آفاقی اختلال (انتشار) سے نظم (ترتیب) کی جانب سف
انسانی محنت اور عملی سرگرمی کے دوران حالات کار کی بتدریج اصلاح ہو ئی اورعلم اور تجربہ اکٹھا ہوا ۔کلہاڑیوں، کھرپوں اور بھالوں کے سر زیادہ ہلکے، زیادہ دھارداراور زیادہ دیرپا ہوتے گئے۔ اب وہ پتھر کے بجائے دھات کے بنے ہوئے تھے ۔انسانوں نے کتنی ہی بیماریوں کا علاج دریافت کرلیا۔ پودوں کے اوصاف و خصوصیات سے واقف ہو گیا اور چڑیوں، جانوروں ،کیڑوں اور پودوں کی حرکات و سکنات کے مشاہدے کے ذریعے موسم کی پیش گوئیاں کرنے کے قابل ہو گیا۔ اب وہ فطرت کے خلاف جنگ میں بالکل بے بس نہ رہا تھا کیونکہ اس نے آگ جلانا سیکھ لیاتھا، پہیہ ایجاد کر لیا تھا، متعدد جنگلی جانوروں کو سدھار لیا تھا، اور پودوں کو اگانے کے بارے میں کچھ علم حاصل کر لیا تھا۔ دنیا کے بارے میں اس کے تصورات بھی اسی مطابقت سے بدلے۔
اگرچہ اس مرحلے پر بھی انسان ٹھوس شبیہوں اور فطری قوتوں کے علامتی پیکروں کے وسیلے سے غور و فکر کرتا تھا۔ تاہم ،اب انسان نے ان خیالی مورتیوں کے ایک مربوط و ہم آہنگ نظام کی تخلیق کر کے کائنات کے آغاز اور ذی حیات موجودات کی نمو کی قدرے منطقی تشریح کی۔ وہ زندگی اور موت ،فرض اور مسرت ، احساس ِگناہ اور ذمہ داری جیسے عنوانات پر غور کرتا۔ یعنی، اس نے عمومی سوالات اٹھائے ،اگرچہ وہ ابھی بھی ان کو خیالی پیکروں کی صورت دیتا رہا ۔اس نے دنیا میں اپنے مشاہدے کے مطابق اشیاء کی ترتیب و نظم اور استحکام کی تفہیم و تشریح کی کاوشیں کیں۔
ہم یونانی دیو کہانیوں میں قدیم انسانوں کے تصورات میں رونما ہوتی ہوئی ان تبدیلیوں کا واضح مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔اپنی قدیم تاریخ کے ابتدائی، قدیم تر دور میں قدیم یونان کے نزدیک دنیا پُر ہنگامہ تھی۔ وہ درہم برہم تھی اور اس میں نظم و ترتیب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ تاہم ،یونانی معاشرے کی ترقی کے شانہ بشانہ دنیا کی اسطوری (مائتھولوجیکل) تصویر کشی سے بھی تھوڑا بہت نظم منکشف ہونے لگا ۔آفاقی اختلال کے خلاف کو ہی یا عرشی (اولمپیائی) خداؤں نے جنگ کی۔ وہ ہمہ دم رنگا رنگ عفریتوں، دیوتاؤں اور جناتوں سے دست و گریبان رہتے تھے۔ فتح کے بعد ان خداؤں نے نظم و ترتیب اور استحکام کا قیام کیا۔ مختلف طرح کے سورماؤں یعنی بےپناہ ذہنی اور جسمانی قوت کے مالک فانی انسانوں نے اس جدوجہد میں خداؤں کی معاونت کی۔
قدیم یونانیوں نے خداؤں کا ایک ہم آہنگ، درجہ بند نظام تخلیق کیا۔ ان میں سے ہر ایک خدا انسانی سرگرمیوں کی کسی ایک نوع(قسم) کی تجسیم تھا۔ بن دیوتا (پان )گلّوں کی رکھوالی کرتا ،منشئی فلک (ہر مس) تجارت کا نگران تھا، باروری دیوی (دیمیتر) زراعت کی پاسبانی کرتی، ہیرا دیوی شادیوں کی سرپرستی کرتی، وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ،اب فطرت انسان کے لئے مہیب و خوفناک نہ رہی تھی، اس لیے اب خدا بھی زیادہ مشفق ہو گئے، حتّی کہ ماضی میں بدبختی کی علامت سمجھی جانے والی فیمیدہ دیوی بھی نظم و ضبط کی دیوی بن گئی۔
تمام ہی لوگوں میں اس آفاقی اختلال کے خیالی پیکر اور اس پر فتح کے تصورات مل جاتے ہیں ۔دنیا کی تخلیق کے بارے میں دیو کہانیاں اس اولین اختلال میں نظم و ترتیب کے تعارف کی عکاسی کرتی ہیں۔ مثلا شمالی کیمرون کی ایک قوم ‘فالی ‘کے کچھ اسطور ایک کچھوے اور مینڈک کی کہانی سناتے ہیں جنہوں نے خشک زمین اور پانیوں کی تقسیم کر کے دنیا کے مختلف خطوں کی تشکیل کی۔ بعدازاں ،تھودینونے جانوروں میں نر و مادہ کو الگ الگ کیا، جنگلی جانوروں میں سے پالتو جانوروں کی تخصیص کی ،اورعورتوں اور مردوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کام تفویض کیے۔
ہم عصر میکسیکو میں بسنے والے امریکی انڈین لوگوں کی داستانوں میں اختلال کی تصویر کشی اسی رنگ برنگ طرز پر کی گئی ہے۔ خدائے اعلی کے بیٹوں میں باہمی چپقلش کے باعث کائنات مسلسل چار مرتبہ تباہ کی گئی اور بالآخر پانچویں کوشش میں اس کو استقلال ملا۔
“ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم لوگوں کے ذہن میں قانون کے تصور نے پہلے ایک اسطوری شکل اختیار کی۔ رفتہ رفتہ فطری قوتوں کے اتنے تعمیمی پیکر تشکیل پائے کہ علیحدہ علیحدہ مورتیوں میں ان کی تجسیم ممکن نہ رہی۔ افریقی لوگوں نے بھی ایسے تعمیمی خیالی پیکروں کی تخلیق کی۔ مثلا لائبیریا کے لوگوں نے ‘نیو ن سوا’کے تصور کو جنم دیا جو ایک ایسی خلّاق قوت تھی جس کی کوئی صورت نہ تھی۔ امریکی انڈین لوگوں کا خدائےا علی’ ادی تیوتول’ ایک ایسا ہی عمومی تصور تھا ۔چار عناصر ِفطرت کی تجسیم کرنے والے اس کے چار بیٹوں کے تصورات کی اس قدر تعمیم کرلی گئی تھی کہ ان کو فلسفیانہ تصورات کے بطور بھی برتا جا سکتا تھا۔ “
ایسی ضرب الامثال اور مقولے اور کہاوتیں بھی موجود ہیں جو بسا اوقات مظاہر کی توجیہہ میں اسطوری پیکروں کو استعمال نہیں کرتیں بلکہ بعض اوقات ان کا مافیہ اساطیر سے متصادم ہوتا ہے۔ اس طرز کی کہاوتیں وغیرہ بھی بتدریج بڑھتے ہوئے علمی سرمائے اور تجربے کی غمازی کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ تومخصوص مظاہر کے مابین علل و معلول (کاز اینڈ ایفیکٹ) کے رشتے کی تشریح کرتی ہیں۔ مثلا، ‘بیچوآن’ نامی افریقی قبیلے کا مقولہ ہے کہ ‘ہر واقعہ دوسرے واقعےکابچہ ہوتا ہے’۔
نیپال کے لوگ کہتے ہیں کہ’ہے کوئی شخص جو ہمیں ایک لافانی انسان دکھا دے’ اور اس طرح وہ ایک ایسے مسئلے کو اٹھاتے ہیں جس کو ہم اپنےعصری فلسفیانہ مسائل کے شانہ بشانہ صف آرا کرسکتے ہیں۔ کچھ ضرب الامثال اور مقولے سماجی نابرابری کا اظہار کرتے ہیں ۔’برونڈی ‘قوم کی ایک کہاوت ہے: “اگر بادشاہ کے کتے پر میری نظر پڑ جائے تو میں اس کو آداب بجا لانے میں سب پر سبقت لے جاتا ہوں”۔ اس کے علاوہ دیگر مقولے اجتماعیت کے فوائد کا اظہار کرتے ہیں :” ذہن فرد کا ،تھیلا چھید کا”۔
ایسے آزاد مفکر بھی نمودار ہوئے جو اساطیر کی صداقت پر شک و شبہ کرنے لگے۔ ان کی موجودگی بھی فکر کی پختگی کی علامت ہے ۔مثلا، قدیم مصر کا تقریبا چار ہزار سال پرانا گیت”بربت بجانے والے کا ایک گیت” آنے والی دنیا کے بارے میں تشکیک کا اظہار کرتا ہے
“حکمران اہراموں میں سوئے ہوئے
‘اشرافیہ اور پادری مقبروں میں
,پر وہاں تو محض ان کی مومیائی لاشیں ہیں
خود ان کا کیا حشر ہے؟” (حوالہ: لڈوگ کوگلمان کے نام مارکس کا خط۔11جولائی1868ء۔)
:امریکی انڈینوں کے جدِّ امجد بھی اساطیر کی دیرینہ حکمت پر غور و فکر کرتے رہتے تھے
“اے خدا تو
ادھر بیٹھا کس کام میں مصروف رہتا ہے؟
یہاں ہماری زمین کے معاملات
کیا تو احدی پن کا شکار ہوگیا ہے
کیا وجہ ہے کہ تو
ہم سے اپنی شان و شوکت اورآب و تاب
مخفی رکھتا ہے
اس زمین کے بارے میں
تیرے دھیان میں کیا ہے؟”(حوالہ:مائی تھو لوجیز آف دی اینشینٹ ورلڈ( قدیم دنیا کی دیو کہانیاں)، کواڈ اینگل بکس، شکاگو، 1966ء، ص 466۔)
درج بالا حقائق کی بنیاد پر ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام لوگوں میں فلسفیانہ فکر کے بیج موجود ہوتے ہیں اور تمام اقوام اور تمام ممالک میں فلسفے کی نمو کی اولین شرائط کی تکمیل ہوتی ہے۔مارکس نے لکھا:”ذکاوت آمیز فکر ہمیشہ ہی یکساں رہے گی۔ اس میں تبدیلیاں بتدریج اسی مطابقت سے آئیں گی کہ ترقی کی سطح کیا ہے۔ اس ترقی میں اس عضوِانسان کی نشوونما بھی مشہمول ہے جو فکر کا ذریعہ ہے”۔(حوالہ: فرعون خوفو اورجادوگر، ماسکو،ص 222-224، روسی زبان میں)۔
تاہم فلسفے کی تمام کونپلیں نشوونما پاکر ہم آ ہنگ فلسفیانہ نظریوں کی صورت اختیار نہ کر سکیں۔ اس کی وجہ کچھ لوگوں کے مخصوص “فکری او صاف” میں مضمر نہیں بلکہ ان کے حالاتِ کار اور ان کی سیاسی زندگی کے خصوصی خدو خال میں مضمر ہے۔ ڈھائی ہزار سال پہلے ہندوستان، چین اور یونان میں تقریبا بیک وقت فلسفے کی افزائش کا بنیادی سبب سماجی و اقتصادی حالات تھے ۔متعدد ماہرین علوم کا کہنا ہے کہ ازٹکی ریاستوں میں بھی فلسفے کی نمو شروع ہو چکی تھی اور صرف امریکا پر یورپی فتوحات کے باعث اس کی ترقی کا عمل مرجھا گیا ۔سوال یہ ہے کہ اس قدیم یونان میں فلسفیانہ فکر کی ترقی کے اسباب کیا تھے جس کو متفقہ طور پر یورپی فلسفے کی مسلسل جاری ترقی کا منبع جانا جاتا ہے؟