فلسفہ کیا ہے؟ (بارہویں قسط)

قنوطی نقطہ نگا ہ سے

اب ہم پھراسی مسئلے کی طرف رجوع کرتے ہیں جو پہلے اٹھایا جاچکا ہے یعنی تصوریت اورمادیت کے نقطہ ہائے نگاہ کے تحت انسانیت کا مستقبل کیا ہے؟ اورتصوراتی اورمادی نقطہ نگاہ کو اپنانے والے مختلف لوگ زندگی کے بارے میں کیا مؤقف اختیارکرتے ہیں۔

ہم نے پہلے ہی اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ بعض اوقات مادیت پرستوں کو ایسا سفلی اورارذل شخص متصور کیا جاتا ہے جن کو دنیا میں بسیار خوری اور اپنا پیٹ بھرنے کے علاوہ کوئی غرض نہیں۔تصوریت پرست اس من گھڑت الزام کی تشہیر میں بڑا زورصرف کرتے ہیں۔ وہ مادیت پرستی کو، مادیت پرستی کی ایک مخصوص شکل یعنی میکانیکی مادیت سے خلط ملط کرکے یہ دعوی کرتے ہیں کہ میکانیت پسند فلسفی دنیا کی قنوطیت پسند اورمایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مادیت پرست نقطہ نگاہ سے انسان قوتوں کے ہاتھوں میں ایک بے بس کھلونا ہے۔ وہ کائنات کی کروڑ ہا کروڑ اشیاء میں ایک شے کی مانند ہے۔ان کے مطابق مادیت پرستی کے نزدیک آزادیِ ارادہ، تخلیقی سرگرمیاں اورکائنات کو بدلنے کے لیے انسانی مساعی وغیرہ محض التباس اورفریب نظر ہیں۔ انسان صرف ایک کام کرسکتا ہے وہ یہ کہ وہ اپنے آپ پرکائنات کے دروازے بند کرلے،اپنے ہم جنسوں اورتمام انسانیت کی ضروریات سے بے پرواہ ہو کر اوربے فائدہ مساعی سے پہلو تہی کرتے ہوئے صرف اپنی تسکین و مسرت میں لگا رہے۔تاہم ہم نے دیکھا کہ اس طرز کے نتائج صرف اس لیے برآمد ہوتے ہیں کہ میکانیکی مادیت متذبذب و متزلزل ہو کر مادی واحدیت سے انحراف کرتے ہوئے تصوریت کی جانب مائل ہوتی ہے۔

آئیے ہم دیکھیں کہ تصوریت پرستی زندگی کے لیے کن اقدار و معیارات کی پیشکش کرتی ہے۔تصوریت پسندی کے نزدیک انسان اس دنیا میں زیادہ کچھ حاصل کرنے کی توقع نہیں باندھ سکتا۔ چنانچہ دنیا کے بارے میں تصوریت پرست کا نقطہ نگاہ بنیادی طورپرقنوطیت پسند ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک اس دنیا میں موت، مصائب اورتنہائیت کا غلبہ ہوتا ہے۔

حقیقی آزادی و خودمختاری، قوت تخلیق،محبت و مسرت جیسی قابل وقعت اقدارناقابل تحصیل ہیں۔ تاہم تصوریت پرست ہمیں بتاتا ہے کہ ان تمام ترمجبوریوں کے باوجود ہم زندگی کو اگر بدل نہیں سکتے تو اسے گزارے لائق ضرور بنا سکتے ہیں۔وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ ہم ایک دوسری دنیا پرایمان لے آئیں اوراس غیرمرئی دنیا کو ہی اصل اورحقیقی دنیا جانیں۔ اس کے مطابق انسان اس دوسری دنیا سے گہرے روابط میں منسلک ہے۔ وہ اس سے ربط قائم کرسکتا ہے اوربہت جلد اس دوسری دنیا میں داخل ہوجائے گا۔اگرکوئی شخص اس فلسفے کو امید افزاء اورمسرت آمیز کہتا ہے تو یہ جھوٹی امیدوں پرمبنی رجائیت اورفریب نظر کے سوا کچھ اورنہیں ہے۔

ہم عصر مغربی فلسفے میں بھی قنوطی رنگ غالب ہے۔ان کے نزدیک ہماری زندگی قابل تحلیل، المناک تضادات سے معمور ہے۔اس کا انجام موت ہے۔ چنانچہ انسانی زندگی بے مقصد ہے۔وہ ایک سراسر لغویت ہے۔اگرچہ کچھ فلسفیوں (مثلاژاں پال سارتر) نے وجود انسانی کی اس تفہیم سے کچھ انقلابی نتائج کوکشید کرنے کی کوشش کی لیکن یہ نتائج نیم نراجی اورنیم مزدورسبھائی تصورات سے زیادہ کچھ اورنہ تھے۔اس کے نزدیک دنیا کی تشکیل نو کی جدوجہد کو حقیقت کے معروضی قوانین کے شعور پرقائم نہیں کیا جا سکتا۔بلکہ یہ جدوجہد حقیقت کی لغویت کے باوجود جاری رہنی چاہیے۔ظاہر ہے کہ اس نظریے کے تحت انقلاب کے لیے کسی واضح مفصل نظریے، سخت نظم و ضبط اوراجتماعی تنظیم کی ضرورت نہیں۔ مثلا پاسکل لین کی ناول”لیغ غیوو لیوشیوں” کا مرکزی کردار کہتا ہے کہ مزدور اپنے حقوق کے دفاع کے لیے ٹریڈ یونینوں اورپارٹی کو اس لیے قبول کرلیتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اورچارہ کار ہی نہیں ہوتا۔ پہلی ترجیح یہی ہے کہ انہیں اظہارزات کا سبق دیا جائے تاکہ ان کا “باطن”مادی دنیا کا ذرہ محض بن کرنہ رہ جائے۔

اس نقطہ نظرکے تحت ہڑتالیں، حقوق اورجمہوری آزادیوں اورخوشحال زندگی کے لیے جدوجہد یں وغیرہ، انسان کو “اشیاء کی قوت”یا “مادی دنیا” کے تابع و مغلوب کرنے کے مترادف ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر معروضی قوانین کے شعور پرمبنی جدوجہد کی ان حقیقی اشکال سےگریز کرلیا جائے تو پھرمعاشرے کی تشکیل نو ممکن نہیں۔ لیکن تصوریت پرستی “اعلی آدرشوں کے لیے” جس سعی کا مطالبہ کرتی ہے اورجسے تصوریت پرست اپنا مابہ الامتیاز گردانتے ہیں اس کا لب لباب یہی ہے۔ وہ بالآخر غامض قنوطیت، خود غرضی، حقیقی عمل کی عدم صلاحیت اورخالی خولی لفاظی کے سحر کے سوا کچھ نہیں۔

تصوریت انسان کو خوداعتمادی سے محروم کردیتی ہے۔انسان خود اپنی قوت و طاقت پربھروسہ چھوڑ دیتا ہے اورزندگی میں خود اپنی راہیں منتخب کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ کانٹ کا فلسفہ اخلاق و عمل ایسے ہی فلسفے کا ایک نمونہ ہے۔ کانٹ کا مؤقف تھا کہ انسان کو فرض کی آواز کو مطلق و حتمی قانون کے طورپرماننا چاہیے، اسے اپنے ضمیر کے احکامات کی بجاآوری کرنی چاہیے، چاہے یہ احکامات اس کے مادی مفادات مثلا روزگارمیں ترقی، اورمنافع بخش لین دین وغیرہ سے ٹکراتے ہی کیوں نہ ہوں۔ انسان کواپنی نیکی عمل کے صلے کی تلاش و جستجو سے بے پرواہ ہونا چاہیے۔ اس نقطے پر کچھ لوگ یہ نشاندہی کریں گے کہ یہی وہ مؤقف ہے جو فلسفیانہ تصوریت پسندی کواعلی وارفع آدرشوں کا حامل بنا دیتا ہے۔تاہم، کانٹ اس نقطے پر رک نہیں جاتا۔ وہ آگے بڑھتا ہےاورکہتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں صلے کی توقع نہیں باندھنی چاہیے۔ البتہ اگلی دنیا میں تمام انسانوں کو اپنی نیک سیرت کی جزاملے گی۔ اورجنہوں نے فرض کی صدا پرکان نہیں دھرا،ان کو سزا ملے گی۔ بالآخر کانٹ کے مؤقف کا لب لباب یہی تھا کہ اگر انسانوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا تو وہ اچھے اعمال کی جانب راغب نہیں ہوں گے۔ضروری ہے کہ ان پر”اوپر سے”کنٹرول کیا جائے۔

آئیں دیکھیں کہ کائنات کی اصلاح اورمتوقع تغیرات اوراعلی آدرشوں کے لیے انسان کی جدوجہد کے بارے میں واحدیت پرست مادیت کا مؤقف کیا ہے؟

رجائیت کی بنیادیں

ہم اس موضو ع پر بحث کا آغاز ایک غیر متزلزل مادیت پرست اورتمام تصوریت پرستی کے سخت ترین مخالف ، کارل مارکس، کے ان واشگاف الفاظ سے کرتے ہیں: “مجھے نام نہاد”عملی”لوگوں کی عقل پرہنسی آتی ہے۔اگرکوئی شخص انسان کے بجائے بیل بن جائے تو وہ بے شک انسانیت کے دکھوں پر اپنی پیٹھ موڑ کرصرف اپنی کھال بچانے کی فکر کرسکتا ہے۔”

تصوریت پرست کی مانند مادیت پرست نیکی کی راہ پر چلنے کے لیے ان بالائی طاقتوں کی امدادطلب نہیں کرتا جو ڈرا دھمکا کراورلالچ دے کرانسان کو نیکی کی راہ پرچلاتی ہیں۔پراستقامت مادیت پرست خود اپنی قوت و صلاحیت پربھروسہ کرتا ہے۔رجائیت پسند خوش کن نظریہ کائنات کی کونپلیں اس کے تصور کائنات میں بااصول مادیت پرستی کا مابہ الامتیاز ہے۔ اس امید افزاء نظریہ کائنات کی کونپلیں اس کے تصور کائنات اورتصورانسان سے پھوٹتی ہیں۔

مادیت پسند فرد کے نزدیک دنیا کی کثرت و تنوع میں وحدت ہے اوروہ زمان و مکان میں لا محدود ہے۔تاہم ابھی اس امر کی تشریح باقی ہے کہ مادیت پرست کے نزدیک اس کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے اورشعور کیونکرظہور پذیر ہوتا ہے۔”عظیم گھڑی ساز” کے تصور کی مدد کے سہارے کے بغیر ہی اس نظریہ کائنات کو مدلل طور پر ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس امر کی شناخت کی جائے کہ تمام ذی حیات وغیرذی حیات حتی کہ بالآخر انسانیت تک (جوعقل وجذبات سے مزین ہے) تمام گوناگوں موجودات کے عقب میں مخفی قوتیں خود مادے یا فطرت میں موجود ہیں نہ کہ اس کے باہر۔

Leave a Comment