شواہد کیا دکھاتے ہیں؟ گروورفر

پروفیسر گروورفر کے مضمون”ماسکو کے مقدمات اور1937-1938ء کی “عظیم دہشت”:شواہد کیا دکھاتے ہیں” کا اردو ترجمہ

مترجم: شاداب مرتضی

گروورفر،31 جولائی 2010ء

جب سےمیں نے 2004-2005ء میں دو حصوں پرمشتمل اپنا مضمون”اسٹالن اورجمہوری اصلاحات کی جدوجہد” لکھا ہے، تب سے (سوویت یونین میں) حزب اختلاف کے بارے میں، 1936ء، 1937ء،اور1938ء کے ماسکومقدمات کے بارے میں،”تخاچیفسکی معاملے”یا فوجی صفائی کے بارے میں، اوربعدازاں “ایزووشچینا” کے بارے میں ،جسے1968ء میں پہلی بار شائع ہونے والی رابرٹ کونکوئیسٹ کی نہایت بددیانت کتاب سے “عظیم دہشت” کاعمومی خطاب ملا ہے،کافی زیادہ شواہد شائع کیے جاچکے ہیں۔

نئے دستیاب شدہ شواہد مندرجہ ذیل نتائج کی تصدیق کرتے ہیں

اگست 1936ء،جنوری1937ء،اورمارچ1938ء کے ماسکو مقدمات کے مدعا علیہان کم ازکم ان جرائم کے قصوروارتھے جن کا انہوں نے اعتراف کیا۔”دائیں بازو اورٹراٹسکائیوں کا اتحادی گروہ”واقعی وجود رکھتا تھا۔اس نے اسٹالن،کاگانووچ، مولوٹوف اوردوسروں کو حکومت کے خلاف بغاوت میں گھات لگا کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جسے وہ “محلاتی بغاوت” کہتے تھے۔ اس گروہ نے واقعی خیروف کو قتل کیا۔

دایاں بازو اورٹراٹسکائی دونوں ہی جرمن اورجاپانیوں کی سازش میں شریک تھے اسی طرح جس طرح فوج میں موجود سازشی عناصر۔اگر”محلاتی بغاوت” ناکام رہتی تو انہیں امید تھی کہ وہ حملے کی صورت میں جرمنی یا جاپان سے وفاداری دکھا کراقتدار حاصل کرلیں گے۔

ٹراٹسکی خود بھی جرمن اورجاپانیوں کی سازش میں براہ راست شامل تھا اوراسی طرح اس کے بہت سے دوسرے حامی بھی۔

نکولائی ایزوف، جو 1936ء سے1938ءکے دوران وزارت داخلہ کا سربراہ تھا، وہ بھی جرمنوں کے ساتھ سازش میں شامل تھا۔

الف۔ایزوف کا معاملہ

اب ہمارے پاس وزارت داخلہ کے سربراہ نکولائی ایزوف کے کردار کے بارے میں اس سے کافی زیادہ شواہد موجودہیں جتنے 2005ء میں تھے۔ایزوف سوویت حکومت اورپارٹی قیادت کے خلاف خود سازش کررہا تھا۔ایزوف کو بھی جرمن خفیہ ایجنسی نے بھرتی کرلیا تھا۔

دائیں بازو اورٹراٹسکائیوں کی طرح ہی ایزوف اوروزارت داخلہ میں اس کے اعلی ترین افسران جرمنی، جاپان اوردوسرے بڑے سرمایہ دار ملکوں کے حملے سے امید لگائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے بہت بڑی تعداد میں معصوم لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تاکہ ان سے سنگین جرائم کا اعتراف کرا کے انہیں ماردیں۔اس سے بھی بڑی تعداد میں انہوں نے جھوٹے الزامات میں یا بغیر کسی الزام کے لوگوں کی جانیں لیں۔

ایزوف کو امید تھی کہ معصوم لوگوں کی اس بڑی تعدادمیں ہلاکت سوویت آبادی کے بڑے حصوں کو حکومت کا مخالف بنا دے گی اورجب جرمنی یا جاپان حملہ کریں گے تو سوویت حکومت کے خلاف اندرونی بغاوت کی بنیاد بنے گی۔

ایزوف نے اسٹالن، پارٹی اورحکومتی رہنماؤں سے اس سب کے بارے میں جھوٹ بولا۔1937-1938ء میں 680،000لوگوں کا قتل عام بڑی حد تک معصوم لوگوں کا ناجائز قتل تھا جسے ایزوف اوراس کے اعلی افسروں نے قصداکیا تاکہ سوویت آبادی میں بے چینی اورتشویش پیدا ہو۔

حالانکہ ایزوف نےبڑی تعداد میں معصوم لوگوں کی جان لی مگر دستیاب شواہد سے صاف ظاہر ہے کہ حقیقی سازشیں موجودتھیں۔ ایک معمولی حصے کےسوا روسی حکومت اکثر تفتیشی مواد کواب بھی نہایت خفیہ رکھتی ہے۔ہم شواہد کے بغیر حقیقی سازشوں کے طول وعرض کو درستگی سے نہیں جان سکتے۔لہذا، ہم نہیں جانتے کہ 680،000میں سے کتنے لوگ واقعی سازشی تھے اورکتنے معصوم تھے۔

جیسا کہ میں نے 2005ء میں لکھا تھا، اسٹالن اورپارٹی قیادت کو اکتوبر1937ء میں شک ہونے لگا تھا کہ یہ جبرغیرقانونی طورپرکیا گیا تھا۔1938ء کے اوائل میں جب پاویل پوستچیف پرکڑی تنقید ہوئی اورپھر اسے مرکزی کمیٹی سے خارج کیا گیااوراس کے بعد پارٹی سےنکال کراس پرمقدمہ چلا کراسے وسیع پیمانے کے ناجائز جبرپرموت کی سزا دی گئی تو یہ شکوک و شبہات بڑھنے لگے۔

جب لاورنتی بیریا کو ایزوف کا نائب مقرر کیا گیا اوراس کے آدمیوں نے یہ سمجھ لیا کہ اسٹالن اورپارٹی قیادت ان پرمزید بھروسہ نہیں کرتے تو انہوں نے آخری حربے کے طورپربالشویک انقلاب کی اکیسویں سالگرہ کی تقریبات میں 7 نومبر1938ء کو اسٹالن کو گھات لگا کرقتل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایزوف کے آدمیوں کو بروقت گرفتار کرلیا گیا۔

ایزوف کو استعفی پرقائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ گہری تفتیش شروع کی گئی اوروزارت داخلہ کی غلط کاریوں کی بڑی تعداد دریافت ہوئی۔ایزوف کے تحت سزا یافتہ اورزیرحراست بہت سے معاملات کا دوبارہ جائزہ لیا گیا۔ ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو جیلوں اورکیمپوں سے رہا کیا گیا۔ وزارت داخلہ کے متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا اورمعصوم لوگوں پر تشدد کا اعتراف کرنے پر ان پرمقدمہ چلا کرانہیں سزائے موت دی گئی۔ وزارت داخلہ کے بہت سے دوسرے لوگوں کو جیل کی سزا ہوئی یا انہیں ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔

بیریا کے ماتحت1938ء اور1940ء میں سزائے موت کی تعداد 1937ء اور1938ء میں ایزوف کے ماتحت تعداد کے ایک فیصد سے بھی کم رہ گئی اوربہت سے لوگ جنہیں اس دوران سزائے موت دی گئی وہ وزارت داخلہ کے افراد تھے جن میں خود ایزوف بھی شامل تھا جسے وسیع پیمانے کے ناجائز جبر کا اورمعصوم لوگوں کے قتل کا مجرم پایا گیا ۔

سب سے زیادہ ڈرامائی شواہد جنہیں 2005ء کے بعد سے شائع کیا گیا ہے وہ ایزوف اوراس کے نائب میخائل فرنووسکی کے اعترافات ہیں ۔ان میں سے کچھ کو میں نے اصل روسی اورانگریزی ترجمے کے ساتھ انٹرنیٹ پررکھا ہے۔ ہمارے پاس ایزوف کے ایسے کئی جزوی اعترافات اورتفتیشیں ہیں جن میں اس نے کئی اوراعترافات کیے ہیں۔الیکسی پاولیکوف نےانہیں 2007ء میں نیم سرکاری طورپرشائع کیا تھا۔

ب۔کمیونسٹ مخالف اسکالرز سچائی چھپاتے ہیں

تمام “عوامی(مین اسٹریم)” یعنی اینٹی کمیونسٹ، اور ٹراٹسکائی محقق یہ جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ کسی قسم کی کوئی سازش نہیں ہوئی تھی۔ان کے مطابق، ماسکو مقدمات کے تمام مدعاعلیہان، تمام فوجی مدعا علیہان، اور وہ سب جن پر مقدمہ چلا اورانہیں جاسوسی، سازش، سبوتاژ اوردوسرے جرائم پر سزا ہوئی، وہ سب معصوم تھے۔بعض یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسٹالن نے ان سب لوگوں کے قتل کا منصوبہ بنایا کیونکہ وہ سوویت یونین پر حملے کی صورت میں “پانچواں ستون(ففتھ کالم)”بن سکتے تھے۔ دوسرے اینٹی کمیونسٹ اس وضاحت کو ترجیح دیتے ہیں کہ اسٹالن نے یہ سب عوام کو دہشت زدہ کرکے انہیں اپنا مطیع و فرمانبرداررکھنے کے لیے کیا۔

یہ ایک نظریاتی، اینٹی کمیونسٹ مؤقف ہے جو تاریخی نتیجے کے نقاب میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد تاریخی شواہد پر نہیں اوریہ ان شواہد سے متضاد ہے۔اینٹی کمیونسٹ مؤرخین بنیادی شواہد کو نظرانداز کرتے ہیں۔حتی کہ وہ دستاویزات کے ان مجموعوں میں موجود شواہد کو بھی نظرانداز کرتے ہیں جن کا حوالہ وہ خود اپنی تحریروں میں دیتے ہیں۔

آخر روس اورمغرب دونوں میں اینٹی کمیونسٹ “اسکالرز”ان تمام شواہد کو نظرانداز کیوں کرتے ہیں؟ وہ ان جھوٹے بیانیے کو فروغ کیوں دیتے ہیں کہ کسی سازش کا وجود نہیں تھا اورایزوف نے نہیں بلکہ اسٹالن نے سینکڑوں ہزاروں معصوم لوگوں کی جان لینے کا فیصلہ کیا؟ اس کی واحد ممکنہ توجیہہ یہ ہے کہ وہ صرف نظریاتی وجوہات کی بنا پرایسا کرتے ہیں۔ سچائی جو کہ بنیادی شواہد کے تجزیے سے ثابت ہے، اسٹالن اوربالشویکوں کو اکثرلوگوں کی نظروں میں “اچھا” بنادے گی۔

پ۔زراعت کی اجتماع کاری نے دنیا کو نازیوں اورجاپانیوں سے بچایا

ہمارے پاس اس نظریاتی تعصب کی مثال اس بات میں ہے کہ اینٹی کمیونسٹ عالمین اورمصنفین زراعت کی اجتماع کاری کے معاملے میں بالشویکوں سے کیابرتاؤ کرتے ہیں۔ کمیونسٹ مخالف لوگوں نے عرصہ دراز سے اسے غیراخلاقی اورناجائز کہہ کراس پر حملہ کیا ہے۔ تاہم، اجتماع کاری نے سوویت یونین کی سریع صنعتکاری کے لیے سرمایہ فراہم کیا۔ اورصرف صنعتکاری نے ہی جدید سرخ فوج کوممکن بنایا۔

تیکنیکی لحاظ سےجدید ترقی یافتہ فوج کے بغیرنازی سوویت یونین کو فتح کرلیتے۔پھر، سوویت یونین کی افرادی قوت اوروسائل کے ساتھ اوربقیہ یورپ کی پشت پناہی سے نازی برطانوی جزائرپرہلہ بول دیتے۔ نازی افواج تمام اتحادی قوتوں کے خلاف خطرناک دشمن ثابت ہوتیں۔ اسی دوران، سوویت مشرق بعید کے پیٹرولیم سے مضبوطی پا کر، جاپانی بحرالکاہل میں امریکہ کے لیے کہیں زیادہ خطرناک دشمن ثابت ہوتے۔

لاکھوں مزید سلاف اوریہودی جو نازیوں کے نزدیک بدنسل تھے اورلاکھوں یورپی اورامریکی سپاہی ہلاک ہوجاتے۔مگر ایسا نہ ہوا اور اس کاسہرا بڑی حد تک سوویت یونین میں زراعت کی اجتماع کاری کےسر ہے۔یہ نتیجہ صاف ظاہرہے۔ زراعت کی اجتماع کاری کے سوا سوویت یونین کے پاس صنتعکاری کا، اورنازیوں اورجاپانیوں کے سامنے کھڑے ہوجانے کا کوئی اورراستہ نہیں تھا۔

اس کا واحد متبادل وہ تھا جسے دائیں بازو اورٹراٹسکائی سازشی فروغ دیتے تھےیعنی جرمنوں اورجاپانیوں سے صلح کرلینا، خواہ اس کامطلب انہیں بڑی تجارتی اورعلاقائی رعایتیں دینا ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے محوری طاقتوں(فاشسٹ جرمنی، اٹلی اورجاپان) کو برطانیہ اورامریکہ کے خلاف اپنی جنگ میں بہت طاقت مل جاتی۔

خالصتا نظریاتی وجوہات سے اینٹی کمیونسٹ لوگ یہ تسلیم نہیں کرسکتے کہ زراعت کی اجتماع کاری نے محوری طاقتوں کی شکست کو ممکن بنایا۔

ت۔سازشیوں کی شکست (1936-1938ء)

آیا وہ “محلاتی سازش” کے زریعے سیاسی اقتدار پرقبضہ کرنے کے قابل تھے، یا آیا انہیں اسٹالن کی حکومت کا تختہ الٹنے کے قابل ہونے کے لیے جاپانی و جرمن حملے پر انحصارکرنا پڑتا، حزب اختلاف کے سازشی محوری طاقتوں کے ساتھ کسی قسم کے اشتراک کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

درحقیقت ان کے پاس کوئی اورانتخاب نہیں تھا جس کا ادراک انہیں خود بھی تھا۔ اندرونی بغاوت سے کمزورہوچکا سوویت یونین، بیرون سے کسی حملے سے یا اس کے بغیر، اپنے ممکنہ حریفوں کو تجارتی، علاقائی، اورنظریاتی رعایتیں دینے پر مجبور ہوتا تاکہ حملے اورناگزیر شکست کو ٹال سکے۔

کم ازکم، سازشیوں کے کسی مجموعے کی قیادت میں سوویت یونین جرمنی اورجاپان سے معاہدے کرتا جن سے محوری طاقتوں کو بڑے قدرتی وسائل، اورعین ممکن تھا کہ تیارشدہ سامان بھی، مہیا ہوتا۔ فوجی سازشی محوری طاقتوں کے ساتھ تجارت سے کہیں زیادہ آگے کا سوچ رہے تھے۔ وہ تو جرمنی کے ساتھ فوجی اتحاد بنانے کی نیت کیے ہوئے تھے۔ اس کا مطلب ہوتا کہ دسیوں لاکھوں مزید سپاہی نازی افواج کے ساتھ مل کر لڑتے۔

لہذا، دائیں بازو، ٹراٹسکی اوراس کے مقلدوں، اورفوجی سازشیوں کی چالبازیوں کو ناکام بنا کر، اسٹالن نے یورپ کو نازیت سے بچایا، ایک بارپھرسے!

بے شک یہی وجہ ہے کہ اینٹی کمیونسٹ “اسکالرز” تمام شواہد کے باوجود اصرارکرتے ہیں کہ سوویت یونین میں کوئی سازش نہیں ہوئی تھی اورجرمن اورجاپانیوں کے ساتھ کوئی اشتراک موجود نہیں تھا۔ ایک بارپھر وہ خالصتا نظریاتی بنیادوں پران حقائق کو ماننے سے انکارکرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اسٹالن کے اعمال کو صحیح جواز مہیا ہوتا ہے۔

ٹ۔وسیع پیمانے پر جبر کے الزام کا حقداراسٹالن نہیں بخارن ہے

اس معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ نکولائی بخارن، جو دائیں بازوو الوں میں سرکردہ نام تھا اورخود ان کا ایک رہنما تھا، وہ “ایزووشچینا” سے باخبر تھا جب یہ جبر ہورہا تھا اوراس نے جیل سے اسٹالن کو لکھے گئے ایک خط میں اس کی تعریف بھی کی تھی۔

یہ اوربہتر ہوجاتا ہے۔ بخارن جانتا تھا کہ اس کی طرح ایزوف بھی دائیں بازو کے سازشیوں کا رکن ہے۔بے شک یہی وجہ تھی کہ اس نے وزارت داخلہ کے سربراہ کے عہدے پرایزوف کی تعیناتی کو خوش آمدید کہا۔ یہ بات اس کی بیوی نے اپنی یادداشتوں میں لکھی ہے۔

اپنے پہلےاعتراف میں، 10دسمبر1937ء کو اسٹالن کو لکھے گئے اپنے خط میں جو اب معروف ہے، اورمارچ 1938ء کو اپنے مقدمے میں ،بخارن نےدعوی کیا کہ اس نے خود کو بالکل “غیرمسلح” کرلیا تھا اور وہ سب کچھ بتا دیا تھا جو وہ جانتا تھا۔ لیکن اب ہم ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ بات جھوٹ تھی۔ بخارن جانتا تھا کہ ایزوف دائیں بازو کی سازش کا ایک سرکردہ رکن تھا لیکن اس نے یہ بات نہیں بتائی۔ ایزوف کے دست راست، میخائل فرنووسکی کے مطابق، ایزوف نے غالبا یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے (بخارن نے) ایزوف کی شمولیت کا زکر نہیں کیا تو وہ سزائے موت سے بچ جائے گا۔ (دیکھیے فرنووسکی کا اعترافی بیان، 11اپریل 1939ء)

اگر بخارن سچ بتا دیتا، اگر اس نے ایزوف کے بارے میں اطلاع دی ہوتی تو ایزوف کے ہاتھوں قتل عام کو راستے میں روکا جا سکتا تھا۔ سینکڑوں ہزاروں معصوم لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔

لیکن بخارن نے اپنے ساتھی سازشیوں سے عہد وفا نبھایا۔ اس نے سزائے موت قبول کی، ایسی سزائے موت جس کا وہ خودکو”دس گنا زیادہ” حقدارسمجھتا تھا، مگر اس نے سازش میں ایزوف کی شمولیت کا انکشاف نہیں کیا۔

اس نکتے پرزیادہ زورنہیں دیا جا سکتا کہ 1937-1938ء میں ایزوف اوراس کے لوگوں کے ہاتھوں ذبح کیے گئے سینکڑوں ہزاروں معصوم افراد کا خون بخارن کے ہاتھوں پر ہے۔

ث۔معروضیت اورشہادت

میں مؤرخ جیفری رابرٹس سے اس بات پرمتفق ہوں:”گزشتہ قریبا پندرہ سالوں میں روسی آرکائیوز سے اسٹالن کے بارے میں نئے مواد کا بڑا ذخیرہ دستیاب ہوا ہے۔ میں واضح کردوں کہ ایک مؤرخ کے بطورمیں ماضی کے بارے میں سچ بتانے کی شدید خواہش رکھتا ہوں، خواہ نتائج کتنے ہی تکلیف دہ اورناپسندیدہ ہوں۔ میرا خیال ہے اس میں کوئی المیہ نہیں: آپ سچائی کو ویسے ہی بیان کرتے ہیں جیسے آپ اسے دیکھتے ہیں۔”(“اسٹالن کی جنگیں”،فرنٹ پیج میگ،”Frontpagemag.com”، 12 فروری 2007)۔

“ایزووشچینا” کے بارے میں میں جن نتائج پر پہنچا ہوں وہ نظریاتی تعصب رکھنے والے لوگوں کے لیے ناقابل قبول ہوں گے۔ میں ان نتائج پر اس خواہش کے تحت نہیں پہنچا کہ اسٹالن یا سوویت حکومت کی پالیسیوں پر”معذرت” کروں۔مجھے یقین ہے کہ دستیاب شواہد کی بنیاد پر صرف یہی معروضی نتائج ممکن ہیں۔

میں ایسا کوئی دعوی نہیں کرتا کہ سوویت قیادت غلطیوں سے مبرا تھی۔ سوشلزم کو کمیونزم میں لے جانے کے بارے میں اسٹالن کا آدرش واضح طورپردرست نہیں تھا کیونکہ ایسا نہیں ہوا۔ اسٹالن کے وقت میں، اسی طرح جس طرح لینن کے مختصر دورمیں، سوویتوں نے بہت سی غلطیاں کیں۔ انسانی کاوشوں میں غلطی کا ہونا ناگزیر ہے۔ اورچونکہ بالشویک اولین کمیونسٹ تھے جنہوں نے ریاستی اقتدارحاصل کیا اورسنبھالا، وہ نامعلوم سمندر میں تھے۔ لہذا، یہ ناگزیر تھا کہ وہ بہت سے غلطیاں کریں گے، اورانہوں نے کیں۔

تاہم، شواہد اورتاریخی ریکارڈ کا کوئی بھی معروضی مطالعہ یہ دکھاتا ہے کہ بزورطاقت زرعی اجتماع کاری اورصنعتکاری کے سوا کوئی متبادل نہیں تھا ماسوائے یہ کہ سرمایہ دارطاقتوں کے کسی مجموعے کے ہاتھوں شکست کھائی جائے۔ اسی طرح، یہ حقیقت کہ دایاں بازو، ٹراٹسکائی، اورفوجی سازشی واقعتا موجود تھے مگرسوویت قیادت نے انہیں کھوج نکالا، ایزوف کی چالبازی اورسازش کو ناکام کیا،ایک بار پھر یہ ثابت کرتی ہے کہ سوویت یونین نے، “اسٹالن” نے، یورپ کو نازیت سے اورتمام اتحادیوں کو محوری طاقتوں کے ہاتھوں بہت بڑی تعداد میں اضافی ہلاکتوں سے بچایا۔

Leave a Comment