمران طبقات اور مقتدرہ قوتوں کے لیے نہ تو کامریڈ کاکا جی کے سیاسی وادبی نظریات وجدوجہد قابل قبول تھی اور نہ ہی ان کی صحافتی سرگرمیاں۔ یہی وجہ تھی کہ 1952ء میں وہ گرفتار ہوئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں قید کے دوران بظاہر ایک ذہنی مریض قیدی نے حملہ کر کے انہیں شدید زخمی کر دیا اور وہ کوئی مہینہ بھر اسپتال میں زیر علاج رہے۔ لیکن اس حملے کے اصل محرکات کبھی سامنے نہ آسکے کہ یہ واقعی ایک ذہنی طور پر معذور قیدی کا مجنونانہ فعل تھا یا کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین کی جیل میں جان لینے کی باقاعدہ سازش تھی؟ اکتوبر 1958ء میں ملک پر پہلا مارشل لاء ایوب خان کی فوجی آمریت کی شکل میں مسلط ہوا جس کے نتیجے میں کامریڈ کاکا جی بھی گرفتار ہوئے۔ انھوں نے کچھ عرصہ راولپنڈی کی جیل میں گزارا پھر لاہور کے شاہی قلعہ منتقل کر دیے گئے۔ وہی شاہی قلعہ جہاں گورے سامراجیوں نے کبھی کامریڈ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سمیت آزادی کے کئی ایک پروانوں کو قید اور سولیوں کی نذر کیا تھا۔انگریز بہر حال کاکاجی کو جس شاہی قلعے کے عقوبت خانے تک کھینچ لانے میں ناکام ونامراد رہے یہ کا م جنرل ایوب خان بخوبی کر گیا۔ بعد ازاں اسی ایوب خان کے آمرانہ دور میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنما اور کاکاجی کے فکرو فلسفے کے داعی کامریڈ حسن ناصر کو بدترین تشدد کرتے ہوئے اسی شاہی قلعہ میں شہید کیا گیا۔ کامریڈ کاکاجی 1959ء میں رہا کر دیے گئے۔ اس وقت تک ان کے دمے کا مرض اور دل کی تکلیف کافی بڑھ چکی تھی اور ان کی صحت تباہ ہو چکی تھی۔
سن 1953ء میں’’اولسی ادبی جرگہ‘‘ (عوامی ادبی جرگہ) کے نام سے پشتو زبان وادب میں ترقی پسند ادیبوں کی تنظیم کامریڈ کاکا جی کا ایک بڑا کارنامہ تھا۔ یہ تنظیم دراصل انجمن ترقی پسند مصفین کا تسلسل تھی جس سے حمزہ شنواری، دوست محمد کامل، ولی محمد طوفان، اجمل خٹک، سیف الرحمن سلیم، فارغ بخاری، رضا ہمدانی، ہمیش خلیل، قلندر مومند، خاطر غزنوی، ایوب صابر اور افضل بنگش سمیت پشتو ادب وسیاست کے کئی ایک بڑے نام وابستہ تھے۔ ادب کے حوالے سے کامریڈ کاکاجی کے کردار کو سلیم راز یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’کاکا جی نے ادبی میدان میں ایک بڑا انقلابی کردار ادا کیا اور انھوں نے پہلی بار پشتو شعر وادب میں شعوری طور پر ترقی پسندی کو سائنسی بنیادوں پر داخل کیا۔ یہ آج جو پشتو ادب میں جدید اور ترقی پسند رحجانات موجود ہیں یہ کاکاجی کی شعوری کوششوں کی برکات ہیں۔ یہ آج جو پشتو ادب میں انقلاب اور ترقی پسندی کے نام پر بڑے بڑے نام نظر آتے ہیں ان کی ذہنی پرداخت اورتربیت میں کاکا جی کا ہاتھ ہے۔ آج اگر پشتو زبان میں تنقیدی اور سماجی شعور سے بھرا ادب موجود ہے تواس کی بنیاد کاکا جی نے رکھی ہے۔‘‘ (11)
مارکس، اینگلز، لینن اور اسٹالین کی تعلیمات سے ذہن منور رکھنے والے کامریڈ کاکا جی پشتو زبان کے علاوہ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبان میں مہارت رکھتے تھے۔ ادب برائے زندگی اور فن میں مقصدیت کے قائل نے فرانس کی حقیقت نگاری سے لے کر برطانیہ کی رومانوی تحریک اور پھر روس کے انقلابی ادبا کی تحریروں کا بخوبی مطالعہ کر رکھا تھا اور اسی سے طبقاتی جدوجہد اور سماجی نابرابری کے خاتمے کا وجدان پایا تھا۔ ادب میں مقصدیت اور حقیقت نگاری کے علم بردار کاکا جی کے الفاط میں ’’داخلی شاعری کا زمانہ لد چکا ہے۔ یہ شعوری دور ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ خالص ادب کے مدعی بھی ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ادب میں صرف نعرے بازی کا میں بھی مخالف ہوں لیکن فن پر ادیب یا شاعر کی گرفت مضبوط ہو تو وہ آفاقی ادب پیدا کر سکتا ہے۔” (12)
کامریڈ کاکا جی کی ادبی خدمات کی طویل فہرست میں 13 غیر مطبوعہ کتابیں بھی شامل ہیں جن میں ان کے مقالات، شعری مجموعے، پشتو ادبیات کی تاریخ،ںحضرت ابو زر غفاری کی سوانح، شاہ ولی اللہ کی عمرانیات و معاشیات کے علاوہ رباعیاتِ عمر خیام کا پشتو ترجمہ، ابنِ بطوطہ کے سفر نامے اور فتنتہ الکبریٰ کے پشتو ترجمے کے علاوہ کئی ایک مضامین و انشایئے شامل ہیں۔ کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین اس خطے کی وہ انقلابی شخصیت ہیں جنھوں نے برصغیر کی آزادی کی تحریک اور خطے میں کمیونسٹ تحریک اور ادب کے محاذ پر ترقی پسند فکر کی ترویج میں لازوال کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے یہ خطہ ان کا جتنا مقروض ہے اس کی ادائیگی کی مقدور بھر کوشش بھی نہیں کی گئی۔ پاکستان کے سرمایہ دار، جاگیر دار اور مذہبی رجعت پسند حکمرانوں سے تو خیر شکوہ بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن کامریڈ کاکاجی کے چاہنے والے، ان سے رشتہ فکر و نظر استوار رکھنے والے ان کی تصانیف کی اشاعت کی جانب بھی توجہ نہ دے سکے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پشتون قوم پرست لکھاری حیات روغانے کی کاوشوں سے دبئی کے پشتون ادبا کی تنظیم “د اماراتوں پختو ادبی ٹولنہ مرکز دوبئی” نے 2016ء میں پشاور سے ’’مقالے‘‘ کے نام سے کامریڈ کاکا جی کے مقالات کا پہلا حصہ شائع کیا ہے۔
اس کتاب میں فیصل فاران ’’د کاکاجی صنوبر دا مقالے‘‘ ( کاکاجی کے یہ مقالے) کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’’نہایت تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ قلندر مومند اور محترم سلیم راز تک جو بزرگ ان ( کاکا جی) کی فکر کے دعویدار اور شخصیت کے مقلدین سمجھے جاتے ہیں، کیونکر ان کی موجودگی میں ان کی غیر مطبوعہ تصانیف ایک طویل عرصے سے ایسے ہی رکھی ہوئی تھیں اور آج اگر اس کی اشاعت ہو رہی ہے تو وہ بھی ایک قوم پرست لکھاری حیات روغانے کی کوششوں اور دلچسپی کے سبب ہو رہی ہے جو نہ بیورو کریٹ ہے، نہ پروفیسر ہے اور نہ ترقی پسند مصنفین کے ساتھ کوئی عملی تعلق رکھتا ہے۔‘‘ (13)
فیصل فاران کا یہ شکوہ بجا ہے بلکہ ہم تو اس بات کو بھی کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین کی فکر کے برعکس بلکہ اس سے انحراف سمجھتے ہیں کہ ان کے نام اور یاد سے موسوم ادبی سرگرمیوں، سیمیناروں وغیرہ میں جمعہ خان صوفی ایسی بددیانت اور اتہام بازی کے لیے مشہور شخصیات کو اسٹیج پر بٹھایا جائے یا انھیں ایوارڈ سے نوازا جائے جس نے تحریکِ آزادی کے ایک قابل قدر رہنما عبدالغفار خان اور بلوچستان کے قومی رہنماؤں سے لے کر سوشلسٹ افغانستان کی قیادت تک کو اپنے تعصب اور شاید ’’عائد کیے گئے فریضے‘‘ کی تکمیل کے لیے ’’فریبِ ناتمام‘‘ جیسا الزمات پر مبنی جھوٹ کا پلندہ تحریر کر کے نظریاتی انحراف، بے شرمی اور احسان فراموشی کی ساری حدیں پار کیں۔ لیکن یہاں ترقی پسند دانشور اور محقق پائند خان خروٹی بھی اپنے مقالے ’’برصغیر کی طبقاتی جدوجہد کا فراموش کردار‘‘ میں ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں جس سے صرفِ نظر محال ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خیبر پختونخوا کی سابقہ حکومت کے دور میں باچاخان کو تو سرکاری نصاب میں شامل کیا جو ایک خوش آئند عمل ہے، جبکہ باچاخان مرکز کے تعاون سے قومی ہیروز کے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں مسلم لیگی رہنماؤں تک کو شامل کیاگیا، لیکن کاکا جی صنوبر حسین مومند کو اس قومی ہیروز کی فہرست سے خارج کیا گیا۔ اس کے علاوہ پشاور، کابل، کوئٹہ اور قندھار وغیرہ کی اکیڈمیوں اور ادبی حلقوں نے آج تک کاکا جی کی شخصیت، خدمات، کارناموں اور قربانیوں پر قومی سطح پر کسی سیمینار کاانعقاد بھی نہیں کیا۔‘‘(14)
آج جب قومی اور طبقاتی جبر نے بدترین صورت اختیار کر لی ہے، جمہور اور جمہوریت کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا ہے، خطے میں سامراجی یلغار نت نئی شکلوں میں جاری ہے، مذہبی انتہا پسندی کا عفریت خون آشام تو خیر ہمیشہ سے تھا، لیکن اب اس نے اپنے ایسے ایسے موئید پیدا کر لیے ہیں جنھیں دیکھتے ہوئے ماضی قریب کی جنونیت بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہے، شعرا ،ادبا، دانشوروں نے ان مسائل پر لکھنا اور بولنا تو ایک طرف رضا کارانہ طور پر سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے اور صحافت پابندِ سلاسل ہے، ایسے میں کامریڈ کاکا جی صنوبر حسین مومند کے انقلابی افکار اور کردار مزاحمت کاروں کو روشن راستے دکھاتا ہے کہ،
مفلس ونادار محنت کشوں کے
مقدس پسینے کی قسم
مظلوموں کی آہ وفریاد کی قسم
بیوہ بہنوں کی
سسکیوں کی قسم
پیمانہ ء صبر لبریز ہو چکا
حق بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا
حوالہ جات:
(1)خلیل ،حنیف ، کاکا جی صنوبر :شخصیت اور فن ، اکادمی ادبیات پاکستان ،اسلام آباد، 2006ء ،ص:20
(2) مہمند ، صنوبر حسین کاکا جی، گفتگو فارغ بخاری مشمولہ، کاکا جی صنوبر حسین خان مہمند مرحوم دانشوروں کی نظر میں، مرتبہ ،انور خان دیوانہ ۔اکتوبر 1993،ص:15
(3) عبدالباقی ،سوانح کاکا جی صنوبر حسین ( غیر مطبوعہ) ص:5
(4)صنوبر حسین، صاحبزادہ محمد اسلم مومند، مشمولہ ماہوار پختو اسلم، ( س ن) ص:4,5
(5) نگینہ ، رام سرن، اٹک پار کی یادمیں، ترتیب وتعارف احمد سلیم ، فکشن ہاؤس ،لاہور ،2009، ص:73
(6)مہمند ، صنوبر حسین ، کاکا جی، انٹرویو ،سالار فریدون خان مشمولہ،کاکا جی صنوبر حسین مومند مرحوم ، دانشوروں کی نظر میں ،ص:62
(7)خلیل ،حنیف ، کاکا جی صنوبر :شخصیت اور فن ، اکادمی ادبیات پاکستان ،اسلام آباد، 2006ء ،ص:30
(8) ایضاََ، ص: 31
(9) Adabi Tola Peshawar, Special branch recorde, File No, 12/4/2-N, Bondle No 51.
(10) راز، سلیم، ترقی پسندی ، پختو او پختونخوا،مشمولہ ،پختو ،پرون ،نن اور سبا،ص: 68
(11) راز، سلیم ، تنقیدی کرخی، ص:55
(12)مہمند، صنوبر حسین کاکا جی ،دَکامل صیب پہ تنقید باندی تنقید ،مشمولہ اسلم، مئی1951،ص:20
(13) فاران ، فیصل ، د کاکا جی صنوبر دا مقالے، مشمولہ ، مقالے ، کاکا جی صنوبر حسین مومند، پشاور ،2016،ص:ح
(14) خروٹی ، پائند خان ،برصغیر کی طبقاتی جدوجہد کا فراموش کردار نیا زمانہ،3جنوری،2017