مصنف: اعجاز احمد
مترجم: شاداب مرتضی
مجموعی طور پر، 1960ء کی دہائی کی ان بغاوتوں کی دو خصوصیات حیران کن تھیں جو کہ سیاست کی حالیہ مابعد جدید(پوسٹ ماڈرن) شکلوں کا پیش خیمہ ہیں ۔ ایک یہ کہ طلباء کی بنیاد پرستی کی سماجی بنیاد درمیانے طبقے پراس قدر منحصر تھی کہ منظم محنت کش طبقہ خاموش، لاتعلق اور غالب فلاحی سیاست کی زد میں رہا، جس کے نتیجے میں صرف اس وسیع العام نظریے کی تصدیق ہوتی نظر آئی کہ پرولتاریہ(مزدورطبقہ) اب مزیدانقلابی نہیں رہا تھا، تاکہ انقلابی سماجی تبدیلی کی محرک قوت کو اب دوسرے، زیادہ منتشر ،سماجی گروہوں میں منتقل کیا جا سکے۔ بعد میں مزدور طبقے کی یہ توہین مابعد جدید سیاست کی مستقل خاصیت بن گئی۔ دوسری قابل ذکر خصوصیت یہ تھی کہ ویتنام جنگ کی مخالفت کے علاوہ، جس نے قدرتی طور پر وسیع ترجنگ مخالف جذبات کو جنم دیا، اس بنیاد پرستی کا بنیادی زور ثقافتی تھا، جنسیت سے لے کر پوپ میوزک تک، منشیات سے لے کر ڈریس کوڈ تک،نسلی شناختوں سے لے کر مذہبی فرقوں تک۔یہ سرمایہ دار معاشرے کے جابرانہ انداز کے خلاف ایک دور رس بغاوت تھی لیکن اس کا مطمع نظرسرمایہ دارانہ انفرادیت کی سب سے بنیادی شکلوں کا،خودساختہ پن اورخوداستعمالیت کا،پیچھا کرنا ہی رہا۔جوانی کی ثقافت کے ان رجحانات کی فرانسیسی مابعد جدیدیت میں وسیع پیمانے پر توضیح کی گئی تھی جسے ‘آرزو کا فلسفہ’ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر،فوکالٹ نے اجتماعی سیاسی عمل پراصرار کونجی خودتسکین کی جانب منتقل کرتے ہوئے پرجوش انداز میں ‘خود کی دیکھ بھال’ اور ‘وجود کی جمالیات’ کی بات کی۔
فرانس میں وہ کون سا تاریخی لمحہ تھا جس میں مابعد جدیدیت نے 1968ء کے بعدپہلی بار اپنی شناخت ظاہرکی؟
فرانس میں ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ قسم کی سماجی و اقتصادی تبدیلیاں بعد میں آئیں لیکن بہت زیادہ ڈرامائی انداز میں۔ امریکہ انیسویں صدی کے آخر تک ایک بڑی صنعتی طاقت کے طور پر ابھرا تھا اور پھر پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی مالیاتی طاقت بن گیا تھا۔ فرانس، اس کے برعکس، دوسری عالمی جنگ کے بعد تک بنیادی طور پر ایک دیہی معاشرہ رہا تھا۔ لیکن، ریاستہائے متحدہ امریکہ سے یہ ایک اورلحاظ سے مختلف تھا۔اس میں محنت کش طبقے کی اتنی بڑی تحریک تھی کہ جنگ کے بعد فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی چھبیس فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری۔ یہ دونوں حقیقتیں اگلی دو دہائیوں کے دوران یکسر تبدیل ہونے والی تھیں، کیونکہ مغربی یورپ کا چہرہ بدل گیا تھا ، جزوی طور پر مارشل پلان کے ذریعے امریکی پیسےکے انجیکشن کی بدولت ، پیداواری قوتوں کی اس تیز ترین ترقی کی وجہ سے، جویورپی سرمایہ داری کی تاریخ میں پہلی بارہوئی تھی۔ اسی دہائی کے دوران جب آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کے معاشی اور سماجی ابھار کے لیے بنیادیں رکھی جا رہی تھیں، تب فرانس ، انڈوچین اور الجزائر میں دو بڑی نوآبادیاتی جنگیں ہار گیا، اور اس کے نتیجے میں قومی ذلت کے احساس نے ملک میں دائیں بازو کے مؤقف کو کہیں زیادہ وسیع اورجنگجو بنا دیا۔ بائیں بازو نے مارشل پلان کے ساتھ ساتھ فرانس کی نوآبادیاتی جنگوں کی وحشیانہ کارروائیوں کی بھی مخالفت کی تھی۔ مارشل پلان سے فائدہ اٹھانے والوں کے ساتھ ساتھ جنگوں کے ہار جانے کے بعد فرانس میں اٹھنے والی قومی شاؤنسٹ لہر کے ذریعے بائیں بازو کے خلاف شدید غصہ نکالا گیا۔
یہ سب کچھ طبقاتی ڈھانچے میں عہدساز تبدیلیوں کے علاوہ تھا۔کسان جو 1945ء میں آبادی کی اکثریت تھے وہ 1968ء تک فرانسیسی آبادی کا محض 14 فیصد حصہ رہ گئے، جبکہ تازہ ترین قسم کی جدید ٹیکنالوجی، کھپت کے بالکل نئے طرزکےسامان کی صنعتیں، امریکی طرز کی شہری ترقی، اس قسم کی کاروں اور دیگر سامان کی ملکیت میں سریع اضافہ، اور قوم کے ثقافتی اور علمی ذخیرے کی بے پناہ توسیع نے ایک نسل کے اندرہی فرانسیسی زندگی کے تال میل کو بدل دیا۔ صرف 1960ء اور 1968ء کے درمیان، کالج کے طلباء کی تعداد تین گنا بڑھ کردو لاکھ سے چھ لاکھ ہوگئی۔ ان میں سے 40 فیصد سے زیادہ عورتیں تھی اور ایک تہائی سے زیادہ طلباء صرف پیرس میں مرکوز تھے۔ یہ خود اس نئی خوشحالی کے تضادات کی علامت تھی کہ 1968ء کی طلبہ بغاوت بے روزگاری کے خوف سے نہیں ہوئی تھی، کیونکہ معیشت تب بھی بہت تیزی سے پھیل رہی تھی، بلکہ اس کا سبب طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے میں یونیورسٹی کے اس بنیادی ڈھانچے کی ناکامی تھی جو ممکنہ طور پر دنیا میں سب سے زیادہ درجہ بندی پرمشتمل اور گھٹیا نظام تھا ،اور یونیورسٹی کے نظام میں داخل ہونے والے پہلی نسل کے طلباء کی ایک بڑی تعداد کے باغی جذبات تھے ۔ درحقیقت وہ اداروں کی تیز رفتار جدت کی اور فرانس کی اعلیٰ اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کی طرف سے اپنی قدرومنزلت کوتسلیم کروانے کی جستجو کررہے تھے ۔ طلباء کی بغاوتوں کے بعد جب اصلاحات ہوئیں تو درحقیقت فرانس میں یونیورسٹی کے نظام کو کم وبیش امریکی طرز کے مسابقتی ماڈل پرمنظم کیا گیا۔
اس دوران سرمایہ دارانہ ترقی کی تیز رفتار شرح خود مزدور طبقے کے بہتر تنخواہ دار حصوں میں نسبتاً سیاسی عدم دلچسپی کا باعث بنی۔ اس مرحلے میں پیٹی بورژوا(چھوٹی نجی ملکیت والے) طبقے کی ایک نئی پرت کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کا مشاہدہ بھی کیا گیا جس کا روایتی فرانس کے ساتھ بہت کم تسلسل تھا اورجو تیزی سےپھیلتی عالمگیرامریکی ثقافت کواپنانے کےلیے کافی رضامند تھا۔ عام طور پر، ایک ایسا فکری ماحول غالب تھا جس میں ایک ترقی یافتہ سماجی جمہوری ریاست کی طرف سے مضبوط سرمایہ داری، ان لوگوں کے لیے مستحکم اور بڑھتی ہوئی خوشحالی کے اپنے وعدوں پر پورا اتر رہی تھی جنہوں نے ثقافت اور تعلیم کی اعلیٰ اقسام تک رسائی حاصل کی تھی۔ فرانسیسی مابعد جدیدیت کے غالبا نامورترین مفکر(اور خود ایک سابق لکسمبرگسٹ)، لیوٹارڈ ،نے اشیاء کی فراوانی کی اس خوش فہمی کا سب سے مختصر بہترین اظہارکچھ یوں کیا: ‘قلت کا دور ختم ہو گیا ہے؛ اشیاء اور خدمات (سروسز)کا زمانہ آ گیا ہے!’ کلاسیکی مارکسزم کے بجائے لاشعوریت(سرئیلزم) ، طبقات کے بجائے ثقافت،نچلے طبقات سے اوپرجانے والوں کو زیادہ متعلقہ لگے۔ ان نئی مراعات یافتہ پرتوں کا سیاسی ہراول دستہ مزدور طبقے کی سیاست کی سست رفتاری سے بیزار تھا۔ اس کے بجائے، اس نے ماؤازم اور گویراازم سے امتیازی وابستگی کا خواب دیکھا یا پھرسیدھا انارکزم کا۔
مجموعی طور پر، 1960ء کی دہائی میں یونیورسٹی میں مقیم فرانسیسی بنیاد پرست نوجوانوں نے امریکہ سے نکلنے والے ان نظریات کو غیر معمولی انداز سے قبول کیا جو اشرافی ماہرین سماجیات اورجنگ مخالف سفید فام درمیانے طبقے کے نظریات تھے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پریہ تھی کہ یہ نظریات ان کے اپنے تجربے کے بڑے حصے سے مطابقت رکھتے تھے؛ وہ خود بھی کمپیوٹر اور کوکا کولا کے بچے تھے۔
امریکی سرمایہ داری کی طاقت اورسردجنگ کا دباؤ اس قدرتھا کہ دوسوسال میں پہلی بار فرانسیسی دانشوروں کی اشرافیہ نئے نظریات اورمارکیٹوں کے لیے امریکہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ دنیا کی نمائندہ سامراجی طاقت، امریکہ، سامراجیت کا دانشورانہ اورفنی مرکز بھی بن گئی تھی۔اپنی سامراجی سلطنت کوکھودینے کے بعد، فرانس کے اہم دانشورحلقوں نے اب اس نئے سامراجی مرکز کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ فرانسیسی سینما کے جدید ترین دورکے نوجوان فلم ساز(الفریڈ) ہچکوک بننا چاہتے تھے۔نئی نسل کے نمائندہ فلسفیوں اورماہرسماجیات نے اپنے خیالات ڈینیل بیل سے ادھار لیے۔عالمی پیمانے پرغالب فکری رجحان کے طورپرفرانسیسی مابعدجدیدیت کا ظہور امریکہ میں دلکش مارکیٹنگ، دوبارہ پیکجنگ، اورتوسیعی پیداوارکے اس ماحول کے بعد ہی ہوا۔
فرانس میں 1968ء کی ہلچلوں کی کہانی، جسے لبرلوں اورمابعد جدیدیوں کے ایک گروہ نے دوبارہ مرتب کیا، وہ تقریبا مکمل طورپرطلباء کی بغاوتوں پرمرکوزتھی۔حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی تاریخ میں یہی طویل ترین عمومی ہڑتال کا سال تھا، اورمزدوروں کی شورش اس عام ہڑتال کا کلیدی نقطہ تھی۔صدر ڈیگال نے نیٹو کے سپاہیوں کو بلانے کے لیے سرگرمی سے منصوبہ بندی شروع کردی تھی۔ فرانس کی کمیونسٹ پارٹی اورٹریڈ یونینوں کی جنرل کونسل اصل میں اس حقیقت سے باخبر تھے کہ امریکہ فرانس جیسے اہم یورپی ملک میں انقلاب کوکامیاب ہونے کی اجازت اتنی آسانی سے نہیں دے گا۔حقیقی دخل اندازی کے امکان کے پیش نظر، انہوں نے مزدورطبقے کی باترتیب پسپائی کو منظم کیا۔اس کے برعکس، پیرس میں 1968ء کی طلباء بغاوتوں کا نظریہ سریلزم(لاشعوریت) اورماؤازم کا، جنسی انقلاب اورامریکی سماجیات کا، اضطراری فرقہ پرستی اوراوپرکی جانب تحرک کے مطالبے کا ایک عجیب ملغوبہ تھا۔جہاں تک ان لوگوں کے مطمع نظر کی بات ہے جنہوں نے بعد میں “انقلاب سے غداری” کرنے پر فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی اورفرانس کے مزدور طبقے پربری طرح سخت تنقید کی،تو ایک طالب علم رہنما،کوہن بینڈٹ، نے اسے مختصرا یوں بیان کیا:”11 مئی کو لوگ محاذ آرائی نہیں چاہتے تھے۔ شروع میں خیال یہ تھا کہ سوربورن میں ایک بڑی پارٹی کی جائے۔ رکاوٹیں خود ہی کھڑی ہوگئیں۔” جب کمیونسٹوں نے انہیں یہ یاددلانے کی کوشش کی کہ نہ صرف فرانسیسی فوج بلکہ مغربی جرمنی میں موجود دو لاکھ امریکی سپاہی “سوربورن کے احاطے میں بڑی پارٹی” میں شامل ہونے سے باز نہیں رہیں گے ، تو ان پر اصلاح پرستی کا ، بیوروکریسی کا، غداری کا، اسٹالنزم کا اورہر ممکن چیز کا الزام لگایا گیا۔ فرانسیسی اشرافیہ کی بالائی پرت اب تیار تھی کہ مزدورطبقے کی تحریک کو فیصلہ کن انداز سے اپنی پیٹھ دکھا سکے۔جب 1968ء کی دھول بیٹھی اورفرانسیسی سرمایہ داری نے نئے جوش سے اپنی توسیع شروع کی تو پرانے دنوں کے انقلابی ترین عناصر نے ریاست کے وسیع ہوتے ہوئے ثقافتی نظام میں پرکشش ملازمتیں حاصل کیں، خصوصا جب سوشلسٹ پارٹی نے اپنے اس عمومی پروگرام کوترک کردیا جو اس نے فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر بنایا تھا ، اورکمیونسٹوں کے بغیر اقتدارمیں آگئی۔ یہ وہ ماحول تھا جس میں فرانسیسی مابعدجدیدیت اٹھی اورجنوبی امریکہ میں اپنے سب سے طاقتور انتخابی حلقے کی مدد سے اس نے غلبہ حاصل کرلیا۔