ریاست کی شکلیں
ریاست کے ان اوصاف کی تفہیم کے لیے جن کی بنیاد پر مختلف ریاستوں کے درمیان تمیز قائم کی جا سکتی ہے، مارکس لیننی فکر کے پیروکار مفکرین کئی تصورات کا سہارا لیتے ہیں: ریاستی کل پرزوں کی نوعیت یا ریاستی اقتدار کو عملی جامہ پہنانے کے طریقے ،حکومت کی شکل ،ریاستی ڈھانچے کی شکل ،سیاسی اصول ہائےحکومت اور حکومت کا سیاسی نظام۔
ریاستی اداروں اور محکموں کے اس نظام کو ریاستی کل پرزے کہا جاتا ہے جنہیں ریاست کے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔ ریاستی کل پرزوں میں اقتدار و اختیار کے دست و بازو( سربراہ مملکت، پارلیمان اور حکومت)، ریاستی انتظامیہ کے محکمے (حکومت ،وزارتیں اور دیگر انتظامی محکمے)، امن عامہ کے قیام کے ادارے (عدالتیں، استغاثے کے وکیل ،فوج اور پولیس) اور ابلاغ عامہ کے ریاستی ادارے (اخبارات ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن) شامل ہوتے ہیں۔ ریاستی کل پرزوں میں فوج کے علاوہ دیگر خصوصی مسلح گروہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ تمام ریاستی محکموں کی تحویل میں اسلحے کے علاوہ رسد ورسائل اور مواصلات کے ذرائع بھی ہوتے ہیں اور دیگر خصوصی عمارات بھی۔
تمام ہم عصر ریاستوں میں ریاستی اداروں اور محکموں کا ایک مخصوص نظام موجود ہے۔ تاہم مختلف نظاموں میں ان کے حقیقی کردار اور ان کے باہمی روابط مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں ۔باالفاظ دیگر ریاستوں کی ٹھوس تاریخی شکلیں مختلف ہیں۔
حکومت کی شکلوں یا صورت سے اقتدار اعلی کی تنظیمی ساخت ،اس کے مختلف اعضاء اور ریاستی اعضاءاور آبادی کے مابین روابط مراد ہوتے ہیں ۔استحصالی ریاستوں میں دو حکومتی صورتیں نمایاں ہیں۔ یہ دونوں بہت عام ہیں۔ بادشاہت اور جمہوری حکومت ۔بادشاہ(سلطان، شہنشاہ، امیریا زار)اقتدارکلی کا مالک ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ،بادشاہ کے انتقال کے بعد اقتدار کا وارث وہ شخص ہوتا ہے جووراثت کے سلسلے میں سب سے پہلے نمبر پر ہوتا ہے۔ حکومت کی یہ شکل بیشتر جگہوں پر اپنی موت مر چکی ہے۔ تاہم ابھی بھی بعض ممالک میں بادشاہت برقرار ہے ۔ان ممالک میں پارلیمان قوانین کو منظور کرتی ہے اور بادشاہ پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ان قوانین کی توثیق کر دے ۔
بالعموم مقتدر جماعت کا سربراہ حکومت کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ رسمی اعتبار سے بادشاہ کو سربراہ حکومت اور وزرا ءکو نامزد کرنے کا اختیار حاصل ہے مگر فی الحقیقت وہ اکثریتی جماعت کی قیادت کے تجویز کردہ امیدواروں کی منظوری دیتا ہے۔ بادشاہ کا جاری کردہ فرمان اس وقت تک نافذ العمل نہیں جب تک کہ پارلیمان اس کی منظوری نہ دے دے ۔
جمہوری حکومتوں کے اوصاف یہ ہیں ۔اقتدار اعلی کے حامل اعضاء منتخب اور نمائندہ ہوتے ہیں۔ منتخب اداروں میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ شہری ،سرکاری طور پر مساوی سیاسی حقوق کے حامل سمجھے جاتے ہیں اور قانون کی نظر میں بھی مساوی ہوتے ہیں۔
ریاستی ڈھانچے یا ساخت سے ریاست کا علاقائی یاسیاسی ڈھانچہ مراد ہوتا ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی کا مرتبہ کیا ہے، اقتدار کے مرکزی اور مقامی اعضاء رشتوں کے کس نظام میں مربوط ہیں۔ ریاستی ڈھانچے کی دو بنیادی اشکال ہیں: وحدانی اور وفاقی ۔
وحدانی ریاست ایک ایسی ریاستی تشکیل ہوتی ہے جس کے ڈھانچے میں کچھ انتظامی اور علاقائی تقسیم کی جاتی ہے۔ اس قسم کی ریاست میں ایک واحد دستور (آئین)ہوتا ہے اور ریاستی کل پرزوں کا ایک ہم آہنگ نظام ہوتا ہے۔ ان کوحاصل قوت و اختیار کا دائرہ کار اس ریاست کے پورے علاقے پر محیط ہوتا ہے اور مقامی ادارےمرکزی اداروں کے تابع ہوتے ہیں۔
وفاقی ریاست یا وفاق کے ذریعے دو یا دو سے زائد ریاستی تشکیلات کی ترکیب ہوتی ہے ۔ان میں سے ہر ایک کے اپنے قانون ساز، انتظامی اورعدالتی اعضاء ہوتے ہیں۔ وفاق میں شامل ریاستی تشکیلات کی آزادی و خود مختاری صرف وفاق کو حاصل اختیارات وحقوق سے ہی مشروط ہوتی ہے۔ بالعموم پارلیمان میں دوایوان ہوتے ہیں۔ سرمایہ دار ریاستوں میں امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا ایسے وفاق کی مثالیں ہیں جبکہ اشتراکی ریاستوں میں سے سوویت یونین، چیکوسلواکیہ اوریوگوسلاویہ اور ترقی پذیر ممالک میں سے ہندوستان اور نائجیریا وفاقی ریاستیں ہیں۔ آئینی اعتبار سے وفاق ریاستوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔
سیاسی اصول ہائے حکومت یا نظام حکومت سے وہ طور طریقے مراد ہوتے ہیں جن کے ذریعے اقتدار کو روبہ حقیقت کیا جاتا ہے۔ یہ ایک طویل تاریخ کے نتیجے میں رو پذیر ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں اصول ہائےحکومت کے خصوصی اوصاف درج ذیل باتوں سے عیاں ہوتے ہیں: مختلف انفرادی بااختیارا داروں کے حقوق و اختیارات کتنے وسیع ہیں؛ ریاستی اور عوامی تنظیموں میں کیا بندھن ہیں؛ بالخصوص ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں میں کیا ربط ہے؛ حکومت اپنی سرگرمیوں کے دوران رائے عامہ کو کس حد تک ملحوظ خاطر رکھتی ہے؛ سیاسی اعتبار سے معاشرے میں فرد کی حیثیت کیا ہے۔ ہم عصر سرمایہ دار معاشرے میں دو مختلف رجحانات پائےجاتے ہیں اور یہی رجحانات ان ممالک میں اصول ہائےئحکومت کو متعین کرتے ہیں۔ ایک جانب تو وہ اجارہ داریاں ہیں جو رجعتی قوتوں کی جانب مائل ہیں اور جمہوری اداروں کو زک پہنچانے اور محنت کش مردوخواتین کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسری جانب جمہوری قوتوں کی جدوجہد ہے جس کے ذریعے محنت کش عوام کے باشعور حلقے جمہوریت کو وسیع تر کرنے اور انسانی حقوق کی پاسبانی کرنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔
بعض سرمایہ دار ممالک میں جمہوری تحریکوں پر کھلے بندوں جبر کرکے انہیں کچلا جاتا ہے اور مصالحتوں کے لیے کوششیں غالب ہیں۔ تاہم بعض اوقات سرمایہ دار اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے دونوں ہی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی اصول ہائے حکومت، حکومت کی اشکال اور حکومتی ڈھانچے سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ متحرک ہوتے ہیں اور بڑی تیزی سے بدل سکتے ہیں۔
سوشلسٹ معاشرہ جمہوریت کی ہمہ گیر اور ہمہ جہتی ترقی کو ممکن بناتا ہے۔ یہاں محنت کش عوام خود اپنے مفاد میں اپنے قوت و اقتدار کو خود اپنے آپ عملی جامہ پہناتے ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ سوشلسٹ رجحان کے حامل تمام ملکوں میں جمہوریت کی ترقی اتنی خوشگوار اور پرسکون طریق پر نہیں ہوتی۔ بعض ملکوں میں سوشلسٹ جمہوریت کے ارتقاء کو ابتدائی مراحل سے ہی شکست خوردہ قوتوں کی مزاحمتوں کا سامنا ہوتا ہے۔
سیاسی نظام سے مراد وہ تمام تنظیمیں ہوتی ہیں جو ریاست اعضاء کی تشکیل میں شریک ہوتی ہیں اور ریاستی سرگرمیوں میں حقیقی اثر و رسوخ کی حامل ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی نظام کے دائرے میں ریاستی کل پرزوں کے علاوہ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔
سوشلسٹ معاشرے میں سیاسی نظام کا بنیادی وصف ہوتا ہے کہ اس میں اندرونی ہم آہنگی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سیاسی نظام میں شامل تمام تنظیمیں محنت کش مردوخواتین پر مبنی ہوتی ہیں۔ سرمایہ دار معاشرے میں طبقات میں بھی داخلی دراڑیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ ایسی تنظیمیں موجود ہوتی ہیں جو کسی طبقے کے ایک یا دوسرے گروہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ پس ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں متعدد ایسی تنظیمیں ہیں جو سرمایہ داروں کے کچھ حلقوں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اسی طرح محنت کش طبقے میں بھی متعدد ٹریڈ یونین ہیں جن میں سے کچھ تو مستعدو سرگرم ہوتی ہیں جبکہ دیگر کی تنظیم ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہے۔ایسی ٹریڈ یونینیں اجارہ داریوں کے تلوے چاٹتی رہتی ہیں۔
ریاستی سرگرمیوں کے لیے ملک میں روایتی طور سے رائج جماعتی نظام بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ یک جماعتی نظام ہے، دو جماعتی نظام یا کثیر الجماعتی نظام ۔سیاسی جماعت لوگوں کے سیاسی طور پر منظم ایسے گروہ کو کہتے ہیں جو معاشرے کے طبقوں یاحلقوں کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔ بالعموم معاشرہ جس قدر زیادہ منقسم ہوگا اور تضادات و تصادمات جس قدر زیادہ ناقابل مصالحت ہوں گے، اسی قدر اس ملک میں جماعتوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔