فورٹ ولیم کالج سرزمین پاک و ہند میں مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ویلزلی گورنرجنرل (1798۔1805ء) کے حکم سے 1800ء میں کلکتہ میں قائم ہوا۔ کالج قائم کرنے کا فیصلہ گورنرجنرل با اجلاس نے 10جولائی1800ء/17 صفر1215ھ کو کیا تھا مگر اس شرط کے ساتھ کہ کالج کا یوم تاسیس 24 مئی1800ء تصورکیا جائے،کیونکہ وہ دن سلطان ٹیپو کے دار الحکومت سرنگاپٹم کے سقوط کی پہلی سالگرہ کا دن تھا(1)۔ مگرفورٹ ولیم کالج میں باقاعدہ تعلیم24 نومبر 1800ء سے شروع ہوئی۔ (2)
فورٹ ولیم کالج عام طالب علموں کے لئے نہیں کھولا گیا تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازمین کو، بالخصوص ان ناتجربہ کا رسول ملازمین کو جو سولہ سترہ سال کی عمر میں ہندوستان آتے تھے، باقاعدہ تعلیم دے کر کمپنی کے مقبوضات کا نظم ونسق سنبھالنے کے لائق بنایا جائے۔ کالج کا نصاب بہت جامع اور وسیع تھا۔ ہندوستان کی تاریخ، جغرافیہ، مسلم فقہ اور ہندو دھرم، اس ملک کے باشندوں کے رسوم ورواج، کمپنی کے آئین و ضوابط، گورنر جنرل کے وضع کردہ قوانین، برطانوی آئین اور طرزحکومت، برطانیہ کا قانون انصاف یہ سب علوم نصاب میں داخل تھے۔ ان کے علاوہ ہندوستانی، فارسی، عربی، بنگالی ،سنسکرت اور دیگر مشرقی زبانوں کی تعلیم کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ طلبا کے اخلاق و عادات کی تربیت اور اصلاح بھی کالج کے فرائض میں داخل تھی۔(3)
ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تجارتی ادارہ تھی، اس لئے کمپنی کے ملازمین کو ہر وقت اس ملک کے باشندوں سے واسطہ پڑتا تھا اور ان کی زبان اور طور طریقوں سے تھوڑی بہت واقفیت ضرور رکھنی پڑتی تھی(4)۔جنگ پلاسی کے بعد جب 1765ء میں بنگال، بہار، بنارس اور اڑیسہ کے علاقے کمپنی کے زیراقتدار آئے تو کمپنی کے ملازمین کے لئے رعایا کی زبان، مذہبی عقائد اور معاشرتی حالات سے آگاہی اور زیادہ ضروری ہوگئی۔ چنانچہ وارن ہیسٹنگز 1772ء۔ 1785ء کے زمانے ہی میں ہیڈلے، ڈاکٹر بالفور، مسٹرولکنس اورڈاکٹرگلکرسٹ نے کمپنی کے انگریزملازمین کی سہولت کے لئے لغت، گرامر اور زبان دانی کی کئی کتابیں مرتب کیں۔ کمپنی اپنے سول اور فوجی ملازمین کو ایک معینہ مدت کے لئے تیس روپے ماہانہ منشی الاؤنس بھی دینے لگی تاکہ یہ لوگ منشیوں اور پنڈتوں سے ہندوستانی، فارسی اور دوسری زبانیں سیکھ لیں(5)، مگر دشواری یہ تھی کہ ہندوستانی منشی اور پنڈت انگریزی زبان سے شاذ و نادر ہی واقف ہوتے تھے۔ اس لئے نووارد انگریزوں کو پہلے بول چال کی زبان سیکھنی ہوتی تھی تاکہ منشی سے بات چیت کرسکیں اور اس کی زبان سمجھ سکیں۔ نتیجہ یہ تھا کہ نووارد انگریز ملازمین منشیوں کی خدمات سے بہت کم مستفید ہوتے تھے(6)۔
لارڈ ویلزلی مئی 1798ء میں گورنر جنرل ہو کر کلکتہ آیا۔ وہ لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دفتر میں ایک بڑے عہدہ پر فائز رہ چکا تھا اس لئے ہندوستان کے حالات اور کمپنی کے مسائل سے بخوبی واقف تھا۔ اس نے کلکتہ پہنچتے ہی محسوس کر لیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اب فقط ایک تجارتی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہزاروں مربع میل زمین اور لاکھوں باشندوں کی تقدیراس کے قبضے میں ہے، لہٰذا کمپنی کے مفاد اور مقبوضات کے نظم و نسق کا تقاضا یہی ہے کہ انگریز ملازمین کی تعلیم کا باقاعدہ انتظام کیا جائے۔ چنانچہ21 دسمبر 1798ء کی ایک یادداشت میں وہ لکھتا ہے کہ “سول ملازمین کی تعلیم کے موجودہ نقائص مدت سے میری توجہ کا مرکز ہیں اور میں نے ان نقائص کو دور کرنے کی غرض سے ایک وسیع منصوبے کا بنیادی خاکہ تیار کر لیا تھا اور کونسل کے روبرو اس کا زبانی بھی ذکر کیا تھا، مگر میسور کی جنگ کے باعث اس منصوبے پر فوری عمل نہیں ہو سکا(7)۔”
اس وقت خوش قسمتی سے کلکتے میں کمپنی کے کئی اعلیٰ عہدیدار اور پادری ایسے موجود تھے جن کو لارڈ ویلزلی کے خیالات سے پورا پورا اتفاق تھا اور جو مشرقی زبانوں اور علوم مغربی پر پورا عبور رکھتے تھے۔ ان میں سب سے پیش پیش ڈاکٹر جان گلکرسٹ تھا۔ ڈاکٹرجان گلکرسٹ کو ہندوستانی (اردو) زبان سے والہانہ محبت تھی۔ اس نے گورنر جنرل کوایک یادداشت بھیجی جس میں لکھا تھا کہ وہ نووارد رائٹروں (انگریز ملازمین) کو روزانہ ہندوستانی زبان کا درس دینے کے لئے تیار ہے۔ لارڈ ویلزلی نے گلکرسٹ کی یہ تجویز منظور کرلی۔
چنانچہ 21 دسمبر 1798ء کو گورنر جنرل با اجلاس نےیہ حکم صادر کیا کہ کمپنی کے کسی سول ملازم کو ذمہ داری اوراعتماد کے مخصوص عہدوں پراس وقت تک متعین نہ کیا جائے جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ اس نے گورنر جنرل با اجلاس کے نافذ کردہ تمام قوانین و ضوابط سے نیز مختلف مقامی زبانوں سے پوری واقفیت حاصل کرلی ہے۔ نیز یہ کہ پہلی جنوری 1801ء سے کوئی سول ملازم بنگال، بہار، اڑیسہ اور بنارس میں اہم عہدوں کا اس وقت تک مستحق نہیں سمجھا جائے گا جب تک کہ وہ قوانین و ضوابط اور مقامی زبانوں کا امتحان پاس نہ کرلے۔ زبانوں کا جاننا ان عہدوں کے لئے بالکل لازمی تھا(8)۔
اس فیصلے کے مطابق لارڈ ویلزلی نے ڈاکٹر گلکرسٹ کو سول ملازمین کو فارسی اور اردو پڑھانے پرمامور کیا کہ یہ دونوں زبانیں کاروبار مملکت کے لئے سب سے ضروری تھیں(9)۔ اس طرح ڈاکٹرگلکرسٹ کی “اورینٹل سیمینری ” وجود میں آئی۔ جنوری1799ء میں ڈاکٹر گلکرسٹ کو ان سول ملازمین کی فہرست مل گئی جو فارسی اور ہندوستانی سیکھنے کے آرزومند تھے اور فروری 1799ء میں ڈاکٹرگلکرسٹ نے رائٹرس بلڈنگ میں درس دینا شروع کر دیا(10)۔
ڈاکٹر گلکرسٹ تقریباً ڈیڑھ سال تک سول ملازمین کو ہندوستانی اور فارسی پڑھاتے رہے۔ تب لارڈ ویلزلی کے حکم سے پانچ اعلیٰ افسروں کی ایک کمیٹی نے 21 تا 25 جولائی 1800ء میں طلبا کا امتحان لیا اور مفصل رپورٹ گورنر جنرل کے روبرو پیش کی۔ گورنر جنرل نے کامیاب طلبا میں سے بارہ کو نقد رقم اور تمغے انعام دیے اوران کی زباں دانی کو سراہا(11)۔
لیکن یہ عارضی انتظام تھا اور اس سے لارڈ ویلزلی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ جس وسیع تعلیمی منصوبے کا خاکہ اس نے تیار کیا تھا اس کا چھوٹے پیمانے پر تجربہ ہو جائے۔ در اصل ڈاکٹر گلکرسٹ کی ’’اورینٹل سیمینری‘‘ فورٹ ولیم کالج کی پہلی کڑی تھی۔ اس سے نظم و نسق کی کل ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔ ڈاکٹرگلکرسٹ کو سول ملازمین پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ وہ جب چاہتے لیکچر میں شریک ہوتے، جب چاہتے شریک نہ ہوتے۔ ڈاکٹرگلکرسٹ ان کے اخلاق و عادات کی نگرانی بھی نہیں کر سکتے تھے۔ بڑی مشکل یہ تھی کہ سول ملازمین کو حصول درس کے علاوہ اپنے سرکاری فرائض بھی انجام دینا ہوتے تھے، اس لئے یکسوئی سے پڑھائی نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر یہ بھی ہوتا کہ نوجوان ملازمین زبان سیکھنے کے بہانے مفصلات سے کلکتے آجاتے اور اگر کلکتے میں ہوتے تو سبق کا عذر کر کے دفتر سے غائب ہو جاتے اور پھرخوب گل چھرے اڑاتے(12)۔ ظاہر ہے کہ تعلیم کے اس انتظام سے کمپنی کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچنے کا اندیشہ بہت قوی تھا۔
یہ تھے وہ اسباب و محرکات جن کے تحت لارڈ ویلزلی نے کالج کے منصوبے کو عملی شکل دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے کمپنی کی مجلس نظما کی منظوری بھی حاصل نہیں کی ااور10 جولائی 1800ء کو فورٹ ولیم کالج کے قیام کا اعلان کر دیا۔ بورڈ سے کالج کے ریگولیشن پر مہر توثیق لگوائی اور انتظامات شروع کردیے۔ البتہ ایک دن پیشتر جو رپورٹ اس نے نظم و نسق سے متعلق مجلس نظما کو لندن بھیجی اس میں اطلاعا ًلکھ دیا کہ گورنر جنرل با اجلاس نے کلکتے میں سول ملازمین کے لئے ایک تعلیمی ادارہ کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ کہ اس منصوبے کی تفصیلات بعد میں روانہ کردی جائیں گی(13)۔
یہ تفصیلات ایک طویل یادداشت کی صورت میں 18 اگست 1800ء کو مجلس نظما کو بھیجی گئیں۔ اس یادداشت میں لارڈ ویلزلی نے کالج کی اہمیت اور افادیت پر مفصل روشنی ڈالی تھی اور کالج کے قوانین و ضوابط کی تشریح کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان آنے والے ہر نئے ملازم کو ہدایت کی جائے کہ وہ فورٹ ولیم کالج میں بھرتی ہوکر پہلے اپنی تعلیم مکمل کرے، اس کے بعد گورنر با اجلاس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہو کہ طالب علم کس صوبے اور کس عہدے کے لئے زیادہ موزوں ہوگا۔ لارڈ ویلزلی نے کالج کے مصارف کے لئے بنگال اور میسور کی مال گزاری پرکالج ٹیکس لگانے کی اجازت بھی طلب کی تھی(14)۔ فورٹ ولیم کالج کا ضابطہِ قانون ( ریگولیشن) 27 دفعات پرمشتمل تھا(15)۔ اس ضابطہِ قانون کے تحت گورنر جنرل کالج کا سرپرست اور وزیٹر قرار پایا (دفعہ 4) ،سپریم کونسل کے ارکان اور دیوانی عدالت کے صدر اور نظامت عدالت کے جج کالج کے گورنر مقرر ہوئے (دفعہ5)، کالج کا نظم و نسق پانچ ارکان کی ایک مجلس منتظمہ کے سپرد ہوا(16)۔
پہلی مجلس منتظمہ کے ارکان یہ تھے: پادری ڈیوڈ براؤن (پرووسٹ کالج)، پادری کلاڈیٹس بکانن (نائب پرووسٹ)، آنریبل آرتھر ویلزلی (جو بعد میں ڈیوک آف ولنگٹن کے لقب سے مشہور ہوا)، سرجارج بارلو (جو بعد میں قائم مقام گورنر جنرل ہوا) اور مسٹر نیل بنجامن ایڈمانسٹن سکریٹری حکومت(17) کالج کا سب سے بڑا افسر پرووسٹ کہلاتا تھا۔ طے پایا کہ پرووسٹ ہمیشہ برطانوی کلیسا کا پادری ہوگا (دفعہ11)۔ ضابطے کے تحت فورٹ ولیم کالج میں عربی، فارسی، ہندوستانی، سنسکرت، بنگالی، تیلگو، مرہٹی، تامل اور کنڑی زبانوں کے شعبے کھولے گئے۔
اسلامی فقہ، ہندو دھرم، اخلاقیات، اصول قانون، برطانوی قانون، گورنر جنرل با اجلاس کے وضع کردہ قوانین اور ضابطے، معاشیات، جغرافیہ، ریاضی، یورپ کی جدید زبانیں، یونانی، لاطینی اور انگریزی ادبیات، جدید اور قدیم تاریخ ہندوستان اور دکن کی قدیم تاریخ، طبعیات، نباتات، کیمسٹری اورعلم نجوم کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا (دفعہ15)، سر جارج بارلر برطانوی ہند کے قوانین و ضوابط کے اعزازی پروفیسر ہوئے۔ اسی طرح مسٹر بنجامن ایڈمانسٹن فارسی کے اعزازی پروفیسر مقرر ہوئے۔ البتہ لیفٹیننٹ جان بیلی ،عربی پروفیسر، کی تنحواہ سولہ سو روپے ماہانہ تھی اور ڈاکٹر جان گلکرسٹ، پروفیسر ہندوستانی، کی تنخواہ پندرہ سو روپے ماہانہ تھی۔ اردو ادب کی بعض تاریخوں میں لکھا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے پرنسپل ڈاکٹرجان گلکرسٹ تھے۔ یہ سراسر بے بنیاد اور غلط ہے کیونکہ ڈاکٹر جان گلکرسٹ فقط ہندوستانی کے پروفیسر تھے اور کبھی پرنسپل مقرر نہیں ہوئے۔ در اصل کالج میں پرنسپل کا عہدہ سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ فقط پرووسٹ ہوتا تھا جو طلبا کے اخلاق و عادات کی نگرانی کرتا تھا اورکالج کے نظم و نسق کا ذمہ دار تھا(18)۔
ضابطے کے مطابق احاطہ بنگال میں متعین ہونے والے تمام نووارد سول ملازمین کے لئے کالج میں تین سال تک تعلیم پانا لازمی تھا (دفعہ18) ۔تعلیم کے زمانے میں سول ملازمین اپنی ملازمت کے فرائض سے مستثنیٰ کر دیے جاتے تھے (دفعہ18) ۔احاطہ بنگال کے ان ملازمین کے لئے بھی تین سال کی تعلیم لازمی تھی جن کو ابھی بنگال آئے ہوئے تین سال نہیں گزرے تھے (دفعہ19)۔ ان کے علاوہ احاطہ بمبئی اورمدراس کے سول اور فوجی ملازمین بھی گورنرجنرل کی اجازت سے کالج میں داخلہ لے سکتے تھے (دفعہ20۔ 21) ۔طلبا کے قیام و طعام کا انتظام مفت اور کالج کے ذمہ تھا۔ (کالج کے ضوابط ص 734) ۔اس کے علاوہ ہر طالب علم کو تین سو روپے ماہانہ جیب خرچ بھی دیا جاتا تھا(19)۔
کالج میں دو دو ماہ کے چارٹرم ہوتے تھے۔ پہلا ٹرم فروری اور مارچ کا، دوسرا مئی اور جون کا، تیسرا اگست اور ستمبر کا، چوتھا ٹرم نومبر اور دسمبر کا، ہرٹرم کے بعد ایک ماہ کی تعطیل ہوتی تھی۔ سال میں دوبارامتحانات ہوتے تھے۔ پہلا دوسرے ٹرم کے بعد اور دوسرا چوتھے ٹرم کے بعد۔ (دفعہ 23 ، ضمیمہ ضوابط 3)۔
لارڈ ویلزلی نے کالج کے لئے ایک وسیع عمارت میکڈانلڈ نامی ایک انگریز سے کرائے پرلی(20)۔یہ عمارت شہر کے وسط میں تھی اورجب سب انتظامات مکمل ہوگئے تو 25 نومبر 1800ء سے کالج میں باقاعدہ تعلیم شروع ہوگئی۔ پہلے دن فقط عربی کا درس دیا گیا دوسرے دن فارسی کا اور تیسرے دن یعنی26 نومبرکو ہندوستانی کی باری آئی(21) ۔ کالج میں ایک بڑا کمرہ کھانے کے لئے مخصوص تھا جہاں سب طلبا کے لئے دونوں وقت کھانا لازمی تھا۔ پہلے ٹرم میں طلبا کی کل تعداد 64 تھی(22)۔
کالج میں مشرقی زبانوں کی تعلیم پر بہت زور دیا جاتا تھا بالخصوص ہندوستانی اور فارسی پر کیونکہ ہندوستانی زبان شمالی ہند کی بول چال کی زبان تھی اور فارسی پورے ملک میں ہنوز دفتری اور درباری زبان تھی۔ لہذا السنہ مشرق کے انگریز پروفیسروں کی مدد کے لئے ہرشعبے میں دیسی منشی اور پنڈت ملازم رکھے گئے۔ ان منشیوں کا کام درس و تدریس میں انگریز استادوں کا ہاتھ بٹانا اور طلبا کے لئے نصاب کی کتابیں تیارکرنا تھا۔ عربی، فارسی، ہندوستانی اوربنگالی کے شعبوں میں ایک ایک چیف منشی ہوتا تھا، اس کی تنخواہ دو سو روپے ماہانہ تھی۔ اس کے ما تحت ایک سیکنڈ منشی ہوتا تھا جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہانہ تھی، منشیوں کا انتخاب مقابلے کے امتحان کے ذریعے ہوتا تھا(23)۔
ان کے علاوہ سندی منشی بھی ہوتے تھے جن کو باقاعدہ امتحان پاس کرنا ہوتا تھا۔ یہ سندی منشی کالج کے ملازم نہیں ہوتے تھے البتہ ان کو طلبا کو پرائیویٹ طور پر تعلیم دینے کی اجازت تھی۔ ان کی تنخواہ تیس روپے ماہانہ مقرر تھی جو طلبا اپنی جیب سے دیتے تھے۔ کالج کے ملازم منشیوں کو پرائیویٹ ٹیوشن کی اجازت نہ تھی۔ چیف منشیوں کو اتوار کے علاوہ ہر روز (چھٹیوں میں بھی) دس بجے سے ایک بجے تک کالج میں حاضر رہنا ہوتا تھا کہ طلبا ان سے استفادہ کر سکیں(24)۔
ہندوستانی، فارسی اورعربی کے منشی چونکہ کلکتہ میں کمیاب تھے، اس لئے لکھنؤ اور دہلی کے ریڈیذنٹوں کو اپنے علاقے کے لائق منشی تلاش کر کے بھیجنے کی ہدایت کی گئی۔
ابتدا میں فارسی کے بیس، ہندوستانی کے بارہ، بنگالی کے چھ اورعربی کے چارمنشی مقرر ہوئے(25)۔ لیکن ہندوستانی زبان کی مقبولیت کے پیش نظر جلدہی ہندوستانی منشیوں کی تعداد25 تک پہنچ گئی۔ (گلکرسٹ اور اس کا عہد ص155) ۔ڈاکٹر گلکرسٹ کی تجویز پر ہندوستانی کے شعبے میں ایک قصہ خواں بھی مقرر ہوا جو طلبا کوان کی قیام گاہ پر جا کر داستانیں اور قصے سناتا تھا(26)۔
ہندوستانی زبان کے چیف منشی میر بہادرعلی حسینی مصنف اخلاق ہندی و نقلیات لقمانی تھے۔ ان کا تقرر 26 اپریل 1801ء کو ہوا۔ ان کے سیکنڈ منشی تارنی چرن منر تھے۔ عام منشیوں میں قابل ذکر میر امن دہلوی مصنف باغ و بہار، حیدر بخش حیدری مصنف آرائش محفل و طوطا کہانی، کاظم علی جواں مصنف سنگھاسن بتیسی وبارہ ماسہ، میرشیرعلی افسوس مصنف باغ اردو، مظہرعلی ولا مصنف بیتال پچیسی و مادھونل، للولال کوی مصنف پریم ساگر اور خلیل علی خان اشک مصنف داستان امیر حمزہ ہیں
طلبا کی ضروریات کے لئے ایک کتب خانہ بھی قائم کیا گیا۔ کتب خانے میں مغربی زبانوں کی مطبوعہ کتابوں کے علاوہ مشرقی زبانوں کے قلمی نسخوں کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ تھا۔ سلطان ٹیپو کا سارا کتب خانہ جو سرنگاپٹم سے کلکتے لایا گیا تھا کالج کے حوالے کر دیا گیا(28)۔ ابتدا میں طلبا کو کتابیں گھر لے جانے کی اجازت تھی، مگر جب طلبا کی بے پروائی سے نایاب مخطوطات گم ہونے لگے تو اگست 1807ء میں کتابیں لائبریری کے باہر لے جانے کی ممانعت ہوگئی۔ فورٹ ولیم کالج کی لائبریری اپنے زمانے میں برصغیر پاک و ہند کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ اس میں 1835ء میں 5224 مطبوعہ مغربی کتابیں، 11718 مطبوعہ مشرقی کتابیں اور 4225 قلمی کتابیں تھیں(29)۔1836ء میں قلمی کتابیں ایشیا ٹک سوسائٹی آف بنگال کے کتب خانے میں منتقل کردی گئیں۔
کالج میں تقسیم اسناد کا جشن (کانووکیشن) بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ اس کے لئے ضابطے کے مطابق 6فروری کا دن مخصوص تھا۔ جلسے کی صدارت گورنر جنرل کرتا تھا۔ اس موقعے پر کامیاب طلبا کو سندیں دی جاتی تھیں۔ یہ سندیں اسی مشرقی زبان میں سنہرے حروف میں لکھی ہوتی تھیں جس میں طالب علم نے امتحان دیا ہوتا۔ تمغے اور نقد انعامات بھی دیے جاتے تھےاور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جلسہ عام میں طلبا کے درمیان مباحثے ہوتے تھے۔ یہ مباحثے فارسی، ہندوستانی اور بنگالی زبانوں میں ہوتے تھے۔ طریقہ یہ تھا کہ ایک طالب علم مقررہ موضوع کی حمایت میں لکھی ہوئی تقریر کرتا اور دو طالب علم موضوع کی مخالفت میں لکھی ہوئی تقریریں کرتے۔ متعلقہ زبان کا پروفیسر ماڈریٹر کے فرائض انجام دیتا تھا۔ یہ تقریریں بعد میں کتابی شکل میں شائع کردی جاتی تھیں۔ ان تقریروں پر طلبا کو انعام دیا جاتا تھا(30)۔ مباحثوں کے اختتام پر گورنر جنرل کامیاب طلبا کو سندیں دیتا تھا اور جلسے سے خطاب کرتا تھا۔
ہندوستانی اور فارسی کے طلبا میں اول، دوم اور سوم آنے والے طلبا کو علی الترتیب پندرہ سو روپے، ایک ہزار روپے اور پانچ سو روپے اور طلائی تمغہ انعام ملتا تھا۔ البتہ بنگالی میں اول اور دوم کو، عربی میں فقط اول کو انعام دیا جاتا تھا۔ ان کے علاوہ فارسی نویسی اور ناگری نویسی کے ایک ایک ہزار روپے کے تین انعام تھے(31)۔
اسی روز رات کے وقت گورنر جنرل کی طرف سے کالج میں ایک پر تکلف دعوت ہوتی تھی جس میں گورنر جنرل اور کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ اساتذہ اور عمائد شہر بھی مدعو ہوتے تھے(32)۔
فورٹ ولیم کالج فقط تعلیمی ادارہ نہ تھا بلکہ اپنے زمانے میں تصنیف و تالیف کا سب سے بڑا مرکز بھی تھا۔ اساتذہ اور منشی صاحبان درس دینے کے علاوہ طلبا کے لئے کتابیں بھی لکھتے تھے۔ چنانچہ فورٹ ولیم کالج میں لغتیں، تواریخ، اخلاقی، مذہبی اور قصوں کہانیوں کی کتابیں بڑی تعداد میں تیار ہوئیں۔ یہ کتابیں زیادہ تر اساتذہ اورمنشیوں کی تصنیف ہیں، لیکن دوسرے مصنفوں کی کتابیں بھی منظور کی جاتی تھیں مثلاً باسط خاں کی ’’گل صنوبر‘‘ شاکر علی کی ’’الف لیلا‘‘ نہال چند لاہوری کا قصہ ’’گل بکاؤلی‘‘، مرزا علی لطف کی ’’گلشن ہند‘‘ کالج کے زیراہتمام چھپیں حالانکہ ان کتابوں کے مصنفین کالج سے وابستہ نہ تھے(33)۔ ان کے علاوہ کلیات سودا اور مسکین کا مرثیہ بھی کالج میں چھپا۔ اردوکے علاوہ فارسی میں برہان قاطع (فارسی کا لغت 1818ء)، انوارسہیلی (1805ء) دبستان مذاہب، ازشیخ محمد محسن (1809ء) ہدایہ (1807ء) عربی میں منتخب اللغات (1818ء)، قاموس (1817ء)، الف لیلا (1814۔ 1818ء)، مقامات حریری، (1812) اور تاریخ تیمور (1818ء)، مشکوۃ (انگریزی میں 1809) ،پنجابی زبان کی گرامر، (1814ء) حتی کہ چینی، ملائی اور برمی زبانوں کے لغت بھی شائع ہوئے۔
مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لئے منظورشدہ تصنیف پرانعام بھی دیا جاتا تھا۔ کالج کے باقاعدہ ملازمین کو کم اور باہر والوں کو زیادہ۔ مثلا ًبوستان (300 صفحے) کے اردو مترجم حاجی مرزا مغل کو چار سو روپے انعام دیا گیا(34)۔ فورٹ ولیم کالج کی تخلیقی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ابتدائی چار برس میں فقط ہندوستانی زبان کی93 کتابیں تصنیف ہوئیں(35)۔ یہ کتابیں زیادہ تراردو رسم الخط میں تھیں البتہ بعض کتابوں میں خفیف سی تبدیلی کر کے ناگری رسم الخط میں بھی چھاپا جاتا تھا۔ اردو کی کتابیں ناگری کی مانند ٹائپ میں چھپتی تھیں۔ یہ ٹائپ نستعلیق کا تھا۔
فورٹ ولیم کالج کا پہلا کنووکیشن 6 فروری 1802ء کو ہوا۔ اس تقریب کی صدارت سر جارج بارلو قائم مقام گورنر جنرل نے کی کیونکہ لارڈ ویلزلی ان دنوں دورے پر گیا ہوا تھا۔ اس موقع پر فارسی مباحثے کا موضوع یہ تھا کہ “ہندوستان میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کا قیام برطانوی قوم اور دیسی لوگ (Native) دونوں کے لئے مفید ہے”۔ہندوستانی مباحثے کا موضوع تھا کہ “ہندوستانی زبان ہندوستان کی سب سے عام فہم اورمفید زبان ہے”۔ اور بنگالی مباحثے کا موضوع یہ تھا کہ “ایشیا والوں میں تہذیب کی اتنی ہی صلاحیت ہے جتنی یورپ والوں میں”۔(36)
کالج کے مصارف کے لئے ابتدا میں لارڈ ویلزلی نے سول ملازمین سے عطیات حاصل کئے پھر چنگی اور محصول کا ایک ریگولیشن نافذ کیا۔ اس مد سے پہلے ہی سال بارہ لاکھ ستر ہزار روپے وصول ہوئے۔ کالج کے سالانہ مصارف تقریبا چار لاکھ روپے تھے البتہ پہلے سال چھ لاکھ تیس ہزار خرچ ہوئے۔ پروفیسروں اور منشیوں کی تنخواہوں پر تقریبا ًایک لاکھ روپے سالانہ خرچ آتا تھا(37)۔
ابھی کالج کو کھلے ہوئے فقط ایک سال اور دو مہینے ہی گزرے تھے کہ کمپنی کی مجلس نظما نے 27 جنوری 1802ء کو یہ فیصلہ کیا کہ کالج فوراً بند کر دیا جائے اور اس کی جگہ ڈاکٹر گلکرسٹ کی ’’اورینٹیل سیمینری‘‘ کو دوبارہ بحال کیا جائے(38)۔ مجلس نظما کی رائے میں باقاعدہ کالج کا قیام محض فضول خرچی ہے۔ مجلس نظما کا یہ حکم لارڈ ویلزلی کو 10 جون 1802ء کو وصول ہوا۔لارڈ ویلزلی کو مجلس نظما کے اس فیصلے پر بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے کالج بند نہیں کیا بلکہ 5اگست 1802ء کو ایک طویل یادداشت لندن روانہ کی۔ اس یادداشت میں ویلزلی نے کمپنی کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا اور کالج کی اہمیت نہایت تفصیل سے بیان کی۔ مصارف کے بارے میں اس نے لکھا کہ کالج پر کمپنی کی کوئی رقم صرف نہیں ہوتی۔ آخر میں اس نے مجلس نظما سے درخواست کی تھی کہ کالج بند نہ کیا جائے(39)۔
لارڈ ویلزلی نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے ایک با اثر دوست کے ذریعے کمپنی کے ارباب اختیار کو اپنے اس ارادے سے بھی آگاہ کر دیا کہ “کورٹ نے اگر بالآخر کالج توڑنے کا فیصلہ کرہی لیا تو انگلستان لوٹتے ہی پارلیمنٹ میں تجویز پیش کروں گا کہ قانون کے ذریعے کالج کی تجدید کی جائے”(40)۔ لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ مجلس نظمانے2 ستمبر 1803ء کو یہ تجویز منظور کرلی کہ کالج تا حکم ثانی بدستور چلتا رہے(41)۔
فورٹ ولیم کالج کا بانی اور روح رواں لارڈ ویلزلی تھا۔ جب تک وہ گورنر جنرل رہا، کالج کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں ہونے پائی۔ کالج میں تصنیف و تالیف کا عہد عروج بھی یہی تھا۔ مگر لارڈ ویلزلی 29 اگت 1805 کو مستعفی ہو کر ولایت چلا گیا اور اس کے جانشینوں میں کوئی اتنا با اثر نہ تھا جو مجلس نظما کی مخالفتوں کا مقابلہ کر سکتا یا جسے کالج سے وہ دلچسپی ہوتی جو لارڈ ویلزلی کو تھی۔لارڈ ویلزلی کے مستعفی ہونے کے کچھ دن بعد کمپنی کی مجلس نظما نے 21 مئی 1806ء کو یہ فیصلہ کیا کہ ملازمین کی تعلیم کے لئے انگلستان ہی میں ایک کالج ہیلی بری کے مقام پر قائم کیا جائے(42)۔ اس کے ساتھ کلکتہ کو یہ ہدایت بھی بھیج دی گئی کہ جنوری 1807 سے فورٹ ولیم کالج کے اخراجات کم کردیے جائیں۔ چنانچہ، پرووسٹ اور نائب پرووسٹ کے عہدے توڑ دیے گئے۔ مشرقی زبانوں کی تعلیم کا نصاب گھٹا کر ایک سال کا کر دیا گیا۔ پنڈتوں اور منشیوں کی تعداد میں بھی تخفیف ہو گئی اور کالج کا عملہ مختصرکر دیا گیا(43)۔
لارڈولیم بنٹک 1827۔ 1835ء کے عہد میں کالج کے مصارف اور کم کر دیے گئے۔ چنانچہ یکم جون 1830ء سے کالج میں فقط ایک انگریز سکریٹری اور تین ممتحن رہ گئے۔ لیکچروں کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ پروفیسروں اور منشیوں کے عہدے توڑ دیے گئے اور کالج برائے نام رہ گیا۔ آخر 1854ءمیں کالج کو بورڈ آف ایگزامنرمیں ضم کر دیا گیا اور فورٹ ولیم کالج کا وجود بالکل ختم ہو گیا(44)۔
فورٹ ولیم کالج نے اپنی54 سالہ زندگی میں مشرقی علوم والسنہ بالخصوص اردو زبان و ادب کی بڑی خدمت کی۔ گو یہ تعلیمی ادارہ انگریزوں کے لئے قائم کیا گیا تھا اور کالج کے زیر اہتمام جو کتابیں لکھی جاتی تھیں وہ انگریزوں کے مذاق اور ان کی ضرورت کے پیش نظر لکھی جاتی تھیں لیکن کالج کے قیام سے مغربی طرز کی درسگاہ کی جو روایت ہمارے ملک میں قائم ہوئی، اس کے دور رس اثرات ایک تاریخی حقیقت ہیں۔ کالج کی ادبی اور علمی تصنیفات سے ہماری زبان اور ادب میں ایک نئے اور درخشاں باب کا آغاز ہوا۔
فورٹ ولیم کالج سے پیشتر اردو نثر کی کوئی کتاب بول چال کی آسان زبان میں موجود نہ تھی۔ اس لئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ جدید اردو نثر کی بنیاد فورٹ ولیم کالج میں پڑی، چنانچہ کالج کی تصنیفات نے زبان اور بیان کا سانچا ہی بدل دیا۔ کالج کے منشیوں نے اردو نثر میں ایسی ابدی تخلیقات پیش کیں جن کا شمار ہمارے کلاسیکس میں ہوتا ہے۔ فورٹ ولیم کالج سے پیشتر اردو نثر اور نظم کی کتابیں قلمی ہوتی تھیں اس لئے عام لوگ ان سے محروم رہتے تھے۔ فورٹ ولیم کالج کی بدولت اردو کتابیں ہزاروں کی تعداد میں چھاپے خانوں میں چھپنے لگیں۔ اس طرح اردو پڑھنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اردو زبان و ادب زندہ ہیں، فورٹ ولیم کالج کا نام بھی زندہ اور تابندہ رہے گا۔
حوالہ جات:
(1) مانٹگومری مارٹن (مرتب) لارڈ ویلزلی کے مراسلات، خطوط اور یادداشت (بہ زبان انگریزی)، جلد دوم۔ (لندن،1836ء) صفحہ356
(2) ڈبلیو ایس سٹین کار (مرتب)، کلکتہ گزٹ کے منتخبات (بہ زبان انگریزی)، جلد سوم، (کلکتہ، 1868ء) صفحہ 71
(3)مانٹگومری مارٹن (مرتب)، ایضا، صفحہ 330
(4)محمد عتیق صدیقی، گلکرسٹ اور اس کا عہد (علی گڑھ 1960ء)، صفحہ 48
(5)ایضاً۔ صفحہ51
(6)پروسیڈنگزآف دی جنرل کاؤنسل، مورخہ 21ستمبر 1797ء، بحوالہ ایضاً، صفحہ109
(7)مانٹگومری مارٹن (مرتب)، بحوالہ سابقہ، صفحہ 659
(8) ڈبلیو۔ ایس۔ سٹین کار (مرتب)، بحوالہ سابقہ،22۔ 23
(9)ایضاً، صفحہ 62
(10)ایضاً، صفحہ69
(11)ایضاً، صفحہ 9۔ ایضاً، صفحہ 62
(12)ایضاً، صفحہ 69
(13)ایضاً، صفحہ 57۔ 65
(14)مانٹگومری مارٹن (مرتب)، بحوالہ سابقہ، صفحہ 331
(15)ایضاً، صفحہ 323۔ 324
(16)ایضاً، صفحہ 354۔ 355
(17)ایضاً، صفحہ، 356۔ 361
(18)ایضاً، صفحہ 734
(19)کالج کے ضوابط، ضمیمہ، ایضاً، صفحہ 735
(20)ایضاً، صفحہ 732۔ 735
(21)ایضاً، صفحہ347
(22)بی این بنرجی، ڈان آف نیوز انڈیا (بہ زبان انگریزی)، (کلکتہ 1927ء)، صفحہ 100۔ 101
(23)ڈبلیو ایس سٹین کار (مرتب)، بحوالہ سابقہ صفحہ 71
(24)مانٹگومری مارٹن (مرتب)، بحوالہ سابقہ، 73
(25)پرسیڈنگز آف دی کالج آف فورٹ ولیم، جلد اول، صفحہ 60۔ 61
(26)ایضاً، صفحہ62۔ 63
(27)بنرجی، بحوالہ سابقہ صفحہ 102
(28)محمد عتیق صدیقی، بحوالہ سابقہ، صفحہ 159
(29)بنرجی، صفحہ 111۔ 112 اور محمد عتیق صدیقی، بحوالہ سابقہ صفحہ 198۔ 199
(30)مانٹگومری مارٹن (مرتب) بحوالہ سابقہ، صفحہ 352۔ 353
(31)نرجی، بحوالہ سابقہ، صفحہ 107
(32)کالج کے ضوابط، بحوالہ سابقہ، دفعہ 5،6، 8
(33)ڈبلیو ایس سٹین کار (مرتب) بحوالہ سابقہ صفحہ 292۔ 297
(34)ایضاً، صفحہ 299
(35)محمد عتیق صدیقی، بحوالہ سابقہ، صفحہ200
(36)بنرجی بحوالہ سابقہ، صفحہ 113۔ 114
(37)محمد عتیق صدیقی، بحوالہ سابقہ، صفحہ 177
(38)ایضاً، صفحہ 38
(39)بنرجی بحوالہ سابقہ، صفحہ 114۔ 116
(40)مانٹگومری مارٹن (مرتب) بحوالہ سابقہ صفحہ 642
(41)ایضاً، صفحہ640
(42)ایضاً، صفحہ 662
(43)آرآر پیرز (مرتب) رچرڈ مارکویز ویلزلی کی یادداشیں اور مراسلات (بہ زبان انگریزی)، (لندن، 1864ء)، جلد دوم، صفحہ 211۔ 213
(44)بنرجی، بحوالہ سابقہ، صفحہ 124
(45)ایضاً، صفحہ 125
(46) ایضاً۔
(47)ایضاً، صفحہ126