فلسفہ کیا ہے؟ (آٹھویں قسط)

فلسفے کا بنیادی سوال

ہم آغاز کہاں سے کریں؟

آفاقی روش ہائے ذہن یا نظریہ کائنات کی عمارت کون سے تصورات کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اور جو راہ عمل اختیار کرتے ہیں اس کے بارے میں کسی بھی شخص کے ذہنی رویوں کی شناخت کرنے کے لئے ہمیں کون سے عنوانات پر اس کے رویوں کا ہر طرح سے تجزیہ اور مطالعہ کرنا پڑے گا؟

جرمن فلسفی امانوئیل کانٹ کا خیال تھا کہ فلسفی کو تین مسائل کے حل فراہم کرنے چاہییں۔

“میرے علم کی حدود کیا ہیں؟”” مجھ پر کیا فرائض عائدہیں اور میں کیا امیدیں اور توقعات بجا طور پر باندھ سکتا ہوں”(امانوئیل کانٹ،کریٹیک ڈر رائنن ورنونفٹ،ورگ فلپٌ ری کلا جون، لائپرنگ، 1971ء، ص 818)۔ آئیے دیکھیں کہ کانٹ کے تجویز کردہ ان تین بنیادی سوالوں کے پیچھے اور بھی زیادہ عمومی سوال تو مخفی نہیں۔ اس بات میں شبہ نہیں کہ انسان چیزوں کا درک حاصل کرتا ہے۔ امیدیں باندھ کر بیٹھتا ہے اور اپنے سامنے اہداف و مقاصد کا تعین کرتا ہے۔وہ یہ سب کچھ اس لئے کرتا ہے کہ وہ ذہن، شعور اور ارادے سے آراستہ ہے اور اپنے اطراف میں رونما ہونے والے تمام واقعات کا درک کرکے ان کی تفسیروتفہیم کر سکتا ہے۔ انسان صرف عضلات و اعصاب ہی نہیں،یعنی ایک جسم ہی نہیں، بلکہ وہ، جیسا کہ قدیم لوگ کہتے تھے، ایک روح کا حامل بھی ہے۔ گوناگوں مخصوص سوالوں کے جوابوں کا انحصار اس ایک بنیادی سوال کے جواب پر منحصر ہوتا ہے کہ” روح”،” نفس”،”شعور” وغیرہ کیا ہیں۔ ان کا ماخذ کیا ہے اور غیر جاندار فطرت سے ان کا کیا ربط و تعلق ہے؟

چنانچہ فلسفے کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ذہن و فطرت، شعور اور وجود کا باہمی ربط کیا ہے؟ ذہن پہلے نمودار ہوا کہ فطرت ؟کیا انسانی دماغ کے بغیر بھی شعور بذاتہی وجود رکھ سکتا ہے؟ کیا فطرت ذہن سے علیحدہ اورماورا موجود ہو سکتی ہے؟ان امور کو طے کرنے کے بعد ہی ہم انسان اور اردگردکی کائنات کے ساتھ اس کے روابط کو سمجھ سکتے ہیں۔ آئیے ہم کانٹ کے تجویز کردہ اس بنیادی مسئلے کا تجزیہ کریں :”مجھ پر کیا فرائض عائد ہیں؟”دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ کون سے اصول اورمعیارات عمل ہیں جو انسان کی زندگی میں اس کی رہنمائی کرتے ہیں ،جن کی جانب قبلہ رو ہو کر اسے اپنی زندگی گزارنی چاہیے اور اس کے فرائض کیا ہیں؟ یہ سوالات انسان سے متعلق ہیں ۔لیکن یہ طے کرنے سے پہلے کہ انسان کیا طرز عمل اختیار کرے ،انسان کے لیے ضروری ہے کہ اسے یہ علم ہو کہ اخلاق یااخلاقیات کیا ہے۔ آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ انسان اپنی عزت نفس اور اپنی ساکھ و وقار کا دفاع کرے؟ وہ اپنے ضمیر کا پابند کیوں کر ہو اور وہ اپنے فرائض کیوں بجا لائے؟ ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش میں ہم لازما یہ تشریحات کرنے پر مجبور ہوں گے کہ انسانی ذہن میں فرض، عدل، خوبیِ عمل اور وقار وغیرہ کے تصورات واحساسات کیونکر نمودار ہوئے۔کیا یہ احساسات ہماری خواہشات ،ارادوں اورضمیر کی آوازوں سے قطع نظر ان حالات کے باعث پیدا ہوئے جن میں ہم گزر بسر کرتے رہے ہیں یا یہ احساسات لوگوں کے مابین کسی مدلل و معقول اور ایماندارانہ معاہدے کانتیجہ ہیں؟یا پھر یہ اخلاقی اصول کسی الوہی وجود کے ساتھ انسان کے ربط کا نتیجہ ہیں؟

ظاہر ہے کہ کانٹ کے سوال کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم واپس اس سوال کی جانب رجوع کرچکے ہیں کہ ذی روح اورغیر ذی روح، شعوراوروجود، کے درمیان کیا ربط ہے؟ چنانچہ یہی وہ سوال ہے جو فلسفے کا سب سے آفاقی سوال ہے اور اس سوال کو حل کیے بغیرہم دیگرزیادہ مخصوص مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکتے۔

بلاشبہ یہ کہنا بے جواز ہے کہ فلسفیوں نے ہمیشہ ہی صرف اور صرف اس بنیادی مسئلے کو طے کرنے کی کوشش کی۔ ماضی اور حال کے فلسفے کے مختلف رجحانات، مدارس اور تصورات کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ فلسفیوں نے اس مسئلے کا مطالعہ کیا کہ سائنسی علم کیسے حاصل ہوتا ہے، دیگر نے جبر و اختیار کے مسئلے میں دلچسپی لی، کچھ دوسروں نے خدا کے وجود کو ثابت کرنے میں اپنی عمر صرف کردی ،جبکہ کچھ اور انسان کی تعلیم و تربیت اور اسے مکمل شہری بنانے کے لئے مشوش رہتے ہیں، کچھ آرٹ میں مستغرق رہتے ہیں، چونکہ ان کے خیال میں صرف یہی ایک موضوع انسانی غوروفکر کا مستحق ہے۔ اگرچہ تمام فلسفی مختلف مسائل سے نبرد آزما رہے اور انہوں نے مختلف موقف اختیار کیے۔ تاہم تمام فلسفی بالآؒخر گھوم پھر کر اسی ایک مسئلے سے رجوع کرتے ہیں کہ انسان اور کائنات، ذہن اور فطرت کے درمیان کیا روابط ہیں۔ کیا انسان دنیا کاعلم حاصل کرسکتا ہے؟ خارجی حقیقتیں کس طرح اس کے جذبات و احساسات ، افکار وضروریات پر اثر انداز ہوتی ہیں؟ کیا وہ دنیا کو تبدیل کر سکتا ہے؟ آرٹ اپنے خالق کے اظہار نفس کا ذریعہ ہے کہ دنیا کا عکس؟ یہ تمام سوالات اسی ایک بنیادی آفاقی سوال کے مختلف پرتو ہیں۔

فلسفیوں نے فوری طور پر ہی اس عمل کی شناخت نہیں کر لی کہ شعور اوروجود، روح اور مادے کے ربط کا سوال فلسفے کا بنیادی سوال ہے۔ دونوں قرونِ وسطی کے متکلمین نظری علم اور مذہبی عقیدے کے تعلق کے مسئلے کو بنیادی مسئلہ قرار دیتے تھے۔ فرانسس بیکن کے نزدیک فلسفے کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ( سائنس کی اعانت سے) فطرت پر انسان کی قدرت و اختیار کو کیونکر مستحکم کیا جائے۔کلاڈ ہیلویٹیس کے نزدیک انسان کی مسرت و راحت کی ماہیت کے مطالعے کو یہ مرتبہ حاصل ہے ،جبکہ ژاں ژاک روسو انسان کے مابین عدم مساوات کو معدوم کرنے کے ذرائع کی دریافت کے مسئلے کو فلسفے کا ایک بنیادی مسئلہ قرار دیتا ہے۔

لینن نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ ذہن کو بنیادی حیثیت حاصل ہے یا فطرت کو؟ اس سوال کا جواب ہی نہ صرف زبانی کلامی سطح پر بلکہ فی الحقیقت،عملا فلسفیانہ فکر کی ترقی اور نشوونما پر اثر انداز ہوتا ہے۔”اس میدان میں ہزارہا ہزار لغزشوں اور ابہامات کا سرچشمہ یہ حقیقت ہی ہے کہ اصطلاحات اور تعریفوں، متکلمانہ حربوں اور ترکیبوں کے عقب میں چھپے ہوئے ان دوبنیادی رجحانات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔”(وی ۔آئی۔لینن، “مٹریلزم اینڈ امپریو کرٹی سزم(مادیت پسندی اورتجربی تنقید”)، مجموعہ تصانیف ، جلد 14، پروگریس پبلشرز،ماسکو، 1977، ص 336۔)

کئی صدیوں کی ترقی اور ارتقا کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ فلسفیانہ ترقی کے مختلف مراحل، اس کے کلیدی مسائل اور غالب رجحانات کی تعریف کی جا سکے۔” متضاد و متنوع حرکات کے ایک اژدہام کے وسط سے گزر کر ہی تمام علوم کی تاریخی ترقی بالآخر اپنے حقیقی نقطہ آغاز تک پہنچ پاتی ہے۔فن عمارت کے دوسرے ماہرین کے برعکس علوم نہ صرف اپنے قلعے ہوا میں تعمیر کرتے ہیں بلکہ وہ علیحدہ علیحدہ قابل رہائش منزلوں کی تعمیر کرنے کے بعد کہیں جا کر سنگ بنیاد رکھتے ہیں۔” (کارل مارکس، “اے کنٹری بیوشن ٹو دی کریٹک آف پولیٹیکل اکنامی(سیاسی معیشت پرتنقید پر کچھ معروضات)”، پروگریس پبلشرز ماسکو، 1977ء، ص 56۔)

مارکسی لیننی فکرکے بانیوں ،بالخصوص فریڈرک اینگلز نے فلسفے کے بنیادی مسئلےکو مدلل طور پر ثابت کیا اور فلسفیانہ مسائل کی ضابطہ بندی میں اس کےکلیدی کردار کو آشکار کیا۔ اپنی تصنیف “لڈوگ فیورباخ اورکلاسیکی جرمن فلسفے کااتمام” میں اس نے لکھا:” تمام فلسفے،بالخصوص جدید فلسفے کا عظیم بنیادی سوال یہی ہے کہ فکر اور وجود کا رشتہ کیا ہے۔”(فریڈرک اینگلز،لڈوگ فیورباخ اینڈ دی اینڈآف کلاسیکل جرمن فلاسفی(لڈوگ بیورباخ اورکلاسیکی جرمن فلسفے کا اتمام)”، کارل مارکس، فریڈرک اینگلز، منتخب تصانیف،جلد 3، پروگریس پبلشرز،ماسکو، 1973، ص 345۔)

فلسفے کا بنیادی سوال کسی بھی طور پر فلسفیانہ مسائل کے رنگا رنگ تنوع کا احاطہ نہیں کرتا اور نہ ہی وہ انسان اور کائنات ،اور فکر اور وجود کے درمیان رشتوں کے تنوع کو آشکار کرسکتا ہے۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ بنیاد کا مرتبہ کس سوال کو حاصل ہے؟ وہ کون سا مسئلہ ہے جو وجود اورشعورِ وجود کے رشتوں کی کلیت میں اصل دھرے کا درجہ رکھتا ہے اور دوسرے مسائل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے بغیر دوسرے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ نتیجے کے طور پر فلسفیانہ مطالعہ فلسفے کے اسی بنیادی مسئلے کے حل سے شروع ہو جاتا ہے۔

تاہم یہ بات صرف فلسفیانہ تلاش و جستجو پر ہی صادق نہیں آتی ۔اس امرمیں کلام نہیں کہ کسی بھی سائنسی مسئلے کی تفتیش و تحقیق میں مصروف سائنسدان مثلا کسی نئے فلکیاتی جسم کو دریافت کر کے کائنات کی کسی گتھی کو سلجھانے والے ماہر فلکیات کو اس بات کا یقین کامل ہوتاہے کہ زیرِ ذکر فلکیاتی جسم کوئی خیالی پیکر نہیں بلکہ حقیقت میں موجود ہے اور اس کے شعور سے آزاد معروضی طور پر موجود ہے۔ اگر وہ اس کے برعکس نقطہ نظر کا حامل ہوتا تو وہ فلکیاتی اجسام کے مقام معلوم کرنے کے لیے پیچیدہ، حساس تر سازوسامان ایجاد کرنے کے بجائے صرف اپنی قوت متخیلہ پر ہی انحصار کرتا۔ چنانچہ فلسفے کے بنیادی مسئلے کا حل کسی بھی علمی تحقیق و تفتیش کی اہم شرط اول ہے۔

آرٹسٹ بھی ولایتی ٹاٹ پر تصویر کشی کرتے وقت اپنے لئےان مسائل کا حل نکالتا ہے۔ وہ یا تو لوگوں کی حقیقی زندگی کی منظر کشی کرتا ہے یا پھرمحض خطوط کے گل جھٹ بناتا اور رنگوں کو چھینٹے مارتا جاتا ہے۔ اول الذکر صورت میں وہ حقیقی زندگی کو خود اپنے فن اور تمام انسانی تخلیقات کا سرچشمہ گردانتا ہےجبکہ بعدالذکر قسم کامصورحقیقی زندگی سے بے پرواہ صرف اپنی داخلی زندگی، کیفیات، مزاج اور جذبوں کے اظہار کو اہمیت ووقعت دیتا ہے۔

سیاست کاراورمدبر کے لئے بھی فلسفے کا یہ بنیادی مسئلہ کسی طور کم اہمیت کا حامل نہیں ۔مثلا کیا صرف لوگوں کے اذہان کو تبدیل کرنے ،ان کی تعلیم و تربیت کرنے سے معاشرے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ یا پھر اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ فرد کےحالات زندگی میں بھی تبدیلی لائی جائے۔” اخلاقیاتی اشتراکیت “اور” انسان دوست اشتراکیت” کے تصورات کے حامل لوگوں کا موقف یہ ہے کہ انسانی شعور ہی معاشرے کی تشکیل نوکا نقطہِ آغازہے۔ معاشرے کی تشکیل نو کے لیے ضروری ہے کہ فرد کی” اصلاح “اور “اصلاح خود” یا “اصلاحِ ذات” کی جائے۔ اس کے برعکس سوویت یونین اور مشرقی یورپ، ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک میں اشتراکیت کی تعمیر کی نظریاتی بنیاد یعنی مارکسی فکر کے نزدیک فردکے حالات زندگی میں تبدیلی ہی انسانی شعور کی تشکیل نو کی مستحکم بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔

عالمی انقلابی عمل میں نظریاتی رجحانات کے مطالعے سے بھی فلسفے کے بنیادی مسئلے کے حل کی اہمیت عیاں ہو جاتی ہے۔

بائیں بازو کی انتہاپسندی کے نظریہ سازوں کا خیال ہے کہ انقلاب کے شعلے کہیں پر بھی بھڑک سکتے ہیں۔ بس مسئلہ ان کو بھڑکانے اور ہوا دینے کا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامیوں کا نقطہ آغاز یہ مفروضہ ہی ہے کہ دنیا میں تمام سماجی تبدیلیوں میں فردکے شعور، ارادے اور سرگرمی کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ہربرٹ مارکیوزے انہی جیسا ایک نظریہ ساز ہے۔ وہ مخصوص تاریخی انقلابی قوتوں کی شناخت کو بے سود سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خود انقلابی عمل کے دوران ہی یہ قوتیں نمو پاتی ہیں اور انسانی تخیل ہی انقلابی تشکیلی عمل کا اصل سرچشمہ وبنیاد ہے۔اس کے برعکس مارکسیوں سمیت تمام انقلابی اس موقف پر قائم ہیں کہ انقلاب صرف ایک ہی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے کہ انقلاب کی معروضی معاشرتی اور اقتصادی شرائط پہلے سے موجود ہوں۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ انقلاب برآمد نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگر چہ انقلاب میں شعور اورعزم کا کردار بہت اہم ہے تاہم اگر انقلاب کے لئے حقیقی اقتصادی بنیادیں قائم نہ ہوں تو انقلاب محض ایک مہم جوئی بن کر رہ جائے گا۔

چنانچہ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ فلسفے کا بنیادی مسئلہ سب کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور تمام کلیدی مسائل کے حل پر اپنے نقوش چھوڑتا ہے ۔یہ کوئی حیرت کی بات اس لیے نہیں چونکہ فلسفے کے اس بنیادی مسئلے نے خود انسانی عملی سرگرمیوں کے بدن میں جنم لیا۔ اس مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب انسان فطرت، معاشرے اورخود اپنے بارے میں اصل حقیقت کی جستجو میں مصروف ہونے کے علاوہ اپنے گردوپیش کی دنیا پر قابو پانے میں لگا ہوا تھا۔

ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ فلسفے کے بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے بعد ہی ہم انسان کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل دوسرے مسائل کے حل کی جانب پیش رفت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب یہ سوال بھی بجا طور پر اٹھایا جاسکتا ہے کہ ہرفلسفی، محقق، ادیب اور سیاسی شخصیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اس مسئلے کو حل کرے تو کیا اس بات کا مفہوم یہ نہ ہو گا کہ دیگر مسائل کی تشریح و تفسیر طویل عرصے کے لیے ملتوی ہو جائے گی اور خود انقلابی سرگرمی ٹھنڈی پڑ جائے گی اور سائنسی فکر کی ترقی کی رفتار سست پڑ جائے گی۔

اس بات میں شبہ نہیں کہ اگر مختلف متعلقہ مسائل کے حلوں کی صحت کو ہر دفعہ نئے سرے سے ثابت کرنا ضروری ہوتا اور ہر فرد اپنے طور پر ہر مسئلے کے حل کی صحت کو پرکھتا تو انسانیت کی ترقی کی رفتار بڑی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی۔ تاہم انسانی ثقافت کی نشوونما اور ترقی کا انداز ذرامختلف ہے۔ ہر مرتبہ دریافت ہوجانے کے بعد ہردریافت انسانی تجربے کے ذخیرے میں ذخیرہ رہتی ہے۔ کتابوں،مسودوں،اوزاروں، مشینی اوزار وں، میکانیکی عملوں، رسوم و روایات ،کی شکل میں انسانی علوم اور مہارتیں ذ خیرہ ہوتی ہیں اور فلسفے کے بنیادی مسئلے پر بھی اس بات کا بھرپور اطلاق ہوتا ہے۔

طویل عرصے پر مبنی انسانی تجربے، علوم، انقلابی و سیاسی سرگرمیوں اور تاریخ نے روحانی حلقہ ہائے کائنات اور شعور کے لئے وجود اورحقیقی دنیا کی اولیت وا فضلیت کو ثابت کر دیا ہے۔

سوویت یونین میں عظیم اشتراکی اکتوبر انقلاب اور دیگر ممالک میں اشتراکیت کی تعمیر کے تجربے نے اس امر کی تصدیق کردی ہے کہ صرف معروضی قوانین کے علم کی بنیاد پر ہی گردو پیش کی کائنات کی تشکیل نو کی جاسکتی ہے۔ حقیقی حالات سے بے اعتنائی اور خیالی پلاؤ پکانے کی عادات انقلابی تشکیلاتِ نو کے لیے تباہی کا پیغام لاتی ہیں۔

سائنسدانوں نے بھی وجود اور فطرت کے تقدم کے ٹھوس ثبوت فراہم کیے ہیں۔ جدید تحقیق کی بنیاد پر ہم اطمینان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی حیوان یا انسان کی روح یا ذہن قائم بالذات نہیں ہو سکتا بلکہ روحانی یاذہنی کیفیات کا دماغ کے اندر جاری عملوں سے گہرا ربط و تعلق ہے۔ ممتاز امریکی ماہرفعلیات دماغ،ہوزے ڈیلگاڈو نے ثابت کردیا کہ انسان کے دماغ میں برقیرے ڈال کر ایسی یادوں کو دوبارہ جگایا جا سکتا ہے جن کو اس نے عرصہ پہلے بھلا دیاہو اور اسی طرح مختلف جذبات یافریب ہائےنظر کو تحریک دی جا سکتی ہے۔ ہمارے خیالات و جذبات اور حقیقت کے درمیان گہرا ربط و تعلق ہے۔ ہماری روحانی وذہنی دنیا کے تمام عناصر ترکیبی تجربے یعنی دنیا کے ساتھ ہمارے ربط کے نتیجے میں تشکیل پذیر ہوئے۔حتی کہ ماہرین نفسیات نے یہ تک ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے خواب چاہے کتنے ہی نرالے اور عجیب و غریب کیوں نہ ہوں تاہم یہ بھی ہماری حقیقی زندگی کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔

آج ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اب فلسفے کا بنیادی مسئلہ کوئی گتھی نہیں رہا ہے اور کسی بھی طور فلسفیوں کی راہ کاروڑا نہیں ہوسکتا:بحیثیت مجموعی ،فلسفے کا بنیادی مسئلہ شعور کی نسبت حقیقی دنیا کی افضلیت وتقدم کے حق میں حل ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس سوال کے جواب کے لیے ہم عصر فلسفی کونئے شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں ۔اینگلز کے مطابق دنیا کی مادیت “کا ثبوت کسی کی لفظی توڑمروڑ کا محتاج نہیں بلکہ فلسفے اور فطری علوم کی طویل اوردوبھر ترقی اور نشوونما نے اس کو ثابت کر دیا۔”(فریڈرک اینگلز، اینٹی دوہرنگ(رد دوہرنگ)، پروگریس پبلشرز، ماسکو، 1975، ص 57۔)

بظاہر یہ محسوس ہوگا کہ اگر بنیادی مسئلہ حل ہو چکا تو پھر بحث کی گنجائش ہی نہیں رہی اور تمام فلسفیوں کو اس مسئلے پر ایک رائے ہو جانا چاہیے۔ تاہم بات اتنی سادہ نہیں۔ ایک یونہی سا مگرمعروف مقولہ ہے کہ اگر علم الہندسہ(جیومیٹری) کے مسلمہ اصول لوگوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچاتے تو ان کو بھی غلط ثابت کر دیا جاتا۔ اورپھر فلسفے کے بنیادی مسئلے کی تو بات ہی اور ہے۔ یہ نہ صرف فرد کے مفادات سے مربوط ہے بلکہ لوگوں کے بڑے بڑے گروہوں یعنی طبقات کے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ آئیے لینن سے رجوع کریں:” طبقاتی کشمکش پر مبنی معاشرے میں غیر جانبدار سماجی علوم ممکن نہیں۔۔۔ یہ توقع کہ اجرتی غلامی پر مبنی معاشرے میں سائنس غیر جانبدار ہو جائے اتنی ہی بڑی سادہ لوحی اور حماقت ہے جیسا کہ یہ توقع سراسر حماقت کے سوا کچھ اور نہیں کہ مزدوروں کی اجرت بڑھانے اور سرمائے کا منافع گھٹانے کے معاملے میں کارخانہ دارغیر جانبدار ہو جائیں۔”(وی۔آئی۔لینن، “مارکسی فکر کے تین ذرائع اورتین عناصرِ ترکیبی”، مجموعہ تصانیف، جلد 1، پروگریس پبلشرز، ماسکو،1980،ص 23)۔

فلسفے کے اس بنیادی سوال کے جواب کے بل پر کوئی شخص یا تویہ فیصلہ کرے گا کہ معاشرے میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے یا پھر وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ تبدیلی ناممکن ہے، وہ یا تو امن کے لیے جدوجہد میں مستعدانہ شرکت کرے گا یا پھر ایک نئی جنگ کی ناگزیر آمد سے مصالحت کرے گا ۔وہ انسانی امراض اور جسمانی تکالیف کے خلاف جنگ کر کے انسانی زندگی کو طول دینے کی کوشش کرے گا یا پھر انسانی جسم کو روح کا عارضی مستقر قرار دیتے ہوئے اس کی بہتری کے لیے مساعی سے گریز کرے گا ۔یہی وجہ ہے کہ اگرچہ عملی سطح پر انسانی حاصلات نے معروضی دنیا کے تقدم کو ثابت کر دیا ہے، یا ہم فلسفیانہ محاورے کو اختیار کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ شعور کی نسبت مادے کی افضلیت و تقدمثابت ہو چکا ہے۔ تاہم اس سوال کے وہ الٹ جوابات بھی جاری ومروج ہیں جو علمی حاصلات سے تو متضاد ہیں لیکن کچھ سماجی مفادات کی تسکین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بار بار فلسفے کے بنیادی مسئلے کی جانب رجوع کرنا پڑتا ہے اور عرصہ پہلے ثابت ہو جانے والے موقف کو بار بار تکرار کے ساتھ ثابت کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ جیسا کہ لینن نے کہا کہ دو ہزار سال پہلے بھی فلسفی مادیت پرستوں اورتصوریت پرستوں کے دو گروہوں میں منقسم تھے، ایک گروہ دیمقراطیس کا پیرو تھا ،دوسرا افلاطون کا ۔اسی طرح آج بھی فلسفے کے بنیادی مسئلے کے حل کی نوعیت کی مطابقت سے فلسفی انہی دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔

Leave a Comment