ملکیت کیا ہے؟ (بارہویں قسط)

باب سوئم

ذرائع پیداوار پر اشتراکی (سوشلسٹ) ملکیت

ذرائع پیداوار پر اجتماعی ملکیت کے قیام کے لیے انقلابی مؤقف کو روبہ حقیقت کرنے کی شکلیں اور طور طریقے

اس حقیقت کا صرف منہ زبانی اظہار ہی کافی نہیں کہ سرمایہ داری تاریخی طورپر ناکارہ ہوچکی ہےاورمعاشرے کی ارتقاء میں اس کی حیثیت ایک ایسے عبوری مرحلے جیسی تھی جسے اب سوشلزم کو تسخیر کرلینا چاہیے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تبدیلی خودکارطریقے سے محض معاشی عوامل اورعملوں کے نتیجے میں روپذیر نہیں ہوسکتی۔یہ بحران کتنی ہی بارایک کے پیچھے ایک کیوں نہ آئیں اورسرمایہ داری کے وارد کیے ہوئے مصائب کتنے ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہوجائیں، یہ کبھی بھی اس نقطے کو نہیں چھو سکتے جہاں سرمایہ داری خودکارانہ طورپراسی طرح سوشلزم میں تبدیل ہوجائے جس طرح پانی صفر ڈگری سینٹی گریڈ پرپہنچ کر خودبخود برف کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔انسانیت صرف اورصرف خودلوگوں کے انقلابی عمل کے نتیجے میں ہی کسی ایک پیداواری نظام سے دوسرے کی جانب ڈگ بھر سکتی ہے۔یہی وہ عمل ہے جسے معاشرتی یا سماجی انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ عمل اس حقیقت کے پیش نظر سہل العمل ہوجاتا ہے کہ سرمایہ داری سوشلزم کی جانب پیش رفت کی مادی شرائط پیشیں کےعلاوہ موضوعی شرائط پیشیں کی تخلیق بھی کرتی جاتی ہے۔سرمایہ داری مزدور طبقے کو جنم دیتی ہے۔پیداوارکی اجتماعیت اسے منظم کرتی ہےاورجب یہ مزدورطبقہ علمی اشتراکیت کے نظریے کو جذب کرلیتا ہے اوراس میں رچ بس جاتا ہے تو وہ معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں برپا کرنے کے لیے انتہائی طاقتورقوت بن جاتا ہے۔سوشلزم کی جانب پیش رفت کا ایک مضمرہ یہ ہے کہ نجی سرمایہ دارانہ ملکیت کی انقلابی تشکیل نو کی جائے۔

کارل مارکس وہ پہلا فرد تھا جس نے مدلل طورپریہ ثابت کیا کہ سرمایہ داری سے سوشلسٹ معاشی نظام کی جانب انقلابی پیش رفت ناگزیر ہے۔تاہم، اس کی کسی بھی تصنیف میں نئے سماجی نظام کی تفصیلی وضاحت موجود نہیں۔اپنے خوابیدہ (یوٹوپیائی) سوشلسٹ پیشروؤں کے برعکس جنہوں نے محض اپنی نیک تمناؤں اوراچھےبرے اورانصاف وناانصافی کے بارے میں اپنی قدروں کے بل پرمحض عقلی گلچھرے اڑاتے ہوئے سوشلسٹ معاشرے اوراس کے معاشی طورطریقوں کی تفصیلی تصویر کشی کرنے کی کوشش کی تھی، مارکس نے سماجی ارتقاء وترقی کے اپنے دریافت کردہ قوانین کی بنیاد پرنئے معاشرے کے بنیادی خدوخال کا محض خاکہ کھینچنے اوراس کی ترقی کے اہم اوصاف بیان کرنے پراکتفا کیا۔

سوشلسٹ معاشرہ تاریخی ارتقاء کا فطری ثمر ہوتا ہےاوراس کی تعمیر ان بنیادوں پرہی ہوسکتی ہے جو پہلے سے موجود ہوں یعنی اس کی تعمیرپہلے سے موجود سرمایہ دارانہ معاشرے کی بنیاد پرہی ہوسکتی ہے۔ذرائع پیداوارکوسوشلسٹ خطوط پرانہی بنیادوں پراجتماعی ملکیت میں لیا جا سکتا ہے جو پرانے معاشرے نے وراثت میں چھوڑی ہوں۔ سوشلسٹ انقلاب کی فتح اورمحنت کش طبقے کے ہاتھوں میں عنان اقتدارآنے کے فوری بعد صرف بڑی سرمایہ دارانہ صنعتوں، اداروں اورکاروباروں ہی کو من وعن اسی حالت میں معاشرے کی تحویل میں لیا جاسکتا ہے۔یہی وہ کارخانے یا ادارے ہوتے ہیں جن میں مالکان اورپیداواری عمل کے درمیان مکمل خلیج حائل ہوتی ہے اورصرف حصص پر حاصل ہونے والا مقسوم منافع یا سود ہی ان کے درمیان رشتے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان اداروں میں پیداوارمحنت کش اوردوسرے ملازمین کرتے ہیں،چنانچہ ان کاروباروں کو بلاتاخیرمعاشرے کی تحویل میں دیا جا سکتا ہے۔

بڑے سرمایہ دارانہ کارخانوں کے سرمایہ دارمالکان کو بلامعاوضہ بے دخل کرکے اوران کی ملکیت کو ضبط کرکے ان کارخانوں کو معاشرے کے حوالے کردیا جاتا ہے۔اس معاشرے کی نمائندگی سوشلسٹ ریاست کرتی ہے۔دوسرے لفظوں میں انہیں قومیالیا جاتا ہے۔

مارکس ہی نے اپنی تصنیف”سرمایہ” میں نظری سطح پر یہ بات ثابت کی تھی کہ سرمایہ دارانہ ملکیت کو بلامعاوضہ ضبط کرنا ممکن ہے۔اس نے یہ ثابت کیا کہ اپنے مآخذ سے قطع نظر، تمام سرمایہ اورتمام سرمایہ دارانہ نجی ملکیت، سرمایہ دارانہ افزائش پیداوارکے عمل کے دوران دراصل اس قدرزائد کا ذخیرہ کردہ ڈھیررہ جاتی ہے جو سرمایہ دارنے بلامعاوضہ ہتھیایا ہوتا ہے۔

آئیے ہم سرمایہ دارکو شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے یہ فرض کرلیں کہ اس نے جتنا سرمایہ بھی ابتداء میں لگایا، یعنی اس کا اصل سرمایہ، خود اس کی اپنی پس انداز یوں سے(جمع کرنے سے) آیا۔ (فی الحقیقت جیسا کہ ہم نے اوپر نشاندہی کی کہ ابتدائی اضعاف سرمایہ(سرمائے کا ذخیرہ) اشیائے خریدوفروخت کی سادہ پیداوارکرنے والوں کے علاوہ نوآبادیات کی لوٹ ماروغیرہ کا نتیجہ تھا) سیدھی سادی افزائش پیداوار میں یعنی اس افزائشی پیداوارمیں جس کے نتیجے میں سرمائے کی جسامت میں تبدیلی نہیں رونما ہوتی سرمایہ دارجتنی بھی قدرزائد کا کسب کرتا ہے وہ تمام کی تمام سرمایہ داراوراس کے خاندان کے ذاتی اخراجات پر صرف ہوجاتی ہے۔نتیجے کے طورپرکچھ عرصے بعدسرمایہ دار پیداواری عمل میں حصہ لیے بغیر ہی ذاتی آمدنی کے طورپر قدرزائد کے اتنے بڑے حصے کو صرف کرچکا ہوگا جو اس کے اصل سرمائے کے برابر ہو گی لیکن ان اخراجات کے باوجود وہ اپنے اصل سرمائے کا مالک بنا رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ تمام سرمایہ اس جمع شدہ قدرزائد کا ڈھیرہوتا ہے جو سرمایہ دارنے بلامعاوضہ ہتھیا لیا ہوتا ہے۔چنانچہ، جب معیشت میں انقلابی تبدیلیوں کے نتیجے میں محنت کش طبقہ سرمایہ دارانہ ملکیت کو بلامعاوضہ ضبط کرتا ہے تو وہ صرف وہی چیز دوبارہ حاصل کررہا ہوتا ہے جو کہ اس کا حق ہے چونکہ سرمایہ دارانہ ملکیت خود محنت کشوں اوران کی سابقہ نسلوں کی مفت محنت کا نتیجہ ہی ہے۔

تاہم سرمایہ دارانہ ملکیت کی بلامعاوضہ ضبطی ہی انقلابی تشکیل نو کی واحد صورت نہیں۔خصوصی تاریخی حالات میں سرمایہ داروں کی کچھ پرتوں (بالعموم چھوٹے اورمتوسط سرمایہ داروں) کی ملکیت کا معاوضہ ادا بھی کیا جاسکتا ہے۔

ایسے نجی کارخانوں کو رفتہ رفتہ سوشلسٹ اداروں میں تبدیل کیا جاتا ہےاورسوشلسٹ صورت اختیارکرنے سے پہلے یہ ادارے ریاستی سرمایہ داری کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہیں۔لینن نے ہی سب سے پہلے اس تصور کی تفصیلی تشریح کی کہ محنت کش طبقے کے سیاسی اقتداریعنی محنت کشوں کی آمریت کے تحت نجی کاروباروں کی بتدریج سوشلسٹ تشکیل نو میں ریاستی سرمایہ داری کا کیا کردار ہے۔ اگرسیاسی اقتدار مزدوروں کی آمریت کی مٹھی میں ہو اورمحنت کش طبقہ معیشت کی بلندیوں پرچھایا ہوا ہو(یعنی کلیدی صنعتی ذرائع پیداوار پراس کا قبضہ ہو) اورریاستی سرمایہ داری سوشلسٹ تعمیر نو کے مفادات میں استعمال ہو رہی ہو تو یہ سرمایہ داری کی جانب رجوع نہیں کرسکتی۔

ریاستی سرمایہ داری کے ذریعے محنت کش طبقے کی آمریت پرمبنی ریاست بیک وقت متعدد کارہائے مقررہ سے نبردآزما ہوتی ہے۔اول، ریاستی سرمایہ داری نجی سرمایہ دارانہ کاروباروں کے ایک حصے(چھوٹے اوراوسط) کی بتدریج سوشلسٹ تشکیل نو کرنے کی ایک صورت ہے۔ دوئم، ریاستی سرمایہ داری ان کارخانوں میں پیداوار کو ترقی دینے کے لیے سرمایہ دارانہ وسائل ،اورپیداوارکے انتظام میں سرمایہ دارانہ تجربے سے استفادہ کرتی ہے۔یہ ترقی اشتراکیت کی تعمیر میں معاون ہوتی ہے۔سوئم، جہاں چھوٹے پیمانے پراشیائے خریدوفروخت کی پیداوار(کسانوں اورکاریگروں) کا غلبہ ہو اوروہ معیشت کے قابل ذکرحصے پرقابض ہووہاں پرولتاری (مزدور) ریاست کی زیرنگرانی چلنے والے ریاستی سرمایہ دارانہ کارخانے سرمایہ دارانہ اورچھوٹے پیمانے پراشیائے خرید وفروخت پرمبنی معیشت کی بے ہنگم ترقی کے خلاف سوشلسٹ شعبے کی کشمکش میں سوشلسٹ شعبے کو مضبوط کرتے ہیں۔

ریاستی سرمایہ داری کی یہ صورتیں ممکن ہیں۔سرمایہ دارقومیائی گئی صنعتیں پٹے پرلے سکتے ہیں،سوشلسٹ ریاست سے مراعات لے سکتے ہیں اوراس کے ساتھ معاشی معاہدے کرسکتے ہیں۔

ریاستی اورنجی ملکیت میں ملے جلے کارخانے ریاستی سرمایہ داری کی اعلی ترین شکل ہیں۔ ایسے کاروباروں کی سوشلسٹ تشکیل نو کے لیے ان کے مالکان کو رفتہ رفتہ معاوضہ اداکرکےان کا انفکاک(زرنقد ادا کرکے رہن ختم کرالینا) کرالیا جاتا ہے۔یہ انفکاک بالعموم یہ صورت اختیار کرتا ہے کہ ملے جلے ریاستی و نجی کارخانے کے قیام کے وقت معاہدے میں یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ سابقہ نجی کارخانے کا مالک ایک مقررہ مدت تک کارخانے سے نفع لیتا رہے گا۔البتہ اس ملکیت کو فوری طورپر ریاستی تحویل میں نہیں دیا جاسکتاجو چھوٹے صنعت کاروں، چھوٹے تاجروں، دوکانداروں اورچھوٹے کسانوں کی ملکیت ہے اورجس کے مالک خود پیداواری عمل میں بڑا حصہ لیتے ہیں۔

ترقی یافتہ سرمایہ دارملکوں میں بھی ایسے لاکھوں چھوٹے مالکان ہیں اورایشیاء،افریقہ اورلاطینی امریکہ کے ترقی پذیر ملکوں میں جہاں سرمایہ دارانہ زراعت ابھی ذیادہ ترقی نہیں پا سکی ہے وہاں چھوٹے کسان یا تو اچھی خاصی تعداد میں ہیں، یا پھرآبادی کی اکثریت ہیں۔ ان منتشر پیداواری اورتجارتی کاروباروں کو مرکزی انتظام کے تحت لانا تقریبا ناممکن ہے اوریہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ چھوٹے مالکان کی ملکیت کو ضبط کر کے ریاست کی تحویل میں نہیں دیا جاسکتا۔اس کے علاوہ بشمول سیاسی دیگروجوہات بھی ہیں جن کے سبب چھوٹے پیمانے کی نجی ملکیت کو فوری طورپرسوشلسٹ ملکیت میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ان میں ایک وجہ تو یہی ہےکہ چھوٹے مالکان کی کتنی ہی پرتیں سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں محنت کش طبقے کے ساتھ شریک ہوتی ہیں۔

لینن نے اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ چھوٹے پیمانے پرپیداوارکرنے والی دوروحیں ہوتی ہیں: ایک مالک کی روح اوردوسری مزدور کی روح۔ بطور محنت کش چھوٹے پیمانے کی پیداوارکرنے والے کے کچھ بنیادی مفادات محنت کش طبقے کے ساتھ مشترک ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ محنت کش طبقے اورکسانوں کے درمیان پائیدارمعاشی و سیاسی اتحاد کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ سوشلسٹ ریاست کسانوں کو معاشی امداد دیتی ہے اورپھراس امرپربھروسہ کرتے ہوئے کہ وہ کسانوں کے ساتھ جو تعاون(پہلے سپلائی اوربکری اورپھرپیداوارکے شعبے میں) کررہے ہیں وہ ان کی سمجھ میں بھی آئے گااورکسانوں کے لیے فائدہ بخش بھی ہے،سوشلسٹ ریاست بتدریج کسان کو بھی دائرہ سوشلزم میں شامل کرنے کے حقیقی امکانات پیدا کرتی ہے۔بعد ازاں وہ اس عمل کے چلن کا بہ نظر غائر مطالعہ و تجزیہ کرتی ہے۔

متعدد ملکوں میں چھوٹے مالکان معیشت میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔سرمایہ داری میں وہ اجارہ دارسرمایہ داروں کے بوجھ تلے پس رہے ہوتے ہیں۔یہ اجارہ داری ان کی زندگی کا دائرہ تنگ کررہی ہوتی ہے اوراگرچہ ان میں سے بیشتر سرمایہ دارانہ اورانفرادیت پسند خیالات کے حامل ہوتے ہیں، تام سوشلسٹ تشکیلات نو ان کو بالضرورفائدہ پہنچاتی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ان سوشلسٹ تشکیلات نو کا نفاذ اس طورکیا جائے کہ چھوٹے مالکان کو نہ صرف عملا ان سے فائدہ ہو بلکہ ان کو یہ احساس بھی ہو کہ وہ ان تشکیلات نو سے مستفید ہورہے ہیں اوروہ نئے سماجی نظام کے حامی و ناصر بن جائیں۔

یہ کام کیسے کیا جائے؟ اس سمت میں کیا عملی اقدامات اٹھائے جائیں؟ چونکہ ہم بعد میں کسانوں کے تعاون کے مسئلے پر تفصیلی غور کریں گے اس لیے یہاں محض یہ یاددہانی کافی ہو گی کہ کسان آبادی کی سوشلسٹ تشکیل نو کے بارے میں اینگلز نے کیا کہا:”چھوٹے کسان کے ضمن میں ہماری حکمت عملی کا پہلا عنصر تویہ ہے کہ اس کے نجی کاروبار اور نجی تحویلات کو تعاونی ملکیت میں جبرا نہ بدلا جائےبلکہ عمل کے ذریعے اورسماجی امداد کی پیشکش کے ذریعے اس کے ذہن پرایسے نقوش چھوڑتے جائیں کہ وہ اس تبدیلی کے لیے تیار ہوجائے۔” (فریڈرک اینگلز،”جرمنی اورفرانس میں کسانوں کا مسئلہ”،کارل مارکس اورفریڈرک اینگلز، منتخب تصانیف، جلد 3، پروگریس پبلشرز،1973ء، ص 470۔)

Leave a Comment