مترجم: شاداب مرتضی
یوگوسلاویہ کے وفد سے ماؤزے تنگ کی گفتگو (بیجنگ، 1956ء)
چوتھا موقع وہ تھا جب ماسکو نے مجھے نیم دل ٹیٹو قراردیا۔ نہ صرف سوویت یونین میں بلکہ دوسرے سوشلسٹ ملکوں میں اور بعض غیرسوشلسٹ ملکوں میں بھی ایسے لوگ تھے جن کو شبہ تھا کہ چین کا انقلاب حقیقی انقلاب نہیں ہے۔
آپ کو اس بات پر حیرانی ہو سکتی ہے کہ ہم اب بھی چین میں اسٹالن کی تصویر دیوار پر کیوں لگاتے ہیں۔ ماسکو میں موجود کامریڈوں نے اطلاع دی ہے کہ وہ عوامی پریڈوں میں اب اسٹالن کی نہیں بلکہ لینن اور موجودہ رہنماؤں کی تصویریں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ہم سے بھی یہی کرنے کے لیے نہیں کہا۔ ہمیں اس معاملے سے نپٹنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اسٹالن کی چار غلطیوں کو اب بھی چینی لوگوں اور پوری پارٹی کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے حالات آپ سے بہت مختلف ہیں: آپ نے اسٹالن کے ہاتھوں جو مشکلات اٹھائیں وہ لوگوں کو اور پوری دنیا کو معلوم ہیں۔ ہماری پارٹی کے اندر وانگ منگ لائن کی دو غلطیاں اچھی طرح جانی پہچانی ہیں؛ لیکن ہمارے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان غلطیوں کا ماخذ اسٹالن ہے۔ صرف ہماری پارٹی کی سینٹرل کمیٹی ہی یہ جانتی ہے کہ اسٹالن نے ہمارے انقلاب کا راستہ روکا اور مجھے نیم دل ٹیٹو قرار دیا۔
ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ سوویت یونین عالمی انقلاب کے مرکز کے بطور کام کر رہا ہے کیونکہ اس سے سوشلسٹ تحریک کو فائدہ ملتا ہے۔ اس نکتے پر آپ ہم سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ آپ اسٹالن پر تنقید کے لیے خروشچیف کی مہم کی تہہِ دل سےحمایت کرتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے لوگ اسے پسند نہیں کریں گے۔ چین میں گزشتہ عوامی پریڈوں میں ہم نے مارکس، اینگلز، لینن، اسٹالن اور بعض چینی رہنماؤں، ماؤزے تنگ، لیو شاؤچی، چو این لائی، ژو ڈو ، اور دیگر برادر پارٹیوں کے رہنماؤں کی تصویریں استعمال کی ہیں۔ اب ہم نے “سب کو باہر نکالنے” کی ترکیب اختیار کی ہے۔ کسی کی تصویر نہیں لگائی جاتی۔ اس سال کی یکم مئی کی تقریب میں سفیر بابکوویشی (Bobkoveshi) پہلے ہی یہ دیکھ چکے ہیں کہ بیجنگ میں ہونے والی تقریب میں کسی کی تصویر نہیں لگائی گئی۔ تاہم پانچ متوفی افراد – مارکس، اینگلز، لینن، اسٹالن اور سن یات سین – اور ایک زندہ شخص – ماؤزے تنگ – کی تصویریں اب بھی دیوار پر ٹنگی ہوئی ہیں۔ انہیں دیوار پر ٹنگا رہنے دیں۔ آپ یوگوسلاویہ والے یہ تبصرہ کر سکتے ہیں کہ سوویت یونین اب اسٹالن کی تصویر مزید نہیں لگاتا مگر چین والے اب بھی لگاتے ہیں۔
آج بھی بعض لوگ اس بارے میں شک و شبے کا شکار ہیں کہ کیا ہمارے سوشلزم کو کامیابی سے تعمیر کیا جا سکتا ہے اور وہ اس دعوے سے چمٹے ہوئے ہیں کہ ہماری کمیونسٹ پارٹی ایک مصنوعی پارٹی ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ یہ لوگ روزآنہ کھاتے اور سوتے ہیں اور پھر بھی یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ چینی کمیونسٹ پارٹی حقیقی کمیونسٹ پارٹی نہیں ہے اور یہ کہ ناکامی چین کی سوشلسٹ تعمیر کا مقدر ہے۔ ان کے نزدیک یہ ایک حیرت انگیز بات ہوگی کہ چین میں سوشلزم تعمیر ہوجائے۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ دیکھو امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی پیروی کرتے ہوئے چین ایک چوتھا سامراجی ملک بن سکتا ہے۔ اس وقت چین کی صنعت چھوٹی ہے لہذا وہ سامراجی ملک نہیں بن سکتا! لیکن ایک سو سال بعد چین ایک بڑا اور طاقتور ملک بن جائے گا۔ چنگیز خان کو شاید نئی زندگی مل جائے گی؛ چنانچہ، یورپ پھر سے مشکلات کا سامنا کرے گا، اور یوگوسلاویہ شاید فتح کرلیا جائے گا! “زرد خطرے” کو لازما روکنا چاہیے!
تاہم، ایسا ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی مارکسی-لیننی پارٹی ہے۔ چین کے لوگ امن پسند لوگ ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ جارحیت ایک جرم ہے۔ ہم کبھی بھی دوسروں کے علاقے کی ایک انچ زمین پر یا گھاس کے ایک ٹکڑے پر قبضہ نہیں کریں گے۔ ہمیں امن سے محبت ہے اور ہم مارکسسٹ ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات میں ہم طاقت کی سیاست کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ ہماری صنعت چھوٹی ہے لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہمیں ایک بڑی قوت قرار دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ، چین میں کچھ لوگ مغرور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہم انہیں خبردار کرتے ہیں: “اپنے سر جھکا لو اور اپنی ٹانگوں میں دبی دم کو استعمال کرو۔” جب میں چھوٹا تھا تو میری ماں اکثر مجھے تمیز سے پیش آنے کے لیے “ٹانگوں میں دبی دم استعمال کرنے” کا کہتی تھی۔ یہ ایک درست نصیحت ہے اور اب میں اکثر اپنے کامریڈوں سے اس کا زکر کرتا ہوں۔
داخلی سطح پر، ہم “پان ہان ازم (ہان قوم پرستی)” کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ رجحان چین میں موجود تمام لسانی گروہوں کے اتحاد کے لیے نقصان دہ ہے۔ غلبہ پرستی اور پان ہان ازم دونوں ہی فرقہ پرستی ہیں۔ وہ لوگ جن میں غلبہ پرستی کے رجحانات ہیں وہ صرف اپنے مفاد کی فکر کرتے ہیں اور دوسروں کو نظر انداز کرتے ہیں؛ جبکہ پان ہان ازم میں مبتلا لوگ صرف ہان قوم کے لوگوں کا خیال کرتے ہیں اور انہی کو سب سے برتر سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ تمام اقلیتوں کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ماضی میں بعض لوگوں کا یہ دعوی بھی رہا ہے کہ چین کا دوسرے ملکوں سے دوستانہ تعلقات رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ سوویت یونین سے الگ ہونا چاہتا ہے اور اس لیے وہ دنیا کے لیے مشکل پیدا کرے گا۔ لیکن سوشلسٹ ملکوں میں ایسے لوگ سکڑ کر مٹھی بھر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی مزاحمت اور کوریا کی مدد کی جنگ کےوقت سے ان کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔
تاہم، سامراجیوں کے نزدیک یہ قطعی مختلف چیز ہے: چین جتنا طاقتور ہوگا وہ اسی قدر خوفزدہ ہوں گے۔ وہ یہ بات بھی سمجھتے ہیں کہ چین اس وقت تک اتنا دہشتناک نہیں ہوگا جب تک اس کے پاس جدید صنعت نہ ہو اور جب تک وہ انسانی طاقت کے استعمال پر منحصر رہے۔ سامراجی ملکوں کو سب سے زیادہ دہشت زدہ کرنے والا ملک سوویت یونین ہے جبکہ چین دوسرے نمبر پر ہے۔ جس بات سے وہ خوفزدہ ہیں وہ ہماری سیاست ہے اور یہ کہ ایشیاء پر ہمارا زبردست اثر پڑے گا۔ اسی لیے وہ یہ افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں کہ چین ہاتھ سے نکل جائے گا اور دوسرے ملکوں پر حملہ کردے گا، وغیرہ وغیرہ۔
ہم بہت محتاط اورمعتدل رہے ہیں اورہماری کوشش رہی ہے کہ ہم غرور و تکبر پرقابو پاتے ہوئے “پانچ اصولوں” پر کاربند رہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں ہمیں ہراساں کیا گیا؛ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہراساں کیے جانے سے کیسا محسوس ہوتا ہے۔ آپ کو بھی ایسا ہی محسوس ہوا ہوگا نا؟