ملکیت کیا ہے؟ (تیسری قسط)

ملکیت کیا ہے؟ (تیسری قسط)

محنت مادی اقدار کی پیداوار کے لیے ایسی ضروری با مقصد انسانی سرگرمی ہے جس سے خود کام کرنے والے انسان یا دوسرے انسانوں کی ضروریات کی تسکین ہوتی ہے۔ اگر اس کی ضرورت کسی بھی شخص کو نہ ہو تو محنت اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائے گی ۔یونانی اساطیر کے مطابق جب خدا انسانوں پر سخت ترین عذاب عائد کرتے تھے تو وہ انہیں بے مقصد کاموں پر لگا دیتے تھے۔ سیسیفوس کو یہ سزا تھی کہ وہ ایک بہت بڑے پتھر کو بار بار پہاڑی کے اوپر کھینچ کر لے جاتا تھا اور وہ بار بار لڑھک کر نیچے آ جاتا تھا ۔دانیدوس کو یہ عذاب دیا گیا تھا کہ وہ ایک بے پیندے کے گھڑے میں مسلسل پانی بھرتا رہے ۔یہ اسطوری کہانیاں اس اخلاقی اور جسمانی تکلیف کو مشخص کر دیتی ہیں جو رائیگاں محنت کے احساس سے پیدا ہوتی ہے ۔

اپنے ذرائع کفالت کی تحصیل کے لیے انسان فطرت کے ساتھ رشتے استوار کرتا ہے۔ فطری موادوں کو اپنی ضروریات کے لیے موزوں کرتا ہےاورانہیں اپنے استعمال کی اشیاء کی شکل دیتا ہے۔ تاہم انسان تنِ تنہا ہی اپنے ذرائع کفالت کو حاصل نہیں کرتا بلکہ یہ کام وہ دوسروں کے ہمراہ کرتا ہے اور اس معنی میں مادی اقدار کی پیداوار کا کام ایک اجتماعی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیداوار کے دوران دو طرز کے رشتے جنم لیتے ہیں: انسان کا رشتہ فطرت کے ساتھ اور مشترکہ پیداوار کے دوران اس کا دوسرے لوگوں کے ساتھ رشتہ۔

پیداواری عمل کے دوران انسان کا فطرت کے ساتھ رشتہ صرف دوسرے لوگوں کے ساتھ اس کے رشتے کے وسیلےحقیقت پزیر ہوتا ہے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ رشتے کو مفروض کرتا ہے۔ اس مفہوم میں پیداوار ہمیشہ اجتماعی ہوتی ہے۔ چنانچہ، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ محنت اور پیداوار اجتماعی عمل ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ لوگ مادی اقدار کی پیداوار میں( اس کی کسی ایک یا دوسری تاریخی طور پر متعین شکل میں )ایک دوسرے کے ہمراہ حصہ لیتے ہیں ۔ اجتماعی پیداوار بنیادی طور پر اس طریقِ پیداوار سے وصف ہے جس کے ذریعے انسان فطری موادوں سے مادی اقدار پیدا کرتے ہیں ۔لوگ جس طریق پر اپنے ذرائع کفالت کی پیداوار کرتے ہیں وہی طریقہ اس پیداوار میں مشترکہ طور پر شامل لوگوں میں پیداوار کی تقسیم کو متعین کرنے کے علاوہ یہ تعین بھی کرتا ہے کہ ان اشیاء کا تبادلہ اوراصراف کس طور پر ہوگا۔

سرمایہ دار ماہرین معاشیات کے برعکس ،جو پیداوار ،تقسیم ،تبادلے اور اصراف کو انسانی سرگرمی کے علیحدہ علیحدہ شعبے قرار دیتے ہیں ،مارکسی فکرنے ان کے باہمی روابط اور اکائی کی نشاندہی کر کے اسے علمی سطح پر ثابت کیا ہے۔ پیداوار ،تقسیم، تبادلہ اور اصراف دراصل ایک ہی افزائشی عمل یعنی ایک مسلسل اور بار بار دہرائے جانے والے پیداواری عمل کے باہم مربوط مرحلے ہیں۔ تاہم، اس افزائشی عمل میں پیداوار کا حقیقی عمل پورے افزائشی عمل میں پہلا اور فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ہے اور مادی اقدار کی تقسیم، تبادلے اور اصراف کے دوران افراد کے مابین رشتوں کا انحصار پیداواری رشتوں پر ہی ہوتا ہے۔

پیداواری قوتیں

اجتماعی پیداواری عمل اپنے وسیع تر معنوں میں ،یعنی ابتدائی عملِ پیداوار ،تقسیم، تبادلے اور اصراف کے مرحلوں کی اکائی کے بطور کلیدی انسانی سرگرمی کا وہ بڑا حلقہ ہے جس کے وسیلے انسان فطرت میں خود اپنے آپ میں اور دوسروں کے ساتھ اپنے رشتوں میں تبدیلیاں روشناس کراتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اجتماعی پیداوار مسلسل حرکت میں رہتی ہے اور مسلسل ترقی کی جانب ارتقاءپذیر رہتی ہے۔ چنانچہ،دنیا میں زمان و مکان سے ناآشنا پیداوار نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ پیداوار ہمیشہ اجتماعی ارتقاء کے کسی مخصوص مرحلے پر یا کسی مخصوص طریقِ پیداوار کے دائرے میں ہی حقیقت پزیر ہوتی ہے۔

اس عمل کے عقب میں کارفرما محرک قوت دراصل انسانی پیداواری قوت کی تبدیلی اور بڑھوار ہے اور یہ تبدیلی اور بڑھوار ناگزیر طور پر سماجی پیداواری رشتوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ کسی موجود ارتقائی مرحلے پر پیداواری قوتوں اور پیداواری رشتوں کی منفرد اکائی کو طریقِ پیداوار کہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پیداواری قوتوں اور پیداواری رشتوں کے تصورات مارکسی سیاسی معیشت کے بڑے اہم تصورات ہیں۔

معاشرے کی پیداواری قوتوں کے مشمولات میں اول تو خود انسان اپنے علم ، مہارت اور تجربے سمیت آتے ہیں اور دو ئم وہ آلاتِ محنت اور محنت کے وہ معروض ہیں جو ذرائع محنت کہلاتے ہیں اور جن پر انسان کام کرتے ہیں ۔انسان پیداواری قوتوں کا اہم جز ہے۔چونکہ، انسان ہی اپنے کام کے ذریعے پیداواری قوتوں کے دوسرے مادی اجزاء یعنی زرائع پیداوار کو تشکیل دیتے ہیں اور ان میں حرکت سرایت کرتے ہیں، اس لیے انسان معاشرے کی بنیادی پیداواری قوت ہے اور اس حیثیت میں وہ مادی اور روحانی اقدار کی پیداوار کرتے ہیں ۔چنانچہ، انسان کا اجتماعی اور انفرادی ارتقاء بنیادی طور پر بحیثیت ایک پیداواری قوت اور انسانی زندگی کی مادی شرائط و ضروریات کے خالق کے بطور ہی ہوتا ہے۔

سرمایہ دار دانشوروں کا موقف یہ ہے کہ مادی نقطہ نظر انسان کو بحیثیت فرد کے نظر انداز کرکے اسے مجوزہ طور پر زرائع پیداوار کا درجہ دے دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان اخلاقیات کا حامل ہے اور اس کے لیےبنیادی اور اعلی ترین قدر یہی ہے کہ وہ کمالِ ذات حاصل کرے اور یہی وجہ ہے کہ انسان کی ترقی بحیثیت پیداواری قوت اس کی ترقی نہیں بلکہ فی الحقیقت اخلاقی کمالِ ذات کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ، وہ مارکسی فکر پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مارکسی فکر انسان کو ترقی اور ارتقاءکی منزل قرار دینے کے بجائے اسے محض اس کا ایک ذریعہ گردانتی ہے۔

اس امر میں شک نہیں کہ طبقاتی تفاوت کے حامل معاشروں میں عوام الناس کا رتبہ گرکر بس یہ رہ جاتا ہے کہ وہ حکمران طبقوں کی امارت کا ذریعہ بنیں اور ایک ایسا ذریعہ بنیں جس کے نتیجے میں حکمران طبقے اپنی طفیلی زندگی گزار سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں غلامی کے بندھنوں میں جکڑ دیا گیا ہوتا ہے اور وہ استحصال کا معروض بن چکے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ اخلاقی سطح پر کتنے ہی کمال ِ ذات کی تحصیل کیوں نہ کر لیں، یہ عرفان محنت کش عوام کو استحصال سے چھٹکارا دلانے میں مددگار نہیں ہو سکتا چونکہ اس سے چھٹکارے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ پیداواری قوتوں کی ترقی اور نشوونما ہو اور نئے اور کامل تر پیداواری رشتوں کا قیام ہو اور یہی وہ چیز ہے جو انسانیت کو اعلی تر سماجی اہداف کی تحصیل کے قابل بنا سکتی ہے۔ معاشرتی انقلاب عوامی سطح پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف بنیادی پیداواری قوت اور سماجی ترقی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں، بلکہ وہ اس ترقی کی اعلی ترین منزل و ہدف بھی ہیں۔

بطور پیداواری قوت انسان کی ترقی اور سماجی ترقی کا سبب بھی یہی ہے۔ اورخود انسان کی اپنی اخلاقی اوربطور فرد دیگر ترقیوں کا سرچشمہ بھی ہے۔

چنانچہ انسان کی بنیادی اجتماعی ماہیت کی یہ تعریف کہ وہ بنیادی پیداواری قوت ہے اس کی تحقیر کرنے کے بجائے اس کا عرفان کرتی ہے اور اس کو خود اپنی تاریخ کا خالق قرار دیتی ہے۔ اگر انسانیت اپنی پیداواری قوتوں کی ترقی اورترویج میں ناکام رہتی تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وحشت و بربریت کے بدترین مراحل میں ہی پھنسی رہتی۔

Leave a Comment