ملکیت کیا ہے؟ (گیارہویں قسط)

بیروزگاری میں اضافے کے نتیجے میں منڈی کی مانگ اورکم ہوتی ہےاور نتیجے کے طورپرکتنے ہی کارخانوں میں پیداوارکی مقدارمیں کٹوتی کی جاتی ہے۔نہ نئے کارخانے تعمیر کیے جاتے ہیں۔نہ نئی آسامیاں پیداہوتی ہیں اورجوپیداوارپہلے ہی تیار ہوچکی ہوتی ہےاسے ضائع کردیا جاتا ہے۔جبکہ بیروزگارلوگ اوران کے خاندان بھوک اورناقص غذائیت کا شکار ہوتے ہیں۔تاہم،بالآخراشیائے خرید وفروخت کے ذخیرے ختم ہوجاتے ہیں،پیداوارپھربڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔تجارت پھلتی پھولتی ہے،روزگارکی صورتحال بہتر ہوتی ہےاوریوں”خوشحالی” کے ایک دویاچنداورسال کی نوید سنائی دیتی ہےاورپیداوارمیں بظاہرلامحدودتوسیع شروع ہوجاتی ہے۔یہ گرم بازاری اس وقت تک جاری رہتی ہےجب تک یہ واضح نہیں ہوجاتا کہ ایک بارپھراشیائے خریدوفروخت کی پیداوارطلب سے زیادہ بڑھ گئی ہے اورپھریہ چکردوبارہ گھومتا ہے۔سرمایہ داریت میں ایک جانب توپیداوارمیں اضافے کے لامحدودامکانات ہیں جبکہ دوسری جانب پیداواری قوتوں کی ترقی کے سماجی اہداف محدود نوعیت کے ہیں۔

سرمایہ دارکوصرف منافع کی حرص ہے اوریہ حرص محنت کش عوام کی طلب کومحدود کرتی ہے۔چنانچہ، سرمایہ دارانہ نظام ہمیشہ پیداوارمیں اضافے کے لامحدودامکانات اورسرمایہ دارکی منافع کی حرص کے سبب عوام کی طلب کی محدودیت کے گہرے تضاد کا شکار رہتا ہے۔بالخصوص جدید علمی و تیکنیکی انقلاب نے اس تضاد کو گہراکردیا ہے۔

دورحاضر کی سرمایہ داریت نےان بحرانوں کے زخموں کومندمل کرنے یا ان پرقابو پانے کے لیے اندھا دھنداسلحے کی دوڑشروع کردی ہے۔اسلحہ بازی کے نتیجے میں جو طلب جنم لیتی ہےوہ سرمایہ دارحکومتوں کی طلب ہے۔یہ طلب معمول کے مطابق معاشی پیداواری عملوں کے احاطوں سے غیرمتعلق ہے۔اب سرمایہ دارممالک میں میزائل، جوہری اسلحے،جنگی فضائی جہاز،ٹینکوں اورجنگی بحری جہازوں کی تیاری پرارب ہاارب ڈالرخرچ کیے جارہے ہیں۔ معیشت کے نقطہ نگاہ سےیہ اخراجات محنت اورپیسے کازیاں ہیں چونکہ فوجی سازوسامان سے معاشی افزائشی عمل استفادہ نہیں کرسکتا۔علاوہ ازیں آج کل یہ سازوسامان انتہائی جلد فرسودہ ہوجاتا ہے جبکہ ان کے نئے جدید ترماڈلوں کی قیمت دسیوں سینکڑوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے حامی کہتے ہیں کہ اسلحے کی دوڑ میں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے بحرانوں کے زخم مندمل کرنے کا مرہم تلاش کرلیا ہے۔اس طرح وہ ان بحرانوں کی آمد کا سرے سے سدباب نہیں کرسکتا تو کیا ہوا۔وہ ان کے درد کا مداوا توکرلیتا ہے۔یہ بات عیاں طورپرغلط ہے اورامریکہ اورمغربی یورپی ملکوں کا موجودہ بحران اس امرکی کھلی شہادت دیتا ہے کہ ایسا ہرگزنہیں ہے۔ تاہم، اگرسرمایہ داروں کے وکلاء کی یہ دلیل صحیح بھی ہوتی تب بھی یہ سرمایہ دارانہ نظام پرسزائے موت کے فیصلے کے مترادف ہوتی۔ہم ایک ایسے معاشرتی نظام کے بارے میں کیا کہیں جو خود کو زندہ رکھنے کے لیے اس بات پرمجبورہے کہ اسلحے کی دوڑکے ذریعے اپنی پیداوارکے روزبڑھتے ہوئے حصے کو تلف کرتا جائے؟!

پس پیداواری قوتوں اورپیداواری رشتوں کے درمیان یہ تضاد اورتصادم سرمایہ دارانہ معاشرے کے تاریخی نقائص کی علامت ہے اورتباہی اس کا مقدرہے۔پیداواری قوتوں کوبے پناہ ترقی دینے اورپیداواری عمل میں اجتماعیت لانے کے بعد آج سرمایہ داریت اجتماعی پیداوارکی راہ میں مزاحم ہے۔قدرزائد کی کشید اورمنافع اندوزی کے تنگ نظر خودغرضانہ ہدف کو پیداوار کا مقصد و مدعا بنانے کے باعث سرمایہ دارانہ نجی ملکیت پیداوار کی ترقی کو روکتی ہے اورمعاشرے میں گہرے سماجی تصادمات کو جنم دیتی ہے۔

پیداوارمیں اجتماعیت لاکرسرمایہ داریت اشتراکیت کے قیام کی مادی شرائط کی پیشگی تخلیق کرتی ہے۔بڑے کارخانوں میں پیداوارکاارتکاز،کل معاشرے کی سطح پرمحنت کی تعاونی شکلوں کا ارتقاء،اورروز شدت پکڑتی ہوئی تقسیم محنت، یہ وہ عوامل ہیں جو ملک کے ہم آہنگ اجتماعی پیداوار کے نظام کو چلانے کے لیے مرتکزانتظام وانصرام کے متقاضی ہیں اورجو اس بات کو لازم کردیتے ہیں کہ علمی و تیکنیکی ترقی اورپیداواری قوتوں کا ارتقاء پورے معاشرے کی ضرورتوں کی تشفی کی جانب راغب ہو۔پیداواری قوتوں کی مزید ترقی کی ضمانت اسی بات میں مضمر ہے کہ ملک کی پوری معیشت مرکزی انتظام وانصرام کی پابند ہو اورپیداوارپورے معاشرے کی ضرورتوں کی تکمیل کرے۔یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داریت سے اشتراکیت کی جانب پیش قدمی تاریخی اعتبار سے اٹل اورناگزیر ہے۔

سرمایہ دارنظریہ ساز یہ بات ثابت کرنے کے لیے سخت کوشاں ہیں کہ ذرائع پیداوارکی نجی سرمایہ دارانہ ملکیت ایک فطری اورابدی حقیقت ہے۔اسی مقصد کے پیش نظر وہ ایک جانب تو یہ کوشش کرتے ہیں کہ “نجی سرمایہ دارانہ ملکیت” کے تصور کو”نجی ملکیت ” کے تصور سے بدل دیں اوراس طرح سرمایہ دارانہ ملکیت کے بنیادی وصف یعنی استحصال پرپردہ ڈال دیں۔ان کی رائے کے مطابق نجی ملکیت فطرت کے عین مطابق ہےاوراس لیے یہ ابدی حقیقت ہے۔دوسری جانب وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ عصر حاضرکی سرمایہ داریت میں سرمایہ دارانہ ملکیت میں ایک کیفیتی تبدیلی رونما ہوگئی ہےاوراب معاشرے کے تمام اراکین حتی کہ مزدور تک اس کے مالک ہوگئے ہیں۔آج سرمایہ دارماہرین معاشیات یہ کہتے ہیں کہ اب مسئلہ ملکیت نہیں بلکہ پیداوارکے انتظام وانصرام کا ہے۔مثلا برطانوی لیبرپارٹی کے نظریہ ساز انتھونی کراس لینڈ کہتے ہیں کہ صنعتی طورپراعلی ترقی یافتہ حالات پیداوار میں ملکیتی رشتے اپنی اہمیت کھورہے ہیں۔

کتاب”نئی صنعتی ریاست” کے مصنف جون ۔کے۔گالبریتھ کا کہنا ہے کہ بڑی کارپوریشنوں کے سرمائے کے مالکوں کو اقتدارسے ہٹایاجا چکا ہےاوراب ان کارپوریشنوں کے منتظمین فیصلہ کن کردار اداکررہے ہیں۔وہ سب کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے پیداوارکے چلن کو متعین کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس “انقلاب منتظمین” کے نتیجےمیں سرمایہ داربطورمالکان معدوم ہوجاتےہیں اورسرمایہ دارانہ ملکیت سوشلسٹ ملکیت سے مماثل ہوجاتی ہے۔اس بنیاد پروہ یہ مؤقف اختیارکرتے ہیں کہ سرمایہ داریت ارتقاء پذیر ہوکرصنعتی معاشرے کی صورت اختیارکرلیتی ہے جس کے نتیجے میں بالآخرسرمایہ داریت اورسوشلزم کی معاندانہ صف آرائیوں کے دھارے ایک دوسرے سے آن ملیں گے۔

ان نظریوں کا بنیادی نقص یہ ہے کہ یہ نظریے ٹیکنالوجی اورآہنی سازوسامان کی ترقی سے سماجی نظاموں کی ماہیت اخذ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں اورسماجی رشتوں اورملکیت سے مکمل غفلت برتتے ہیں۔یہ نظریے اس بنیادی نکتے سے تجاہل برتتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ کاروبارکس کے مفاد میں اورکس کے لیے چلائے جاتے ہیں اورسوشلسٹ کارخانے کس کے مفاد میں اورکس کے نام پرچلتے ہیں جبکہ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو سوشلسٹ اورسرمایہ دارانہ ملکیت کے درمیان حدفاصل قائم کرتا ہے۔

حال ہی میں”سرمائے کی عوامیت” کے بارے میں ایک نظریہ بہت مقبول ہوا ہے۔اس نظریے کا لب لباب یہ دعوی ہے کہ دورحاضر کی سرمایہ داری میں محنت کش بھی سرمایہ دارانہ کاروباروں میں حصص(شیئرز) خرید کرسرمایہ داروں کے برابرمالکان بن جاتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ کچھ محنت کش حصص خریدتے رہے ہیں۔ تاہم پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے بیشترحصص محنت کشوں کی وہ چنیدہ عدیدیہ (اشرافیہ) خریدتی ہےجو اعلی ترین تنخواہیں پاتے ہیں،یعنی وائٹ کالر یا بلیوکالرمحنت کش۔دوئم، محض حصص کی تحصیل سے محنت کش سرمایہ دارنہیں بن جاتا۔ وہ صرف اسی صورت میں سرمایہ داربن سکتا ہے کہ اس کے حصص سے ہونے والی آمدنی(اس کا مقسوم منافع، ڈیویڈنڈ) اس کی اجرت سے زیادہ ہواوراس طرح اس کی کل آمدنی کا زیادہ بڑا حصہ ان حصص پرملنے والے مقسوم منافعے سے آتا ہو۔لیکن سرسری حساب کتاب ہی یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ اس بات کی امید ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔

کسی بھی ایسے کارخانے میں جہاں حصص پرمقسوم منافع دس فیصدسالانہ کی شرح سے ملتا ہو،محنت کش کے حصص پرمقسوم منافع اس کی اجرت کے مساوی صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنےدس سال کی اجرت حصص خریدنے پرلگا دے۔لیکن یہ امرقطعی طورپرناممکن ہے چونکہ اس نے خود اپنی اوراپنے خاندان کی کفالت بھی کرنی ہے۔اپنی رہائش بھی حاصل کرنی ہے۔آتش دان کا خرچ بھی نکالنا ہے۔علاج معالجہ بھی کرانا ہے اورٹیکس (جوسرمایہ دارانہ ملکوں میں بہت زیادہ ہیں) بھی ادا کرنا ہے۔ان تمام ادائیگیوں کے بعد اس کے پاس حصص خریدنے کے لیے بہت معمولی سی رقم بچ سکتی ہے اوراس معمولی رقم سے اگروہ چند ایک حصص خریدنے کی استطاعت کا حامل بھی ہوجائے تو بھی یہ حصص اس کی سماجی معاشی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے کسی بھی طورمددگارثابت نہیں ہوسکتے۔وہ اجرتی مزدورہی رہے گا۔

Leave a Comment