کیا کوئی تیسری فلسفیانہ روش ممکن ہے؟
دنیا میں دوجوہروں ، یعنی روحانی اورمادی جوہروں کے وجود کو تسلیم کرنے والے نظریے کو ثنویت کہتے ہیں۔یہ بظاہر مادیت پرستی اورتصوریت پرستی کے درمیان کی کوئی چیز ہے۔یہ کچا پکا، نیم دروں،نیم بروں، فلسفہ میکانیکی مادیت کے نقائص اوربے آہنگیوں کا ثمرہے۔بعض اوقات تصوریت پرست بھی نظریہ ثنویت کی جانب پھسل جاتے ہیں۔چونکہ ان کو بھی سائنس اوردنیاوی حقیقتوں کو مدنظررکھتے ہوئے ان کا احاطہ کرنا ہوتا ہے اوروہ بھی مادی دنیا کے وجود سے مکمل طورپرانکاری نہیں ہوسکتے۔
تاہم ثنویت پرستی، مادیت پرستی اورتصوریت پرستی کے شانہ بہ شانہ کوئی”تیسری فکری روش” یا فلسفے کا کوئی تیسرا رجحان نہیں۔اساسی مسائل کے حل کے دوران اس رجحان کے نمائندےتصوریت یا مادیت کی جانب مائل ہوجاتے ہیں۔بعض اوقات ثنویت کے ذریعے مادیت کو بظاہر ردکرتے ہوئے اسے خفیہ طورپرقبول کرکےاپنے فکری نظام میں سمولانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس قسم کی خفیہ،دزدیدہ مادیت پرستی،فطری علوم کے متعدد سرمایہ دارانہ ماہرین کا مابہ الاامتیاز ہے۔سترہویں صدی کے فرانسیسی مفکر،رینے دیکارت کے نظریات، ثنویت کا نادرنمونہ ہیں۔اس کا خیال تھا کہ دنیا میں دو ہی بنیادی جواہر ہیں۔مادی،جس کا بنیادی وصف میکانیت ہے۔اوردوئم ذہن ، جس کا بنیادی وصف فکرہے۔باالفاظ دیگرجسم اورروح دو بنیادی جواہر ہیں۔یہ جواہر ہراعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اوران کے مابین کوئی ربط وتعلق نہیں۔تاہم بالآخردیکارت اس تصوراتی نتیجے پرپہنچا کہ ذہن و مادہ دونوں زیادہ آفاقی اوربنیادی اصول یعنی خدا میں متقارب ہوجاتے ہیں۔ثنویت کے مطابق انسان بھی جسم اورروح کے تاریک اورروشن اصولوں کا اجتماع ہے۔اس نقطہ نگاہ سے انسان نصف حیوان اورنصف فرشتہ ہے۔اس کی اعلی تحریکات و ترغیبات اسے علم اورحسن کی جانب مائل کرتی ہیں۔جبکہ اس کی شہوانی تحریکات اسے اپنی حیوانی شہوتوں کی تسکین پراکساتی ہیں۔ثنویت عملی ہدایات دینے کے علاوہ پندونصائح بھی کرتی ہے۔انسان کو کھانے، پینے اورجنسی بھوک مٹانے کے لیے اپنی جسمانی خواہشات کی جانب نفرت آمیز رویہ اختیارکرنا چاہیے۔اسے تزکیہ نفس کرنا چاہیے اورجسم کو کٹھن آزمائشوں میں ڈالنا چاہیے چونکہ جسم اس کی ابدی روح کاعارضی مستقر ہے۔ثنویت کا یہ نظریہ بھی بالآخرتصوریت پرستی کی ایک صورت ہی ہے۔
ثنویت کے مقابلے میں واحدیت ہے۔اس نظریے کے نزدیک روحانی و مادی اصولوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرکے اس پرغیرمتزلزل طورپرقائم رہنا چاہیے۔اسی مطابقت سے واحدیت کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ مادیت پرستی اورتصوریت پرستی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آیا تصوریت پرستی، واحدیت پراستقامت سے قائم رہ سکتی ہے کہ نہیں؟ اس ضمن میں سب سے زیادہ بااصول اورمستقیم فلسفہ تصوریت یعنی ہیگل کے فلسفے کی مثال دی جا تی ہے۔ہیگل کا خیال تھا کہ ابتدا میں ایک مطلق تصور یا آفاقی روح کا وجود تھا۔ہیگل کہتا تھا کہ فطرت کی ماہیت کی تفہیم میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کائنات کی ظاہری کثرت و تنوع کے عقب میں ایسے روحانی قوانین کارفرما ہیں جو اس تنوع میں نظم و ضبط پیدا کرکے کائنات کو ایک واحد کل بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ، اس طرح دنیاکوتسلیم کرتے ہوئے ہیگل کائنات کی کثرت وتنوع کی جو توجیہہ کرتا ہے اس کے تحت وہ تمام موجودات کو دوچنداں کردیتا ہے۔تصوریت پرست کے نزدیک خارجی فطری کائنات تصوراتی کائنات کا صرف باہری خول ہے۔یہی وجہ ہے کہ تصوریت پرست واحدیت پراستقامت سے کاربند نہیں رہ سکتا۔
آج کل کچھ مغربی فلسفی ایسے انوکھے فلسفے کی تعمیر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جو مادیت پرستی اورتصوریت پرستی دونوں کو مدغم کردیتا ہے۔مثلا ایک تصور”بے رنگ واحدیت” کا تصور ہے۔اس تصور کے حامی مادے اورروح یا تصور کے تضاد کو”فرسودہ” قراردیتے ہوئے اس کی جگہ ایک مشترکہ اکائی کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ دیگرنظریے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک کائنات کے بارے میں دو نقطہ نظراختیار کرکے مادیت اورتصوریت کے تضاد پرغلبہ پایا جا سکتا ہے۔ان میں سے ایک مؤقف کے تحت کائنات فطرت کے معروضی مظاہر کا ایک ہم آہنگ مربوط سلسلہ ہے۔دوسرے مؤقف کے تحت کائنات انسانی سرگرمیوں، اس کی خواہشات اورامنگوں کی تخلیق ہے۔بظاہر یہ دوہرا نقطہ نظر ہرایک کومطمئن کردے گا۔تاہم یہ امرواضح ہے کہ اس قسم کی “بےرنگ واحدیت” فی الحقیقت ثنویت ہی کی لطیف ترصورت ہے۔
ایک اورنظریہ بھی ہے جو بادی النظر میں شعوراورمادے کے ربط کا سب سے مستحکم و مستقیم”واحدیت پرست” نقطہ نظرمعلوم ہوتا ہے۔اس نظریے کے مطابق ہماراذہن یا شعور مادے سے مختلف کوئی چیز نہیں۔ خود فکربھی مادی ہے۔تاہم، لینن نے اس مؤقف کے حامی ،جوزف ڈیٹزگن،پرتنقید کی اوراس قسم کی مادیت پرستی کو بے ہودہ، سادہ لوح قراردیتے ہوئے اس کے بارے میں یہ تبصرہ کیا کہ یہ نظریہ مادے اورشعور کے ربط کی ٖغلط توضیح کرتا ہے:”یہ کہنا کہ فکر مادی ہے، غلط فکری چال ہے چونکہ اس طرح مادیت اورتصوریت خلط ملط ہوجاتے ہیں۔”(وی۔آئی۔لینن،”مٹیریلزم اینڈ امپیریو کریٹی سزم”،(مادیت اورتجربی تنقیدی فکر)، مجموعہ تصانیف، جلد 14،ص 244۔)
معروضی تصوریت پسندوں کے نزدیک بھی روح یا تصورانسانی شعور پرانحصار سے آزاد ہے۔واحدیت پراستقامت سے قائم فلسفہ مادیت فکر کو مادے سے یکجان نہیں کرتا بلکہ فکر یا شعور کو ترقی کے اعلی ترمراحل میں مادے کی ارفع ترین پیداوار گردانتا ہے۔