مابعد جدیدیت اور مارکسزم (پانچویں قسط)


مصنف: اعجاز احمد
مترجم: شاداب مرتضی

چوتھا حصہ

آئیے اب ہم مابعد جدیدیت کے بعض خاص نظریات کا جائزہ لیں جو زیادہ ترفرانس میں متشکل ہوئے، لیکن امریکی تبدیلیوں سے گہری قربت رکھتے ہیں۔ اختصارکی خاطر، میں خود کوتین سب سے معروف فرانسیسی مابعد جدیدیوں کے خیالات تک محدود رکھوں گا جن میں لیوٹارڈ، فوکالٹ اور ڈیریڈا شامل ہیں۔

بعض پہلووں سے لیوٹارڈ اس کا نمائندہ شخص ہے کیونکہ اپنے کام میں وہ ان تمام بنیادی رجحانوں کا احاطہ کرتا ہے جو عصری مابعدجدیدیت، ردمارکسی (اینٹی مارکسسٹ) سیاست سے متعلق ہیں۔ اپنی کتاب”مابعدجدید حالت (دی پوسٹ ماڈرن کنڈیشن)”، جو اس کی کافی بااثر تصنیف ہے، اس کے تعارف میں لیوٹارڈ مابعد جدیدیت کی تعریف روشن خیالی کی تین بنیادی وراثتوں سے انکار کے بطورکرتا ہے: جدلیات(ہیگل سے متعلق)، عقل(ڈیکارٹ اورکانٹ سے متعلق) اور یہ تصور کہ سیاسی معیشت سماجی تنظیم کی تمام شکلوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے (مارکس سے متعلق)۔مزید برآں، وہ اس خیال کو بھی محض”روشن خیالی کی رجائیت” کہہ کرمستردکرتا ہے کہ انسانیت عقلی شعور کو استعمال میں لاکر(کانٹ) اورمزدور طبقے کے انقلابی عمل کے ذریعے(مارکس) خود اپنی نجات کے لیے کام کرسکتی ہے۔

کتاب میں آگے جا کروہ “روشن خیالی کی فکر پر، اورتاریخ اورموضوع کے وحدانی اختتام کے تصور پر، مابعد جدیدیت کے تسلط کے کڑے ازسرنو جائزے” کی بات بھی کرتا ہے۔”تاریخ کے وحدانی اختتام” سے اس کی مراد دونوں چیزیں ہیں یعنی ہیگل کا یہ تصور بھی کہ عالمی آزادی کی جستجو تاریخ کا اصل کام ہے اوریہ مارکسی تصور بھی کہ سوشلزم اورکمیونزم کے ذریعے سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کے بعد انسانیت کے ماقبل تاریخ دور کااختتام ہوسکتا ہےاورحقیقی عالمی تاریخ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ “فاعلی موضوع کے تصور” کے ذریعے وہ اس مارکسی دعوے کا حوالہ دیتا ہے کہ طبقاتی جدوجہد تاریخ کی قوت محرکہ ہے اورانقلابی تبدیلی کے لیے پرولتاریہ مرکزی سماجی طبقہ (یعنی تاریخ کا “موضوع”) ہے۔ اسی طرح وہ اس مارکسی تصور کو بھی مسترد کرتا ہے کہ کسی بھی سرمایہ دارانہ سماجی تشکیل میں سرمایہ دارطبقہ بحیثیت مجموعی حکمران طبقہ ہوتا ہے۔ اس کے بجائے وہ یہ دعوی کرتا ہے: “فیصلہ سازی کرنے والوں کا طبقہ حکمران طبقہ ہے اور وہی رہے گا۔ حتی کہ اب بھی یہ روایتی سیاسی طبقے پر مشتمل نہیں رہا ہے، بلکہ کارپوریٹ لیڈروں، اعلی سطحی منتظموں، اور پیشہ ورانہ، مزدور، سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں کی پرتوں سےمل کر بنا ہے۔۔۔قومی ریاستوں، پارٹیوں، پیشوں، اداروں، اورتاریخی روایات کی ترجمانی کرنے والے کششی قطب اپنی کوشش کھو رہے ہیں۔”

نئے حکمران طبقے کی یہ تعریف براہ راست 1950ء کی دہائی کی امریکی سیاسی سماجیات سے لی گئی ہے لیکن پھر وہ اس میں یہ تصور شامل کردیتا ہے کہ قومی ریاستیں اور سیاسی جماعتیں نئی، مابعدجدید سیاسی شکل میں اپنی اہمیت کھو رہی ہیں۔ یہ ایسا تصور ہے جو بعد کے سالوں میں ایک طرف عالمگیریت کی لفاظی میں اوردوسری طرف غیر سرکاری تنظیموں(این جی اوز) کے عالمگیر ابھار میں، نام نہاد سماجی تحریکوں میں، متعدد قسموں کی شناختی سیاستوں وغیرہ کی شکل میں بڑے پیمانے پر پھیل گیا۔

لیوٹارڈ نے اپنی مشہور کتاب 1979ء کے بعد لکھی جب پنوشے اور مارگریٹ تھیچر چلی اور برطانیہ میں نیولبرل پالیسیاں شروع کرچکے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے چین میں ڈینگ کی اصلاحات رائج کی جارہی تھیں اور اس سے ایک سال پہلے امریکہ میں ریگن اقتدارمیں آگیا تھا۔مٹرانڈ، جس نے ایک سال پہلے فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی اور”مشترکہ پروگرام” سے ناطہ توڑ کر فرانسیسی انتخابات جیتے تھے، وہ جلد ہی نیولبرل حملے میں ریگن کےقریبی اتحادی کے طورپرسامنے آیا۔ اس ابھرتی صورتحال پرلیوٹارڈ کے موافقانہ تبصرے، جو نیولبرل خیالات اورپالیسیوں کے لیے اس بڑھتے ہوئے جوش و خروش کو ظاہر کرتے ہیں، کچھ یوں تھے:”عالمی مارکیٹ کا دوبارہ کھلنا، زبردست معاشی مقابلے بازی کی بحالی، امریکی سرمایہ داری کے غلبے کاٹوٹ کربکھرنا، سوشلسٹ متبادل کی تنزلی، چینی مارکیٹ کے کھلنے کا امکان وغیرہ، یہ سب اوربہت سے دوسرے عوامل پہلے ہی، 1970ء کی دہائی کے اواخر میں، اس کردار کا سنجیدگی سے دوبارہ جائزہ لینے کی حالتیں تیار کر رہے ہیں جو یہ 1930ء کی دہائی سے اداکرنے کے عادی رہے ہیں، یعنی سرمایہ کاری کی ہدایت کاری اور رہنمائی کا کردار۔”

اور زیادہ صفائی کے ساتھ وہ کہتا ہے: “دوسری عالمی جنگ کے بعد سے تیکنیک اورٹیکنالوجیوں کی بہار۔۔۔کو ترقی یافتہ لبرل سرمایہ داری کی ازسرنو تعیناتی کے ایسے اثر کے بطور بھی دیکھا جاسکتا ہے جو1930ء سے 1960ء کے دوران کینیزین ازم کی تحفظاتی پالیسی کے تحت پسپا ہونے کے بعد تجدید کے ایسے دورسے گزررہا ہے جس نے کمیونسٹ متبادل کو ختم کردیا ہے اوراجناس اورخدمات کی انفرادی لطف اندوزی کی قیمت مقررکردی ہے۔”

بعد کے پیراگراف میں لفظ “تجدید” معاملے کی کنجی ہے۔ کینیزین ضابطے (ریگولیشن) کے بعد “ترقی یافتہ لبرل سرمایہ داری کی ازسرنو تعیناتی “سرمایہ داری کی ایسی “تجدید” تھی جس نے “کمیونسٹ متبادل کو ختم” کردیا ہے۔ اپنے جدید ترین مابعد جدیدی فرانسیسی فلسفے کے ساتھ، لیوٹارڈ نیولبرل مرحلے کے آغاز پر لہذا ایک نیولبرل تھا، حتی کہ اس سے بھی پہلے جب امریکہ میں ریگن اقتدار میں آیا۔

پانچواں حصہ

فوکالٹ کے حوالے سے میں اختصار سے کام لوں گا۔ وہ زیادہ ترایک فلسفیانہ تاریخ دان ہے اورعملی سیاست سے کم غرض رکھتا تھا۔ وہ مارکسی فکر کی مبادیات کا اسی قدرمخالف تھا جتنا کہ لیوٹارڈ مگراس کا نیولبرلزم سے بالکل تعلق نہیں تھا۔ مارکسزم سےاس کی مخالفت کی وضاحت اس کے اس مختصر مگر مثالی دعوے سے کی جا سکتی ہے: “کسی بھی تاریخی بیانیے کو سیاسی معیشت اور ریاست دونوں کے امتزاج سے تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔” اس کا مطلب کیا ہے؟ اول، یہ کہ طبقات سماج کی بنیادی اکائیاں نہیں ہیں؛ معاشی طاقت مختلف قسموں کی طاقتوں میں سے محض ایک طاقت ہے؛ ریاست مختلف قسموں کے سماجی فاعلوں (ایجنٹ) میں سےمحض ایک فاعل ہے؛ ایک قسم کی ریاست (مثلا سرمایہ دارانہ ریاست وغیرہ) کو ختم کرنا اور اسے دوسری قسم کی ریاست سے بدلنا (مثلا پرولتاری ریاست وغیرہ) اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ لوگوں پر غالب ایک قسم کی طاقت کو دوسری قسم کی طاقت سے بدل دیا جائے۔ دوئم، سماج ان گنت قسموں کے مجموعوں (کمپلیکس) اورطاقت کے اجسام (آرگینزم) سے مل کربنا ہے: خاندان، جیل کمپلیکس، اسکول کمپلیکس، میڈیکل کمپلیکس، جنسیت (سیکسویلٹی) کی مینجمنٹ کی ٹیکنالوجیاں، وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے ہر ایک سے برتاؤ ان کی اپنی شرائط کے تحت ہوتا ہے نہ کہ طبقاتی جدوجہد کے مجموعی ڈھانچے میں۔

اس قسم کے خیالات پھر اس انتہائی محدود تصور تک لے جاتے ہیں کہ سیاست کی کون سی شکلیں قابل اجازت ہو سکتی ہیں۔ فوکالٹ کے اہم سیاسی تصورات میں سے ایک یہ ہے کہ جبری رشتےکے بغیر کوئی بھی کسی اور کی ترجمانی نہیں کرسکتا۔ سماجی حلقے میں آپ صرف یہی کرسکتے ہیں کہ خود اپنی ترجمانی کرنے کے لیے لوگوں کی طاقت بڑھانے میں ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے آپ کو اس چیز کی ضرورت ہے جسے فوکالٹ “چھوٹے پیمانے کی سیاست(مائیکرو پالیٹکس)” کہتا ہے، جو مقامیتی (لوکل)، مسائلی (اشو بیسڈ) اورمعیادی (ٹائم باؤنڈ) ہوتی ہے۔

فوکالٹ کا مقامیتی، مسائلی،”چھوٹے پیمانے کی سیاست”، کا تصور اور خصوصا سیاسی تنظیم کاری کے بغیر “اختیاریت(ایمپاورنگ)” کی لفاظی اس قسم کی سیاست کو بااختیار نہیں بناتی جس پراب بڑے پیمانے پر غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) اور نام نہاد سماجی تحریکیں عمل کر رہی ہیں۔ اس کا دعوی کہ (الف) ہر سماج اقتدار کے بے شمار مراکز اور متعدد اداروں پر مشتمل ہوتا ہے، اور لہذا (ب) جس چیز کی ضرورت ہے وہ متحدہ سیاسی تنظیم نہیں بلکہ ایسے فاعلوں کی بہتات ہے جو طاقت کے متعدد مراکز سے نپٹیں، اس مابعد جدید سیاسیات کے ڈھانچے سے اچھی طرح مطابقت رکھتا ہے جو ہمارے دور میں خصوصا شناختی سیاست کی شکل میں تشکیل ہوا ہے۔ اور اپنے تمام تر بنیاد پسندانہ (ریڈیکل) دعووں کے باوجود، اس قسم کی سیاست اینگلو سیکسن لبرل ریاستی ہنر کے لیے بالکل قابل قبول ہے جس نے ہمیشہ یہ سمجھا ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاستی اقتدار اس وقت محفوظ ترین ہوتا ہے جب یہ حزب اختلاف (اپوزیشن) کوقومی آمدنی میں حصے کے لیے مقابلے بازی کرنے والے متنوع دعویداروں میں تقسیم کرسکے، یعنی سیاست کی جوہریت (ایٹمائزیشن آف پالیٹکس) انجام دے سکے، جب اسے اپنے اقتدار کے خلاف متحدہ حزب اختلاف کا سامنا ہو۔ امریکہ جیسے تارک وطن (مہاجر) معاشروں میں جہاں آبادی بذات خود متنوع سماجی گروہوں پر مشتمل ہوتی ہے، جو پیدائشی ملکوں، مذہبی قرابت، اور ثقافتی نسلی شناخت وغیرہ رکھتے ہیں وہاں سیاست کی یہ جوہریت “شناختی سیاست” کی شکل میں طبقاتی جدوجہد کے خلاف ہمیشہ ایک بنیادی ہتھیار رہی ہے، جیسا کہ مائیک ڈیوس جیسے مارکسی تاریخ دانوں نے اپنی جامع دستاویزات میں ثابت کیا ہے۔ 1960ء کے آخر تک، نسلی شناخت کی یہ سیاست فرانسیسی مابعدجدیدیت سے مستعار لی گئی فلسفیانہ لفاظی کے ذریعے نہ صرف امریکہ میں بلکہ کینیڈا میں “کثیرالثقافتی”ہونے اور برطانیہ میں “نسلی تعلقات” کی حیثیت سے بھی ریاستی پالیسی بن گئی تھی۔ پھر اس اینگلو سیکسن حربے کو انڈیا میں درآمد کیا گیا اکثر مابعد جدید اختیار کے ساتھ؛ حتی کہ لفظ “ثقافتی نسل(ایتھنسٹی)” انڈیا کی سوشل سائنس کے لیے فورڈ فاؤنڈیشن اوراس کے چندے ( فنڈ) پرمنحصر اسکالروں، اداروں، مطبوعات اورسیمیناروں کا تحفہ تھا۔ 1970ء کی دہائی تک کسی ہندوستانی سماجی سائنسدان نے بمشکل ہی یہ لفظ استعمال کیا تھا۔

Leave a Comment