مضامینِ سبطِ حسن: ایک عورت، ہزار افسانے
کسی پرانی قوم کے عقائد و افکار کا جائزہ لیتے وقت اس کے سماجی اور معاشرتی حالات کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ان عقائد و افکار کے اصل محرکات ہماری سمجھ میں نہیں آسکتے۔ مگر انسان کا معاشرہ کوئی جامد اور ساکن شے نہیں ہے بلکہ اس میں وقتاً فوقتا ً بعض اہم اور بنیادی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کا بھی علم ہونا چاہئے کیونکہ انسان کے خیالات اور احساسات پر ان تبدیلیوں کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں ان علامتوں اور اصطلاحوں کے اصل مفہوم سے بھی آگاہ ہونا چاہئے جو اس زمانے میں رائج تھیں، اس لئے کہ الفاظ کی شکلیں اگرچہ کم بدلتی ہیں لیکن ان کے معنی اور مطالب میں عہد بہ عہد تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً دیوی دیوتا کی اصطلاحیں قدما کسی اورمعنی میں استعمال کرتے تھےاور ہم کسی اور معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ یا بھگوان کی اصطلاح کو جس کے مروجہ معنی خدا یا ایشور کے ہیں، گیاہستانی دور کے آریہ بالکل مختلف معنی میں استعمال کرتے تھے۔
بھاگ سنسکرت میں حصے کو کہتے ہیں اور بھاگوان شکاری قبیلے کا وہ بزرگ مرد ہوتا تھا جو خورد و نوش کی چیزوں کو قبیلے والوں میں برابر تقسیم کرتا تھا۔ اس دور کے معاشرے میں حصے بانٹنا نہایت اہم سماجی فریضہ تصور کیا جاتا تھا۔ چنانچہ قبیلے کے لوگ بھاگوان کے فرائض اسی آدمی کے سپرد کرتے تھے جو سب سے زیادہ دیانت داراور منصف مزاج ہوتا تھا۔ در اصل ان کا حقیقی رزاق وہی تھا۔ جب آریاؤں کی زندگی کا انحصار شکار پر نہ رہا اور انہوں نے کھیتی باڑی اور تجارت و حرفت شروع کی اور ذاتی ملکیت کو فروغ ہوا تو بھاگوان کا یہ قدیم منصب لامحالہ ختم ہو گیا۔ البتہ انصاف اور رزاقی کا وہ تصور جو لفظ بھگوان کے ساتھ وابستہ تھا بدستور باقی رہا۔ چنانچہ جب آریائی ذہنوں نے دیوتاؤں کی تخلیق کی تو ان دیوتاؤں کو نہ صرف بھگوان کے اوصاف سے نوازا بلکہ انہیں بھگوان کا پرانا لقب بھی عطا کیا۔ اس طرح لفظ بھگوان کے معنی اور مفہوم بالکل بدل گئے۔ بھگوان جو ابتدا میں ایک انسان تھا اور شکار کے حصے تقسیم کرتا تھا معاشرتی حالات میں تبدیلی کے بعد ہندوؤں کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر مامور ہو گیا۔
یہی حادثہ لفظ قسمت کے ساتھ بھی پیش آیا۔ چنانچہ حصہ تقسیم کرنے والے کا معززعہدہ تو ختم ہوگیا لیکن آنے والی نسلوں میں یہ یقین باقی رہا کہ کوئی ایسی طاقت ضرور ہے جو دنیاوی نعمتوں کو انسانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اسی سے قسمت اور لوح تقدیر کے تصورات پیدا ہوئے اورا ب کسی کو یہ بھی یاد نہیں کہ ایک زمانے میں دنیاوی نعمتوں کو قبیلے کا سربراہ ہی لوگوں میں تقسیم کیا کرتا تھا۔
وادی دجلہ و فرات کے قدیم باشندوں کے ابتدا میں کیا عقائد تھے اور ان میں عہد بہ عہد کیا تبدیلیاں ہوتی رہیں، ان سوالوں کا جواب آسان نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی دشواری ذرائع معلومات کی کمی کی ہے کیونکہ تین ہزار قبل مسیح سے پیشتر کے ایسے کوئی آثارموجود نہیں ہیں جن سے پتہ چل سکے کہ شکاری دور یا گلہ بانی کے زمانے میں وہاں کے لوگوں کی کیا سوچ تھی۔ فن تحریر کی ایجاد کے بعد بھی یہ مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ جن لوحوں اور کتبوں سے سرزمین عراق کے قدیم باشندوں کے خیالات اخذ کئے جا سکتے ہیں وہ زیادہ تر اشور بنی پال کے کتب خانے سے یا نیفر کی کھدائی میں ملی ہیں۔ یہ نوشتے مذہبی دعاؤں، رزمیہ داستانوں، دیوتاؤں کے قصے، شاہی مہموں، تجارتی معاہدوں اور کاروباری حساب کتاب پر مشتمل ہیں۔
جن لوحوں سے افکار اورعقائد کا اندازہ ہو سکتا ہے وہ فقط ایک خاص طبقے یا گروہ کے عقائد کی عکاسی کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ بادشاہ کے نویسندوں نے اور مندر کے پروہتوں نے فقط وہی چیزیں محفوظ کی ہوں گی جو ان کے عقائد کے مطابق ہوں گی۔ مخالفین کے خیالات کو قلم بند کرنا ان کے لئے ضروری نہ تھا۔ یوں بھی وابستگان سلطنت اور مندروں کے پروہتوں کے علاوہ بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان نوشتوں میں افکار و عقائد کی حد تک بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس یکسانیت سے بعض محققین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس خطے کے لوگوں کے خیالات میں دو ہزار برس کی طویل مدت میں کوئی تبدیلی یا ترقی نہیں ہوئی۔
بظاہر یہ بڑی حیرت انگیز بات معلوم ہوتی ہے لیکن وادی دجلہ و فرات کے لوگوں کے خیالات میں اس پورے دور میں در حقیقت بہت کم تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس مدت میں وہاں بار بار سیاسی تغیرات رونما ہوئے۔ کبھی سلطنت بابل کا پرچم اقتدار بلند ہوا۔ کبھی کسدیوں اور ایرانیوں کی یلغار کا شور مچا اور کبھی اشور کی فتوحات کاغلغلہ اٹھا لیکن معاشرے کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ پرانے طبقاتی رشتے اپنی جگہ بدستور قائم رہے۔ چنانچہ مندرکے پروہتوں کا تسلط ہو یا نظم ونسق کے اصول، زراعت کے طریقے ہوں یا صنعت و حرفت کے انداز جو شروقین اور حمورابی کے عہد میں تھے وہی اشور بنی پال اور نجت نصر کے زمانے میں بھی رائج رہے۔ بہت ہوا تو سومیریوں کے انو دیوتا کی جگہ بابل کے مروک کو مل گئی یا اتو کا نام شمس ہو گیا، ورنہ پرانے رسوم و رواج اور طرز زندگی میں کوئی بنیادی فرق نہیں آیا۔
اور فرق آنا ممکن بھی نہ تھا کیونکہ معاشرے کے طرز زندگی اور فکری اسلوب میں تبدیلیاں اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب معاشرے کا وجود ان تبدیلیوں کا متقاضی ہو اور معاشرے کا وجود اسی وقت تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے جب پیداوار کے پرانے رشتے معاشرے کے ترقی کی راہ میں حائل ہونے لگیں۔ تب نئے اور پرانے خیالات آپس میں ٹکراتے ہیں۔ فرسودہ رشتوں اور فکروں کی مخالفت شروع ہوتی ہے اور نئے افکار و نظریات پیش کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ کارل مارکس لکھتا ہے کہ:
’’معاشرتی چیزیں پیدا کرتے وقت (خواہ یہ چیزیں زرعی ہوں یا صنعتی) انسانوں کے درمیان چند مخصوص رشتے قائم ہوتے ہیں۔ (زمیندار کاشتکار کا رشتہ، آقا اور غلام کا رشتہ، کارخانے اور مزدور کا رشتہ) یہ رشتے ناگزیر ہوتے ہیں اور ان کو قائم کرنے میں افراد کی مرضی کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ پیداوار کے یہ رشتے پیداوار کی مادی قوتوں کے ارتقاء کے مخصوص درجے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ رشتے مجموعی طور پر عبارت ہوتے ہیں معاشرے کی معاشی ساخت سے۔ یہی معاشی ساخت وہ حقیقی بنیاد ہے جس پرقانون اور سیاست کا بالائی ڈھانچہ قائم ہوتا ہے اور جس سے سماجی شعور کی مختلف شکلیں میل کھاتی ہیں۔
مادی زندگی میں پیداوار کا انداز و طریق ہی زندگی کے سماجی، سیاسی اور ذہنی طرز عمل کا تعین کرتا ہے۔ لوگوں کا شعور ان کے وجود کومتعین نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس ان کا سماجی وجود ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ پیداوار کے مادی عناصر ترقی کی ایک خاص منزل پر پہنچ کر پیداوار کے مروجہ رشتوں سے ٹکرانے لگتے ہیں۔ اسی بات کو قانون کی زبان میں یوں کہیں گے کہ مادی عناصر ملکیت کے ان رشتوں سے متصادم ہو جاتے ہیں جن کے اندر رہ کر وہ اب تک مصروف عمل تھے۔ چنانچہ ملکیت یا پیداوار کے یہ رشتے عناصر پیداوار کے حق میں زنجیر پابن جاتے ہیں، تب سماجی انقلاب کا دور آتا ہے۔ اور معاشی بنیاد کی تبدیلی کے ساتھ سماج کے بالائی ڈھانچے (سیاست، قانون، اخلاق، افکار و عقائد) کی کایا بھی کم و بیش پلٹ جاتی ہے۔ مگر اس قلب ماہیت پرغور کرتے وقت پیداوار کے معاشی حالات میں جو مادی تبدیلیاں ہوتی ہیں، ان میں اور قانونی، سیاسی، مذہبی، جمالیاتی یا فلسفیانہ تبدیلیوں، مختصریہ کہ ذہنی پیکروں کے تغیرات میں، امتیاز کرنا چاہئے۔ کیونکہ مادی تبدیلیوں کو تو سائنسی طور پر ٹھیک ٹھیک ناپا جا سکتا ہے، لیکن ذہنی تبدیلیوں کا تعین آسان نہیں ہوتا، اور شعور کی آویزشیں انہی ذہنی پیکروں میں نمودار ہوتی اور لڑی جاتی ہیں۔
کوئی سماجی نظام اس وقت تک معدوم نہیں ہوتا جب تک عناصر پیداوار کے لئے سماج میں ترقی کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ اور پیداوار کے نئے اور بہتر رشتے اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتے جب تک کہ ان کے وجود کے مادی عوامل پرانے سماج کے بطن میں پوری طرح پرورش نہیں پا لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی نوع انسان فقط انہیں مسائل سے نبردآزما ہوتی ہے، جن کو حل کرنے کی اس میں سکت ہوتی ہے۔ در حقیقت اس قسم کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہی اس وقت ہے جب اس کے حل کے لئے مادی حالات موجود ہوں۔‘‘
وادی دجلہ و فرات کے لوگوں کو تقریبا ًدو ہزار برس تک عناصر پیداوار یا پیداواری رشتوں کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ وہی کانسے کے آلات پیداوار اور آلات جنگ جو شہری ریاستوں کے ابتدائی زمانے میں استعمال ہوتے تھے، چھٹی صدی قبل مسیح میں ایرانیوں کے غلبے کے وقت بھی رائج تھے۔ نہ معاشرے کی بنیادی ساخت بدلی اور نہ خیالات اور عقائد کی دنیا میں کوئی ہلچل پیدا ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ عراق کی سرزمین سے زرتشت، مانی یامزدک کی مانند کوئی انقلابی شخصیت کبھی نہ ابھری اورنہ کوئی ایسی سماجی تحریک پیدا ہوئی جو پرانے توہمات اور عقائد کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرتی۔ اگر ایسی کوئی تحریک اٹھی ہوتی تو شاہی نوشتوں یا پروہتوں کی تصنیفوں میں اس کی مذمت کے اشارے ضرور ملتے۔ مگر ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ زرتشت اور مانی و مزدک چھٹی صدی قبل مسیح کے بعد پیدا ہوئے تھے۔
قدما کی تحریری روایتیں بھی ذرائع معلومات کی راہ میں دشواریاں پیدا کرتی ہیں۔ یہ لوگ ہرعہد میں پرانی داستانوں کو اپنے وقتی تقاضوں یا مذاق کے مطابق از سرنو مرتب کرتے رہتے تھے۔ اس کی وجہ سے ایک ہی داستان مختلف ادوار میں مختلف شکلیں اختیار کر لیتی تھی۔ چنانچہ لوحوں پر سن تحریر درج نہ ہو تو یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ داستان کی ابتدائی شکل کیا تھی اور وہ عہد بہ عہد کتنے قالبوں میں ڈھلی۔ لطف یہ ہے کہ اکثر لوحوں پر سن سرے سے غائب ہیں اور اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ فلاں لوح فلاں عہد کی ہے تو کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان لوحوں میں جو خیالات پیش کئے گئے ہیں وہ پورے عہد کی ذہنی کاوشوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اس طویل تمہید سے ہمارا منشا اپنے اصول تنقید کی وضاحت کرنا تھا اور پرانے عقائد و افکار کی ارتقائی منزلوں کی جستجو میں جو مشکلیں پیش آتی ہیں ان سے قارئین کو آگاہ کرنا تھا۔ مگر ان عقائد کی تشریح سے قبل قدما کے معاشرتی ماحول کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کرنا ضروری ہے۔
انیسویں صدی سے پیشتر انسان کے ماضی بعید کے بارے میں ہماری معلومات بہت ناقص اور محدود تھیں۔ عہد قدیم زمین کے سینے میں دفن تھا اور ہمیں نہ ان دفینوں کی خبر تھی اور نہ ہمارے پاس ان کی تلاش و تحقیق کا کوئی ذریعہ موجود تھا۔ ہماری آگہی کا سارا اثاثہ چند مذہبی کتابیں تھیں یا وہ لوک کہانیاں جو پرانی قوموں میں ہزاروں برس سے رائج ہیں۔ پس انہیں نوشتوں اور روایتوں کی روشنی میں انسان اور اس کے قدیم معاشرے کا سراغ لگایا جاتا تھا۔ چنانچہ سترہویں صدی کے ایک پادری اشر نے انجیل کی کتاب پیدائش کے مطالعہ سے یہ ثابت کیا تھا کہ ظہور آدم کا واقعہ 4004ء قبل مسیح میں پیش آیا تھا اور دانایان مغرب نے پادری اشر کی اس کاوش کو بہت سراہا تھا۔ لیکن انیسویں صدی میں جب سائنس نے ترقی کی اور نئے نئے علوم مثلاً علم الارض، علم الحیوان اورعلم الافلاک کو فروغ ہوا تو زمین اور زندگی کی عمریں متعین ہونے لگیں۔ ارتقائے حیات کے نظریے بننے لگے اور زمین کی تہوں سے بے شمار ایسی چیزیں برآمد کی جانے لگیں جن سے یہ ثابت ہو گیا کہ زندگی کے جرثومے کروڑوں برس سے زمین کی آغوش میں پرورش پا رہے ہیں۔
دانشوروں نے ان معدوم جانوروں کے ڈھانچے بھی ڈھونڈ نکالے جو لاکھوں برس گزرے معدوم ہو چکے ہیں اور جب 1891ء میں پروفیسر دوبائے کو جاوا میں قدیم انسان کی چارلاکھ برس پرانی ایک کھوپڑی ہاتھ آئی تو پادری اشر کا حساب بالکل ہی غلط ہو گیا۔ اس کے بعد 1907ء میں ہائیڈل برگ (جرمنی) کے مقام پر آدمی کا ایک جبڑا ملا جو پانچ لاکھ برس پرانا تھا اور 1907ء میں پیکنگ (چین) کے ایک نواحی غار میں انسانوں کے 45 ڈھانچے دستیاب ہوئے جو چارلاکھ برس پرانے تھے۔ چنانچہ اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انسان کم از کم پانچ لاکھ برس سے اس کرہ ارض پر آباد ہے۔
محققین نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اس پانچ لاکھ برس کے عرصے میں انسان کے آلات و اوزار، رسم و رواج، رہن سہن، عقائد وعادات اور فکر و فن میں وقتاً فوقتاً نمایاں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ انسانی تہذیب کوئی جامد اور ساکت شے نہیں ہے جو ایک مقام پر مستقل ٹھہری رہتی ہو بلکہ وہ ایک تغیر پذیر اور فعال حقیقت ہے جس نے اب تک ارتقاء حیات کے مختلف مدارج طے کئے ہیں اوریہ عمل بدستور جاری ہے۔ ان تبدیلیوں کا باعث وہ آلات و اوزار ہیں جن کو انسان حصول معاش کی خاطر خود بناتا ہے۔ در اصل تہذیب انسانی کے مختلف عہدوں کی شناخت انہی آلات و اوزار سے کی جاتی ہے۔ چنانچہ 1835ء میں کرسٹین ٹامسن CHRISTIAN TOMSEN نامی ایک فرانسیسی عالم نے آلات و اوزار کے فرق کے پیش نظر انسانی تہذیب کے تین بنیادی عہد قائم کئے ہیں۔
پتھر کا زمانہ جب کہ آلات و اوزار پتھر، لکڑی یا ہڈی کے ہوتے تھے۔
دھات کا زمانہ جب کہ آلات و اوزار کانسے کے ہوتے تھے۔
لوہے کازمانہ جو ایک ہزار قبل مسیح کے قریب شروع ہوا اور ہنوز جاری ہے۔
پتھر کا زمانہ تقریبا ًپانچ ہزار قبل مسح تک جاری رہا۔ اس کو زمانہ قبل از تاریخ بھی کہتے ہیں۔ علماء آثار نے پتھر کے زمانے کو بھی تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
قدیم حجری دور 5 لاکھ تا 20 ہزار قبل مسیح
وسطی حجری دور 20 ہزار تا 12 ہزار قبل مسیح
جدید حجری دور 12 ہزار تا 5 ہزار قبل مسیح
مگر کرسٹین ٹامسن نے حجری دور سے پہلے کا وہ طویل زمانہ نظر انداز کر دیا جس میں انسان جنگل کے پھل پھول، جڑی بوٹی اور گھاس پات پر زندگی بسر کرتا تھا، حالانکہ حجری دور کے لوگوں کے افکار و عقائد اپنے پیش روؤں کے تجربات سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ اس ثمریابی کے دورمیں انسان اپنی خوراک خود پیدا کرنے پر قادر نہ تھا، بلکہ قدرت کی فیاضیوں کا دست نگرتھا۔ وہ ثمریابی کی خاطر محنت ضرور کرتا تھا مگر اس کی محنت میں اور دوسرے جانوروں کی محنت میں چنداں فرق نہ تھا۔ اس دور کے آخری دنوں میں انسان نے غالبا ًلکڑ ی اور پتھر کی مدد سے پھل توڑنے اور جڑیں کھودنے کا ہنرحاصل کر لیا تھا۔
ثمریابی کے دور کا انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہتا تھا۔ ان قبیلوں کا طرز معاشرت پنچایتی یا اشتراکی تھا۔ اور ان میں عورت مرد، چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی تھی بلکہ پورا قبیلہ ایک وحدت تصور ہوتا تھا البتہ عورت کو مرد پر ایک فوقیت حاصل تھی۔ وہ یہ تھی کہ پھل پھول جمع کرنے کے علاوہ وہ بچے بھی پیدا کرتی تھی۔ یعنی قبیلے کے وجود اور افزائش کی براہ راست ذمہ دار عورت تھی۔ عورت مرد کی مباشرت اور بچے کی ولادت میں جو رشتہ ہے اس وقت تک انسان اس رشتے سے واقف نہ ہوا تھا۔ اس لئے وہ افزائش نسل کو واحد عورت ہی کا کارنامہ سمجھتا تھا۔ آسٹریلیا اور امریکہ کے بعض پرانے قبیلے اب تک یہی خیال کرتے ہیں۔
حجری دور کے آغاز پر قبیلے کی وحدت تو بدستور برقرار رہی بلکہ اور زیادہ مضبوط ہو گئی۔ البتہ قبیلے کے اندر عورت کی حیثیت ضمنی ہو گئی۔ یہ دور جنگلی جانوروں کے شکار کا دور تھا۔ کیونکہ اب انسان پتھر کے نکیلے ٹکڑوں کو لکڑی سے جوڑ کر کلہاڑے اور بھالے بنانے لگا تھا۔ جنگلی جانوروں کا شکار بڑے جان جوکھم کا کام تھا۔ اس میں جسمانی طاقت زیادہ درکار ہوتی تھی لہٰذا یہ کام مردوں کے سپرد ہوا۔ در اصل اسی وقت سے معاشرے میں تقسیم کار کی بنیاد پڑی۔ مرد شکار کرتے تھے اور جو کچھ ہاتھ آتا تھا اسے پورا قبیلہ آپس میں بانٹ لیتا تھا۔ عورتیں بدستور ساگ پات، پھل اور جڑی بوٹیاں جمع کرتی تھیں۔ یہ چیزیں بھی غذا کے کام آتی تھیں۔ کیونکہ شکار کا ملنا تو ایک اتفاقی امر تھا۔ ثمر اندوزی کے علاوہ عورتوں کا کام بچوں کی پرورش کرنا، قبیلے کے بوڑھوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کرنا اور جانوروں کی کھال کو صاف کرکے ان سے قبیلے والوں کے لئے پوشاک تیار کرنا تھا۔
اسی زمانے میں گلہ بانی بھی شروع ہوئی۔ کیونکہ شکاریوں کو کبھی کبھار جنگل میں گائے، بھینس، بکری، بھیڑ یاہرن کے بچے مل جاتے تھے یا وہ زخمی جانور کو زندہ پکڑنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ اس طرح مویشی پالنے اور گلہ بانی کا رواج ہوا اورانسان شکار کی محتاجی سے آزاد ہوا۔ اب اسے شکار کی تلاش میں مارا مارا پھرنے کی ضرورت نہ تھی۔ مویشی پالنے میں ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ لوگ جانوروں کا دودھ بھی استعمال کر سکتے تھے۔ مگران سہولتوں کے باوجود انسان کی صحر انوردی اور خانہ بدوشی بدستور باقی رہی بلکہ مویشیوں کے لئے گھاس چارے کی تلاش میں اسے اب مجبوراً گیاہستانی علاقوں کا سفر کرنا پڑا۔ چنانچہ آریاؤں کے قافلے جو پندرہویں صدی قبل مسیح میں ایران میں داخل ہوئے اور جنہوں نے وادی سندھ کی تہذیب کو تاخت و تاراج کیا، در اصل گیاہستانی لوگ ہی تھے۔ ان کو اپنے گلوں کے لئے چارے کی خاطر دور دراز ملکوں کا سفر اختیار کرنا پڑا تھا۔
اس دور کے آثار دریائے دجلہ کی وادی میں شمشال، شنیدر، کریم شہر اور دوسری جگہوں پر ملے ہیں۔ البتہ ان آثار میں کوئی مورت دستیاب نہیں ہوئی ہے۔ غالباً اس وقت تک اس خطے کے لوگ سحر اور مذہب کے تصور سے آشنا نہیں ہوئے تھے۔
گلہ بانی کے بعد کھیتی باڑی کا دور آیا۔ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ زراعت کا فن عورتوں نے ایجاد کیا تھا۔ اس عظیم ایجاد نے معاشرتی انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ انسان پہلی بار زمین سے وابستہ ہوا اور اس نے سفری زندگی ترک کر کے حجری زندگی اختیار کی۔ زراعت کی وجہ سےانسان پہلی بار اپنی غذا خود پیدا کرنے کے قابل ہوا۔ مگر چونکہ زراعت عورت کی ایجاد تھی اور قبیلہ والوں کا خیال تھا کہ یہ کام عورت ہی بہتر سر انجام دے سکتی ہے اس لئے قبیلے کے اندرعورت کو دوبارہ فوقیت حاصل ہوئی۔ اس کی ذات تمام اختیارات کا سرچشمہ قرار پائی۔ اس طرح زراعت کی ابتدا کے ساتھ دنیا میں اموی نظام باقاعدہ رائج ہوا۔ یہ نظام مصر، عراق، یونان، ایشیائے کوچک اور وادی سندھ میں صدیوں تک قائم رہا۔ حتی کہ مصر میں فراعنہ کے عہد تک تخت وتاج کی حقیقی مالک اور مندر کی مہاپروہت ملکہ ہی ہوتی تھی، اور فراعنہ کوملکہ کے ساتھ شادی کرنے کے طفیل ہی اقتدار نصیب ہوتا تھا۔
اموی نظام کی تعریف کرتے ہوئے پروفیسر ریورز لکھتا ہے کہ یہ ایسی سماجی تنظیم ہے جس میں ’’ہرشخص کے حقوق، دوسرے کے مقابلے میں اور پورے معاشرے کے مقابلے میں، ماں کے رشتے سے متعین ہوتے ہیں۔ معاشرے کی حد تک اس کے فرائض اور حقوق ان رشتوں سے متعین ہوتے ہیں، جو اس شخص میں اور اس کی ماں کے رشتہ داروں میں اور اس کی ماں کے سماجی طبقے میں قائم ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اموی نظام میں قبیلے کے ہر شخص کو اس کے حقوق اور فرائض ماں کی طرف سے ملتے ہیں نہ کہ باپ کی طرف سے۔‘‘
اس قسم کا اموی نظام ان پسماندہ قوموں میں اب تک رائج ہے جو زراعت کے ابتدائی دور سے آگے نہیں بڑھی ہیں۔ مثلاً آسام میں اور مشرقی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ایک پسماندہ قوم آباد ہے جس کو کھاسی کہتے ہیں۔
’’ان کی سماجی تنظیم قدیم اموی نظام کی نہایت مکمل مثال پیش کرتی ہے۔ ماں فقط خاندان کی سربراہ اور افراد خاندان کا رشتہ اتحاد نہیں ہے بلکہ خاندان کی جائداد کی مالک بھی ماں ہی ہوتی ہے۔ وراثت اسی سے منتقل ہوتی ہے۔ باپ کا بچوں پرکوئی اختیارنہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ماں کے قبیلے کے ماتحت ہوتے ہیں۔ باپ جو کچھ کماتا ہے وہ اس کے اموی رشتہ داروں (بھانجوں بھانجیوں) میں بٹ جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اس کی ہڈیوں کواس کی ماں کے قبیلے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کے گھر میں نہ کھاتا ہے اور نہ رہتا ہے بلکہ کبھی کبھار اپنی بیوی سے رات کو اندھیرے میں آکر مل جاتا ہے۔
(LYALL QUQTED BY LO KAY AL P.237)
عراق میں سب سے پرانی مورتیاں جرمو اورحلاف میں ملی ہیں۔ یہ مورتیاں اسی زرعی اور اموی نظام کے دور کی ہیں۔ یہ مورتیاں حاملہ عورتوں کی ہیں اور ان میں پستان اور پیڑو کا ابھار بہت نمایاں ہے۔ اسی نوع کی مورتیاں کریٹ کے جزیرے میں، اناطولیہ کے پلیٹوپر، دریائے سندھ کی وادی میں اور یونان، مصر اور فونیقیا میں بہ کثرت دستیاب ہوئی ہیں۔ در اصل دنیا کا شاید ہی کوئی پرانا خطہ ایسا ہو جہاں سے حاملہ عورت کی مورتیاں نہ ملی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بغداد، قاہرہ، استنبول، موہن جودڑو، ایتھنز، روم، پیرس، ماسکو، لندن، نیویارک، برلن، پیکنگ اورٹوکیو غرض کہ دنیاکے سبھی بڑے عجائب گھروں میں حاملہ عورت کی مورتیوں کی بہتات ہے۔
سوال یہ ہے کہ حاملہ عورت کی مورتیاں، زراعت کے اموی عہد ہی میں کیوں بنائی گئیں اور اگر بنائی گئیں تو ان کی غرض وغایت کیا تھی۔ عمرانیات کے عالموں نے ان مورتیوں کو مادر ارض کا لقب دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی زرعی عہد میں یہ مورتیاں زرعی پیداوار کی افزائش کے ساحرانہ رسوم میں استعمال ہوتی تھیں۔ کیونکہ اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک عورت کا تخلیقی عمل اور زمین کی زرخیزی کاعمل ایک ہی حقیقت کے دورخ سمجھے جاتے تھے۔
سر جان فریزر نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’شاہ زریں‘‘ (GOLEDN BOUGH) میں امریکہ کے اور نیکو قبیلے کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ جس سے اس دعوے کی پوری پوری تصدیق ہوتی ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ ایک بار ایک پادری نے اور نیکو قبیلے کے لوگوں سے ناراض ہو کر کہا کہ تم لوگ بڑے بے رحم ہو۔ تمہاری عورتیں سخت دھوپ میں بچوں کو سینے سے لگائے بیج بوتی رہتی ہیں اور تم ان کی بالکل مدد نہیں کرتے۔ قبیلہ والوں نے پادری کو جواب دیا کہ ’’مقدس باپ آپ اس بات کو نہیں سمجھتے۔ آپ کو یہ تو معلوم ہے کہ عورتیں بچے پیدا کرتی ہیں لیکن ہم بچے نہیں پیدا کر سکتے۔ جب عورتیں بیج بوتی ہیں تو جوار کے پودوں میں دو دو تین تین بھٹے لگتے ہیں اور آلو کی جڑ سے دو دو تین تین ٹوکری آٹو نکلتا ہے۔ بتائیے ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ عورتیں بچے پیدا کرنا جانتی ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ بیج سے اناج افراط سے کیسے پیدا کیا جاتا ہے۔ پس انہیں بیج بونے دیجئے۔ جتنا وہ جانتی ہیں ہم نہیں جانتے۔‘‘
اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ زراعت کے ابتدائی دور میں انسان کا شعور زراعت کے اصولوں سے آگاہ نہیں ہوا تھا۔ اور نہ وہ یہ جانتا تھا کہ پودے کیوں اور کیسے بڑھتے ہیں۔
موہن جودڑو کی مورتیوں سے متعلق بحث کرتے ہوئے سر جان مارشل لکھتا ہے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ وادی سندھ اور بلوچستان میں عورتوں کی جومورتیاں نکلی ہیں ویسی ہی مورتیاں عراق، شام، فلسطین، قبرص، کریٹ، بلقان، ایران اور مصر میں بھی کثرت سے ملی ہیں۔ علماء آثار کی متقفہ رائے ہے کہ یہ مورتیاں مادر کائنات یا قدرت کی دیوی کی ہیں۔ وادی سندھ کی مورتیاں، مغربی ایشیا کی مورتیوں کی مانند، غالباً سماج کے اموی دور میں ایجاد ہوئیں۔
لیکن سحر یا جادو کی اصل حقیقت اور سحر اور افزائش کے رشتے پرغور کرنے سے پہلے وادی دجلہ و فرات کے قدیم انسان کے انداز فکر اور طرز استدلال کا سرسری جائزہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
وادی دجلہ و فرات کے قدیم باشندوں کی نظر میں کائنات زندگی سے بھرپور ایک وحدت تھی۔ وہ چیزوں کو حیوانات، نباتات اور جمادات میں بانٹنے کے قائل نہ تھے۔ بلکہ موجودات عالم کو یکساں فعال اور صاحب ارادہ خیال کرتے تھے۔ ان کے نزدیک ہر وہ شئے جو ذہن، جذبے یا ارادہ کو متاثر کر سکے، حقیقی تھی اور جو حقیقی تھی وہ جان دار اور متحرک تھی۔ اس کی ایک فعالی شخصیت تھی اور یہ شخصیت ارادے، عمل اور قدرشناسی کی صلاحیت رکھتی تھی۔ لہذا ریت کا ذرہ ہو یا پتھر کا ٹکڑا، آندھی کے طوفان ہوں یا سمندر کی موجیں، سورج کی شعاعیں ہوں یا چاند ستاروں کی چمک دمک، جانور ہوں یا انسان سب صاحب ارادہ اور فعال ہستیاں تھیں۔ چنانچہ سومیر کا ایک شاعر نمک سے یوں مخاطب ہوتا ہے،
نمکٍ! جسے پاکیزہ مقام پر پیدا کیا گیا۔
تجھے خداوند ان لیل نے دیوتاؤں کی خوراک قرار دیا۔
تیرے بغیر دیوتا، بادشاہ، شہزادے، رئیس زادے
لوبان کی خوشبو نہیں سونگھ سکتے۔
اے نمک! میرا طلسم توڑ دے
مجھے سحر سے آزاد کر دے۔
او اگر کسی راہ گیر کو ٹھوکر لگ جاتی تو وہ اس حادثہ کو یوں بیان کرتا تھا کہ، ’’میں چلا جا رہا تھا کہ پتھر کے ٹکڑے نے میرے پاؤں میں ڈس لیا اور میرا انگوٹھا لہو لہان ہو گیا۔‘‘
سوچ کا یہ قدیم انداز دنیا کی قریب قریب سبھی زبانوں میں موجود ہے۔ چنانچہ ایسے محاورے اور ترکیبیں اب بھی بکثرت ملیں گی جن میں بے جان چیزیں ارادے اور عمل کی صفتوں سے مزین نظر آئیں گی۔ مثلاً ہم آج بھی کہتے ہیں کہ سورج نکل آیا، دیوار کھڑی ہو گئی، چھت گر پڑی، جوتے نے کاٹ لیا، آندھی آرہی ہے۔ گویا یہ سب زندہ اور صاحب ارادہ چیزیں ہیں۔ شاعری میں تو اظہار بیان کا یہ انداز بہت عام ہے۔ چنانچہ سومیری شاعر اگر نمک سے خطاب کرتا ہے تو اردو کا شاعر آفتاب سے مصروف کلام ہے۔
اے آفتاب صبح سے نکلا ہوا ہے تو
عالم کے کاروبار میں دن بھر پھرا ہے تو
اور ستاروں سے یوں مخاطب ہوتاہے کہ
ارے چھوٹے چھوٹے تارو
جو چمک دمک رہے ہو
تمہیں دیکھ کرنہ ہووے
مجھے کس طرح تحیر
قدما ظواہر اور حقیقت، مشاہدہ اور ادراک میں امتیاز نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے ہرحسی تجربے کو سچا سمجھتے تھے۔ مثلا ًسورج اگر مشرق سے طلوع ہو کرمغرب میں غروب ہوتا تھا تو ان کے نزدیک سورج کی یہ گردش نظر کا دھوکہ نہ تھی بلکہ عین حقیقت تھی۔ اورعراق کے قدیم باشندوں پرکیا منحصر ہے، ہمار ے ملک کے کروڑوں باشندوں کا آج بھی یہی عقیدہ ہے۔ وہ اب تک آسمان کو ایک ٹھوس شے خیال کرتے ہیں۔
معاشرے کے عہد طفلی میں انسان اشیا کا تصور مجردات کے بجائے شخصی اور تصویری انداز میں کرتا تھا۔ جس طرح ہم آپ اب بھی خواب میں یا ہمارے شاعر اپنی تشبیہوں اور خیالی تصویروں IMAGES میں کرتے ہیں۔ چنانچہ اہل عراق اور مصرکہ کشتی سے سفر کرنے کے عادی تھے، سورج کو بھی کشتی کا مسافر تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سورج صبح سویرے اپنی کشتی پر بیٹھ کر آسمان کے نیلے سمندر میں سفر شروع کر دیتا ہے اور شام کے وقت بحر ظلمات میں چلا جاتا ہے جو مغرب میں تھا۔ اس کے برعکس وسطی ایشیا کے میدانوں میں گھوڑے دوڑانے والے آریاؤں کا سورج دیوتا شہسوار تھا۔ وہ گنگا جمنی رتھ میں سوار ہاتھ میں سنہری کرنوں کا بھالا اٹھائے اس شان سے سفر کرتا تھا کہ اس کی رتھ کے گھوڑوں کے منہ سے آگ کے شعلے نکلتے تھے۔
دوسری پرانی قوموں کی مانند اہل عراق بھی کسی واقعے یا حادثے کاسبب تلاش کرتے وقت یہ نہیں پوچھتے تھے کہ’’اس واقعے یا حادثے کو کس نے کیا۔‘‘ ان کے نزدیک ہر واقعے کے پیچھے کوئی نہ کوئی فعال اور صاحب ارادہ شخصیت ہوتی تھی۔ کسی ذات کے ارادے اور عمل کے بغیر کوئی شئے نہ وجود میں آسکتی تھی اور نہ فنا ہو سکتی تھی۔
اب اگر زندگی اور موت، بہار اور خزاں، بارش اور خشک سالی، بیماری اور تندرستی، افزائش اور قحط، فتح اور شکست سب کی اپنی فعال، صاحب ارادہ شخصیتیں تھی تو انسان ان شخصیتوں کے عمل اور ارادے پر بھی قابو پا سکتا تھا۔ انہیں اپنی مرضی اور خواہش کا پابند بھی بنا سکتا تھا۔ یہ تھا پرانے زمانے کے انسان کا طرز استدلال۔ اسی بات کو ہم آج کل کی زبان میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قدیم انسان مظاہر قدرت سے بالکل خائف نہیں تھا بلکہ وہ ان مظاہر کو تسخیر کرنے کی تدبیریں سوچتا رہتا تھا۔ یہ تدبیریں عملی بھی ہوتی تھیں اور نفسیاتی بھی۔ سحر ابتدائی انسان کی نفسیاتی تدبیرں کا دوسرا نام ہے۔ سحر کا بنیادی مقصد مظاہر قدرت کو تسخیر کرنا اور ان کو اپنی مرضی اورخواہش کا پابند بنانا تھا۔ یہ سحر مثبت بھی ہوتا تھا اور منفی بھی۔ یعنی اس سے تخلیق و تسخیر کا کام بھی لیا جاتا تھا، اور تخریب کا بھی۔
طریقہ کار کے اعتبار سے سحر کی دوقسمیں تھیں۔ اول تمثیلی یا ہوموپیتھک IMITATIVE دوئم اتصالی ICONTAGIOUS تمثیلی جادو کا نظریہ وہی تھا جو ہوموپیتھک میں علاج بالمثل کا ہے۔ یعنی ہم جنس ہم جنس کو پیدا کرتا ہے یا سبب اور مسبب، علت و معلول میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔ اتصالی جادو میں علت و معلول کے درمیان لمسی رشتے کا ہونا لازمی ہے۔ (مثلا ًدشمن کے سرکے بال کو جلانے سے دشمن کو گزند پہنچے گا) ایشیا اور افریقہ کی پسماندہ قومیں اب تک جادو میں یقین رکھتی ہیں اور جادوکی رسمیں مناتی رہتی ہیں۔ مثلاً برطانوی کولمبیا کے باشندوں کی گزر بسر مچھلیوں کے شکار پر ہوتی ہے مگر کبھی کبھار دریا میں مچھلیوں کی پیداوار گھٹ جاتی ہے، یا کسی وجہ سے مچھلیاں اس علاقے کا رخ نہیں کرتیں، تب یہ لوگ تیرتی ہوئی مچھلی کی ایک مورت بناتے ہیں اور اس مورت کو پانی میں بہا دیتے ہیں اور انہیں مچھلیوں کی فراوانی کا یقین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جزیرہ نیاس کے شکاریوں کو جب جنگلی سور ہاتھ آتا ہے تو وہ اسے مار کر زمین پر لٹا دیتے ہیں، پھر ایک آدمی زمین پرسے نوپتے چن کر لاتا ہے اور ان پتوں کو سور کے جسم سے چھواتا ہے۔ ان کاعقیدہ ہے کہ جس طرح پتیاں درخت سے زمین پر گر پڑیں اسی طرح نوعدد سور بھی ان کے گڈھوں میں گر پڑیں گے۔
سحر کے اس مختصر جائزے کے بعد اب ہم دوبارہ حاملہ عورت کی مورتیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم اس سے قبل لکھ چکے ہیں کہ پرانی قومیں عمل تولید اور پودوں کے نامیاتی عمل کو ایک ہی چیز سمجھتی ہیں۔ چنانچہ بعض پسماندہ قومیں اب تک اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ مثلاً جزائر نکوبار (بحر ہند) کے باشندوں کا اعتقاد ہے کہ اگر حاملہ عورت کھیت میں بیج بوئے تو فصل بہت اچھی ہوتی ہے۔ اس قسم کے خیالات یورپ کے کاشتکاروں میں بھی رائج ہیں۔ مثلا ًجنوبی اٹلی کے کاشتکاروں کاعقیدہ ہے کہ حاملہ عورت اگر بیج بوئے یا درخت لگائے تو فصل اچھی ہوتی ہے۔ (بریفالٹ ۵۵) اور چند صدی پیشتر روما اور یونان کے توہم پرست لوگ اناج اور زمین کی دیوی کو حاملہ عورت کی قربانی پیش کرتے تھے۔ بعض پرانی قوموں میں تو یہ عقیدہ حد سے تجاوز کر گیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ تمام پودے اور درخت عورت کی فرج سے اگتے ہیں۔ مثلاً مرکند یہ پران میں پیداوار کی دیوی یوں خطاب کرتی ہے،
اس کے بعد اے دیوتاؤ! میں ساری دنیا کو حیات بخش سبزیوں سے نوازوں گی۔ یہ سبزیاں تیزبارش میں میرے جسم سے اگیں گی۔ (آتما دیہہ سمد بھولے) اور میں زمین پر سکمبھری کہلاؤں گی۔ (ہریالی پیدا کرنے والی)
دیوی کا یہ دعوی علامتی یا شاعرانہ تعلی نہیں ہے بلکہ اس کی تصدیق ہڑپہ کی مہریں کرتی ہیں۔ یہ مہریں کم از کم ساڑھے تین ہزار برس پرانی ہیں۔ ایک مہر میں برہنہ عورت سر کے بل کھڑی ہے۔ اس کے پاؤں پھٹے ہوئے ہیں اور اس کی فرج سے ایک پودا اگ رہا ہے۔ مہر میں دو برہنہ شکلیں اور بھی ہیں اور درمیانی جگہ میں کوئی تحریر کھدی ہوئی ہے۔ اس مہر میں یقینا کسی ساحرانہ رسم کی نقش گری کی گئی ہے۔ دوسری مہر بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اس میں ایک پودا زمین سے اگ رہا ہے۔ ایک برہنہ عورت پودے کے پاس کھڑی ہے اور دوسری گھٹنوں کے بل بیٹھی ہے۔ اس کے دونوں ہاتھ پودے کی شاخ کو چھو رہے ہیں۔ اس کے پیچھے ایک بیل کھڑا عورتوں کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ اس مہر کی ساحرانہ نوعیت بالکل واضح ہے۔ پہلی مہر پر تبصرہ کرتے ہوئے سرجان مارشل لکھتا ہے،
’’جہاں تک مجھے معلوم ہے مادر ارض کی یہ بے مثال مورت ہے۔ مگر عورت کی فرج میں پودے کا اگنا اس زمانے کے لوگوں کے لئے حیرت انگیز بات نہیں تھی۔ چنانچہ اترپردیش میں بٹیا کے مقام پر گپتا عہد کی ایک مورتی ملی ہے۔ اس مورتی کی فرج کے بجائے گردن سے کنول کا ایک پودا نکلا ہوا ہے۔‘‘
ان مثالوں سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ زراعت کے ابتدائی دور میں عراق میں بھی اموی نظام رائج تھا۔ کھیتی باڑی عورتیں کرتی تھیں اور کھیتی باڑی کی رسموں میں حاملہ عورت کو بڑی اہمیت حاصل تھی کیونکہ اس زمانے کے لوگوں کا خیال تھا کہ حاملہ عورت کی تخلیقی صلاحیت اور زمین کی زرخیزی میں بہت گہرا تعلق ہے۔ حاملہ عورت کی مورتیاں اسی عقیدے کا مظہر تھیں۔
یہ خیال درست نہیں ہے کہ ابتدائی انسان ان مورتیوں کی پوجا کرتا تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حاملہ عورت کی مورتیاں رسوم سحر میں استعمال ہوتی تھیں۔ پرستش یا عبادت کا محرک رضاجوئی کا جذبہ ہوتا تھا۔ یعنی انسان کسی مافوق الفطرت قوت سے امدادواعانت کی التجاکرتاہے۔ اس کے برعکس سحر کا محرک تسخیر قدرت کا جذبہ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر فریزر نے سحر کو ’’ساقط سائنس اور ناقص آرٹ سے‘‘ تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ لغات عرب میں سحر کے معنی قلب ماہیت کے ہیں۔ یعنی کسی شئے میں ایسی تبدیلی کر دینا کہ اس کی اصل حقیقت میں فرق آجائے۔ مثلاً سحرۃ الفدت کے معنی چاندی پر کسی اور دھات کا پانی چڑھانے کے ہوتے ہیں۔ پس سحر کے معنی مادے میں تبدیلی کے ہوتے ہیں اور یہی سائنس کا بھی عمل ہے اور سحرہ بکلامہ کے معنی ہوتے ہیں کہ اس نے اپنی باتوں سے سننے والے کو اتنا متاثر کیا کہ وہ اس کا ہم خیال ہو گیا۔
(HOLY QRAN TR.M.MOHAD ALI P.45)
جیسا کہ اوپر لکھ چکے ہیں ابتدائی انسان کسی مافوق الفطرت قوت کا شعور نہ رکھتا تھا۔ وہ ساری کائنات کو ایک وحدت تصور کرتا تھا اور یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کائنات سے پرے کوئی اور ہستی بھی ہے جس نے کائنات کو خلق کیا ہے۔ آگے چل کر جب اس ذہن نے دیوی دیوتا خلق کئے تب بھی اس کے نزدیک ان دیوی دیوتاؤں کی حیثیت مظاہر قدرت کی شخصی تشکیل سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے ذہن میں تو پرستش کا مفہوم وہ بھی نہیں تھا جو ہمارے ذہن میں ہے۔ وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کی عبادات اس معنی میں نہیں کرتا تھا جس معنی میں ہم خدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم آگے چل کر بتائیں گے کہ یہ دیوی دیوتا دراصل اس کے قومی ہیرو تھے جن کو اس نے دیوی دیوتاؤں کا مرتبہ عطا کیا تھا۔
مگرہمارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ابتدائی انسان حاملہ عورت کی مورتی کی باقاعدہ پوجا نہیں کرتا تھا بلکہ ان کو رسوم سحر میں استعمال کرتا تھا۔ اس مسئلے سے بحث کرتے ہوئے پروفیسر بریفالٹ اپنی کتاب ’’مائیں‘‘ میں لکھتا ہے،
’’دنیا کی تمام غیر مہذب (پسماندہ) قوموں کی نگاہ میں زراعت کے فن کا بیشتر دار و مدار قوت سحر پر ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہنر اور جسمانی محنت سے زیادہ سحر کی قوت پراعتماد کرتی ہیں۔‘‘
بریفالٹ نے اس دعوے کی تائید میں بہ کثرت مثالیں پیش کی ہیں۔ مثلاً وہ لکھتا ہےکہ یورپ سے امریکہ ہجرت کرنے والے فرنگیوں نے جب وہاں کھیتی باڑی شروع کی تو امریکہ کے پرانے باشندوں کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ نوآبادکار لوگ جوار اور مکئ کی کاشت کرتے وقت نہ کوئی منتر پڑھتے ہیں اور نہ ساحرانہ رسمیں ادا کرتے ہیں۔ شمالی بورنیو کے جزیرے میں رہنے والی ڈائک قوم کاشت کے وقت متعدد رسمیں مناتی ہیں۔ قدیم میکسیکو میں تو ہرزرعی کام کے آغاز سے پہلے افزائش کی دیوی کی رسمیں منائی جاتی تھیں۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی پسماندہ قومیں اب تک زرعی کاموں کا آغاز جادو کی رسموں سے کرتی ہیں۔ یہی کیفیت افریقہ کی ہے۔ وہاں سیرالیون میں رَروبا قوم کی عورتیں جادو کے منتر پڑھ کر ایک سفوف تیار کرتی ہیں اور اس سفوف کو چاول کے کھیتوں میں چھڑکتی ہیں تاکہ فصل اچھی ہو۔
فریزر نے ایک پسماندہ قوم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی عورتیں حلقہ بنا کر رقص کرتی ہیں۔ رقص کی سرغنہ کے ہاتھ میں مکئی کا ایک بھٹہ ہوتا ہے۔ اس بھٹے میں ایک لکڑی پیوست کر دی جاتی ہے اور وہ عورت اس لکڑی کو ہاتھ میں اٹھا کر ناچتی ہے۔ اسی طرح ہداستا قوم کی عورتیں مکئی، لوکی، کدو اور تربوز کو لکڑیوں میں پیوست کر کے ناچتی ہوئی ایک خاص مقام تک جاتی ہیں، وہاں پہنچ کرعورتیں اپنے سب کپڑے اتار دیتی ہیں اور تب قبیلے کا بزرگ آدمی ان کے سروں پر اور پھلوں پر پھنکا ہوا پانی چھڑکتا ہے۔
یہاں یہ عرض کرنا مناسب نہ ہوگا کہ لوک ناچوں اور لوک گیتوں کا تعلق ہر ملک میں زراعت ہی کی کسی نہ کسی رسم سے رہا ہے بلکہ علماء کا خیال تو یہ ہے کہ ناچ اور گانے کی ابتدا ہی زراعت کی رسموں سے ہوئی ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ پرانی قوموں کے سبھی تیوہار کھیتی باڑی ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ غرض کہ پرانی قوموں کے زرعی رسوم اور دور حاضرہ کی پسماندہ قوموں کے طرز معاشرت کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مادر ارض کی جو مورتیاں جرمو اور حلاف سے نکلی ہیں، ان کا تعلق زرعی افزائش کی ساحرانہ رسموں سے تھا۔
اور جب افسوں طرازی کا دور آیا تو مادر ارض کو اہل عراق نے نن ہورسگ کا لقب دیا۔ سومیری اورعکادی گیتوں اور بھجنوں میں اس کے متعدد نام ملتے ہیں۔ وہ نن تو ہے جو’’سب کو جنتی ہے‘‘ اور وہ ’’نگ۔ زی گال۔ دی۔ می‘‘ ہے۔ یعنی ہر اس چیز کو جنم دینے والی ہے جس میں جان ہے۔ یوں تو سومیری اور عکادی داستانوں میں نن ہورسگ کا ذکر بار بار آتا ہے مگر ان میں سب سے معنی خیز داستان نن ہورسگ اور ان کے معاشقے کی ہے جو میٹھے پانی کا دیوتا بھی تھا اور دانائی، فراست اورعلوم و فنون کا بھی۔ جادو منتر کرنے والے اس کو اپنا پیشوا مانتے تھے۔ اس داستان کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انجیل میں آدم و حوا کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے، وہ نن ہورسگ کی داستان سے بہت ملتاجلتا ہے۔ مگریہ داستان اس عہد کی تصنیف معلوم ہوتی ہے جب اہل عراق عورت مرد کی مباشرت اور تخلیق کے عمل میں جو رشتہ پایا جاتا ہے اس سے آگاہ ہوچکے تھے، ورنہ وہ ہرگز یہ نہ کہتے کہ نن ہورسگ (زمین) اور اِنکی (پانی) کے میل سے چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔
نن ہورسگ کی داستان کا محل وقوع دلمون کی سرزمین ہے۔ دلمون جہاں فراوانی اور فراغت ہے، جوانی اور تندرستی ہے، امن اور سکون ہے۔ اس لحاظ سے دلمون جنت سے کم نہیں۔
دلمون جو پاکیزہ اور صاف ستھرا ہے۔
جو روشن اور منور ہے۔
جہاں اِنکی اپنی زوجہ کے ساتھ رہتا تھا۔
جہاں کوؤں کی کائیں کائیں نہیں سنائی دیتی۔
جہاں طائر موت کی آواز نہیں آتی۔
جہاں شیر کسی کو پھاڑ کر نہیں کھاتا۔
نہ بھیڑیا کسی بھیڑ کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔
جہاں ہلوان کو ہضم کر جانے والا کتا نہیں ہوتا۔
جہاں بیوائیں نہیں ہوتیں۔
جہاں فاختہ دکھ سے اپنا سر نہیں جھکاتی۔
جہاں کوئی یہ نہیں کہتا کہ میری آنکھیں دکھتی ہیں۔
اورنہ کوئی یہ کہتا ہے کہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔
اورنہ کوئی عورت یہ کہتی ہے کہ میں بوڑھی ہوگئی ہوں۔
اورنہ کوئی مرد یہ کہتا ہے کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔
جہاں کنواری عورت کو (حیض کے باعث) نہانا نہیں پڑتا۔
جہاں گویے کو کسی کا مرثیہ نہیں پڑھنا پڑتا۔
نہ پروہت کو دیوتا کے گرد گھوم گھوم کر آنسو بہانے پڑتے ہیں۔
اور نہ کسی شخص کو شہر کی دیوارکے سہارے کھڑے ہو کر فریاد کرنی پڑتی ہے۔ دلمون میں میٹھے چشموں کی افراط اور اناج کی بہتات ہے۔ مگر انکی وہاں اکیلا رہتا ہے۔ تب نن ہورسگ وہاں نمودار ہوتی ہے اور انکی اس کے ساتھ مباشرت کرتا ہے۔
’’اِنکی نے اپنی منی نن ہورسگ کے رحم میں انڈیل دی۔ اور نن ہورسگ نے اس منی کو قبول کر لیا۔ انکی کی منی کو
اور ایک مہینہ ایک دن ہو گیا
اور دو مہینے دو دن ہوگئے
اور تین مہینے تین دن ہوگئے
اور چار مہینے چار دن ہوگئے
اور پانچ مہینے پانچ دن ہوگئے
اور چھ مہینے چھ دن ہوگئے
اور سات مہینے سات دن ہوگئے
اور آٹھ مہینے آٹھ دن ہوگئے
اور نو مہینے نو دن ہوگئے
اور نویں دن وہ ماں بن گئی
اور اس نے دریا کے کنارے نن مو کو جنا
اور جب نن مو جوان ہوئی تو انکی نے اس کے ساتھ بھی مباشرت کی اورنن مو حاملہ ہوگئی اور نو مہینے کے بعد اس کے پیٹ سے نن کُرا پیدا ہوئی اور جب نن کرا جوان ہوئی تو انکی نے اس کے ساتھ بھی مباشرت کی اور نن کرا بھی حاملہ ہوئی اور اس کے پیٹ سے اتو پیدا ہوئی۔ تب نن ہورسگ نے اتو سے کہا کہ دیکھ انکی تیری گھات میں دلدل میں چھپا بیٹھا ہے اور تیرے ساتھ سونے کے لئے بے چین ہے۔ لیکن جب تک وہ کھیرے، سیب اور انگور تجھے لاکر نہ دے اس کے ساتھ ہرگز نہ سونا۔ اتو نے نن ہورسگ کی ہدایت پر عمل کیا اور جب انکی ان کے پاس آیا اور اس کو پیار کرنا چاہا تو اتو نے کہا کہ جب تک تم میرے لئے کھیرے، سیب اور انگور نہیں لاؤگے میں تمہاری خواہش پوری نہ کروں گی۔ تب انکی باغبان کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اگر تو مجھے اپنے باغ کے پھل دے تو میں تیرے کھیت سیراب کر دوں گا۔ باغبان نے انکی کی شرط مان لی اور پھل انکی کے حوالے کئے۔ انکی پھلوں کا ٹوکرا لے کر اتو کے دروازے پر آیا۔
اتّو نے خوشی خوشی اپنے گھر کا دروازہ کھولا
اور اِنکی نے حسین عورت کو کھیرے دیے
سیب دیے اور انگور دیے۔
اور انکی نے اتّو کے ساتھ اپنی آرزو پوری کی
اس نے اتّو کو لپٹایا اور اس کی گود میں لیٹ گیا
اِنکی نے اتّو کے رحم میں اپنی منی انڈیل دی۔
مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اتّو حاملہ نہیں ہوئی بلکہ نن ہورسگ نے انکی کے بیج سے آٹھ پودے پیدا کئے۔ ایک ’’شہد کا پودا‘‘ تھا۔ دوسرا املتاس کا پودا تھا۔ تیسرا کسی خاردار درخت کا پودا تھا غیرہ وغیرہ۔ انکی نے اپنے دلدل مسکن سے یہ پودے اگتے ہوئے دیکھے تو اپنے وزیر ازی مود ISIMUD سے پوچھا کہ ازی مود بتا یہ کیا پودے ہیں اور کس کام آتے ہیں۔ ازی مود نے جواب دیا کہ میرے آقا ان پودوں کو کاٹ کر کھایا جاتا ہے۔ پس انکی نے ان پودوں کو کاٹ کر کھایا۔ نن ہورسگ کو جب یہ معلوم ہوا کہ انکی نے پودوں کو کھا لیا ہے تووہ بہت خفا ہوئی اور اس نے انکی کوسراپ دیا کہ
جب تک تو مرے گا نہیں میں تجھ کو
زندگی کی آنکھوں سے نہ دیکھوں گی
یہ کہہ کر مادر کائنات غائب ہو گئی۔ نن ہورسگ کی خفگی سے دیوتاؤں کی مجلس میں کھلبلی مچ گئی مگر کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مادر کائنات کو کیسے منایا جائےاور اِنکی کو جو سراپ کا مارا ہوا درد سے تڑپ رہا تھا، کیسے شفا دی جائے تب لومڑی نے عرض کی کہ اگر میں نن ہورسگ کو منا لاؤں تو مجھے کیا انعام ملے گا۔ ہوا اور طوفان کے دیوتا ان لیل نے جو سب دیوتاؤں کا سردار تھا کہا کہ
اگرتو نن ہورسگ کو میرے سامنے لائے
تو میں اپنے شہر نیفر 1 میں
تیر ے لئے درخت اور پودے لگاؤں گا
اور سب لوگ تیرے گن گائیں گے
لومڑی نن ہورسگ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ وہ اُر، ایرک، لارسا، نیفر غرض کہ ہر جگہ نن ہورسگ کو ڈھونڈتی پھری اور آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی۔ جب نن ہورسگ دیوتاؤں کے دربار میں پہنچی تو سب دیوتا اس سے لپٹ گئے اور گڑگڑا کر کہنے لگے کہ اے مادر کائنات تو انکی کا قصور معاف کردے اور اس کو اپنے سراپ سے نجات دے۔
تب نن ہورسگ نے پنے رحم کا منہ کھول دیا۔
اور اِنکی کو گود میں بٹھا کر پوچھا،
اے میرے بھائی تیرے کہاں درد ہے
اِنکی نے کہا میرا۔۔۔ دکھتا ہے۔
نن ہورسگ بولی، وہاں سے میں ابو دیوتا پیدا کروں گی
اس نے پھر پوچھا، میرے بھائی تیرے کہاں درد ہے۔
اِنکی نے کہا ، میرے جبڑے دکھتے ہیں
’’میں وہاں سے نن تلا کو پیدا کروں گی۔‘‘
میرے بھائی تجھے کہاں درد ہے۔
میرے دانت دکھتے ہیں۔
میں وہاں سے نن سو تو کو پیدا کروں گی۔
میرے بھائی! تیرے کہاں درد ہے۔
میرا منہ دکھتا ہے۔
میں وہاں سے نن کا سی کو پیدا کروں گی۔
میرے بھائی! تیرے کہاں درد ہے؟
میرا باز دکھتا ہے۔
میں وہاں سے ازیمو کو پیدا کروں گی۔
میرے بھائی! تیرے کہاں درد ہے۔
میری پسلیاں دکھتی ہیں۔
میں وہاں سے نن تی کو پیدا کروں گی۔
اور ابو تمام پودوں کا بادشاہ ہوگا۔
یہ نظم جن لوحوں پر لکھی ہوئی ہے وہ دو ہزار قبل مسیح کی تحریر ہیں لیکن ان کا مزاج اور ماحول بلاشبہ چار پانچ ہزار قبل مسیح کا ہے جب کہ اہل عراق زراعت کے ابتدائی دور سے گزر رہے تھے۔ اور ان کے معاشرے میں اموی نظام رائج تھا۔ چنانچہ نظم کو حشو و زوائد سے پاک کرکے بغور دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس داستان کی ہیروئن در اصل مادر کائنات ہے۔ وہی درختوں اور پودوں کو پیدا کرتی ہے اور وہی دیوی دیوتاؤں کو بھی جنم دیتی ہے اور بڑے سے بڑا دیوتا بھی اگر اس کے امور افزائش ونمو میں مداخلت کی جسارت کرتا ہے تو مادر کائنات اسے سزا دیتی ہے۔
عشتار اسی دور کی دو دیویاں اور بھی ہیں۔ ایک محبت اور افزائش کی دیوی عشتار اور دوسری موت اور ظلمات کی دیوی اریش کی گل۔ عشتار موسم بہار کی نمائندہ ہے جس میں سبزہ ہرا ہوتا ہے۔ درختوں میں کونپلیں پھوٹتی ہیں اور اناج کے پودوں میں بالیاں نکلتی ہیں۔ اس کےبرعکس اریش کی گل موسم سرما کی نمائندہ ہے۔ جن ملکوں میں کڑاکے کا جاڑا پڑتا ہے وہاں سردی کے موسم میں پتیاں جھڑ جاتی ہیں اور درخت لندمنڈ ہو جاتے ہیں۔ اور زمین پر ہریالی کا نام و نشان باقی نہیں رہ جاتا۔ زراعت کے ابتدائی دنوں میں جب لوگ موسمی تغیرات کے اصل سبب سے واقف نہ تھے توخزاں و بہار کی یہ آمدورفت بڑی حیرت انگیز معمہ رہی ہوگی۔ چنانچہ ان تبدیلیوں کی توجیہہ اس طرح کی گئی کہ بہار کو تو حسن اور افزائش کی دیوی سے تعبیر کیا گیا اور خزاں کو موت اور ظلمات کی دیوی سے۔ ان کے عقیدے میں ظلمات کی دنیا زمین کے نیچے تھی۔
عشتار کی شخصیت جتنی دلکش اور رنگین ہے اتنی ہی آفاقی بھی ہے۔ وہ سومیری دیومالا انانا ہے۔ عکادی اور اشوری دیومالا میں عشتار ہے۔ قونیقی دیومالا میں اشیراۃ ہے۔ مصر میں ازیس، تحوت اور حتحور ہے۔ فلسطین میں انات، اشیراۃ اور اشتردت ہے۔ ایران میں شالا، اناہیتا اور نانیا ہے۔ ہندوستان میں درگا، گوری، اما، اشا، سرسوتی اور رتی ہے اور یونان میں ایفرودتی اور آرٹے ہے۔ عربوں کی زہرہ اور مشتری بھی وہی ہے جس نے ہاروت اور ماروت کو اپنے دام محبت میں گرفتار کر کے ان سے اسم عظم کا راز معلوم کر لیا تھا اور ستارہ بن کر آسمان پر چلی گئی تھی۔ 2
سلطنت بابل کا ایک شاعر سولہویں صدی قبل مسیح میں عشتار کی ثنا و صفت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے،
تعریف اس دیوی کی جو سب دیویوں سے افضل ہے
لائق احترام ہے وہ ذات جو سب لوگوں کی ملکہ ہے
جو خداوند افلاک میں سب سے عظیم ہے
ستائش کے قابل ہے عشتار
محبت اور شادمانی اس کا لباس ہے
وہ دلکشی، قوت اور شہوت سے بھرپور ہے
اس کے ہونٹ میٹھے ہیں
اس کے منہ میں زندگی ہے
اسے دیکھ کر سب کی باچھیں کھل جاتی ہیں
اس کا جسم دلآویز ہے
اور اس کی آنکھیں روشن ہیں
دیویاں اس سے مشورہ کرتی ہیں
اور ہرچیز کی قسمت اس کے ہاتھ میں ہے
اس کی ایک نگاہ سے خوشی پیدا ہوتی ہے
وہ سب کی محافظ اور سرپرست ہے
شفقت اور مہربانی اس کا مسکن ہے
اور وہ سب کی رکھوالی ہے
خواہ وہ کنیز ہو، آزاد دوشیزہ ہو یا کسی کی ماں ہو
سب اسی کو پکارتے ہیں جوعورتوں میں یکتا ہے۔
اس کی عظمت کا کون ثانی ہے؟
اس کے فیصلے عمدہ، اعلیٰ اور پائدار ہوتے ہیں۔
عشتار! کون تیری ہمسری کر سکتا ہے
دیوتاؤں میں سب سے زیادہ مانگ اس کی ہے
اس کا رتبہ اعلیٰ ہے
سب اس کے حکم کی عزت کرتے ہیں
اس کا حکم سب پر بالا ہے
عورت اور مرد سب اس کا احترام کرتے ہیں
سب اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں
سب اس کے سامنے جھک جاتے ہیں
سب اس سے روشنی پاتے ہیں
وہ سب کی ملکہ ہے
یوں تو عراقی دیومالا میں عشتار کا تذکرہ بار بار آتا ہے لیکن عشتار کے متعلق دو داستانیں ایسی ہیں جن سے عشتار کے افزائشی کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ پہلی داستان میں عشتار تموز سے شادی کرتی ہے جو گڈریا ہے۔ دوسری داستان میں وہ اپنے جواں مرگ شوہر تموز کی تلاش میں ظلمات کا سفر کرتی ہے اور بڑی بڑی سختیاں جھیلنے کے بعد آخرکار کامیا ب واپس آتی ہے۔ در اصل تموز کی موت اور واپسی موسموں کی تبدیلی کی علامت ہے۔ سردی میں جب گھاس پات پھل پھول سب سوکھ جاتے ہیں اور زمین پرمردنی چھا جاتی ہے تو اہل عراق اس خزاں کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ افزائش نمو کی دیوی عشتار اپنے شوہر کی تلاش میں پاتال چلی گئی ہے اور جب بہار کا موسم آتا ہے تو اس کی توجیہہ کی جاتی ہے کہ عشتار اپنے شوہر کے ہمراہ سفر سے خوش و خرم واپس آگئی ہے۔ چنانچہ مشرق قریب کے ہرملک میں بہارکی آمد پر نوروز کا تیوہار بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ اس موقع پرعشتار اور تموز کی شادی، تموز کی موت اور پھر تموز کے احیاء کے قصوں کو ڈرامائی انداز میں ہر سال پیش کیا جاتا تھا۔
وادی دجلہ و فرات کا داستان گو عشتار کی شادی کا قصہ متھ کی زبان میں یوں بیان کرتا ہے کہ ایک بار اتو (سورج) نے اپنی بہن عشتار سے کہا کہ تو تموز گڈریے سے شادی کیوں نہیں کر لیتی۔ عشتار نے اتو کی تجویز بڑی حقارت سے رد کردی اور کہا کہ میں تو ان کمدو دہقان سے شادی کرو ں گی۔ تموز کو خبر ہوئی تو وہ عشتار کے پاس گیا اور آخرکار بڑی منت سماجت کے بعد اسے رام کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ واپسی پر اس کی مڈبھیڑ ان کمدو سے ہو گئی۔ تموز نے ان کمدو کو عشتار کے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ بہت خفا ہوا لیکن تموز نے سمجھا بجھا کر اسے بھی راضی کر لیا۔ چنانچہ ان کمدو اس بات پر تیار ہو گیا کہ تموز ان کمدو کی چراگاہ میں جہاں چاہے اپنے مویشی چرائے۔
یہ داستان نیفر کی کھدائی میں تین تختیوں پر کندہ ملی ہے اور ڈھائی ہزار برس قبل مسیح کی تحریر ہے۔ اس داستان میں اور ہابیل قابیل کے قصے میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ انجیل کی کتاب پیدائش کے مطابق قابیل (قائن) دہقان تھا اور ہابیل گڈریا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہابیل اپنے بھیڑ بکریوں کا ہدیہ خداوند کے روبرو لے کر گیا تو خداوند نے اس کا ہدیہ قبول کر لیا مگر جب قابیل اپنے کھیت کی فصل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا تو خداوند نے اس کا ہدیہ رد کر دیا۔ اس لئے قابیل نہایت غضب ناک ہوا اور اس کا منہ بگڑا اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو قابیل نے ہابیل پر حملہ کیا اور اسے قتل کردیا۔ پھر وہاں سے بھاگ گیا اور عدن کے مشرق میں نود کے علاقے میں جا بسا۔
قیاس کہتا ہے کہ فلسطینی یہودیوں نے یہ داستان بابل کی اسیری کے زمانے میں سنی ہوگی۔ اوراس کے مرکزی خیال سے ہابیل قابیل کا قصہ تیار کیا ہوگا۔ عراقی کہانی میں گو خون نہیں بہتا لیکن اس کی فضا بھی جارحانہ ہے اور اس میں بھی رد و قبول کا ہی عنصر موجود ہے جس کے باعث قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا۔
گڈریے اور کاشتکار کا مناظرہ
انانا کا بھائی اتو جو بہادر اور جنگ جو ہے
پاکیزہ اور طاہر انانا سے کہتا ہے،
’’اے میری بہن! تو گڈریے سے شادی کیوں نہیں کر لیتی۔
اس کا مکھن عمدہ ہے
اس کا ہاتھ جس چیز کو چھو دیتا ہے وہ چمک اٹھتی ہے۔
انانا! گڈریے تموز سے بیاہ کرلے
تو رضامند کیوں نہیں ہوتی
وہ تیرے ساتھ بیٹھ کر مکھن کھائے گا۔‘‘
’’نہیں میں گڈریے سے شادی نہیں کروں گی
وہ مجھے اپنا نیا لباس نہیں پہنائے گا
میں تو کاشتکار سے شادی کروں گی
کاشتکار، جو پودوں کی افزائش کرتا ہے۔
کا شتکار، جو اناج کی افزائش کرتا ہے
تموز انانا کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ،
’’کاشتکار کے پاس مجھ سے زیادہ کیا چیز ہے
ان کمیدو تو خندق، بند اور ہل کا آدمی ہے
اس کے پاس مجھ سے زیادہ کیا چیز ہے؟
اگروہ مجھے اپنا کالا کپڑا دے سکتا ہے
تو میں اسے اپنی کالی بھیڑ دے سکتا ہوں
اگر وہ مجھے اپنا سفید کپڑا دے سکتا ہے
تو میں اسے اپنی سفید بھیڑ دے سکتا ہوں
اگر وہ میرے لئے کھجور کی نہایت عمدہ شراب انڈیل سکتا ہے
تو میں اس کے لئے کسم کا دودھ انڈیل سکتا ہوں
اگروہ مجھے عمدہ روٹی کھلا سکتا ہے
تو میں اس کو شہد آمیز پنیرکھلا سکتا ہوں
اس کے پاس مجھ سے زیادہ کیا چیز ہے؟‘‘
تموز کی یہ دلیلیں سن کرانانا لاجواب ہو جاتی ہے اور اس سے شادی کا وعدہ کر لیتی ہے۔ تموز خوش خوش واپس آتا ہے اور اپنے بھیڑ بکریوں کو دریا کے کنارے چرانے لے جاتا ہے۔ وہاں اس کی مڈبھیڑ کاشتکار ان کمیدو سے ہوتی ہے اور وہ ان کمیدو سے جھگڑا کرنے پر تل جاتا ہے مگر ان کمیدو بڑا صلح پسند انسان ہے۔ وہ ایک عورت کی خاطر خون خرابہ نہیں کرنا چاہتا۔
’’اے گڈریے! میں تیرا دشمن نہیں ہوں
میں تجھ سے کیوں لڑوں
تیری بھیڑیں ساحل پر اگی ہوئی گھاس شوق سے چریں
اور میری چراگاہ میں شوق سے گھومیں
اور اریک کے چمکیلے کھیتوں میں دانے شوق سے کھائیں
اور تیرے ہلوان میری نہر انون میں شوق سے پانی پئیں۔‘‘
تموز کاشتکار کی باتوں سے خوش ہو جاتا ہے اور اسے اپنی شادی میں شرکت کی دعوت دیتا ہے،
اے کاشتکار۔ تومیری شادی میں دوست بن کرآ۔
اور ان کمیدو کہتا ہےکہ
میں تیرے لئے گیہوں لاؤں گا۔
میں تیرے لیے دالیں لاؤں گا
عشتار کا سفر ظلمات عشتار اور اریش کی گل سگی بہنیں ہیں۔ عشتار ملکہ فلک ہے اور اریش کی گل ملکہ ظلمات، اریش کی گل عشتار کی جانی دشمن ہے۔ عشتار کا محبوب شوہر تموز ظلمات میں قید ہے،
وہ اندھیرا گھر
جس میں داخل ہونے والا کبھی باہر نہیں نکلتا
وہ راستہ جس سے لوٹنے کی کوئی راہ نہیں
وہ مکان جس میں روشنی کا گزر نہیں ہو سکتا۔
جہاں لوگ دھول پھانکتے اور کیچڑ کھاتے ہیں
جہاں کی پوشاک پرندوں کی سی ہوتی ہے
اور جہاں دروازوں اور تالوں پر گرد جمی رہتی ہے۔
ایک دن عشتار کے دل میں خیال آیا کہ چل کر ظلمات کی سیر کرنی چاہئے شاید تموز سے ملاقات ہو جائے۔ اس نے ساتوں سنگار کئے۔ ہیروں کا تاج سر پر رکھا، ماتھے پر جھومر لگایا، گلے میں موتیوں کا ہار پہنا۔ کان میں بندے ڈالے، چھاتیوں کو سینے بند سے کسا۔ انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنیں، آنکھوں میں سرمہ لگایا، شاہی لباس زیب تن کیا اور لاجوردی عصا ہاتھ میں لے کر ظلمات کو روانہ ہوئی۔ البتہ چلتے وقت اپنے وزیر نن شوبر سے کہتی گئی کہ مجھے اپنی جان خطرے میں نظر آتی ہے۔ تم ذرا خبردار رہنا اور اگر میں تین دن کے اندر ظلمات سے واپس نہ آجاؤں تو
اپنی نالہ و زاری سے آسمان سر پر اٹھا لینا
میرے لئے اپنی آنکھیں نوچنا۔ میرے لئے اپنا منہ نوچنا
اور فریاد یوں کی مانند فقط ایک کپڑا پہن کر
میرے باپ ان لیل کے دربار میں جانا
اور کہنا کہ اپنی بیٹی کو ظلمات میں ہلاکت سے بچا۔
تیری اچھی دھات پاتال کی دھول سے ڈھکنے نہ پائے۔
تیرا اصلی لاجورو پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہونے نہ پائے۔
اوراگر ان لیل تیری فریاد نہ سنے تونناّ (چاند دیوتا) کے پاس اُر جائیو جہاں اس کا بڑا مندر ہے اور اگرننا بھی تیری فریاد نہ سنے تو اریدو جائیو اور اِنکی سے فریاد کیجیو،
اِن کی جو دانائی کا آقا ہے
جو زندگی کی خوراک سے واقف ہے
جو زندگی کے پانی سے واقف ہے
وہ ضرور مجھے زندہ واپس لائے گا
وزیرکو یہ ہدایت دے کر عشتار نے ظلمات کی راہ لی اور اریش کی گل کے قصر ظلمات کے سامنے پہنچ کر آواز دی کہ
پھاٹک کھولو ورنہ میں دروازوں کو توڑ ڈالوں گی
ان کی چولیں اکھاڑ دوں گی۔
اور مردوں کو زندہ کر دوں گی
یہاں تک کہ ان کی تعداد زندوں سے بھی زیادہ جائے گی۔
دربان نے پوچھا تو کون ہے جو بن بلائے یہاں آنا چاہتی ہے۔ عشتار نے جواب دیا کہ میں عشتار ہوں اور وہاں سے آئی ہوں جہاں سورج چمکتا ہے۔ دربان نے کہا کہ اگر توعشتار ہے اور وہاں سے آئی ہے جہاں سورج چمکتا ہے تو یہاں کیوں آئی ہے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں جاتا۔ عشتار نے کہا کہ میری بڑی بہن اریش کی گل کا شوہر گوگل انا مارا گیا ہے اور میں اس کے جنازے میں شریک ہونے آئی ہوں۔ دربان نے کہا اچھا تو انتظار کر۔ میں ذرا ملکہ سے پوچھ آؤں۔ پس دربان ملکہ کے پاس گیا اور سارا ماجرا اس سے بیان کیا،
اریش کی گل کا چہرہ زرد ہو گیا اور ہونٹ کالے ہوگئے۔
اس نے دل میں سوچا کہ عشتار یہاں کیا کرنے آئی ہے
کیا مجھے اب روٹی کی جگہ چکنی مٹی
اور شراب کی جگہ گدلا پانی پینا پڑے گا
کیا مجھے اب ان لوگوں کا ماتم کرنا ہوگا
جو اپنی بیویوں کو پیچھے پیچھے چھوڑ کر یہاں آئے ہیں
کیا مجھے اب ان نازک اندام بچوں کے لئے آنسو بہانے ہوں گے
جن کو وقت سے پہلے یہاں بھیجا گیا تھا
اس نے دربان کو حکم دیا کہ جا کر دروازہ کھول دے۔
دربان واپس آیا اورعشتار سے کہا چل تجھے ملکہ بلاتی ہے۔ جب عشتار پہلے پھاٹک میں داخل ہوئی تو دربان نے تاج اس کے سر سے اتار لیا۔ عشتار خفا ہونے لگی تو دربان نے کہا کہ خفا مت ہو۔ یہاں کا دستور ہی یہ ہے۔ جب عشتار دوسرے پھاٹک میں داخل ہوئی تو دربان نے لاجوردی عصا اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ اسی طرح دربان نے تیسرے پھاٹک پر گلے کا ہار، چوتھے پھاٹک پر کانوں کے بندے، پانچویں پھاٹک پر ہاتھ کی انگوٹھیاں، چھٹے پھاٹک پرسینہ بند اور ساتویں پھاٹک پر بدن کی پوشاک اتار لی۔ اب عشتار بالکل برہنہ تھی۔
دربان عشتار کو اسی حالت میں اریش کی گل کے روبرو لے آیا۔ اریش کی گل اس وقت دربار میں تخت پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ عشتار کو دیکھ کر آگ بگولا ہوگئی اور اپنے وزیر نمتار سے یوں مخاطب ہوئی۔
نمتار! اسے میرے محل میں لے کر جا کر بند کردے۔
اورساٹھوں بلاؤں کو اس پرچھوڑ دے،
آنکھ کی بلا کو آنکھوں پر
کولھوں کی بلا کو کولھوں پر
دل کی بلا کو دل پر
پاؤں کی بلا کو پاؤں پر
سر کی بلا کو سر پر
اس کے جسم کے ہرحصے پر ایک بلا چھوڑ دے
قضا کے ساتوں حاکم وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اپنی آنکھیں عشتار کے چہرے میں پیوست کردیں۔ ان کی آواز پرعشتار کا دم نکل آیا۔ اور اس کی لاش ایک لکڑی سے لٹکا دی گئی۔
جب تین دن اور تین راتیں گزر گئیں اور عشتار واپس نہ آئی تو اس کا وزیر نن شوبر گھبرایا،
کیوں کہ بیلوں نے گایوں پر سوار ہونا ترک کر دیا تھا
گدھوں نے گدھیوں کونطفہ دینا ترک کر دیا تھا
مرد نے عورت کو حمل دینا ترک کر دیا تھا
مرد اپنے کمرے میں سوتا تھا اور عورت اپنے کمرے میں
پس وہ بھاگا ہوانیفر پہنچا اور اِن لیل سے فریاد کی لیکن ملکہ ظلمات کے خوف سے اِن لیل نے اس کی فریاد رسی کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ ارگیا اور ننا سے فریاد کی لیکن ننا نے بھی اس کی فریادنہ سنی تب وہ اِنکی کے پاس اریدو گیا۔ جب اِنکی نے یہ سنا کہ عشتار پاتال سے واپس نہیں آئی ہے تو وہ بہت پریشان ہوا۔ اس نے اپنے ہاتھ کے ناخن سے تھوڑی سی میل نکالی اور اس سے کر گارو ایک پرندہ بنایا۔ پھر اپنے حناآلودہ ہاتھ کے ناخن سے تھوڑی سی میل نکالی اور اس سے ایک اور پرندہ کلاتورو بنایا۔ کرگارو کو اس نے غذائے حیات دی اور کلاتورو کو آب حیات دیا اور ان سے کہا کہ فوراً ظلمات میں جاؤ اور یہ چیزیں عشتار کی لاش پر ساٹھ بار چھڑکو۔ عشتار زندہ ہو جائے گی۔
پرندے جب ظلمات میں پہنچے تو اریش کی گل انہیں دیکھ کر بہت ناراض ہوئی لیکن خداوند انکی کا حکم کون ٹال سکتا تھا۔ پھر بھی اس نے پرندوں کو سراپ دیا کہ،
شہر کی گندی نالیاں تمہاری غذا ہوگی
پرنالوں کا پانی تمہاری پیاس بجھائے گا
دیوار کا سایہ تمہارا مسکن ہوگا
گھرکی چوکھٹ تمہاری خواب گاہ بنے گی۔
اور ننگے بھوکے تمہارے گالوں پر طمانچہ ماریں گے
تب اریش کی گل نے اپنے وزیر نمتار سے کہا کہ ،
عشتار کے عہد شباب کے عاشق تموز کو
پاک پانی سے نہلاؤ اور میٹھا تیل اس کے جسم پر ملو۔
اور سرخ لباس پہناؤ
اور اس کے ہاتھ میں لاجورد کی بانسری دو
تاکہ وہ یہاں سے بانسری بجاتا ہوا جائے۔
تموزکی یہی داستان شام اور فونیقیا کے راستے ایشیائے کوچک پہنچی اور وہاں سے یونان منتقل ہوئی۔ چنانچہ یونانی دیومالا میں محبت کی دیوی ایفرودی اپنے جواں مرگ عاشق آرفیس کی تلاش میں ظلمات کا سفر کرتی ہے اور آرفیس بانسری بجاتا ہوا واپس آتا ہے۔ مصر میں اس داستان نے ازیس اور ازریس کی شکل اختیار کر لی۔
کہتے ہیں کہ ازریس زمین کے دیوتا گیب اور ملکہ فلک نوت کی ناجائز اولاد تھی۔ جب سورج دیوتا رع کو پتہ چلا کہ اس کی بیوی نوت نے بیوفائی کی ہے تو اس نے ازریس کو سراپ دیا۔ ملکہ فلک نے ازریس کی ولادت کے دوسرے دن حو ریس کو جنم دیا، تیسرے دن ساتت کو، چوتھے دن ازریس کو اور پانچویں دن نفتیس کو۔ بڑے ہو کر ساتت نے اپنی بہن نفتیس سے شادی کی اور ازریس نے ازیس سے۔
جس وقت ازریس کو مصرکی بادشاہت تفویض ہوئی، اس وقت مصر کے باشندے بالکل جنگلی، وحشی اور آدم خور تھے۔ لیکن ازریس نے جو اور گیہوں کے جنگلی پودے تلاش کئے اور اہل مصر کو کاشتکاری کا فن سکھایا۔ تب ا ن لوگوں نے آدم خوری ترک کردی، اور اناج پیدا کرنے لگے۔ ازریس نے انہیں درختوں کا پھل کھانا اور انگور کی شراب بنانا بھی سکھایا۔ ازریس کی آرزو تھی کہ دنیا کے سب لوگ تہذیب کی ان برکتوں سے واقف ہو جائیں۔ لہذا اس نے اپنی بہن اور بیوی ازریس کو مصر کے تخت پر بٹھایا اور خود نیا کے سفر پر روانہ ہوگیا۔
جب وہ اس طویل سفر سے بنی نوع انسان کی نذروں اور دعاؤں سے لدا ہوا وطن واپس آیا تو اہل مصر نے اس کا شاندار خیر مقدم کیا اوراسے دیوتا کا لقب دیا، لیکن اس کے بھائی ساتت نے اس کے خلاف سازش کی۔ اس نے کسی طرح ازریس کے بدن کی ناپ حاصل کی اور اس کے مطابق ایک نہایت حسین تابوت بنوایا۔ ایک روز جب کہ شراب کا دور چل رہا تھا اور سب لوگ مدہوش ہو رہے تھے توساتت نے ہنس کر کہا کہ یہ تابوت میں اس کو دوں گا جس کو یہ پورا ہوگا۔ سب لوگ باری باری میں تابوت میں اترے مگر کسی کو تابوت پورا نہ اترا۔ سب سے آخر میں ازریس تابوت میں لیٹا۔ سازشی اسی کے منتظر تھے۔ انہوں نے دوڑ کر تابوت کا ڈھکنا بند کردیا۔ اس کے پٹ پر پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا اور تابوت کو دریائے نیل میں بہا دیا۔
جب ازریس کو اس حادثے کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی زلفیں کاٹ ڈالیں، ماتمی لباس پہنا اور اپنے شوہر کی لاش کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ ادھر ازریس کا تابوت بہتے بہتے بحیرہ روم میں پہنچا اور بحیرہ روم کی موجیں اسے ببلوس کی ساحل پر لے آئیں اور جس جگہ وہ آکر رکا وہاں دفعتاً ایک درخت اگ آیا اور اس نے تابوت کو اپنے تنے میں چھپا لیا اور جب ببلوس کے بادشاہ نے اس درخت کو دیکھا تو اسے یہ درخت بہت پسند آیا اور اس نے درخت کو کٹوا کر اس کے تنے کو اپنے محل میں لگوا لیا۔
ازیس کو جب خبر ملی کہ اس کے شوہر کا تابوت ببلوس پہنچ گیا ہے تو اس نے غریب عورت کا بھیس بدلا اور ببلوس روانہ ہوگئی۔ ببلوس پہنچ کر وہ شاہی کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئی اور زاروقطار رونے لگی۔ یہ کنواں اب تو سوکھا پڑا ہے لیکن میرا گائڈ مجھے ببلوس کے فونیقی کھنڈروں میں گھماتا ہوا جب اس کنویں پر پہنچا تو کہنے لگا کہ میں 35 سال سے یہاں سیاحوں کی خدمت کر رہا ہوں۔ مجھے اپنی ملازمت کا وہ زمانہ یاد ہے جب ببلوس کی عورتیں اس کنویں پر پانی بھرنے آتی تھیں مگر اب تو ببلوس کے ہر گھر میں نل لگ گیا ہے۔ میں دیر تک کنویں کی منڈ پر بیٹھا ہوا یہی سوچتا رہا کہ کبھی ازیس یہاں بیٹھی زاروقطار روئی ہوگی اور یہیں کہیں بادشاہ ملکاندر کا محل ہوگا۔ اور محل کی عورتیں ازیس کے پاس آئی ہوں گی اور ازیس نے ان کی زلفیں سنواری ہوں گی اور اپنے مقدس جسم کی خوشبو سے ان کے بالوں کو مہکایا ہوگا اور جب ملکہ نے اپنے خواصوں کے سنورے ہوئے بال دیکھے ہوں گے اور ان کے بالوں کی خوشبو سونگھی ہوگی تو ازیس کو اپنے بیٹے کی آیا مقرر کیا ہوگا۔
ازیس نے شہزادے کو چھاتی سے دودھ نہیں پلایا بلکہ وہ اپنی انگلیاں بچے کو چسا دیتی تھی اوروہ آسودہ ہو جاتا تھا۔ ایک دن ملکہ نے بچے کو ازیس کی انگلیاں چوستے دیکھ لیا تب ازیس نے ملکہ سے سارا ماجرا بیان کردیا اور درخواست کی کہ لکڑی کا وہ کھمبا جو محل میں لگا ہے مجھے دے دیا جائے۔ اس کے اندرمیرے شوہر ازریس کی لاش پوشیدہ ہے۔ بادشاہ نے کھمبا ازیس کے حوالے کردیا۔ ازیس نے اس کے اندر سے ازریس کا تابوت نکالا اور کشتی میں بیٹھ کر مصر روانہ ہوگئی۔
مصر پہنچ کر اس نے کشتی کو بوتو کے مقام پر دریائے نیل کے کنارے چھوڑا اور خود اپنے بیٹے حوریس کو دیکھنے چلی گئی۔ قضارا ساتت کا گزر ادھر سے ہوا اور چاندنی رات میں اس نے تابوت کو پہچان لیا اور ازریس کی لاش کے چودہ ٹکڑے کئے اور ٹکڑوں کو دور دور تک پھینک دیا۔ ازیس جب واپس آئی اور لاش کو نہ پایا تواس نے دیوتاؤں سے فریاد کی اور سورج دیوتا نے اس کی فریاد سن لی۔ اور ازیس اپنے شوہر کے ٹکڑوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی البتہ ازریس کاعضو تناسل لاپتہ ہو گیا تب ازیس اور اس کی بہن نفتیس ازریس کی لاش پریوں بین کرنے لگیں،
اپنے گھر واپس آ
دیوتا، تو اپنے گھر واپس آ
تیرا کوئی دشمن نہیں ہے
او حسین نوجوان مجھے دیکھنے واپس آ
میں تیری بہن ہوں تو مجھ سے جدا نہ ہو
میرا دل تیرے لئے بے قرار ہے
اور میری آنکھیں تجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں
اس کے پاس آ جو تجھ سے محبت کرتی ہے
اپنی بہن کے پاس آ، اپنی بیوی کے پاس آ
دیوتا اور انسان سب تیرے لئے رو رہے ہیں
میں اتنے زور زور سے بکا کر رہی ہوں
کہ میری آواز عرش تک جاتی ہے
مگر تو نہیں سنتا
میں تیری بہن ہوں جس سے تو محبت کرتا تھا۔
واپس آجا
یہ بین سن کر خداوند رع کو ازیس پر رحم آیا اور اس نے انوبیس دیوتا کو زمین پر بھیجا۔ انوبیس نے ازیس، نتفتیس اور حوریس کی مدد سے جسم کے ٹکڑوں کو جوڑا اور ازیس نے اپنے پروں سے ٹھنڈی لاش کو ہوا دی اور ازریس دوبارہ زندہ ہو گیا، البتہ خداوند رع نے اسے پاتال کی بادشاہت عطا کی جہاں وہ مردوں کے اعمال کو میزان میں تولتا ہے۔
اس سے ملتی جلتی دی متر DEMETER اور پرسی فونے PERSEPHONE کی یونانی داستان ہے۔ البتہ اس داستان کے دونوں کردارنسوانی ہیں اور ان میں ماں بیٹی کا رشتہ ہے۔ جوان پرسی فونے چشمے کے کنارے گلاب اور نرگس کے پھول چنتی ہوتی ہے کہ موت کا دیوتا پلوٹو اس پرعاشق ہو جاتا ہے اور اسے اغوا کر کے ظلمات میں لے جاتا ہے۔ مادر ارض دی متر کو خبر ہوتی ہے تو وہ عہد کرتی ہے کہ جب تک اس کی بیٹی اسے واپس نہیں مل جاتی، وہ نہ اناج اگائے گی اور نہ زمین کو ہریالی بخشے گی۔ چنانچہ زمین بنجر ہوجاتی ہے، فصلیں سوکھ جاتی ہیں اور جانور اور آدمی خشک سالی کی وجہ سے بھوکے مرنے لگتے ہیں۔ تب خداوند زیوس پلوٹو کو طلب کرتا ہے اوریہ حکم صادر کرتا ہے کہ آئندہ سے پرسی فونے سال کے آٹھ مہینے اپنی ماں کے ساتھ گزارے گی اور چار مہینے اپنے شوہر پلوٹو کے ہمراہ پاتال میں بسر کرے گی۔
ملک شام کی مادر ارض سی بیل CYBELE اوراس کے بیٹے ایڈونس ADONIS کی داستان کی نوعیت بھی یہی تھی۔ یہ داستان ایشیائے کوچک میں پہنچ کر سی بیل اور اتیس کی داستان بن گئی۔ ہندوستان میں گوری اور شیو کی کہانی کے محرکات بھی وہی تھے جو عشتار اور ازیس کی داستانوں کے تھے۔
غرض کہ دنیا کی سبھی پرانی تہذیبوں میں زراعت کے ابتدائی عہد میں مادر کائنات موسم بہار یعنی فصلوں، درختوں اور پھول پتوں کی افزائش و نمو کی علامت تھی۔ لوگ بہار کی آمد پر نوروز کا جشن مناتے تھے اور بہارو خزاں کی ابدی آویزش کو ڈرامے کے رنگ میں پیش کرتے تھے اور اس ڈرامے میں آخرکار فتح بہار کی ہوتی تھی۔
حواشی:
نیفر وادی فرات کا نہایت مقدس شہر تھا۔ ان لیل دیوتا کا سب سے بڑا مندر وہیں تھا۔ اسی مندر میں سومیری ریاستوں کے بادشاہوں کی رسم تاجپوشی منائی جاتی تھی۔
زہرہ یا مشتری اور ہاروت ماروت کی داستان میں اور ازلیس اور سورج دیوتا راع کی داستان میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مصر میں ازلیس نامی ایک نہایت چرب زبان عورت تھی مگروہ انسانوں کی دنیا سے سخت بیزار تھی۔ اور دیوتاؤں کی دنیا میں جانے کی بڑی آرزو رکھتی تھی۔ ایک بار اس نے سوچا کہ اگر مجھے خداوند راع کا اسم اعظم معلوم ہو جائے تو میں بھی اس کی مانند زمین اور آسمان پرحکومت کرنے لگوں۔ خداوند راع کے یوں تو بہت سے نام تھے اور لوگ ان ناموں سے واقف تھے۔
لیکن اس کا ایک نام ایسا تھا جو سوائے راع کے کسی دیوتا یا انسان کو معلوم نہ تھا۔ پس ایسا ہوا کہ راع بہت بوڑھا ہوگیا اور اس کے منہ سے ضعف کے باعث رال ٹپکنے لگی اور زہرہ نے اس رال کو جمع کیا اور اس سے مٹی گوندھی اور ایک سانپ بنایا اور سانپ کو راع کے راستے میں رکھ دیا۔ اور جب راع ادھر سے گزرا تو سانپ نے اسے ڈس لیا اور وہ درد سے تڑپنے لگا۔ تب دیوتاؤں نے اس سے پوچھا کہ اے خداوند تجھے کیا ہوا، جو تو اس طرح چیخ رہا ہے لیکن راع جواب نہ دے سکا کیونکہ زہر کے باعث اس کی زبان لکنت کرنے لگی تھی اور اس کا جبڑا زور زور سے ہل رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد جب راع کا دل سنبھلا تو اس نے دیوتاؤں کو اپنے گرد جمع کیا اور کہا کہ میرے بچو! میں شہزادہ ہوں اور شہزادے کا بیٹا ہوں۔ میں دیوتا کے تخم سے پیدا ہوا ہوں۔ میرے باپ اور ماں نے میرا نام رکھا تھا۔ یہ نام میری پیدائش کے وقت سے اب تک میرے جسم میں پوشیدہ تھا تاکہ کوئی جادوگر مجھ پر جادو نہ کر سکے۔
میں نے جو کچھ خلق کیا تھا اسے دیکھنے جا رہا تھا کہ کسی چیز نے مجھے ڈس لیا لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیزتھی۔ کیا وہ آگ تھی کیا وہ پانی تھا؟ میرے سینے میں آگ لگی ہے۔ میرا بدن کانپ رہا ہے اور میرا جوڑ جوڑ ہل رہا ہے، جلد کسی دیوتا کو لاؤ جو مجھے شفا دے سکے۔ پس دیوتا کسی ایسے دیوتا کو تلاش کرنے لگے جو اس زہر کا تریاق جانتا ہو لیکن وہ ناکام واپس آئے تب ازیس وہاں گئی۔ اس کے منہ میں زندگی کی سانس تھی اوراس کا سحر درد کو دور کر دیتا تھا اور اس کے کلام سے مردے زندہ ہو جاتے تھے۔ اس نے راع سے کہا کہ مقدس باپ آپ کو کیا ہوا ہے۔ راع نے جواب دیا سانپ نے ڈس لیا ہے میں پانی سے زیادہ سرد او آگ سے زیادہ گرم ہوتا جا رہا ہوں۔ میرے جسم سے پسینہ چھوٹ رہا ہے اور میری پتلیاں گھومی جا رہی ہیں۔ مجھے آسمان بھی نظرنہیں آتا۔
تب ازیس نے کہا کہ مقدس باپ مجھے اپنا نام بتا کیونکہ جس شخص کو اس کے نام سے پکارا جائے وہ زندہ ہو جاتا ہے۔ راع نے جواب دیا کہ میں وہ ہوں جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو قائم کیا اور وسیع سمندر بنائے۔ میں وہ ہوں جو آنکھیں کھولتا ہوں تو روشنی ہو جاتی ہے، اور آنکھیں بند کر لیتا ہوں تو اندھیرا چھا جاتا ہے۔ میرے حکم سے نیل کا پانی بڑھتا ہے لیکن دیوتا بھی میرے نام سے واقف نہیں۔ میں صبح کے وقت کھیپرا ہوں دوپہر کے وقت راع ہوں اور شام کے وقت توم ہوں لیکن راع کا زہر نہ اترا بلکہ اور اندر گھستا گیا اور وہ چلنے سے بھی معذور ہو گیا۔
تب ازیس نے کہا کہ خداوند تو نے جو نام بتائے وہ تیرے اصلی نام نہ تھے۔ اصلی نام بتانا کہ تیرا زہر اتر جائے۔ تب راع نے کہا کہ میں اجازت دیتا ہوں کہ ازیس میرے جسم کی تلاشی لے تاکہ میرا نام میرے سینے سے اس کے سینے میں اتر جائے۔ راع نے اپنے کو سب دیوتاؤں سے پوشیدہ کر لیا اور ازیس کو اپنا نام بتا دیا تب ازیس نے زہر کو حکم دیا کہ تو اب خداوند کے جسم سے باہر نکل آ، کیونکہ اسم اعظم اس سے لے لیا گیا ہے اور ازیس آسمان کی دیوی بن گئی۔