ایک سائنسدان یا ایک دانا شخص
کیا ہم فلسفی اس وقت بنتے ہیں جب کہ ہم زندگی اور موت، مسرت اور راہ زندگی کے انتخاب جیسے مسائل زندگی پر غور کرنے لگیں؟ اس امرمیں شبہ نہیں کہ ہم اسی شخص کو دانا کہتے ہیں جو خود اپنی غلطیوں سے عبرت لے کر ضرورت مندوں کو قیمتی مشوروں سے نوازسکتا ہو۔بالعموم بڑھاپے میں ہی انسان اس طرز کی دانائی کا حامل ہوسکتا ہے۔ پر فلسفہ تو علم سے محبت کا نام ہے۔ تو کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو لغزشوں سے دامن بچانا جانتا ہوفلسفی کہلانے کا مستحق ہے؟ بظاہر ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ انسانیت کو درپیش اہم ترین مسائل کو سلجھانے میں مستغرق فلسفی اور ایک عام معاملہ فہم انسان میں کچھ نہ کچھ قدر مشترک ضرور ہے۔ متعدد ہمعصر سرمایہ دارانہ فلسفی، فلسفے کے اپنے منفرد اوصاف کو دھو کر اسے ایک اختصاصی علم بنا دینا چاہتے ہیں اوراس چکر میں ہیں کہ دیگر علوم کی مانند فلسفہ بھی علوم کی ایک ایسی شاخ بن جائے جو حقیقت کے کسی ایک مخصوص پہلو سے بحث کرتی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ علامہ گیری اور کھرے سائنسی اورفطری علوم ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ ہم عصر فلسفیانہ فکر کے ایک ممتاز نمائندے برٹرینڈ رسل کا کہنا ہے:”کیا ہمہ گیرعلمیت نام کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے؟ یا یہ کہ ہمہ گیر علمیت دراصل حماقت کا دوسرا زرا اعلی تر نام ہے”۔ (برٹرینڈ رسل، “اے ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی،(مغربی فلسفے کی تاریخ)، سائمن اینڈ شوسٹر،نیویارک، 1945ء،ص 17)
آخر دنیاوی معاملہ فہمی اور فلسفیانہ علم میں کیا قدر مشترک ہے اور ان دونوں کے درمیان کیا حد فاصل ہے؟ قدیم فلسفی دانائی یا معاملہ فہمی کے بنیادی اوصاف سے واقف تھے۔ مثلا ابن سینا نے لکھا :”ہمارے مطابق دانائی دو اقسام کی ہوسکتی ہے: اول، علم کامل؛۔۔۔ دوئم عمل کامل”۔(ابن سینا،”دانم-نیم”،دوشنبے، 1957، ص193،(روسی زبان میں)۔
چنانچہ دانائی کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ علم و عمل کی اکائی ہوتی ہے۔ یعنی یہ ایسے عمل پرمشتمل ہوتی ہے جو زندگی کے سفر میں انسان کا مددگار ہوتا ہے۔ یہ علم زندگی سے منقطع ،مجرد علم نہیں ہوتا۔
مثلا قدیم ہندو فلسفہ لوگوں کے لیے زندگی گزارنے کی راہیں روشن کرتا تھا اور ان کو عملی ہدایت دیتا تھا۔جدید ہندو فلسفی بھی اسی نقطہ نظر سے لکھتے ہیں:”فلسفیانہ علم کا مقصد محض یہ نہیں کہ ذہنی تجسس کی تسکین کرلی جائےبلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی زندگی کی راہوں کی شمعیں روشن کردےجو دور بینی اورپیش بینی کے علاوہ حقیقت کے گہرےمطالعے پر مبنی ہو۔” (شیش چندرا چیٹرجی اوردھریندرا موہن دتا،”این انٹروڈکشن ٹو انڈین فلاسفی”،(ہندوفلسفے کا تعارف)، کلکتہ یونیورسٹی، 1950،ص 12)
چنانچہ دانائی یا ہمہ گیر علمیت فی الحقیقت عملی فلسفے کا نام ہے۔ یہ فلسفہ ہمیشہ ہی انسان کے اغراض و مقاصد، اس کی ضروریات اور اہداف سے مربوط ہوتا ہے۔ بظاہر اس بات پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ تاہم جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انتہائی اہم نوعیت کے مسائل کے حل کے لیےعلم ناگزیر ہے اور ان کے نزدیک دانائی درحقیقت صداقت کی تحصیل کا نام ہے( جیسے کہ جی۔ ڈبلیو۔ گوئٹے) دوسرے لوگوں کے نزدیک علوم انسان کے اپنے ذاتی مقدرو مستقبل یعنی خود اس کی اپنی ذاتی زندگی میں مددگار نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس علوم تشکیک ،یاس و ناامیدی اور رنج و الم کا ذریعہ ہی بنتے ہیں۔ صحیفہِ واعظ کے مطابق زیادہ علم حاصل کرنے والا شخص صرف اپنے غموں کا بوجھ ہی بھاری کرتا ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ فلسفے کے ایک بہت اہم رجحان یعنی فلسفہ نتائجیت(پراگمٹزم) کے مطابق زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انسان کو ذہنی و جذباتی سکون اور راحت میسر ہو ۔اس موقف کے مطابق اگر کوئی شخص واقعی سمجھ دار ہے تو وہ شک و شبہ،غورو فکر اور صداقت کی جستجو وغیرہ میں وقت برباد نہیں کرے گا ۔ہمارے دماغ پر چاہے کیسے ہیں تو ہمات اور گمراہیوں نے گھیرا کیوں نہ ڈالا ہو، ان سے چھیڑ چھاڑ کی ضرورت نہیں۔ یہ بات اتنی اہم نہیں کہ یہ عقائد درست ہیں کہ غلط ۔اہم بات صرف اتنی ہے کہ ہم ان کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں۔
اس طرز کے” شخص دانا” کا موقف اس شترمرغ کی یادتازہ کر دیتا ہے جو خطرے کو دیکھتے ہی اپنا سر ریت میں چھپا لیتا ہےلیکن جب مسائل اتنے اہم ہوں اور مسئلہ یہ درپیش ہو کہ انسانیت باقی رہے گی کہ نہیں، وہ پرامن بقائے باہمی کے اصول کا دفاع کرتے ہوئے زندہ رہے گی کہ جوہری جنگ کی تباہ کاریوں کا نشانہ بن جائے گی، تو پھر ہماری اس دنیا میں علم و دانش کا حامل وہ شخص ہی ہوگا جو پوری دنیا میں امن کے لیے جدوجہد کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور یہ سمجھتا ہوں کہ پر امن بقائے باہمی کے لئے اس جدوجہد کی کامیابی میں ہی اس کی اپنی فلاح ،مسرت اور مقدر مضمر ہے جس میں انسانیت کے ترقی پسند حلقے اور افراد حصہ لے رہے ہیں۔
ہم وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ باقی دنیا اور اس دنیا میں مضمرتضادات کے علم سے ناآشنا اور بے آہنگ” علمیت” ہی وہ بنیاد فراہم کرتی ہے جس کے سہارے انتہائی انسانیت سوز اقدامات کو جواز بخشا جا رہا ہے۔ خود زندگی، بالخصوص عصری حقیقتوں نے معاشرے کی ترقی اور ارتقا میں ترقی پسندانہ رجحانات سے متصادم اس “علمیت” کا ابطال کردیا ہے۔
ہم پہلے ہی اس امرکی نشاندہی کر چکے ہیں کہ فلسفہ کائناتی گرد و نواح سے انسانی روابط و رشتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انسانیت کو درپیش اہم ترین مسائل حل کرتا ہے۔ تاہم فلسفہ عام دنیاوی معاملہ فہمی سے مختلف بھی ہے۔ چونکہ یہ نظری علوم کی ایک شاخ ہے اس لیے فلسفہ اپنے اصولوں کو مد لّل طور پر ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ فلسفے کے اصول اور بنیادی تصورات انسانی زندگی کی سرگرمیوں کے متنوع گوشوں اور حلقوں سے متعلق بے شمار حقائق کی تعمیم اور تجزیے کا نتیجہ ہیں۔
فلسفہ انسانی رشتوں کی انفرادی رنگارنگی یا کسی انفرادی شخص کے ٹھوس حالات زندگی سے سروکار نہیں رکھتا۔ نہ ہی اسے کسی فرد کی ذاتی سوانح میں کوئی دلچسپی ہے۔ ہر فرد ایک طرح سے دو افراد کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ ایک فرد یا”ذات کوتاہ” ہے اوراس ذات میں خود اس کے اپنے انفرادی حالات زندگی اور اس کے مقدر کی منفرد نوعیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ دوسری جانب وہ ایک “ذات کلاں”بھی ہے جس کے حوالے سے وہ اپنے ہم وطنوں اور کل انسانیت کا ایک جز بھی ہے۔ فلسفہ اس”ذات کلاں”کو درپیش مسائل سے بحث کرتا ہے۔ باالفاظ دیگر، فلسفہ انسانی وجود کے عمومی مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔
اب ہم اس موقف میں ہیں کہ اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دے سکیں کہ فلسفہ کیا ہے؟ فلسفہ ایک آفاقی ،عالمگیر ذہنی روش کا نام ہے۔ فلسفہ فطرت اور معاشرے، اور ان میں انسان کے مقام ،یعنی پوری کائنات کے بارے میں نقطہ نظر قائم کرتا ہے اور اس کائنات کی تفہیم و تشکیل نو کے امکانات کاجائزہ لیتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ فلسفہ اس ایمان کا نام ہے کہ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے حاصل کردہ علم کی بنیاد پر عمل کرے ۔فلسفہ علم اور عمل، عقل اور ارادے کے امتزاج کا نام ہے۔ چنانچہ، فلسفہ اس معنی میں نظری علوم کی ایک مخصوص شکل ہے کہ وہ محض کل انسانی تجربے کی تعمیم ہی نہیں نہیں کرتا بلکہ اس تجربےمیں ان خصوصی لمحات کا تعین و شناخت بھی کرتا ہے جوعمل انسانی کے لیے خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
فلسفے کی مارکسی تعریف نہ صرف فلسفے کے مقاصد کے بارے میں تمام پیشرو فلسفوں سے مختلف ہے بلکہ وہ فلسفے کے اہداف سے متعلق جدید سرمایہ دارانہ تفاسیر سے بھی اختلاف رکھتی ہے۔ مارکسی نقطہ نگاہ سے نظری علوم کی اس مخصوص صورت کو فلسفہ کہاجاتا ہے جو آفاقی، عالمگیر روش ذہن یا نظریہ کائنات کے عمومی ترین مسائل کو حل کرتی ہے۔
ماضی میں فلسفے نے فطرت اور معاشرے کے بہت سے مسائل کو ابدی طور پر طےکر دینے کا دعوی کیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان قوانین کوطے کردیا۔ آج کل کچھ فلسفی دنیا کے بارے میں بالکل الٹ رویہ اپنا رہے ہیں۔وہ” ذات کوتاہ” کے انفرادی انسانی وجود، اس کے ادنیٰ مسائل، اندیشوں ،وسوسوں اور تقاضوں کو اہمیت دے کر عالمگیر عمومی مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثلا وجودی(وجودیت پسند) اسی منفرد رویے کو اپناتے ہیں۔
چنانچہ جبکہ کچھ فلسفی کائنات کے عمومی قوانین کا مطالعہ کرتے ہوئے اس امر سے غافل ہو جاتے ہیں کہ انسان کائنات میں ایک ذرہ ناچیزنہیں بلکہ وہ کائنات کو تبدیل بھی کرتا ہے، دوسرے فلسفی صرف انفرادی جذبوں اور ہیجانوں کے مطالعے کو فلسفے کی کلیت سمجھ لیتے ہیں اور اس عمل سے تجاہل برتتے ہیں کہ انسانی جذبےعد م سے نہیں آن دھمکتے بلکہ دنیا کے ساتھ انسان کے ربط کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔فطرت کے ساتھ انسان کا عمل تعامل ہی فلسفے کے میدان کار کی صحیح حدود مقرر کرتا ہے۔ فلسفہ کائنات،انسان اور من حیث الکل انسانیت کے عمومی ترین قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔ وہ انسان اور معاشرے، انسان اور فطرت کی اکائی کی بنیادوں کا مطالعہ کرتا ہے۔
اپنے گردو نواح کی کائنات کے ساتھ انسانی روابط انتہائی متنوع ہیں ۔کیا روابط اور رشتوں کی اس رنگارنگی میں فطرت اور معاشرتی دنیا کی اکائی کی بنیاد کو تلاش کرنا ممکن ہے؟ اگلے باب میں اسی مسئلے پر بحث کی گئی ہے۔