ریاست کیا ہے؟ (چھٹی قسط)

طاقت کے استعمال کے کل پرزے

ریاستی اقتدار کوروبہ حقیقت کرنےکےلیے جو طریقے استعمال ہوتے ہیں ان میں ریاستی کل پرزوں کی سرگرمیوں کے علاوہ حکومتی تنظیموں کا نظام بھی شامل ہے۔

حکومت کی شکل و صورت

جدید سرمایہ دارانہ جمہوری ریاستیں یا تو صدارتی طرزکی ہیں یا پارلیمانی ۔ اول الذکرصورت میں صدرحکومت بناتا ہے اورحکومت اپنی تمام سرگرمیوں کے بارے میں اسی کو اپنی روئیداد پیش کرتی ہے۔صدر کا انتخاب پارلیمان کے انتخاب سے سروکار نہیں رکھتا۔

پارلیمانی جمہوری حکومتوں میں پارلیمان میں اکثریت کی مطابقت سےحکومت کی تشکیل وزیراعظم کرتا ہے۔حکومت پارلیمان کو جوابدہ ہوتی ہے۔حکومت کے پیش کردہ پروگرام کی منظوری پارلیمان میں ضروری ہے۔پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ کا مفہوم یہ ہوگا کہ حکومت یا تومستعفی ہوجائے یا پھرصدرکویہ تجویز دے کہ وہ پارلیمان کو توڑ کرنئے انتخابات کی تاریخ دے۔

ریاستی علاقائی تنظیم

سرمایہ دارانہ ریاستوں میں وحدانی طرزحکومت غالب ہے۔تاہم متعدد ملکوں میں سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کی نشوونما کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ وفاقی نظام وجود میں آگیا ہے۔وفاقی سرمایہ دارانہ ریاست مختلف علاقوں کی ترقی کی ناہمواری کو ختم نہیں کرتی۔ نہ وہ آبادی کے معیارات زندگی میں ناہمواری کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔وہ قومیتوں کے مسئلے کو بھی حل نہیں کرتی۔ریاست کی وفاقی تنظیم میں قوموں اورنسلی گروہوں کی تقسیم کو مدنظرنہیں رکھا جاتا۔ موجودہ زمانے میں سرمایہ دارانہ وفاقی طرز کی حکومت بحران سے گزررہی ہے اورنتیجے کے طورپرسرمایہ دارانہ وفاقی حکومتوں میں مرکزیت کا عنصربڑھتا جارہا ہے۔

سرمایہ دارانہ ریاستوں میں سیاسی اصول ہائے حکومت کی دو اقسام حاوی ہیں: سرمایہ دارانہ جمہوری قسم اور تحکمانہ یا آمرانہ طرز حکومت۔

سرمایہ دارانہ جمہوری سیاسی اصول ہائے حکومت کی صفت یہ ہے کہ یہاں سرمایہ دارانہ جمہوری حقوق اورآزادیوں کی دستوری ضمانت دی جاتی ہے اورجزوی سطح پران پرعمل بھی کیا جاتا ہے۔مخالف جماعتوں سمیت مختلف جماعتوں اورعوامی تنظیموں کوکام کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔نمائندہ اداروں کا تعین انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے اوربیشترمحنت کش عوام کو حق رائے دہی حاصل ہوتا ہے۔

پھربھی سرمایہ دارانہ جمہوری اصول ہائے حکومت مثالی نہیں ہوتے۔یہ استحصال سے موزونیت رکھتے ہیں اوران کے ساتھ ساتھ استحصال بھی جاری رہتا ہے۔اب تو جمہوری اصول کو محدود کرنے کا رجحان بھی واضح ہوتاجارہا ہے۔ریاستی کل پرزے توسیع پارہے ہیں اوراجارہ داریوں سے لاینحل طورپرجڑتے جارہے ہیں۔اجارہ داریوں کے نمائندے انتظامی اوروزارتی عہدوں پرفائز ہوتے ہیں۔پیشہ ورسیاست کاربڑی بڑی کمپنیوں کے حصص کی بڑی تعداد کے مالک ہیں اورانہیں حکومتی نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد بینکوں، ٹرسٹوں اورکارپوریشنوں میں اچھی نوکریوں کی پیشکشیں بھی مل جاتی ہیں۔حکومتی کل پرزوں اوراجارہ داریوں کے اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں انتہائی طاقتوررجعتی معاشی اورسیاسی قوتیں جنم لیتی ہیں۔ان گٹھ جوڑوں میں سب سے طاقتور گٹھ جوڑاعلی فوجی افسروں اوراجارہ داریوں کے درمیان ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ان کو فوجی وصنعتی گٹھ جوڑکے نام سے جاناجاتا ہے۔

ریاستی کل پرزوں کی بڑھواراوروسعت اس امرکی عکاسی کرتی ہے کہ اجارہ دارانہ سرمایہ داری پارلیمانی سرگرمیوں کے حلقوں پرحدود قائم کرتی ہے۔مثلا اس بات کا مشاہدہ ان شرائط سے کیا جا سکتا ہے جن کے ذریعے پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار کومحدود کیا جاتا ہے اوردستور کے ذریعے حکومتی اداروں کوقانون سازی کے اختیارات دیئے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ پربھی ایسی قیود لگائی جاتی ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو پارلیمانی کنٹرول سے آزاد کیا جائے۔باالفاظ دیگراستعماری (سامراجی) سرمایہ داری ان چند جمہوری آزادیوں کا گلا گھونٹنے کے لیے اپنےبس میں ہرممکن کوشش کرتی ہےجو تاحال موجود ہیں، پارلیمان کے اختیار کومحدودکرتی ہےاوردستورمیں ترامیم کرکےاجارہ داریوں کی آوردہ نوکرشاہی کی طاقت میں اضافہ کرتی ہے، اوریوں پارلیمانی جمہوریت،آمریت کی ایک نئی شکل کی جانب پیش رفت کرتی جارہی ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوری اصول ہائے حکومت پرقیودنافذ کرنے کے رجحان کا مشاہدہ اس حقیقت سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ بیشتر سرمایہ دارانہ ریاستیں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کی قطع وبرید کرتی ہیں۔ریاست کو اس بات کااختیار ہے کہ وہ ناپسندیدہ سیاسی جماعتوں کو کالعدم قراردے دے، یہ مطالبہ کرے کہ وہ اپنے اراکین کے نام کی فہرست ظاہرکریں اوراپنے مالی وسائل کے ذرائع کے بارے میں اطلاعات بہم پہنچائیں، وغیرہ وغیرہ۔اس کے برعکس آمرانہ اصول ہائے حکومت کا وصف یہ ہے کہ یہاں دستورمیں حقوق وآزادیاں جزوی یا مکمل طورپرناپید ہوتی ہیں، جمہوری جماعتوں اورمحنت کش تنظیموں پرپابندی عائد ہوتی ہے،منتخب ریاستی اعضاء کی تعداد میں کمی واقع کردی جاتی ہے اورسربراہ مملکت کے ہاتھوں میں قوت واختیارات کا ارتکاز ہوتا ہے۔اس قسم کے سیاسی اصول ہائے حکومت کی انتہائی شکل کو فسطائیت(فاشزم) کا نام دیا جاتا ہے۔

فسطائیت ماضی کی چیز نہیں۔آج بھی فسطائی جماعتیں سرمایہ دارانہ ملکوں میں موجود ہیں اگرچہ ان کی تعداد کم ہے۔فوج گردی کا نفسی عارضہ فسطائی جماعتوں سمیت دائیں بازو کی سرمایہ دارانہ جماعتوں کو مستحکم کرنے میں مدد دیتا ہے۔آج فسطائیت اپنی سماجی بنیادوں کو وسعت دینے میں مصروف ہے۔دفترشاہی کی قوت کے استحکام سے اس کی بڑھوار کوتقویت ملتی ہے۔چونکہ دفترشاہی کی قوت کے استحکام کے نتیجے میں پولیس کےجبرکے لیے قانون کی گنجائش میں اضافہ ہوتا ہے اورمحنت کش دشمن اورعوام دشمن قانون سازیاں کی جاتی ہیں۔

Leave a Comment