مترجم: شاداب مرتضی
نمبر 2: 11جنوری 1949ء کو جے وی اسٹالن کے ماو زے تنگ کو پچھلے ٹیلیگرام کا تسلسل اور اختتام
جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، کومینتانگ کی تجویز پر آپ کے جواب کے ہمارے مسودے کا مقصد امن مذاکرات کی ناکامی ہے۔ یہ واضح ہے کہ کومینتانگ غیر ملکی طاقتوں کی ثالثی کے بغیر امن مذاکرات کا انتخاب نہیں کرے گی، خاص طور پر امریکہ کی ثالثی کے بغیر۔اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ کومینتانگ چیانگ کائی شیک اور دیگر جنگی مجرموں کی شرکت کے بغیر امن مذاکرات نہیں کرنا چاہے گی۔
اس لیے ہمارا خیال ہے کہ کومینتانگ امن مذاکرات کو ان شرائط کے تحت مسترد کر دے گی جو چینی کمیونسٹ پارٹی پیش کر رہی ہے۔ نتیجتاً، یہ ظاہرہوگا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس کے پیش نظر اسے خانہ جنگی کو جاری رکھنے والا فریق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس صورت میں، کومینتانگ کو امن مذاکرات کو برباد کرنے کے مجرم کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اس طرح کومینتانگ والوں اور امریکہ کی امن کی چالیں ناکام ہو جائیں گی اور آپ اپنی شاندار جنگ آزادی کو جاری رکھ سکتے ہیں۔
آپ کے جواب کا انتظار ہے،
فلیپوف (اسٹالن)
نمبر 3: 13 جنوری 1949ء کو جے وی اسٹالن کو ماؤ زے تنگ کا ٹیلی گرام
کامریڈ فلیپوف،
مجھے آپ کا ٹیلیگرام 10 جنوری کو موصول ہوا۔
1۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چین میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے سوویت یونین کی ثالثی قبول کرنے کی تجویز کے ساتھ نانجنگ حکومت کے نوٹ کے سلسلے میں، سوویت یونین کی حکومت کو مندرجہ ذیل طریقے سے جواب دینا چاہیے: سوویت یونین کی حکومت نے ہمیشہ ایک جمہوری اور پرامن چین کی خواہش کی ہے اور اب بھی کر رہی ہے۔ تاہم امن، جمہوریت اور چین کا اتحاد کس طریقے سے حاصل کرنا ہے یہ صرف چین کے عوام کا معاملہ ہے۔ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر قائم کی گئی سوویت یونین کی حکومت چین میں خانہ جنگی میں دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی میں شرکت کو ناقابل قبول سمجھتی ہے۔
2۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ امریکہ، انگلستان اور فرانس، خاص طور پر امریکہ، اگرچہ وہ چین میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ثالثی میں حصہ لینے کے اورایسا کر کے ،کومینتانگ کی طاقت کی بحالی کے مقصد کو حاصل کرنے کے انتہائی خواہش مند ہیں ،لیکن ان ریاستوں کی حکومتوں نے، خاص طور پر امریکہ کی حکومت نے، چین کے لوگوں میں اپنا اختیارکھو دیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں پیپلز لبریشن آرمی کی فتوحات اور کومینتانگ کی طاقت کا کھو جانا پہلے ہی ایک حقیقت بن چکا ہے جو سب کے سامنے ہے۔ کیا وہ نانجنگ حکومت کی حمایت جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس طرح پیپلز لبریشن آرمی کو ناراض کرنا جاری رکھنا چاہتے ہیں ،یہ بھی ابھی واضح نہیں ہے۔
صرف سوویت یونین ہی چین کے لوگوں میں بہت اعلیٰ اختیارات رکھتاہے، اور اس لیے، اگر نانجنگ حکومت کے نوٹ کے بارے میں سوویت یونین 10 جنوری 1949ء کے آپ کے ٹیلیگرام میں بیان کردہ پوزیشن کو قبول کرے گا، تو اس کا نتیجہ امریکہ، انگلینڈ اور فرانس کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی صورت میں نکلے گا کہ (ثالثی میں) ان کی شرکت ضروری ہے ،جو ایک ایسی صورت حال کا باعث ہوگا جس میں کومینتانگ کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ہمیں جنگ بازوں کے طور پر بدنام کرے۔
اور ان لوگوں کی بڑی تعداد جو کومینتانگ سے مطمئن نہیں ہیں اور پیپلز لبریشن آرمی کے جلد فتحیاب ہونے کی امیدیں پال رہے ہیں وہ مایوس ہو جائیں گے۔
لہٰذا، اگر سوویت یونین، بین الاقوامی تعلقات کے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، نوٹ کے اپنے جواب میں اس پوزیشن پر جما رہے جو ہماری طرف سے تجویز کی جا رہی ہے، تو ہماری بہت خواہش ہو گی کہ آپ ہماری تجاویز کی توثیق کریں۔ اگر آپ ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں تو آپ ہماری بہت مدد کریں گے۔
3۔ کیا جنگی مجرموں سمیت نانجنگ حکومت کے افراد کو ہمارے ساتھ امن پر بات چیت کرنے کی اجازت دینا ممکن ہے – اس پر ہمیں ابھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہم مندرجہ ذیل مؤقف اختیار کرنے کی طرف مائل ہیں: نانجنگ حکومت کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ چین کے عوام حقیقی امن جلد حاصل کر سکیں۔
یہ نانجنگ حکومت تھی جس نے جنگ شروع کی اور اس نے ایک بڑا جرم کیا۔ پہلے ہی ملک کے عوام کو اس پر بھروسہ نہیں ہے۔ جنگ کے جلد از جلد خاتمے اور امن کے قیام کے لیے نانجنگ حکومت کو عوام کو اقتدار منتقل کرنا چاہیے۔ اس کے پاس اقتدار باقی رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فی الحال ہم جیان جیجن، شاؤلِٹسی اور دیگر ایسے لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں اور ان کی طرف سے اپنے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بناتے ہیں تو وہی ہوگا جو امریکہ کی حکومت دیکھنا چاہتی ہے۔
لیکن یہ چیز چین کے عوام، جمہوری پارٹیوں اور عوامی تنظیموں، پیپلزلبریشن آرمی کے حصوں اور یہاں تک کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کو شدید ہنگامہ آرائی کی طرف لے جائے گی اور اس سے ہماری اس پوزیشن کو شدید نقصان پہنچے گا جس کی وجہ سے تحریک کی راستبازی ہمارے ساتھ ہے۔ .
جولائی 1947ء کی ابتداء سے ہم ان مذاکرات کے فریب پر احتیاط اور تسلسل کے ساتھ توجہ دے رہے ہیں جو امریکہ اور کومینتانگ کی حکومت کو مؤخر الذکر کی فوجی شکست کی صورت میں اور اس اثرورسوخ کی شدت کی صورت میں ناگزیر طور پر کرنا پڑیں گے جو یہ دھوکے بازی چین کے لوگوں پر ڈال رہی ہے۔
ہمیں اس بات پر گہری تشویش تھی کہ یہ دھوکہ عوام پر بڑا اثر ڈالے گا اور ہمیں سیاسی ہنگامہ آرائی پر مجبور کرے گا، یعنی کومینتانگ کے ساتھ مذاکرات سے انکار نہ کرنا۔ ہم مخلوط حکومت کی تشکیل میں تاخیر کریں گے۔ اس کے پیچھے بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور کومینتانگ والے اپنے ترپ کے پتے ظاہر کردیں، جب کہ ہم اپنے ترپ کے پتے آخری وقت میں سامنے لائیں گے ۔
حال ہی میں ہم نے جنگی مجرموں کی فہرست شائع کی ہے جس میں 45 افراد شامل ہیں۔ یہ غیر سرکاری طور پر کیا گیا تھا (ایک مجاز اتھارٹی کے بیان کے بغیر)۔پیپلز لبریشن آرمی نے ابھی تک ان جنگی مجرموں کی گرفتاری کے بارے میں کوئی حکم جاری نہیں کیا ہے۔یکم جنوری کو چیانگ کائی شیک نے امن کی تجویز پیش کی۔ ہم نے غیر سرکاری طور پر جواب دیا ہے (ایک صحافی کے مضمون کی شکل میں)۔
مختصراً، ہم نے بعد کی تبدیلیوں کے لیے بہت سے نکات چھوڑے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ چینی عوام اور بین الاقوامی برادری امن مذاکرات کے بارے میں کومینتانگ کے فریب پر کیا ردعمل دیتے ہیں۔
فی الحال ہم کومینتانگ کے پرامن فریب کو راستبازی سے مسترد کرنے کی طرف مائل ہیں، کیونکہ اس وقت چین میں افواج کے توازن میں بنیادی تبدیلی آئی ہے اور بین الاقوامی برادری بھی نانجنگ حکومت کے حق میں نہیں ہے، اس لیے پیپلز لبریشن آرمی اس سال خود چانگ جیانگ کو عبور کر سکتی ہےاور نانجنگ پر حملہ کرسکتی ہے۔
بظاہر ہمیں دوبارہ کوئی سیاسی چال چلنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ موجودہ حالات میں اس طرح جل دینے کی چال چلنا فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔
4۔ میں اس حقیقت کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اتنے اہم مسئلے پر ہماری رائے پوچھتے ہیں۔ اگر آپ میری مندرجہ بالا رائے سے متفق نہیں ہیں، یا اگر آپ کچھ تبدیلیاں کرتے ہیں، تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے بتائیں۔
ماؤ زے تنگ
13جنوری 1949ء